تازہ تر ین

امریکہ افغانستان میں بے بس ہوگیا؟

سید سجاد حسین بخاری
کابل میں 26اگست کی شب ایئرپورٹ پر یک بعد چھ دھماکے ہوئے جن میں 170کے قریب افراد مارے گئے اور ان میں 13امریکی بھی شامل تھے۔ آخری خبریں آنے تک کسی تنظیم نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم روس کے بقول داعش نے ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر داعش کے ترجمان نے کوئی بیان نہیں دیا اور پھر امریکہ نے27اگست کو ننگرہار میں کابل دھماکے کے ماسٹر مائنڈ پر ڈرون حملہ کرکے قتل کردیا۔ اس وقت کابل کی صورتحال مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے صرف احمدشاہ مسعود کے صوبے پنج شیر میں تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی مگر وہ مذاکرات کی میز پر ختم ہوگئی۔
دوسری طرف طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے تین حصوں پر ان کا کنٹرول ہے مگرپینٹاگون نے تردید کی ہے۔ طالبان نے اپنی حکومتی شوریٰ بھی تشکیل دے دی ہے جس میں فی الحال انہوں نے اپنے 12لوگوں کو عہدے دیئے ہیں جبکہ توقع یہ کی جارہی تھی کہ طالبان دیگر لوگوں کو بھی حکومت سازی میں شریک کریں گے مگر فی الحال ایسا نہیں کیاگیا تاہم امیدواثق ہے کہ دوسرے دھڑوں کو بھی حکومتی عہدے دیئے جائیں گے۔ افغانستان میں طالبان کو اس مرتبہ مکمل حکومت ملی ہے جبکہ ملاں عمر کے دور میں ایسا نہیں تھا۔سوائے پاکستان اور سعودی عرب کے پوری دنیا طالبان مخالف تھی مگر اس مرتبہ معاملہ الٹ ہے۔ علاقائی کھلاڑی جن میں روس‘ چین‘ترکی‘ ایران اور پاکستان مکمل طور پر طالبان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ امریکہ اس مرتبہ پوری کوشش کررہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے معاملات براہ راست طے کرے کیونکہ امریکیوں کے بقول ماضی میں ان کے ساتھ ڈبل گیم ہوئی ہے اور ہمارے 23ارب ڈالر ضائع ہوگئے۔ اس مقصد کیلئے سی آئی اے کے سربراہ ولیم کی ملاقات ایک ہفتہ قبل کابل ایئرپورٹ پر ملابرادر سے ہوچکی ہے۔ امریکہ اس وقت شدید پریشان ہے کیونکہ یورپ اول تو فوجی انخلا کے خلاف تھا دوسرا جی سیون کے تمام ملکوں نے طالبان پر پابندیاں لگانے کو کہا ہے۔ اگر یہ پابندیاں طالبان پر عائد ہوتی ہیں تو پھر امریکہ کے خواب افغانستان میں پورے نہیں ہوں گے اور ان پابندیوں کے مقابلے میں روس‘ چین‘ ایران‘ترکی طالبان کی ہرضرورت کو پورا کریں گے جس کی تازہ ترین مثال ایران کی طالبان کو مفت تیل کی سپلائی ہے۔ اسی طرح چین سی پیک کے منصوبے کو آزاد ریاستوں تک پہنچانے کیلئے طالبان کے تمام مطالبے پورے کرے گا۔ روس بھی طالبان کی ہرقسم کی مدد کرنے کو تیار بیٹھا ہے۔ المختصر یہ ہے کہ امریکہ چاہے جتنی مخالفت طالبان کی کرلے علاقائی قوتیں کسی صورت طالبان کوناکام نہیں ہونے دیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کا اس خطے میں مستقبل کیا ہوگا؟جس کا بڑا آسان سا جواب ہے کہ امریکہ کو اس خطے میں وہ حیثیت نہیں مل سکے گی جس کی وہ تمنا کررہا ہے۔ اس کی واضح ایک مثال موجود ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے علاوہ آزاد ریاستوں سے بھی فوجی اڈے مانگے مگر کسی نے نہیں دیئے۔اس وقت خطے کی صورتحال بدل چکی ہے۔ اگر امریکہ یورپی یونین اور جی سیون جیسے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی طالبان کی مخالفت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا کیونکہ خطے میں زیادہ تر ممالک طالبان کے ساتھ ہوچکے ہیں۔ طاقت کا توازن امریکہ کے حق میں نہیں ہے جبکہ ماضی میں اس کے برعکس تھا۔ اب اگر امریکہ دوبارہ افغانستان پر حملہ کرنا چاہے تو اس کیلئے مشکل ہوگا اور پہلے سے زیادہ امریکہ کا نقصان ہوگا اور امریکہ اس پوری صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے امریکہ اس خطے میں اپنے اتحادی بھارت کے ساتھ ملکر افغانستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کراتوسکتا ہے مگر فی الحال نہیں۔بھارت نے بھی طالبان کو پیشکش کی کہ وہ افغانستان میں تقریباً دو ارب ڈالر کے ادھورے منصوبے مکمل کرنا چاہتا ہے جس کا سوفیصد فائدہ افغانیوں کو ہوگا مگرتاحال طالبان نے بھارت کو کوئی جواب نہیں دیا۔
ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طالبان امریکہ سے دوستی کا ہاتھ نہیں ملاتے تو کیا ہوگا؟اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ طالبان کی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے اندرون اور بیرون طالبان مخالف دھڑوں کو متحد کرکے طالبان کے خلاف دہشتگردی اور جنگی کارروائیاں کرائے گا جس سے افغانستان میں آئے روز دھماکے‘ بے گناہ انسانوں کا قتل‘ طالبان کی چیک پوسٹوں اور سرکاری املاک پر حملے ہونگے۔یہ سب کچھ امریکہ داعش‘ ٹی ٹی پی‘طالبان مخالف شمالی اتحاد‘ احمدشاہ مسعود اورہزارہ قبائل کو بھی اکٹھاتو کرسکتا ہے مگر وہ فی الحال نہیں اور پھر روس‘ چین‘ترکی‘ ایران اور پاکستان کوشش کررہے ہیں کہ اس مرتبہ طالبان وسیع البنیاد حکومت بنائیں اور تمام دھڑوں کو حصہ بقدر جسہ ملنا چاہئے اور طالبان بھی یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان پانچ ملکوں کی طالبان حمایت کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکہ طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک چکا ہے جس کی واضح مثال 31اگست کی ڈیڈلائن طالبان نے دی تھی کہ اگر انخلا دی گئی تاریخ پر مکمل نہ ہوا تو نقصان کا ذمہ دار امریکہ ہوگا حالانکہ امریکی اتحادی اپنے فوجی وشہری نکالنے کیلئے مزید ایک ماہ کا وقت مانگ رہے تھے مگر پینٹاگان کے ترجمان نے 27اگست کو ہی واضح کر دیا ہے کہ 31اگست تک انخلا مکمل ہوجائے گا۔ افغانستان میں امریکہ اس وقت سب سے بڑا لوزر ہے اور طالبان فاتح ہیں۔ مستقبل میں افغانستان کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا کیونکہ امریکہ کو افغانستان میں حصہ نہ ملاتو یقیناً وہ طالبان مخالف دھڑوں کو اکٹھا کرکے آزاد ریاستوں میں سے کسی بھی ریاست کے ذریعے افغانستان میں بدامنی پھیلائے گا کیونکہ امریکہ نے ایک تو 23ارب ڈالر خرچ کئے اور شکست فاش کھاکر افغانستان بھی چھوڑا۔ اپنی عوام‘ میڈیا اور اتحادیوں کو بھی ناراض کیا لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنا حصہ لئے بغیر آرام سے بیٹھ جائے۔ یہ انخلاء سے بھی بڑی شکست ہوگی جو امریکہ کبھی قبول نہیں کرے گا۔مجھے یقین ہے کہ اب چین اور روس کھل کر نہ صرف طالبان کا دفاع اور امریکہ سے زیادہ مالی مدد بھی کریں گے۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain