دنیا آئی ایس آئی کا لوہا مانتی ہے بھارت ٹیوشن پڑھے بھارت دانشور مودی حکومت پر برس پڑے

آئی ایس آئی نے اپنی تیاری اور انتظامات سب سے پختہ کر لئے سی آئی اے،کے جی بی اور ایم آئی فائیو سب آئی ایس آئی کا لوہا مانتے ہیں بھارت حکمران گالم گلوچ تو بہت کر سکتے ہیں

مگر آئی ایس آئی کو عزت دینا پڑے گی جب دنیا سو رہی تھی تو آئی ایس آئی نے بہت لمبا سفر طے کر لیا آپ زبان سے کچھ بھی کہہ دیں مگر یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے سابق پولیس افسروں کا بھارتيوں کی زبان درازی کا منہ توڑ جواب

کورونا کی چوتھی لہر کا قہر جاری، مزید 118افراد انتقال کر گئے

پاکستان میں عالمی وبا کورونا سے مزید 118 افراد انتقال کر گئے اور  3838 نئے کیسز  بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

پاکستان میں کورونا کے اعداد و شمار بتانے والی ویب سائٹ (covid.gov.pk) کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا کے 52 ہزار  112 ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے 3800 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی جب کہ وائرس سے 118 افراد انتقال کر گئے۔

سرکاری پورٹل کے مطابق ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 7.36 فیصد رہی۔

سرکاری پورٹل کے مطابق ملک میں کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد 25 ہزار 788 ہو گئی اور مجموعی کیسز 11 لاکھ 60 ہزار 119 تک جاپہنچے ہیں۔

اس کے علاوہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں 2837 مریض کورونا سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں جس کے بعد مجموعی طور پر صحتیاب ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ 39 ہزار 758 ہو گئی ہے جب کہ فعال کیسز کی تعداد 94573 ہے۔

لاہور: مانگا منڈی میں پولیس مقابلہ، 2 اہلکار شہید

: مانگا منڈی میں پولیس مقابلہ،2 اہلکار شہید،سی سی پی او   نےواقعہ  کانوٹس لے لیا، رپورٹ طلب،ڈاکوؤں کی گرفتاری کا حکم

 تفصیلات کے مطابق تھانہ مانگامنڈی کی حدود میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلہ  جس میں   لاہور پولیس کے دو جوان شہید ہوگئے، سی سی پی او لاہور  کے مطابق  شہید ہونے والوں میں کانسٹیبل عادل شاہ اور عباد شامل۔ عادل شاہ کو سینے جبکہ عباد کو کنپٹی پر فائر لگا۔

 پولیس کو مانگامنڈی قبرستان کے قریب شہری سے 60 ہزار اور موبائل فون چھیننے کی واردات کی کال موصول ہوئی جس  پر پولیس کے محافظ موقع پر پہنچے، ڈاکوؤں نے محافظوں کے پہنچتے ہی  فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی جس پر پولیس اہلکاروں نے ڈاکوؤں کا تعاقب جاری رکھا،  مانگا بائی پاس کے قریب پہنچنے پر ڈاکوؤں نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی جس  سے   دو اہلکار شہید ہوگئے، سی سی پی او لاہور نےواقعہ  کانوٹس لے لیا، رپورٹ طلب،ڈاکوؤں کی گرفتاری کا حکم

وفاقی وزارت ہاوسنگ میں غیر قانونی بھرتیاں ، شکایت کے باوجود کاروائی میں تاخیر

اسلام آباد : (نامہ نگارخصوصی) وفاقی وزیر ہاوسنگ طارق بشیر چیمہ کا موقف کے لیے متعدد بار ان کے موبائل پر فون کیا مگر انہوں نے بات نہ کی اور نہ ہی ٹیلیفوں اٹینڈ کیا۔

وزارت ہائوسنگ اورتعمیرات اور اس کے ذیلی اداروں میں مبینہ کرپشن۔
اختیارات سے تجاوز، خلاف ضابطہ بھرتیوں اور اقرباء پروری کی شکایات۔
قومی احتساب بیورو اور ایف آئی اے کے حکام کی معنی خیز خاموشی۔
تحقیقاتی اداروںکا بڑے پیمانے گھپلوں کا نوٹس نہ لینا لمحہ فکریہ ہے۔
وزارت ہاوسنگ میں بے قاعدگیوں، کرپشن کی کہانیاں زبان زد خاص و عام ہیں۔
اسٹیٹ آفس میں خلاف ضابطہ سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ ، میرٹ کی دھجیاں۔پی ڈبلیو ڈی اور ہائوسنگ اتھارٹی میں بھی اقربا پروری عروج پر ہے۔

2020 میں 13 نشستوں کیلئے 54ہزار افراد نے درخواستیں دیں ، امیدوار وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے حلقہ یزمان ست منتخب کئے گئے ۔

باقی تین امیدواروں میں بھی دو وفاقی وزیر کے پرسنل سیکرٹریز کے بیٹے اور پروٹوکول آفیسر کی بیٹی شامل تھی، باقی پورے ملک سے کوئی منتخب نہ ہوسکا ۔

دنیا کی توجہ اور پاکستانی سیاست کا دھارا

شوکت پراچہ
آج دنیا بھر کی توجہ افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اپنے اپنے قومی مفاد کے تحفظ پر مرکوز ہے۔عالمی برادری افغانستان میں وقوع پذیر حالات کا سامنے کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی کوشش میں جڑی ہے۔ مغربی دنیا اپنے سفارت کاروں، شہریوں یا افغانستان میں گذشتہ ادوار میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں اور پروفیشنلز کے انخلا میں مصروف ہے۔اس خطے کی چین، روس، پاکستان، ایران جیسی بڑی طاقتیں افغانستان کی ہمسایگی کے چیلنجز کو کم کرنے میں انفرادی یا اجتمایی لاحہئ عمل طے کرنے پر توانائیاں صرف کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اگلے ماہ یعنی ستمبر کی سولہ اور سترہ تاریخ کو تاجکستان کے دارلحکومت دوشنبے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے۔چین، روس، تاجکستان، کرغستان، ازبکستان، ایران کے صدور جبکہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم افغانستان کی صورت حال کوخصوصی طور پرزیرغور لائیں۔
دنیا کی ترجیحات کے برعکس پاکستان کی سیاست اپنے مخصوص ڈگر پر چل رہی ہے۔ سیاسی کھلاڑی اپنے اپنے زاویوں سے کھیلنے میں مگن ہیں۔۔میاں شہباز شریف کے خلاف دیگر کیسوں میں ضمانتوں کے بعد پروفیسر احسن اقبال کے بھای کو ٹھیکہ دینے کے الزام میں طلبی سے احتساب کا عمل آگے بڑھانے میں یقینی طور پر ماضی کی طرح بے پناہ مدد ملے گی۔پی ڈی ایم کا پہلا راؤنڈ نتیجہ خیز نہ ہو دوسرا راؤنڈ شروع تو کیا جا سکتا ہے۔پی ڈی ایم کی سٹیرنگ کمیٹی نے افغانستان کے ہمسایہ یعنی پاکستان میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا پروگرام مرتب کر دیا۔ اب پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں منظوری کے بعد ملک میں جلسے جلوس ہوں گے۔کراچی کے 29اگست کے جلسے میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی، کراچی میں بسنے والے لاکھوں پٹھانوں کی نماندگی کی دعوے دار عوامی نیشنل پارٹی، ماضی میں کراچی کی واحد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی نہیں ہوتھی۔ پھر بھی پی ڈی ایم جلسے کی کامیابی کے لیے پرامید تھی۔بلاول بھٹو زرداری نے انتیس اگست کے کراچی جلسے کی مخالفت نہیں کی تھی تو انہوں نے اس جلسے میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔
پی ڈی ایم تحریک کے پارٹ ون میں مریم نواز شریف صاحبہ آگے آگے تھیں۔انہوں نے تقریرکے گُر سیکھے اور یقینا موثر انداز اختیار کیا۔انہوں نے خصوصاً پنجاب میں پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں میں ہجوم اکٹھے کیے۔پی ڈی ایم پارٹ ون نے گجرانوالا، پشاور، کراچی میں گہرا اثرڈالا لیکن شریف خاندان کے اپنے گھر لاھور میں توقعات سے کم عوامی ردعمل نے باقی ماندہ اثرات کو انتہائی سرعت کے ساتھ زائل کر دیا۔اب کی بار میاں شہباز شریف پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں۔مریم نواز شریف بھی اطلاعات کے مطابق کراچی جلسے میں شرکت کریں گی۔تاہم خواجہ آصف کی خاموشی، خواجہ سعد رفیق کو پارٹی میں نہ سنے جانے کی شکایات اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر دیگر بہت سے عوامل کی موجودگی میں کراچی سے شروع ہونے والے دوسرے راؤنڈ کی کامیابی کے بارے میں بہت سے سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت ابھی تک اپوزیشن کو غیر اہم مسائل کی پچ پر کھلانے کی پالیسی میں کامیاب رہی ہے۔ ”سر سے پاؤں“ تک احتساب پر عمل پیرا بیرسٹر شہزاد اکبر کی آج کل کی خاموشی کے باوجود جاری ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری، میاں شہباز شریف، فریال تالپور، سید مراد علی شاہ، آغا سراج درانی، چودھری احسن اقبال، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق اور دیگر جیل اور ضمانتوں کے مراحل سے گذر چکے ہیں۔سید خورشید شاہ کے بارے میں اب مخالفین بھی آواز نکال رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم اگر پارٹ ٹو شروع کر رہی ہے تو چوہدری احسن اقبال کے بھائی کے نام پر کیس شروع کرنے سے دوسری طرف سے بھی اگلے راؤنڈ کا آغاز ہوا چاہتا ہے جس میں نیب کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے اور پنجاب اینٹی کرپشن کا محکمہ بھی شامل ہے۔اپوزیشن کا پاؤں زلف دراز میں پھنسا ہوا ہے لیکن ابھی یہ کہیں سے ظاہر نہیں ہو رہا۔ اگر ایسا ہونا ہوتا تو داکٹر ظفر مرزا، ندیم بابر، راجہ عامر کیانی اور دیگر یوں سکاٹ فری اندرون و بیرون ملک نہ پھر رہے ہوتے کراچی جلسے میں اپوزیشن اپنے خلاف پیدا کردہ حالات پر بات کرے یا پھر انکے بقول احتساب کے دہرے معیار پر تنقید کرے گی حکومت ایسی سرگرمی کو اب کوئی اہمیت نہیں دے رہی۔ کیونکہ اپوزیشن تقسیم ہے اور پہل کرنے کا عمل حکومت نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومتی ایجنڈے کے مطابق حکومتی پچ پر ہی کھیلتی ہیں۔ اپوزیشن میں دم ہوتا، اصولوں پر یگانگت ہوتی، واضح لاحہئ عمل ہوتا تو پی ٹی آئی کی تین سالہ کارکردگی کو چیلنج کرتی۔ وزیراعظم ایسی تقریرنہ کرتا جیسے عمران خان نے جمعرات کو کی۔ چینی، دال، چاول، آٹا، گھی، کوکنگ آئل، انڈے، گوشت، مرغی،پھل، سبزیاں، بجلی، گیس، ٹماٹر سب کچھ تو دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی دسترس سے نکل چکا۔ احتساب کے گرداب میں پھنسی ہوی اپوزیشن کچھ بھی نہ کر سکی۔
(کالم نگارمعروف سیاسی تجزیہ نگارہیں)
٭……٭……٭

نیا پاکستان، تین سالہ کارکردگی

سمیرا ملک ایڈووکیٹ
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اکسیویں صدی کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ حکومت ایک نظریہ پر وجود میں آئی۔جس کی بنیاد انصاف،انسانیت اور خودداری کے اصولوں پر رکھی گئی۔عمران خان نے قائد اعظم کے نقشے قدم پرچلتے ہوئے پاکستانیوں میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کے جذبات کو ابھارا اور انہیں منظم کر کے ان میں تبدیلی کی تڑپ پیدا کی۔اس طرح قومی سوچ میں آنے والے نے عزائم کے بل بوتے پر 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی۔مگر اس وقت عمران خان کو ایسا پاکستان ورثے ملا جو دنیا کے ٹاپ دس کرپٹ ملکوں کی لسٹ میں شامل تھا۔ایک ایسا ملک ملا تھا جہاں صرف دو ہفتے کے ریزروز موجود تھے۔مجبوراً نیازی کو حکومت بنانے کے لیے ناپسندیدہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کو شامل کرنا پڑا۔ایمرجنسی میں سعودی عرب سمیت عرب ممالک کے پاس قرضوں کے لیے جانا پڑا۔
آج کل یہ باتیں اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ لوگوں کی زبان پر عام ہیں کہ کہاں ہیں ایک کڑور نوکریاں،پچاس لاکھ گھر اور اتنی مہنگائی ہو گئی ہے کہ آٹا مہنگا،چینی مہنگی،کوکنگ آئل مہنگا جس نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے ۔بجلی کے بل،پانی کا بل،گیس کا بل آسمانی بجلی بن کر لوگوں کے سروں پر ہر مہینے گرتے ہیں۔جی ڈی پی چھ فیصد سے کم ہو کر منفی سے ہوتی ہوئی چار فیصد ہے یہ کیسی تبدیلی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مہنگائی ہوئی ہے مگر ایک بات یاد رکھنے کی ہے عمران خان نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا ہے اور ریاست مدینہ تین سالوں میں نہیں بنی تھی۔ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے بہت مشکل وقت گزارا۔بے شک راہ حق کے راستے میں بہت روکاوٹیں اور مشکلیں آتی ہیں۔بلاشبہ پاکستان ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے اس مشکل وقت میں بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بہت سے اچھے کام کیے ہیں۔جس کا ذکر میں یہاں ضرور کرنا چاہوں گی۔
پہلا اچھا کام یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے پاکستان کو دنیا میں کرونا پر قابو پانے کے لیے بہتر حکمت عملی اختیار کرنے والے ملک کا اعزاز دلایا ہے۔ اس کا سہرا عمران خان اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے اور عوام کو بھی جس نے اپنے لیڈر کی بات پر عمل کیا۔اس کے برعکس انڈیا, امریکہ اور برطانیہ میں کرونا سے مرنے والوں کی لاشیں دفنانے کے لیے لمبی قطاریں موجود تھیں۔
دوسرا بڑا کام حکومت کی آگاہی کے ذریعے لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے جس سے ٹیکس ریکوری میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ٹیکس ریکوری 3800 ارب سے بڑھ کر 4700 ارب تک جا پہنچی ہے۔تیسرا بڑا کام ترسیلات زر میں اضافہ ہوناہے۔جس کا سہرا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو جاتا ہے۔جنہوں نے عمران خان کی قیادت پر بھرپور بھروسہ کیا اور اپنے ڈالر پاکستان بھیجے ہیں۔اس طرح ترسیلات زر 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر 29.4 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔چوتھا بڑا کام کنسٹرکشن انڈسٹری کو بوسٹ کیا۔جس سے تیس سمال انڈسٹری کو فائدہ پہنچا اور سیمنٹ کی فروخت میں مجموعی طور پر بیالیس فیصد اصافہ ہوا ہے۔
پانچواں بڑا کام مافیا کے خلاف جنگ لڑی۔اس حوالے سے نیب کوفعال اور متحرک کیاگیاہے۔تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہو۔طاقت ور اور غریب کے لیے ایک قانون ہو۔نیب نے گزشتہ اٹھارہ سالوں میں 290 ارب کی ریکوری کی تھی جبکہ تحریکِ انصاف کی تین سالہ حکومت میں 519 ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔عمران خان حکومت کا چھٹا بڑا کام کامیاب نوجوان پروگرام کے پلیٹ فارم پر ایک لاکھ بیالیس ہزار نوجوانوں کو ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل تعلیم دینا ہے۔ ان میں پندرہ ارب روپے بھی تقسیم کیے۔اب اس پروگرام کو کامیاب پاکستان پروگرام میں تبدیل کیا جا رہا ہے جس میں 40 لاکھ گھرانوں کے بچوں کو ٹیکنیکل کی تعلیم دی جائے گی،بغیر سود کے پانچ لاکھ تک کے قرضوں کے ساتھ آسان شرائط پر گھر دیے جائیں گے۔
ساتواں بڑا کام کسان کارڈ کا اجرا ہے۔پہلی دفعہ کسانوں کو اجرت وقت پر دی گئی ہے۔جس سے گندم،چاول اور گنے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اور کسانوں کو گندم کی اضافی قیمت کی مد میں 1100 ارب روپے دئیے گئے ہیں۔جس سے زرعی ٹریکٹر،موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی سیل میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
آٹھواں بڑا کام ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراہے۔ جو اس سال دسمبر کی آخر تک تمام پاکستانیوں کو مل جائے گا اور مفت علاج سرکاری اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں کروا سکیں گے۔نواں بڑا کام گھر بنانے کے لیے سستے قرضے دیے جا رہے ہیں۔جس کے تحت اب تک 45 ارب روپے دئیے جا چکے ہیں مزید گھروں کے لیے تین سو ارب روپے آسان شرائط پر دینے کا ارادہ ہے جو تین فیصد سود پر دئیے جائیں گے۔ہاؤسنگ سکیم کے تحت 30 ہزار غریب لوگوں کو گھر دیے جا چکے ہیں اور 70 ہزار گھروں کا یونٹ مکمل ہونے کے قریب ہے۔دسواں بڑا کام احساس ایمرجنسی پروگرام ہے۔ جو دنیا کا تیسرا بڑا پروگرام ہے۔جس کے تحت کرونا کے دنوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بارہ ہزار روپے دئیے گئے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کا گیارہواں بڑا کام احساس نشوونما سینٹر کا قیام ہے۔گیارہ اضلاع میں پچاس نشوونما سینٹر بنانے جائیں گے۔
بارہواں بڑا کام غریبوں کے لئے لنگر خانے قام کرنا ہے۔ تاکہ غریب بھوکا فٹ پاتھ پر نہ سوئے۔تیرہواں بڑا کام دس بلین درخت لگانے ہیں۔اس سلسلے میں اب تک پہلے فیز میں ایک ارب درخت لگ چکے ہیں۔ دوسرے فیز میں پچاس کروڑ درخت لگنے ہیں تاکہ ماحول کو سرسبزوشاداب اور صاف شفاف بنایا جاسکے۔
چودہواں بڑا کام پاکستان میں بسنے والوں کو ایک قوم بنانے کے لیے پہلے قدم کی طرف بڑھنا ہے۔اس ضمن میں تعلیم کے شعبے کا انتخاب کیا گیا ہے۔جس میں یکساں قومی نصاب راج کرنے کا وعدہ پورا کرناہے۔ تمام سرکاری اور پرائیویٹ سکول میں ایک نصاب کردیاگیا ہے۔اس کے ساتھ دسویں جماعت تک سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم پڑھائی جائے گی۔
پندرہواں بڑا کام دس سال کی مدت میں ملک میں دس ڈیم بناے جائیں گے۔اس میں مہمند ڈیم 2025 میں مکمل ہو گا۔
حکومت کا سولہواں بڑا کام بہترین خارجہ پالیسی اختیار کرنا ہے۔ جس کے تحت کشمیر اور افغانستان کے ایشوز پر بھارت کو منہ کی کھانا پڑی ہے۔
سترہواں بڑا کام الیکٹرونک ووٹنگ مشین ہے۔ اٹھارواں بڑا کام جو کیا وہ یہ ہے کہ اکاؤنٹ خسارہ بیس ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.4 ارب ڈالر تک رہ گیا ہے۔اُنیسواں بڑا کام شرح سود تیرا فیصد کم ہو کر پانچ فیصد تک آگیا ہے۔بیسواں بڑا کام عمران خان نے سیاحت کو فروغ دیا ہے۔
سطور بالامیں حکومت کے جن بڑے کاموں کا تذکرہ کیاگیا ہے وہ چیدہ چیدہ ہیں۔جبکہ موجودہ حکومت کے ان تین سالوں کے دوران ہر ایک کام پر بات کی جائے تو کسی ایک مضمون میں ان تمام کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہوسکتایا بیس بڑے کاموں میں سے ہر ایک پروگرام کے اغراض ومقاصد اور ان کی جزیات کو کھول کر بیان کروں تو بھی تفصیل طویل ہوتی چلی جاے گی۔کیونکہ وزیراعظم عمران خان اپنے عزائم میں پختہ ہیں اور دُھن کے پکے ہیں۔وہ عملًاکام کررہے ہیں۔سابقہ حکمرانوں نے صرف شوکیا ہے۔موجودہ حکومت کے ان اقدامات سے لگتا ہے کہ اگلی باری پھر نیازی۔انشااللہ۔
(مختلف موضوعات پرلکھتی ہیں)
٭……٭……٭

انجیلا میرکل کون ہیں؟

مرزا روحیل بیگ
انجیلا میرکل 17 جولائی 1954 کو جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں پیدا ہوئیں۔ جرمنی کے مشرقی حصے میں پروان چڑھنے والی انجیلا میرکل کبھی جرمنی کی سب سے مقبول اور طاقتور ترین سیاسی شخصیت بنیں گی، یہ میرکل سمیت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ طبیعات جیسے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیاست میں آ کر اتنی شہرت اور کامیابی حاصل کی، کہ آج دنیا حیران ہے۔ یہ امر سب ہی کے لیئے تعجب کا باعث ہے۔ جرمنی میں انجیلا میرکل کی سیاسی قیادت کو ملکی سیاست میں مثبت تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ میرکل جرمن چانسلر بننے والی پہلی خاتون سیاستدان ہیں۔
انجیلا میرکل نے جرمنی کے سیاسی منظر نامے کی کئی روایات توڑ ڈالیں۔ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والی خاتون جنہیں سیاست کے داؤ پیچ بھی معلوم نہیں تھے قدامت پسند جماعت کی سربراہ مقرر ہوئیں اور چار مرتبہ چانسلر بھی منتخب ہو چکی ہیں۔ سن 1990 میں میرکل جرمن پارلیمان کی رکن منتخب ہوئیں۔ سابقہ مشرقی جرمنی میں رہنے والی میرکل کی معلومات یورپی یونین کی بابت زیادہ نہیں تھیں، نہ ہی انہیں مغربی جرمنی کی سیاست کی گہرائیوں کا زیادہ علم تھا۔ تاہم چانسلر ہیلمٹ کوہل نے انہیں خواتین اور نوجوانوں کی وزارت کا قلمدان سونپ دیا۔ چار برس بعد وہ ماحولیات کی وزیر بنیں۔ 2005 کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے انجیلا میرکل جرمنی کی چانسلر بن گئیں۔ جرمنی میں لوگ انہیں اپنے اصولوں پر کاربند رہنے اور پاسداری کرنے والی چانسلر کے طور پر بھی جانتے ہیں۔ انہیں دنیا کی طاقتور ترین خاتون بھی قرار دیا جاتا ہے۔ انجیلا میرکل کی شخصیت کے بہت سے منفرد پہلو ہیں، تعمیر یا ڈھانچے اور حکومت چلانے کے معاملات میں میرکل بہت مضبوط ہیں۔ ان کے خیال میں اصولوں پر کاربند ہونے میں کوئی تضاد نہیں۔ اصولوں پر چلتے ہوئے اور اقتدار کے حصول کے دوران بھی نیک دلی اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے۔ انجیلا میرکل بولنے سے پہلے سوچتی ہیں اور جب بولتی ہیں تو کم بولتی ہیں، وہ دوسروں کی بات زیادہ سنتی ہیں۔ وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ اپنے بارے میں کوئی بات نہ کریں۔ ان کی کامیابی کا راز صبرو تحمل اور سٹیمنا میں ہے۔ اس عمر میں بھی رات کے دو بجے فون کر کے عملے سے کہیں گی وہ جو صبح بات ہوئی تھی اس پر کچھ نوٹس بنا لیتے ہیں۔ انجیلا میرکل کا دامن ہر طرح کی کرپشن اور اقربا پروری سے پاک ہے۔ میرکل اور ان کے شوہر جو کہ کیمسٹری کے ایک پروفیسر ہیں برلن کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، وہ علاقے کے لوگوں سے عموماً سپر مارکیٹ میں ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
انجیلا میرکل برلن کی شاہراہوں پر خریداری کرتے ہوئے، اپنا سامان خود اٹھا کر گاڑی میں رکھتے ہوئے آپ کو نظر آئیں گی۔ جرمنی میں قدامت پسند جماعتیں دو ہیں، ایک انجیلا میرکل کی پارٹی سی ڈی یو اور دوسری جنوبی صوبے باویریا کی سیاسی جماعت جو کہ کرسچن سوشل یونین یا سی ایس یو کہلاتی ہے۔ یہ پارٹی نہ صرف باویریا میں حکمران ہے بلکہ سیاسی طور پر سی ڈی یو کی ہم خیال جماعت بھی ہے۔ انجیلا میرکل کی صلاحتیں اس وقت بھی ابھر کر سامنے آئیں جب 2014 میں یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی پرانی دشمنی کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اور صاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہے۔
2015 میں انجیلا میرکل نے شام اور عراق میں خانہ جنگی سے متاثرہ لاکھوں پناہ گزینوں کو جرمنی میں پناہ دینے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا تھا۔ انسانی ہمدردی کے پیش نظر کیئے گئے اس فیصلے کو شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد انجیلا میرکل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 2015 کی مہاجرین پالیسی کو نہیں اپنائیں گی۔ جرمن چانسلر انجیلا میرکل اس سال ستمبر میں ہونے والے وفاقی انتخابات کے بعد اقتدار سے دستبردار ہو جائیں گی۔ جرمن شہری میرکل کے ڈسپلن اور ان کے کام کرنے کے انداز کو یاد کریں گے۔ چانسلر میرکل جیسی شخصیت اور طرز قیادت والے حکمران اب دنیا میں ناپید دکھائی دیتے ہیں۔
(کالم نگارجرمنی میں مقیم،بین الاقوامی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

نیا کابل

اکرام سہگل
دنیا نے حیرانی سے سقوط کابل کودیکھا اور اشرف غنی کی ازبکستان فرار کی بزدلی کو بھی دیکھا۔ ’بیس سال بعد جنگ ختم ہوگئی ہے۔‘ یہ وہ پیغام تھا جو گزشتہ اتوار کو طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے میڈیا کو دیا۔ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امریکی عملے کے انخلا نے(اگرچہ یہ زیادہ منظم تھا) کئی عشرے قبل سائیگون سے جلد بازی اور منظم امریکی رخصتی کی یاد دلا دی۔ کابل کے صدارتی محل میں آرام سے بیٹھ کر تصاویر بنوانے والے طالبان نے وہی پیغام دیا جو ویت نام نے دیا تھا۔
طالبان نے ایک ماہ سے کم عرصے میں یکے بعد دیگرے شہر قبضہ کیے اور وہ بھی کسی معمولی مزاحمت کے بغیر۔ اس کے لیے تیاریاں دیہی علاقوں میں کئی برسوں سے جاری تھیں، جہاں غنی حکومت کی طاقت اور اس کے لیے ہم دردی بالکل موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ مزار شریف اور ہرات میں، جہاں سے توقع کی جا سکتی تھی، مقامی جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت بہت کم اور بہت تاخیر سے ہوئی۔ غنی مزار شریف بھاگا، تو ترکی سے حال ہی میں مقامی جنگجوؤں کو قائل کرنے کے لیے آنے والا بدنام ازبک جنگجو دوستم ان کے ساتھ ہولیا، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔
ایک انتہائی سنجیدہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے طالبان کی تعریف ہونی چاہیے۔ وہ اہم سرحدی پوائنٹس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں، اور جیسا کہ مقامی قوتوں کے ساتھ وہ پہلے ہی سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے ہر ایک کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی حال میں سرحدیں پار کر کے غیر ملکی علاقے میں داخل نہیں ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ طالبان وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ وسطی ایشیائی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہی یقین ایران، پاکستان اور چین کو بھی دلایا جا چکا ہے۔ چناں چہ طالبان کے خلاف افغان جنگجوؤں کو پروان چڑھانے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے، جنھوں نے اپنی زیرک پالیسی سے جنگجوؤں کو غیر مؤثر بنا کر افغانستان کو ایک اور ممکنہ خانہ جنگی سے کم از کم فی الوقت بچا لیا ہے۔
مغرب کے لیے یہ ایک اسرار ہے کہ جس افغان آرمی کو انہوں نے پیسا دیا اور کئی برس تک اس کی تربیت کی، کیسے اور کیوں جنگ کے لیے اتنیمتذبذب اور ناکارہ نکلی۔ غنی کی حکومت نے جس کرپشن کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ دفاعی بجٹ میں خردبرد کی صورت میں نکلا، پیسہ بے ایمانی سے ہتھیانے کے لیے دیگر فریب کاریوں کے ساتھ ساتھ دبئی میں رئیل اسٹیٹ بھی خریدی گئی، پام آئی لینڈ کے بڑے حصے کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ فوجیوں کو شاذ و نادر ہی پوری تنخواہ مل پاتی ہے، کیوں کہ افسران سارا پیسہ ہتھیا لیتے ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں فوج چھوڑنے کی شرح اتنی زیادہ ہے (سالانہ 35 ہزار فوجی)۔ یہ اکثر امریکا کے دیے ہوئے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں تاکہ گزارا کر سکیں۔ ان کے پاس مغرب کی حمایت یافتہ کرپٹ حکومت کے لیے اور طالبان کے خلاف لڑنے کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، جن کے ساتھ ان کے زیادہ تر مذہبی عقیدے، روایات اور اقدار مشترک ہیں۔ تنخواہوں کے لیے لڑنے والی افغان افواج کا کئی بار طالبان نمائندگان مذاق بھی اڑا چکے ہیں جو خود ایک مقصد کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ افغان افواج کو کوئی ایسا مقصد دینے میں، جو انھیں قائل کر سکتا، ناکامی بھی بلاشبہ ایک اور بڑی وجہ ہے جو وہ لڑنے کے لیے رضا مند نہیں۔
دوحہ امن منصوبے کی ناکامی، جس پر امریکا اور طالبان میں اتفاق ہو گیا تھا، پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ امریکا جو اپنے نقصانات کم کرانا چاہتا تھا، اور اسے ایک ہاری ہوئی جنگ سے محفوظ پسپائی درکار تھی، طالبان نے اس میں اپنے اس ہدف تک رسائی کو دیکھا، جس کے لیے وہ برسوں سے لڑتے آرہے تھے، یعنی غیر ملکی قبضے کا خاتمہ۔ غنی حکومت مذاکرات میں شامل نہیں تھی۔ اس حقیقت سے یہی مترشح تھا کہ امریکا نے سمجھ لیا ہے کہ اس کا کلائنٹ اپنے مالک کا حکم ہی سنے گا۔ شروع ہی سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ طالبان مستقبل میں کسی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے، تاہم وہ غنی کی حکومت کے خاتمے کو بعد کے سیاسی مذاکراتی طریقہ کار پر چھوڑنے کے لیے بھی تیار تھے۔ طالبان کی اقدار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہدوں کی پاس داری ہوگی، اور یہ قرآن پاک اور رسولؐ کے احکامات پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی طاقتیں طالبان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کر سکتی ہیں کہ بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن جب امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو تمام شرائط ساقط ہو گئے۔ طالبان پر اگرچہ یہ واضح تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے ایک سیاسی حل کی ضرورت ہے، انہوں نے باقی ماندہ امریکی کٹھ پتلی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ نہ امریکا، نہ ہی دنیا میں کسی اور کو یہ ادراک تھا کہ طالبان اتنے کم وقت میں یہ کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
آج کے طالبان کا رویہ 2001 سے قبل کے طالبان جیسا نہیں ہے۔ یہ ان کے الفاظ اور کابل میں ان کے عمل سے واضح ہو چکا ہے، بلکہ اس سے قبل دیگر تمام شہروں اور قصبات کی فتح میں بھی یہ سامنے آ چکا ہے۔ افغان فوج کو پیغام بہت واضح تھا، کہ اپنے ہتھیار ڈال دو اور بغیر کوئی سزا پائے چلے جاؤ، اس طرح انہوں نے کابل تک آسانی سے راستہ بنا لیا۔ماضی کے مقابلے پر آج طالبان کہیں زیادہ متحد اور منظم ہیں، ورنہ وسیع پیمانے پر قتل عام اور لوٹ مار سے بچنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ وہ غیر منظم طاقت اب نہیں رہی، طالبان کی زمینی قوت کی قیادت اور اقدار کے ساتھ وابستگی کے مضبوط عزم سے ان کا نظم و ضبط مضبوط ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چوں کہ طالبان کو ایک پشتون قوت کے طور پر بنایا گیا تھا، اس لیے اس نے پشتونوں کو افغانستان میں موجود دوسری نسلوں کے خلاف کھڑا کیا، آج طالبان میں تاجکوں اور ازبکوں کا ایک مضبوط طبقہ شامل ہے، جس کی وجہ سے ان کی نسلی تقسیم اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئی ہو تو کم ضرور ہو گئی ہے۔ اسماعیل خان ایک انگریزی معاصر میں لکھتے ہیں کہ ”اصل معاہدہ توڑنے یا بنانے والا البتہ ایک نسلی تاجک کمانڈر قاری فصیح الدین تھا، جس نے کامیابی کے ساتھ اپنے تاجک، ازبک اور ہزارہ ساتھیوں کو جیت کر اپنی طرف کرلیا۔ عبدالوکیل متوکل کی طرح طالبان کی سینئر شخصیات شکوک و شبہات کے خوف کو دور کرنے کے لیے براہ راست مصروف ہیں۔“ نسلی امتیاز سے بچنے سے یقینی طور پر طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جامع حکومت کے قیام پر ان کے اصرار کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ عبداللہ عبداللہ براہ راست یا بالواسطہ نئے سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے (افغانستان پر میرے 29 ستمبر 2020 اور 2 اپریل 2021 کے مضامین پڑھیں)۔
طالبان رہنما کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے افغان معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ منگل کو کابل میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا۔ اگر یہ سچ ہے اور خواتین کو اسکول جانے، نوکری کرنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہوگی، تو اس سے یقینی طور پر ان کی قبولیت کو استحکام ملے گا، بالخصوص شہروں میں۔ اور آخری بات یہ کہ طالبان کا شیعہ مخالف پہلو بظاہر لگتا ہے کہ نرم پڑ گیا ہے۔ اگر ایسا برقرار رہا تو اس سے ایک متحد افغانستان میں امن کو فروغ ملے گا۔
طالبان کا یہ اعلان کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، مستقبل قریب کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ افغانستان بھر کو اپنے قبضے میں کرنے کے دوران طالبان نے شہریوں کو یقین دلایا کہ کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا، اور نہ لوٹ مار کی جائے گی۔ اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ افغانوں نے طالبان کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت دی اور فوج نے ہتھیار ڈالے یا انہوں نے راستہ دیا۔ کابل کی فتح میں مشکل ہی سے کوئی ایک فائر کیا گیا ہوگا۔ افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کے خوفناک بھوت کو روکا جا سکتا ہے، وہ جنگجو سردار جنھوں نے غیر ملکی فنانسنگ کے ذریعے لڑائی لڑی، اب بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ مغرب اپنی شکست کے بعد افغان معاملات سے دور رہے۔ امن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے افغانستان کے ارد گرد کی علاقائی طاقتیں جو جاری جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، اب امن قائم رکھنے اور افغان ملک اور معیشت کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے تعاون کریں۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭

امریکہ افغانستان میں بے بس ہوگیا؟

سید سجاد حسین بخاری
کابل میں 26اگست کی شب ایئرپورٹ پر یک بعد چھ دھماکے ہوئے جن میں 170کے قریب افراد مارے گئے اور ان میں 13امریکی بھی شامل تھے۔ آخری خبریں آنے تک کسی تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم روس کے بقول داعش نے ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر داعش کے ترجمان نے کوئی بیان نہیں دیا اور پھر امریکہ نے27اگست کو ننگرہار میں کابل دھماکے کے ماسٹر مائنڈ پر ڈرون حملہ کرکے قتل کردیا۔ اس وقت کابل کی صورتحال مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے صرف احمدشاہ مسعود کے صوبے پنج شیر میں تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی مگر وہ مذاکرات کی میز پر ختم ہوگئی۔
دوسری طرف طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے تین حصوں پر ان کا کنٹرول ہے مگرپینٹاگون نے تردید کی ہے۔ طالبان نے اپنی حکومتی شوریٰ بھی تشکیل دے دی ہے جس میں فی الحال انہوں نے اپنے 12لوگوں کو عہدے دیئے ہیں جبکہ توقع یہ کی جارہی تھی کہ طالبان دیگر لوگوں کو بھی حکومت سازی میں شریک کریں گے مگر فی الحال ایسا نہیں کیاگیا تاہم امیدواثق ہے کہ دوسرے دھڑوں کو بھی حکومتی عہدے دیئے جائیں گے۔ افغانستان میں طالبان کو اس مرتبہ مکمل حکومت ملی ہے جبکہ ملاں عمر کے دور میں ایسا نہیں تھا۔سوائے پاکستان اور سعودی عرب کے پوری دنیا طالبان مخالف تھی مگر اس مرتبہ معاملہ الٹ ہے۔ علاقائی کھلاڑی جن میں روس‘ چین‘ترکی‘ ایران اور پاکستان مکمل طور پر طالبان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ امریکہ اس مرتبہ پوری کوشش کررہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے معاملات براہ راست طے کرے کیونکہ امریکیوں کے بقول ماضی میں ان کے ساتھ ڈبل گیم ہوئی ہے اور ہمارے 23ارب ڈالر ضائع ہوگئے۔ اس مقصد کیلئے سی آئی اے کے سربراہ ولیم کی ملاقات ایک ہفتہ قبل کابل ایئرپورٹ پر ملابرادر سے ہوچکی ہے۔ امریکہ اس وقت شدید پریشان ہے کیونکہ یورپ اول تو فوجی انخلا کے خلاف تھا دوسرا جی سیون کے تمام ملکوں نے طالبان پر پابندیاں لگانے کو کہا ہے۔ اگر یہ پابندیاں طالبان پر عائد ہوتی ہیں تو پھر امریکہ کے خواب افغانستان میں پورے نہیں ہوں گے اور ان پابندیوں کے مقابلے میں روس‘ چین‘ ایران‘ترکی طالبان کی ہرضرورت کو پورا کریں گے جس کی تازہ ترین مثال ایران کی طالبان کو مفت تیل کی سپلائی ہے۔ اسی طرح چین سی پیک کے منصوبے کو آزاد ریاستوں تک پہنچانے کیلئے طالبان کے تمام مطالبے پورے کرے گا۔ روس بھی طالبان کی ہرقسم کی مدد کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ المختصر یہ ہے کہ امریکہ چاہے جتنی مخالفت طالبان کی کرلے علاقائی قوتیں کسی صورت طالبان کوناکام نہیں ہونے دیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں مستقبل کیا ہوگا؟جس کا بڑا آسان سا جواب ہے کہ امریکہ کو اس خطے میں وہ حیثیت نہیں مل سکے گی جس کی وہ تمنا کررہا ہے۔ اس کی واضح ایک مثال موجود ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے علاوہ آزاد ریاستوں سے بھی فوجی اڈے مانگے مگر کسی نے نہیں دیئے۔اس وقت خطے کی صورتحال بدل چکی ہے۔ اگر امریکہ یورپی یونین اور جی سیون جیسے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی طالبان کی مخالفت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا کیونکہ خطے میں زیادہ تر ممالک طالبان کے ساتھ ہوچکے ہیں۔ طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں نہیں ہے جبکہ ماضی میں اس کے برعکس تھا۔ اب اگر امریکہ دوبارہ افغانستان پر حملہ کرنا چاہے تو اس کیلئے مشکل ہوگا اور پہلے سے زیادہ امریکہ کا نقصان ہوگا اور امریکہ اس پوری صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے امریکہ اس خطے میں اپنے اتحادی بھارت کے ساتھ ملکر افغانستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کراتوسکتا ہے مگر فی الحال نہیں۔بھارت نے بھی طالبان کو پیشکش کی کہ وہ افغانستان میں تقریباً دو ارب ڈالر کے ادھورے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے جس کا سوفیصد فائدہ افغانیوں کو ہوگا مگرتاحال طالبان نے بھارت کو کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان امریکہ سے دوستی کا ہاتھ نہیں ملاتے تو کیا ہوگا؟اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ طالبان کی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اندرون اور بیرون طالبان مخالف دھڑوں کو متحد کرکے طالبان کے خلاف دہشتگردی اور جنگی کارروائیاں کرائے گا جس سے افغانستان میں آئے روز دھماکے‘ بے گناہ انسانوں کا قتل‘ طالبان کی چیک پوسٹوں اور سرکاری املاک پر حملے ہونگے۔یہ سب کچھ امریکہ داعش‘ ٹی ٹی پی‘طالبان مخالف شمالی اتحاد‘ احمدشاہ مسعود اورہزارہ قبائل کو بھی اکٹھاتو کرسکتا ہے مگر وہ فی الحال نہیں اور پھر روس‘ چین‘ترکی‘ ایران اور پاکستان کوشش کررہے ہیں کہ اس مرتبہ طالبان وسیع البنیاد حکومت بنائیں اور تمام دھڑوں کو حصہ بقدر جسہ ملنا چاہئے اور طالبان بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان پانچ ملکوں کی طالبان حمایت کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکہ طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے جس کی واضح مثال 31اگست کی ڈیڈلائن طالبان نے دی تھی کہ اگر انخلا دی گئی تاریخ پر مکمل نہ ہوا تو نقصان کا ذمہ دار امریکہ ہوگا حالانکہ امریکی اتحادی اپنے فوجی وشہری نکالنے کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت مانگ رہے تھے مگر پینٹاگان کے ترجمان نے 27اگست کو ہی واضح کر دیا ہے کہ 31اگست تک انخلا مکمل ہوجائے گا۔ افغانستان میں امریکہ اس وقت سب سے بڑا لوزر ہے اور طالبان فاتح ہیں۔ مستقبل میں افغانستان کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ امریکہ کو افغانستان میں حصہ نہ ملاتو یقیناً وہ طالبان مخالف دھڑوں کو اکٹھا کرکے آزاد ریاستوں میں سے کسی بھی ریاست کے ذریعے افغانستان میں بدامنی پھیلائے گا کیونکہ امریکہ نے ایک تو 23ارب ڈالر خرچ کئے اور شکست فاش کھاکر افغانستان بھی چھوڑا۔ اپنی عوام‘ میڈیا اور اتحادیوں کو بھی ناراض کیا لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنا حصہ لئے بغیر آرام سے بیٹھ جائے۔ یہ انخلاء سے بھی بڑی شکست ہوگی جو امریکہ کبھی قبول نہیں کرے گا۔مجھے یقین ہے کہ اب چین اور روس کھل کر نہ صرف طالبان کا دفاع اور امریکہ سے زیادہ مالی مدد بھی کریں گے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

کراچی میں اسکول چوکیدار کے بیٹے کی 4 سالہ بچے کے ساتھ زیادتی

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں اسکول چوکیدار کے بیٹے نے 4 سال کے بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔

پولیس کے مطابق بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا مقدمہ تیموریہ تھانے میں بچے کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

پولیس کا بتانا ہے کہ بچے کا میڈیکل کروایا گیا جس میں اس کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوئی، بچے کی نشاندہی پر اسکول چوکیدار کے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔

متاثرہ بچے کے والد کا کہنا ہے کہ 29 اگست کو بیٹا اسکول کے باہر کھیل رہا تھا کہ اس کی گیند اسکول کے اندر چلی گئی، بیٹا گیند لینے گیا تو چوکیدار کے بیٹے نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔