تازہ تر ین

نیا کابل

اکرام سہگل
دنیا نے حیرانی سے سقوط کابل کودیکھا اور اشرف غنی کی ازبکستان فرار کی بزدلی کو بھی دیکھا۔ ’بیس سال بعد جنگ ختم ہوگئی ہے۔‘ یہ وہ پیغام تھا جو گزشتہ اتوار کو طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے میڈیا کو دیا۔ ہیلی کاپٹرز کے ذریعے امریکی عملے کے انخلا نے(اگرچہ یہ زیادہ منظم تھا) کئی عشرے قبل سائیگون سے جلد بازی اور منظم امریکی رخصتی کی یاد دلا دی۔ کابل کے صدارتی محل میں آرام سے بیٹھ کر تصاویر بنوانے والے طالبان نے وہی پیغام دیا جو ویت نام نے دیا تھا۔
طالبان نے ایک ماہ سے کم عرصے میں یکے بعد دیگرے شہر قبضہ کیے اور وہ بھی کسی معمولی مزاحمت کے بغیر۔ اس کے لیے تیاریاں دیہی علاقوں میں کئی برسوں سے جاری تھیں، جہاں غنی حکومت کی طاقت اور اس کے لیے ہم دردی بالکل موجود نہ تھی۔ حتیٰ کہ مزار شریف اور ہرات میں، جہاں سے توقع کی جا سکتی تھی، مقامی جنگجوؤں کی جانب سے مزاحمت بہت کم اور بہت تاخیر سے ہوئی۔ غنی مزار شریف بھاگا، تو ترکی سے حال ہی میں مقامی جنگجوؤں کو قائل کرنے کے لیے آنے والا بدنام ازبک جنگجو دوستم ان کے ساتھ ہولیا، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔
ایک انتہائی سنجیدہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے لیے طالبان کی تعریف ہونی چاہیے۔ وہ اہم سرحدی پوائنٹس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں، اور جیسا کہ مقامی قوتوں کے ساتھ وہ پہلے ہی سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے ہر ایک کو یقین دلایا کہ وہ کسی بھی حال میں سرحدیں پار کر کے غیر ملکی علاقے میں داخل نہیں ہوں گے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ طالبان وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ وسطی ایشیائی ممالک میں داخل نہیں ہوں گے۔ یہی یقین ایران، پاکستان اور چین کو بھی دلایا جا چکا ہے۔ چناں چہ طالبان کے خلاف افغان جنگجوؤں کو پروان چڑھانے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے، جنھوں نے اپنی زیرک پالیسی سے جنگجوؤں کو غیر مؤثر بنا کر افغانستان کو ایک اور ممکنہ خانہ جنگی سے کم از کم فی الوقت بچا لیا ہے۔
مغرب کے لیے یہ ایک اسرار ہے کہ جس افغان آرمی کو انہوں نے پیسا دیا اور کئی برس تک اس کی تربیت کی، کیسے اور کیوں جنگ کے لیے اتنیمتذبذب اور ناکارہ نکلی۔ غنی کی حکومت نے جس کرپشن کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ دفاعی بجٹ میں خردبرد کی صورت میں نکلا، پیسہ بے ایمانی سے ہتھیانے کے لیے دیگر فریب کاریوں کے ساتھ ساتھ دبئی میں رئیل اسٹیٹ بھی خریدی گئی، پام آئی لینڈ کے بڑے حصے کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ فوجیوں کو شاذ و نادر ہی پوری تنخواہ مل پاتی ہے، کیوں کہ افسران سارا پیسہ ہتھیا لیتے ہیں، جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں فوج چھوڑنے کی شرح اتنی زیادہ ہے (سالانہ 35 ہزار فوجی)۔ یہ اکثر امریکا کے دیے ہوئے ہتھیار بلیک مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں تاکہ گزارا کر سکیں۔ ان کے پاس مغرب کی حمایت یافتہ کرپٹ حکومت کے لیے اور طالبان کے خلاف لڑنے کرنے کے لیے کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، جن کے ساتھ ان کے زیادہ تر مذہبی عقیدے، روایات اور اقدار مشترک ہیں۔ تنخواہوں کے لیے لڑنے والی افغان افواج کا کئی بار طالبان نمائندگان مذاق بھی اڑا چکے ہیں جو خود ایک مقصد کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ افغان افواج کو کوئی ایسا مقصد دینے میں، جو انھیں قائل کر سکتا، ناکامی بھی بلاشبہ ایک اور بڑی وجہ ہے جو وہ لڑنے کے لیے رضا مند نہیں۔
دوحہ امن منصوبے کی ناکامی، جس پر امریکا اور طالبان میں اتفاق ہو گیا تھا، پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ امریکا جو اپنے نقصانات کم کرانا چاہتا تھا، اور اسے ایک ہاری ہوئی جنگ سے محفوظ پسپائی درکار تھی، طالبان نے اس میں اپنے اس ہدف تک رسائی کو دیکھا، جس کے لیے وہ برسوں سے لڑتے آرہے تھے، یعنی غیر ملکی قبضے کا خاتمہ۔ غنی حکومت مذاکرات میں شامل نہیں تھی۔ اس حقیقت سے یہی مترشح تھا کہ امریکا نے سمجھ لیا ہے کہ اس کا کلائنٹ اپنے مالک کا حکم ہی سنے گا۔ شروع ہی سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ طالبان مستقبل میں کسی امریکی کٹھ پتلی حکومت کو برداشت نہیں کریں گے، تاہم وہ غنی کی حکومت کے خاتمے کو بعد کے سیاسی مذاکراتی طریقہ کار پر چھوڑنے کے لیے بھی تیار تھے۔ طالبان کی اقدار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاہدوں کی پاس داری ہوگی، اور یہ قرآن پاک اور رسولؐ کے احکامات پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی طاقتیں طالبان کی یقین دہانیوں پر اعتبار کر سکتی ہیں کہ بین الاقوامی سرحدوں کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن جب امریکا نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو تمام شرائط ساقط ہو گئے۔ طالبان پر اگرچہ یہ واضح تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے ایک سیاسی حل کی ضرورت ہے، انہوں نے باقی ماندہ امریکی کٹھ پتلی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ نہ امریکا، نہ ہی دنیا میں کسی اور کو یہ ادراک تھا کہ طالبان اتنے کم وقت میں یہ کر سکنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
آج کے طالبان کا رویہ 2001 سے قبل کے طالبان جیسا نہیں ہے۔ یہ ان کے الفاظ اور کابل میں ان کے عمل سے واضح ہو چکا ہے، بلکہ اس سے قبل دیگر تمام شہروں اور قصبات کی فتح میں بھی یہ سامنے آ چکا ہے۔ افغان فوج کو پیغام بہت واضح تھا، کہ اپنے ہتھیار ڈال دو اور بغیر کوئی سزا پائے چلے جاؤ، اس طرح انہوں نے کابل تک آسانی سے راستہ بنا لیا۔ماضی کے مقابلے پر آج طالبان کہیں زیادہ متحد اور منظم ہیں، ورنہ وسیع پیمانے پر قتل عام اور لوٹ مار سے بچنا ممکن ہی نہ ہوتا۔ وہ غیر منظم طاقت اب نہیں رہی، طالبان کی زمینی قوت کی قیادت اور اقدار کے ساتھ وابستگی کے مضبوط عزم سے ان کا نظم و ضبط مضبوط ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چوں کہ طالبان کو ایک پشتون قوت کے طور پر بنایا گیا تھا، اس لیے اس نے پشتونوں کو افغانستان میں موجود دوسری نسلوں کے خلاف کھڑا کیا، آج طالبان میں تاجکوں اور ازبکوں کا ایک مضبوط طبقہ شامل ہے، جس کی وجہ سے ان کی نسلی تقسیم اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئی ہو تو کم ضرور ہو گئی ہے۔ اسماعیل خان ایک انگریزی معاصر میں لکھتے ہیں کہ ”اصل معاہدہ توڑنے یا بنانے والا البتہ ایک نسلی تاجک کمانڈر قاری فصیح الدین تھا، جس نے کامیابی کے ساتھ اپنے تاجک، ازبک اور ہزارہ ساتھیوں کو جیت کر اپنی طرف کرلیا۔ عبدالوکیل متوکل کی طرح طالبان کی سینئر شخصیات شکوک و شبہات کے خوف کو دور کرنے کے لیے براہ راست مصروف ہیں۔“ نسلی امتیاز سے بچنے سے یقینی طور پر طالبان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک جامع حکومت کے قیام پر ان کے اصرار کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ میں شرط لگا سکتا ہوں کہ عبداللہ عبداللہ براہ راست یا بالواسطہ نئے سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے (افغانستان پر میرے 29 ستمبر 2020 اور 2 اپریل 2021 کے مضامین پڑھیں)۔
طالبان رہنما کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے افغان معاشرے میں خواتین کے کردار کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ منگل کو کابل میں ان کی پہلی پریس کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا۔ اگر یہ سچ ہے اور خواتین کو اسکول جانے، نوکری کرنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت ہوگی، تو اس سے یقینی طور پر ان کی قبولیت کو استحکام ملے گا، بالخصوص شہروں میں۔ اور آخری بات یہ کہ طالبان کا شیعہ مخالف پہلو بظاہر لگتا ہے کہ نرم پڑ گیا ہے۔ اگر ایسا برقرار رہا تو اس سے ایک متحد افغانستان میں امن کو فروغ ملے گا۔
طالبان کا یہ اعلان کہ جنگ ختم ہو چکی ہے، مستقبل قریب کے لیے ایک اچھی علامت ہے۔ افغانستان بھر کو اپنے قبضے میں کرنے کے دوران طالبان نے شہریوں کو یقین دلایا کہ کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا، اور نہ لوٹ مار کی جائے گی۔ اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ افغانوں نے طالبان کو شہروں میں داخل ہونے کی اجازت دی اور فوج نے ہتھیار ڈالے یا انہوں نے راستہ دیا۔ کابل کی فتح میں مشکل ہی سے کوئی ایک فائر کیا گیا ہوگا۔ افغانستان میں ایک نئی خانہ جنگی کے خوفناک بھوت کو روکا جا سکتا ہے، وہ جنگجو سردار جنھوں نے غیر ملکی فنانسنگ کے ذریعے لڑائی لڑی، اب بے اثر ہو چکے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ مغرب اپنی شکست کے بعد افغان معاملات سے دور رہے۔ امن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے افغانستان کے ارد گرد کی علاقائی طاقتیں جو جاری جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، اب امن قائم رکھنے اور افغان ملک اور معیشت کی تعمیر نو میں مدد کرنے کے لیے تعاون کریں۔
(فاضل کالم نگار سکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain