تازہ تر ین

افغانستان نئے موڑ پر

سجادوریا
افغانستان کی تاریخ جدوجہد،جنگ وجدل اور خون خرابے سے بھری پڑی ہے۔افغان عوام نے ظلم و ستم سے بھر پور کئی دہائیاں اپنے اوپر سے ایسے گزاری ہیں جیسے ”آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے“ اور وہ مسلسل کئی عالمی طاقتوں کا میدانِ جنگ بنا رہا۔افغانستان کی بدقسمتی بھی شامل ِ حال رہی کہ افغانستان کو مخلص اور محب وطن قیادت بھی نہیں نصیب ہوئی،افغانستان کی سیاسی،مذہبی اور جہادی قیادت نے بھی ہوش و خرد کا مظاہرہ نہیں کیا۔حامد کرزئی اور افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد نے نسبتاََ بہتر کردار ادا کیا کہ امریکہ کے تسلط کو کمزور کیا جا سکے۔ایک نے سفارتی محاذ پر اور دوسرے نے اندرونی سیاسی محاذ پر۔انتہائی شرم ناک کردار کا مظاہرہ اشرف غنی،امراللہ صالح اور جنرل دوستم نے کیا۔مقام ِ عبرت اور شرمندگی ہے کہ بھڑکیں مارنے والے،پاکستان کے خلاف بکنے والے،ہندوستان کی بولی بولنے والے سُورماوٗں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور طالبان کی ایک ہی دھاڑ کے بعد دُم دبا کر بھاگ نکلے۔
سوویت یونین کے بعد امریکہ بھی افغانستان میں اپنی عالمی دہشت کو اس خطے میں برقرار رکھنے کی امید لے کر یہاں آیا تھا،لیکن دو دہائیوں کے بعد شکست کی رُسوائیاں سمیٹے واپس ایسے بھاگا ہے کہ اس میں بھی بددیانتی شامل تھی۔امریکی قیادت میں نیٹواتحاد کی بدنیتی اس طرح شامل تھی کہ طالبان سے مذاکرات بھی کر رہے تھے اور اشرف غنی حکومت کو بھی دھوکے میں رکھا،اچانک ایسے غائب ہوئے کہ کابل میں اقتدارِ انتقال کو بھی ممکن نہیں بنایا۔ طالبان کا رویہ انتہائی ذمہ دارانہ رہا،طالبان جب کابل کے دروازے پر پہنچے تو اشرف غنی خفیہ طریقے سے بھاگ نکلا۔اگر امریکہ کی سوچ میں بددیانتی نہ ہوتی تو باقاعدہ انتقال ِ اقتدار کو ممکن بناتا۔لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس وقت طالبان بہت عمدگی اور ذمہ داری سے کھیل رہے ہیں۔پاکستان کا کردار بھی انتہائی مثبت،ذمہ دارانہ،قابلِ ستائش ہے۔پاکستان نے کمال ذہانت و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو عالمی طاقتوں کو افغانستان میں ایسے گھسیٹا کہ ان کو شکست سے دو چار ہو نا پڑا۔
پاکستان نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ملکر بہترین حکمتِ عملی ترتیب دی ہے۔اس وقت چین،ایران،روس سمیت اہم ممالک پاکستان کے ساتھ مشاورت کو نئی منصوبہ بندی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔پاکستان اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔پاکستان نے اپنی حکمت سے بھارت سمیت تمام اہم کھلاڑیوں کو میدان سے ناک آوٗٹ کر دیا ہے۔اس ساری صورتحال کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے غرور و تکبر کو ایک بڑی چوٹ لگی ہے۔امریکہ نے رُسوائی سمیٹ لی لیکن خود کو افغانستان سے نکالنا مناسب سمجھا۔امریکہ کی بدمعاشی،ہٹ دھرمی اور فرعونیت دھری کی دھری رہ گئی ہے۔اس تمام ذلت کے باوجود میں سمجھتا ہوں امریکہ نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے،جذباتیت اور رعونت کو ایک طرف رکھ کر امریکہ نے اپنی بقا کو پیش ِ نظر رکھا ہے۔
امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ بھارت اور اشرف غنی خالی نعروں اور دعووں کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے اور امریکہ مسلسل دباوٗ کا سامنا کر رہا ہے۔جس میں سب سے بڑا معاشی دباوٗ ہے جو امریکی معیشت کو مسلسل برباد کر رہا ہے۔امریکہ کی سوچ بدلنے کے مختلف محرکات ہو سکتے ہیں،کچھ اندرونی اور کچھ بیرونی بھی ہو سکتے ہیں۔میری دانست میں سب سے مضبوط محرک چین کی معیشت اور چین کی سیاسی و فوجی ترقی امریکہ کے لئے مستقبل کے بڑے چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔امریکہ نے سمجھ لیا ہے کہ چین نے خود کو جنگوں سے دور رکھا ہوا ہے،اپنی توجہ معاشی ترقی پر مرکوز رکھی ہوئی ہے،چین دنیا میں معاشی تعلقات قائم کر رہا ہے،اپنی ساکھ کو بہتر بنا رہا ہے۔دنیا اس وقت چین پر اعتبار کر تی ہے اور کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتی جبکہ امریکہ کی دنیا میں ساکھ خراب ہو چکی ہے،امریکہ بدمعاشی کی علامت بن چکا ہے،اقوامِ متحدہ کی منافقت بھی آشکار ہو چکی ہے۔
افغانستان کی رسوائی امریکہ کی رعونت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔دیگر ممالک بھی محسوس کر چکے ہیں کہ امریکہ اب جارحانہ انداز اختیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔امریکہ کی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ چین،روس سمیت مخالف ممالک پر جنگ مسلط کی جائے لیکن عملی طور پر اس کو پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔
میرا”گمان“ ہے کہ امریکہ اب بہت محتاط ہوکرکھیلے گا۔اپنی معاشی اور فوجی استعدا د کو بے جا ضائع نہیں کرے گا،خودکوسفارتی اور خارجی محاذ کو متحرک کرے گا،سازشوں اور پراپیگنڈے کا استعمال کرے گا۔لیکن بہر حال امریکہ کی اخلاقی ساکھ،بندمٹھی میں ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے،جتنی قوت سے مُٹھی بند کی جائے اتنی ہی ریت پھسلتی جاتی ہے۔امریکہ نے دلدل سے نکلنے کی کوشش کی ہے۔میں سمجھتا ہوں امریکی نقطہ نظر سے یہ بہترین اور قدرے تاخیر سے ہی سہی لیکن عملیت پسندی کا فیصلہ ہے۔اگر مخالف نقطہٗ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور روس تو چاہتے تھے کہ امریکہ اسی طرح افغانستان میں اُلجھا رہے۔
اب بات کر تے ہیں طالبان کی فتح کی۔افغان طالبان کو مبارک کہ انہوں نے طویل جنگ لڑی اور فتح پائی۔لیکن یہ جیت اور حکومت ان کے لئے کڑا امتحان ثابت ہو گا۔انہوں نے طویل جدوجہد کے بعد افغانستان پر اپنی حکومت قائم کی ہے۔اسی طرح ان کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔افغان طالبان بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔لیکن سوال یہ کہ دنیا ایسا چاہے گی؟عالمی طاقتیں جن کو دہشت گرد سمجھتی رہیں کیا ان کی حکومت کو تسلیم کریں گیں؟حالات و واقعات اور مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کیونکہ طالبان اس بار ماضی کی غلطیوں کو نہیں دُہرائیں گے۔ان کی حکمت عملی میں چین اور روس ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔طالبان اگر تعاون پر آمادہ ہوئے تو روس چین،ترکی پاکستان اور ایران خاص طور پر امن لانے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain