پی آئی اے نے کابل کے لیے خصوصی فلائٹ آپریشن بحال کردیا

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز( پی آئی اے) نے  کابل کے لیے خصوصی فلائٹ آپریشن بحال کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز پی آئی اے کابل کے لئے آج 2 پروازیں آپریٹ کرے گی۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ  ائیربس 320 طیارے پر مشتمل پہلی خصوصی پرواز اسلام آباد ائیرپورٹ سے دوپہر ساڑھے  12 بجے کابل  روانہ ہو گی اور بوئنگ 777 طیارے کی دوسری پرواز دوپہر 2 بجے  روانہ ہو گی۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے 500  اہلکاروں، پاکستانیوں سمیت غیرملکیوں کو کابل سے اسلام آباد پہنچایا جائے گا۔

اس ضمن میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز( پی آئی اے)  کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے پروازوں کے لئے افغان سی اے اے  اور دیگراسٹیک ہولڈرز سے رابطے مکمل کر لئے گئے ہیں۔

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز( پی آئی اے) کے ترجمان نے مزید بتایا ہے کہ پی آئی اے کی پروازوں سے افغانستان سے اب تک 1300 افراد کو کابل سے اسلام آباد پہنچایا گیا ہے۔

طالبان نے افغانستان اسلامی امارت کے قیام کا اعلان کر دیا

افغان طالبان نے افغانستان اسلامی امارت کے قیام کا اعلان کر دیا۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں افغانستان اسلامی امارات کے قیام کا اعلان کیا۔

خیال رہے کہ 15 اگست کو طالبان نے افغان دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا جبکہ ملک کے صدر اشرف غنی قریبی ساتھیوں سمیت فرار ہو گئے تھے۔

کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا اور طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ کسی سے بھی انتقام نہیں لیا جائے گا۔

گزشتہ روز طالبان رہنما انس حقانی نے افغانستان میں مصالحتی کونسل کے اراکین حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی تھی جبکہ نائب امیر طالبان ملا عبدالغنی برادر بھی افغانستان پہنچ چکے ہیں۔

طالبان جنگجو جدید اسلحے کے ساتھ سڑک پر چوکنا کھڑا ہے۔ فوٹو: فائل
طالبان جنگجو جدید اسلحے کے ساتھ سڑک پر چوکنا کھڑا ہے۔ فوٹو: فائل

آئی ایم ایف اور جرمنی کا طالبان کے فنڈز روکنے کا اعلان

دوسری جانب افغان دارالحکومت کابل سے غیر ملکی شہریوں اور سفارتی عملے کا انخلا بھی جاری ہے جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اگست کے بعد بھی افغانستان میں فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا ہے۔

ادھر امریکا نے افغان حکومت کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں جبکہ آئی ایم ایف اور جرمنی نے پیچیدہ صورتحال کے باعث افغانستان کے فنڈز روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔

برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی بورس جانسن پر کڑی تنقید

برطانوی پارلیمنٹ میں افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے وزیراعظم بورس جانسن کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ بورس جانسن کا کہنا تھا کہ طالبان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا فیصلہ ان کے ردعمل کو دیکھ کر کریں گے۔

چین اور ترکی کا طالبان کے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اعلان

چین نے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ ترکی نے واضح کر دیا ہے کہ جو کوئی بھی اقتدار میں ہو، ہم افغانستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستان کا اس حوالے سے مؤقف ہے کہ ہم عالمی ردعمل دیکھ کر ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔

لاہور: خاتون پرحملہ اور ہراساں کرنےکا معاملہ، 35افراد زیر حراست

لاہور ميں گریٹر اقبال پارک میں خاتون پر حملہ اور ہراساں کرنے کے معاملے میں پوليس نے مختلف علاقوں ميں کارروائیاں کرتے ہوئے 35افراد کو حراست ميں لے ليا۔

پولیس کی جانب سے راوی روڈ، بادامی باغ، لاری اڈہ اور شفیق آباد میں چھاپے مارے گئے۔

پولیس کے مطابق 20افراد کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا لیکن علاقے سے باہر نہ جانے کا پابند کیا گیا جبکہ 15افراد سے پولیس حراست میں تفتیش جاری ہے۔

زیر حراست افراد کی 14اگست کے روز موبائل لوکیشن چیک کی جائے گی جبکہ وقوعہ کی ویڈیوز اور تصاویر سے چہرے کا موازنہ بھی کیا جا رہا ہے۔

واقعہ کی گریٹر اقبال پارک کے کلوز سرکٹ کیمروں کی فوٹیجز بھی منظرعام پر آگئی ہے۔ فوٹیجز کے مطابق خاتون کے گرد ہجوم شام ڈھلنے سے پہلے جمع ہوا جبکہ ہراساں کرنے کا واقعہ اندھیرا ہونے تک جاری رہا اور اس دوران ایک بھی پولیس اہلکار موقع پر دکھائی نہ دیا۔

پولیس کی تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے کہ جلد حتمی ملزمان کا تعین کرلیا جائے گا جبکہ پولیس کی غفلت جاننے کے لیے انکوائری کمیٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔

کمشنر لاہور اور سی سی پی او نے متاثرہ خاتون سے ملاقات کرکے جلد انصاف کی يقين دہانی بھی کرائی ہے۔

Lahore woman harassment

گزشتہ روز خاتون پر حملہ اور ہراساں کرنے پر 400 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ تھانہ لاری اڈہ میں درج کیا گیا۔ مقدمے میں دفعہ 354 اے، 382، 149 اور 147 شامل کی گئیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے اس سے 15ہزار روپے، موبائل فون اور زیورات بھی چھین لیے۔ پوليس کا کہنا ہے کہ فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت کا عمل جاری ہے۔

خاتون کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ 14اگست کی شام ساڑھے 6بجے خاتون اپنے ساتھی کے ساتھ اقبال پارک میں مینار کے قریب یوٹیوب ویڈیو بنا رہی تھی اچانک وہاں موجود 300 سے 400 افراد کا ہجوم ہم پر چڑھ دوڑا۔

مقدمے کے متن کے مطابق اسی دوران لوگ خاتون کے ساتھ کھینچا تانی کر رہے تھے یہاں تک خاتون کے کپڑے تک پھاڑ دیے۔ کافی لوگوں نے خاتون کی مدد کی کوشش کی لیکن ہجوم بہت زیادہ تھا جبکہ کچھ لوگ خاتون کو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے رہے۔

واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو ہجوم خاتون پر حملہ اور ہراساں کر رہا ہے اور اسی دوران ہجوم اچانک ہی خاتون کو گھیر لیتا ہے۔

یومِ عاشور پر ملک بھر میں جلوس و مجالس، سکیورٹی انتہائی سخت

نواسہ رسول ﷺ، حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے جانثاروں کی عظیم قربانی کی یاد میں آج پاکستان اور دنیا کے مختلف حصوں میں عاشورہ محرم کے جلوس نکالے جارہے ہیں۔

ملک کے کئی شہروں میں سکیورٹی کے پیش نظر موبائل فون سروس بند ہے جبکہ سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

کراچی میں یوم عاشور کا مرکزی جلوس نشترپارک سے برآمد ہو گا، جلوس سے قبل مرکزی مجلس سے علامہ شہنشاہ حسین نقوی خطاب کریں گے اور واقعہ کربلا میں امام حسین اور ان کے رفقا کی قربانی کی یاد تازہ کریں گے۔

بعد از  مجلس مرکزی جلوس نشترپارک سے بوتراب اسکاؤٹس کی قیادت میں برآمد ہو گا جو روایتی راستوں سے ہوتا ہوا کھارادر میں حسینیہ ایرانیان پر اختتام پزیر ہوگا، جلوس کے شرکاء تبت سینٹر پر علامہ شہنشاہ حسین نقوی کی اقتدا میں نماز ظہرین ادا کریں گے۔

سکیورٹی کے سخت انتظامات

جلوس کی گزرگاہ کی طرف آنے والی گلیاں اور سڑکیں کنٹینر لگا کر سیل کی گئی ہیں جبکہ گزرگاہ کی عمارتوں پر پولیس اور رینجرز کے اہلکار تعینات ہیں، جلوس کی گزرگاہ کو بم ڈسپوزل اسکواڈ سے سرچنگ کروائی جارہی ہے اور جلوس کی طرف آنے والے ٹریفک کو متبادل راستوں پر موڑا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ جلوس کی گزرگاہ پر موبائل فون سروس معطل ہے جبکہ اطراف کی عمارتوں پر ماہر نشانہ باز تعینات ہیں۔

ہزاروں پولیس اہلکار تعینات

کراچی میں یوم عاشور کے مرکزی جلوس کی نگرانی اور سکیورٹی کے لیے پولیس کے 6 ہزار سے زائد افسران و اہلکار تعینات ہیں۔

10 محرم الحرام کو شہر میں مجموعی طور پر 513 مجالس اور 281 جلوس برآمد ہوں گے، مجالس اور جلوس کی سکیورٹی کے لیے 12 ہزار 455 پولیس کے افسران و اہلکار تعینات ہیں، خواتین کمانڈوز، سینئر افسران، اسپیشل سکیورٹی یونٹ اور ریپڈ رسپانس فورس کے اہلکار تعینات ہیں، مرکزی جلوس کے راستوں اور گزرگاہوں پر 1000 سے زائد ٹریفک پولیس اہلکار بھی تعینات ہیں۔

لاہور میں بھی سکیورٹی کے سخت انتظامات

لاہور میں دسویں محرم کا مرکزی جلوس نثار حویلی اندرون موچی گیٹ سے رات گئے برآمد ہوا، جلوس برآمد ہونے قبل مجلس عزا ہوئی جس میں ذاکرین نے سوز و سلام پیش کیا اور حضرت امام حسینؓ اور آپ کے جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا، جلوس کے روٹ پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، جلوس کے اطراف میں موبائل فون سروس بھی بند ہے۔

لاہور کا مرکزی جلوس محلہ شیعاں، وزیرخان چوک، رنگ محل اور بھاٹی گیٹ سے ہوتا ہوا شام کو کربلا گامے شاہ پہنچ کر اختتام پزیر ہو گا۔

ملک کے مختلف شہروں میں بھی جلوس

کوئٹہ میں یوم عاشور کا مرکزی جلوس علمدار روڈ سے برآمد ہوا جبکہ راولپنڈی میں مرکزی جلوس تیلی محلہ امام بارگاہ عاشق حسین سے صبح 11 بجے برآمد ہو گا۔ اس کے علاوہ پشاور، سکھر اور گلگت بلتستان میں بھی جلوس نکالے جار ہے ہیں۔

لائیو سٹاک سیکٹر

پچھلے کئی برسوں میں لائیو سٹاک‘ ایگریکلچر کے سب سے بڑے سیکٹر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس سیکٹر کا 2021ء میں زرعی ویلیو ایڈیشن میں 60 فیصد اور جی ڈی پی میں 11 فیصد حصہ ہے۔ اگر لائیو سٹاک پروڈکشن کی بات کی جائے تو 8 ملین سے زائد خاندان اس کے ساتھ منسلک ہیں اور انکا ذریعہ معاش کا تقریباً 40 فیصد اسی سیکٹر سے ہے جبکہ مجموعی اضافی قیمت کو دیکھا جائے تو اس میں سال 2020-21ء میں 1461 بلین سے 1505 بلین روپے کا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جو لائیو سٹاک میں 3 فیصد تک اضافہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے معاشی ترقی‘ غربت کے خاتمے اور خوراک کے لئے اس سیکٹر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی ہے لیکن اس شعبے کی مجموعی ترقی کا دارومدار پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کا ملکر پالیسی سازی اور سازگار ماحول کے ترتیب دینے پر مشروط ہے۔ جانوروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے انتظامی امور‘ افزائش نسل‘ مصنوعی طریقے کے استعمال‘ بہتر خوراک کا استعمال اور مویشیوں کی بیماریوں کی روک تھام کے جدید طریقوں کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ لائیو سٹاک ایکسپورٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری سے متعلق مسائل کا حل نہایت ضروری ہے۔ اس کے لئے پروسیسنگ زون‘ پاؤں و منہ کی بیماریوں‘ جان لیوا انفلوانزا جیسی بیماریوں کی روک تھام بھی اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید مذبحہ خانے بنانے کے طرف توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
پیداواری صلاحیت بڑھانے کا دارومدار اچھے بریڈ پر ہے۔ اس لئے ایسی نسل جو پاکستان کی آب و ہوا میں اچھی پیداوار دے سکے اس کا چناؤ نہایت اہم ہے۔ اگر پاکستان میں لائیو سٹاک کی کل آبادی (جانوروں کی تعداد) کا جائزہ لیا جائے تو نیشنل فوڈ سکیورٹی اور ریسرچ منسٹری کے 2020-21ء کے اعدادو شمار کے مطابق گائے کی تعداد تقریباً 52 بلین کے قریب جبکہ بھینس 42 بلین‘ بھیڑ 32 بلین‘ بکری 80 بلین‘ اونٹ ایک بلین‘ گھوڑے 0.4 بلین جبکہ گدھے 5.6 اور خچر 0.2 بلین کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس طرح اگر دودھ کی پیداوار کو دیکھا جائے تو پاکستان میں 2019-20ء میں 61690 ٹن تھی جبکہ 2020-21ء میں یہ 63684 ٹن ہے جبکہ دودھ کی ویلیو چین ایڈیشن کا جائزہ لیا جائے تو 50 فیصد مارکیٹ میں آتا ہے جبکہ باقی 50 فیصد گھر پر استعمال ہو جاتا ہے اور گوشت کی پیداوار 2020-21ء میں 4955 ٹن ہے۔ جس میں بیف 2380 ٹن‘ مٹن 765 اور پولٹری کی پیداوار 1809 ٹن ہے۔ تاہم فی کس آمدنی میں اضافہ میٹروپولیٹن میں سپر مارکیٹ کی ترقی اور تجارتی لبرلائزیشن مویشیوں کی مصنوعات کی ویلیو چین کو اپ گریڈ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
پروسیس شدہ دودھ اور گوشت کی سپلائی اور سپر مارکیٹ میں ان کی بائی پروڈکٹ تیزی سے صارفین کی توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ لائیو سٹاک سے منسلک دوسری پروڈکشن کا جائزہ لیا جائے تو انڈے‘ کھال‘ ہڈیاں‘ اون‘ بال‘ آنتیں‘ سینگ کے علاوہ اس کا فضلہ جو دوسری انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے اس میں چکنائی‘ گوبر‘ بطخ اور بطخ کا فضلہ بھی شامل ہے جو کسی نہ کسی صورت میں ملکی معیشت میں اپنی حصہ ڈالتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے ملک کی لائیو سٹاک پروڈکشن اور سٹینڈرڈ قائم رکھنے کے لئے پروڈکشن پروسیس کی بنیاد اچھے لائیو سٹاک پروڈکٹ کی پروموشن کے ذریعے کرتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں پروڈکشن پروسیس روایتی طریقہ کار پر مشتمل ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور لائیو سٹاک کی پیداوار یا آبادی کو زراعت ہی سپورٹ کرتی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام بنیادی ضروریات ہمارے ملک میں موجود ہیں جو اس سیکٹر کی ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لائیو سٹاک سیکٹر کی ترقی کے لئے ایک قوم کے طور پر کام کیا جائے اور تمام صوبے ملکر کام کریں جبکہ ویلیو چین ایڈیشن کی طرف پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پروسیسنگ یونٹ کی طرف توجہ دی جائے اور نئی مارکیٹ تلاش کی جائیں جہاں لائیو سٹاک پروڈکشن اور بائی پروڈکٹ ایکسپورٹ کرکے ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ نیشنل لائیو سٹاک بریڈنگ پالیسی کی تشکیل کی اشد ضرورت ہے۔
(کالم نگار ممتازماہر تعلیم ہیں)
٭……٭……٭

یوم آزادی اور خون کانذرانہ

روہیل اکبر
اس 14اگست پرہم نے بھر پور طریقے سے آزادی کے مزے لیے رات کے12بجتے ہی ایسا شور شروع ہوا جو اگلے دن تک چلتا رہا کہیں باجے بجتے رہے تو کہیں گولیاں چلتی رہیں۔ ہر طرف ایک ہجوم تھا جو سڑکوں پر آزادی کے مزے لوٹ رہا تھا یہ صرف لاہور میں ہی نہیں ہوا بلکہ پاکستان بھر میں آزادی کا شور برپا رہا میری نظر میں سب سے اچھی جشن آزادی لاہور واسا والوں نے منائی جنہوں نے نہ صرف خود خون کے عطیے دیے بلکہ شہریوں کو بھی ترغیب دی کہ وہ آئیں اور ہمارے ساتھ ملکر حقیقی معنوں میں آزادی کا جشن منائیں سب سے پہلے اپنا خون پیش کرنے والے وائس چیئرمین واسا شیخ امتیاز محمود اور منیجنگ ڈائریکٹرسید زاہد عزیز مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جن کے اس کام کی وجہ سے شہری بھی اپنا خون عطیہ کرتے رہے۔ پاکستان بینڈ باجے بجا کر یا شرلیاں پٹاخے چلا کر حاصل نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کیلیئے 25لاکھ سے زائد جانوں کا نذرانہ دیا گیا اور 3کروڑ افراد اپنا گھر اور سامان چھوڑ کر مشکل ترین حالات سے لڑتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے۔
ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان کے حصول کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں جوکہ بھلائی نہیں جا سکتیں خوش قسمتی سے آج بھی ہمارے ارد گرد ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا اور پھر خون کا دریا بھی دیکھا بھارت کی طرف سے ہمارے اپنوں کی لاشیں آرہی تھیں ایک ٹرین تو مکمل خون میں لت پت لاشوں سے بھری ہوئے جب لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو کیا قیامت کا منظر ہوگا اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے سیٹھ اختر سعید چشتی آج بھی لاہور میں اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ وہ جب لاشوں سے بھری ہوئی اس ٹرین کا ذکر کرتے ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ان سیکڑوں لاشوں کو میانی صاحب میں اجتماعی طور پر دفن کرکے اوپر درخت لگا کر اس جگہ جنازگاہ بنادی گئی اور آج جب ہم لمبے لمبے تُوتُرو لیے عجیب وغریب آوازیں نکالتے ہیں تو ان شہدا پر کیا گذرتی ہوگی اور ہماری وہ مائیں بہنیں جو راستے میں ہندو اور سکھ ہم سے چھین کرلے گئے تھے ان کا آج تک کوئی نام ونشان نہ مل سکا معصوم بچوں کو ہوا میں اچھال کر نیزے کی انیوں میں پرودیا جاتا تھا اس وقت ماں باپ پر کیا کیا قیامت بیتتی ہوگی۔
قیام پاکستان قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے کارکنوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر ہے مگرافسوس کہ ہم نے قائد اعظم کے اصولوں اور سیاسی نظریات کو فراموش کر دیا۔ دلفریب نعروں اورلچھے دار تقریریں کرنے والوں نے ہمیں خوب لوٹا اور پھر اسی لوٹ مار کے پیسے سے دنیا بھر میں جائیدادیں بنا ڈالیں۔ جب تک غریب کی جیب اور پیٹ خالی ر ہے گا قیام پاکستان کے مقاصد پورے نہیں ہو نگے یوم آزادی ہر سال ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے، دین اسلام کے نام پر حاصل ہونے والا پاک وطن تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ پاک سے معافی مانگیں اور آج پکا وعدہ کریں کہ اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے سنہری اصولوں پر چلتے ہوئے آئندہ ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ پیارے وطن پاکستان کی خدمت کریں گے پاکستان کو معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر اہم مسائل کا بھی سامنا ہے لیکن بانیئ پاکستان قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل کرکے ہم تمام پریشانیوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں قیام پاکستان کا مقصد انسان کو انسانوں کی غلامی سے نکالنا تھا تاکہ بندہ گان خدا اپنے تصورات کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور استحصال کی ہر صورت کا خاتمہ کرکے عوام کو ہر وہ سہولت فراہم کی جائے جو ان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے۔
پاکستان اللہ تعالی کی خاص نعمت ہے اور ملک کو جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا سامنا قومی یکجہتی اور قائداعظمؒ اور علامہ اقبال ؒکے افکار پر عمل کرکے ہی کیا جا سکتا ہے جشن آزادی منانے کا مقصد قیام پاکستان کی جدوجہد میں جانیں قربان کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے اور ہم تحریک پاکستان کے شہداء کی بے مثال قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں ہم تحریک آزادی کے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے خود تکلیفیں اٹھا کر ہمارے لئے یہ وطن حاصل کیا انہوں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا اب یہ ہماری اور خاص طور پر نوجوان نسل کی ذمہ داری ہے کہ اس آزادی کو ہمیشہ قائم ودائم رکھیں اور وطن عزیز کی سلامتی، عزت ووقار اور ترقی کیلئے خلوص نیت، بلند حوصلہ اور جذبہ حْب الوطنی کے ساتھ مصروف عمل رہیں کیونکہ اللہ رب العزت کی عطاء کردہ نعمتوں میں آزادی کی نعمت وہ عظیم سرمایہ ہے جس کی قدر و قیمت وہ غلام اور محکوم قومیں ہی جان سکتی ہیں جن کی آزادی بزور طاقت سلب کی گئی ہو مملکت خداداد پاکستان جس کی تحریک آزادی میں ہمارے بزرگوں، مرد و خواتین اور بچوں نے اپنے لہو کا نذرانہ پیش کیا اور آج ان کی اس عظیم قربانی کی بدولت ہم ایک آزاد ملک کی آزاد فضاؤں میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں لہٰذا ہمیں اللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس عزم کی دوبارہ تجدید کرنیکی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ملک کی بقا، سالمیت اور ترقی کے لئے شب و روز محنت کرکے اس ملک کو امن و خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے خاص کر تحریک پاکستان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، امجدی بانو بیگم، تصدق حسین اور ان جیسی سینکڑوں خواتین کا کردار بہت نمایاں ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں پاکستان کے لئے وقف کیں۔ ان خواتین میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا آج کی خواتین بھی پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ خواتین پاکستان کی نصف آبادی ہیں جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اپنی بھرپور صلاحیتوں سے کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں دیگر شعبوں کی طرح بزنس میں بھی خواتین اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے میں پیش پیش ہیں ہرپاکستانی کو اس کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرناچاہیے تب ہی ہم اپنی منزل تک پہنچ پائیں گے۔ اس یوم آزادی پر پنجاب حکومت کے احسن اقدامات کی وجہ سے بہت سے خاندان مشکلات اور پریشانیوں سے بچ گئے کیونکہ اس بار ویلروں اور ہلڑ بازی کرنے والوں پر مختلف محکموں کی نظریں تھیں جنہوں نے بہت خوبصورتی سے اپنا کام کیا۔
(کالم نگارسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

حسینؓ تہذیب وشرافت کانام ہے

قسور سعید مرزا
جہاں مُحبت و عشق ہے وہاں ایثار و قربانی لازم و ملزوم ہے۔ محبت آزمائی جاتی ہے۔ عشق رنگ چڑھاتا ہے، جب رنگ چڑھتا ہے تو رقص بھی آتا ہے۔ آتش نمرود میں عشق نے چھلانگ لگائی تھی مگر ربِ کریم نے اس قربانی کی تکمیل نہ ہونے دی اور آگ کو حکم دیا گیا کہ…… ”اے آگ ٹھنڈی ہو جا سلامتی کے ساتھ ابراہیم علیہِ السلام پر……“ حضرت اسماعیل ؑذبیح اللہ کو بچا لیا جاتا ہے اور جب پٹی کھولی جاتی ہے تو دنبہ موجود ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ فرعونی یلغار سے بچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے لیکن آپ کو آسمان پر اُٹھا لیا جاتا ہے۔ نبیوں نے قربانیاں دی ہیں اور ہمارے نبی پاکؐ نے بھی قربانی دی ہے مگر فرق یہ تھا کہ جتنے انبیاء نے بھی قربانی دی وہ انفرادی قربانی تھی یا انفرادی جہاد تھا مگر شخص واحد کا اگر جہاد اجتماعی تھا تو یہ سعادت اور شرف اللہ تعالیٰ نے صرف سیدنا کریم کو عطا کیا۔ آپ کے نواسوں کو بخشا۔ جن کے قافلے میں سب سے چھوٹا محض چھ ماہ کا تھا اوران کی خادمہ اور غلام جناب بی بی فضہ سلام اللہ علیہابھی ستّر برس کی تھیں۔ جب تک عظمت رسولؐ کو نہیں مانا جائے گا تو عظمت اہل بیت سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ اگر دل میں اہل بیت کی محبت نہیں ہے تو انجام مشکوک ہے۔ نبی پاکؐ کی احادیث مبارکہ کو زندہ کر کے دکھانا مقصود تھا۔ یہ کسی اور خانوادے کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ بہت پاکیزہ فعل تھا۔ اس کو صرف پاکیزہ نفس ہی اداکر سکتے تھے۔ جناب حضرت ابراہیم ؑکی آگ روک دی گئی۔ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ دنبہ جنت سے بھیج دیا گیا۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو بچا لیا گیا۔ حضرت عیسیٰ کو اُٹھا لیا گیا تو آخر آپ ؐ کے نواسوں کو کیوں نہیں بچایا گیا؟ دراصل یہ عاشق اور معشوق کے درمیان ایک رَمز ہے۔
معشوق عاشق کو آزماتا ہے۔ محبوب اپنے مُحب کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ آزمائش ہر شخص کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے، جب باتیں راز کی ہوں تو ہر شخص اپنی استطاعت، توفیق، عقل اور سمجھ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ لب جن کو نبی پاکؐ بوسہ دیتے تھے،بھلا اندازہ کریں کتنے متبرک ہوں گے اور جب نواسہ رسولؐ نماز میں پیٹھ مبارک پر سوار ہوئے تو حضرت جبرائیل کہہ رہے تھے کہ…… ”سجدہ لمبا کیجئے حسینؑ آپؐ کی پیٹھ پر ہیں۔“ نبی پاکؐ نے پہلے بتا دیا تھا کہ میری اُمت یہ ظلم کرے گی اور یہ کن کے بیٹے تھے کہ جنہوں نے خود کو مَولا نہیں کہا تھا نبی پاکؐ کا ارشادِ مبارک تھا کہ جس کا میں ؐ مَولا اُس کا علیؑ مُولا۔ اِسی طرح نبی پاکؐ کا جُوٹھا پینا اور بات ہے لیکن نبی پاکؐ کے کاندھوں پر سوار ہونا عطائے خداوندی ہے۔ اسی طرح مومن اور امیر المومنین ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنتی ہونا اور بات ہے اور جنت کا سردار ہونا اور منزل ہے۔ سَر تن سے جدا ہو اور بولتا ہو، تلاوت کرتا رہے کیا انسانی تاریخ میں ایسا معجزہ اور بھی ہے؟ سَر کٹ گیا، مزاج نہ بدلا۔ اے حافظو! بتاؤ قرآن کون ہے؟ ماں کی طہارت کا اصل بول رہا تھا۔ جو زبان مبارکؐ چوسی گئی تھی یہ اُس کا کرشمہ ظاہر ہو رہا تھا۔ صاف گوئی اور گُستاخی جڑواں بہنیں ہیں۔ یہ ایک ہی انداز رکھتی ہیں۔ حقائق کو سامنے لانا ہو تو صاف گوئی ہے۔ بزرگوں اور شریفوں کے منہ آنا ہو تو گستاخی کہلائی جائے گی۔ جملے کا نہیں لہجے کا فرق ہوتا ہے۔ کربلا قیامت تک پوری دنیا پر محیط ہے۔ کربلا صرف میدانِ کربلا کے چند سو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی جگہ کا نام نہیں۔ جو آج دنیائے استکبار و ظلم اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی ہے۔ اس تحریک کربلا سے سو عنوان اور سو باب اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک باب، ایک قوم، ایک پوری تاریخ، ایک ملک، ذاتی تربیت، معاشرتی اصلاح اور قرب خدا کے لیے اپنی جگہ ایک مکمل درس کی حیثیت رکھتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ…… ”پیارے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں اپنے رَب ہونے کو ظاہر ہی نہ کرتا……“ ایک اور حدیث قدسی ملاحظہ فرمایئے کہ…… ”اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا تو دُنیا ہی نہ بناتا……“ …… تو ایسی ہستی جب یہ فرمائے کہ ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ……“ تو اس فرمان عالی شان کی موجودگی میں کوئی شخص امام عالی مقامؓ کا ہم مرتبہ ہو سکتا ہے؟۔ راز کربلا یہ ہی ہے کہ شہادت امام حسینؓ دراصل شہادت نبی پاکؐ ہے۔ خونِ حسین دراصل توہین رسالتؐ ہے۔ کربلا کے اندر بظاہر سب ایمان والے ہیں لیکن سب عشق والے نہیں ہیں۔ یزیدیت بھی محو نماز تھی اور حسینیت بھی محو نماز ہے۔ ایک جانب خالی ایمان والوں کی نماز ہے جو ظلم کرکے نماز پڑھ رہے ہیں، دوسری جانب عشق والوں کی نماز ہے جو اپنے خون میں نہا کر رکوع اور سجود میں ہیں جو اپنے خون میں نہا کر نماز ادا کر رہے ہیں۔
؎ حَرم رُسوا ہوا اہلِ حَرم کی کم نگاہی سے
عشق والے خود مُشکل کشا ہیں مگر یہ مُشکل کشائی اپنی ذاتی کے لئے نہیں کرتے۔ تسلیم و رضا والے اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں حالانکہ وہ خود کُن فیکوں کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں لیکن راز افشاء نہیں کرتے۔ دوست کا بھید ظاہر نہیں کرتے خود اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔ مگر حقیقی اور قلبی ساری کامیابیوں کا سہرا شہید کے سر ہوتا ہے۔ خود جان دے کر قوم کو زندہ کر جاتا ہے۔ آپ نبی پاکؐ کو شہادتوں کے دونوں شرف حاصل ہوئے۔ شہادت سرّی حضرت حسنؓ کی شہادت کی صورت میں اور شہادتِ جہری حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی صورت میں …… حسنین کریمین کی شہادتیں نبی پاکؐ کی شہادتیں ہیں۔ اسی طرح اِن کے قاتل آپ سرکار والاؐ کے قاتل ہیں۔ اگر امام حسینؓ بیعت یزید کر لیتے تو یہ امام حسینؓ کی بیعت نہ ہوتی بلکہ نبی پاکؐ کی بیعت کہلاتی۔ واقعہ کربلا آدھے دن یا اس سے تھوڑی سی زیادہ مدت پر محیط ہے لیکن واقعہ کربلا نے اپنی مختصر مدت اور شہداء کی چھوٹی جماعت کے ساتھ اتنی عظمت حاصل کی بلکہ یہ حقیقت اس سے بھی زیادہ عظیم ہے۔ کیونکہ اس واقعہ نے وجودِ بشر کی گہرائیوں میں نفوذ کیا ہے اور ایسا صرف اور صرف اس واقعہ کی رُوح کی وجہ سے ہے۔ واقعہ کربلا کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ امام عالی مقام ایک لشکر یا انسانوں کے ایک گروہ کے مدمقابل نہیں تھے بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مدمقابل کھڑے تھے۔ اس واقعہ کی عظمت کا پہلو یہ ہی ہے کہ اس میں خالصتاً اللہ ہی کے لئے قیام کیا گیا تھا۔ امام عالی مقام نے شب عاشور فرمایا کہ…… ”آپ سب چلے جایئے۔ یہاں کوئی نہ رہے۔ میں اپنی بیعت تم سَب سے اُٹھا لیتا ہوں کیونکہ یہ لوگ صرف میرے خون کے پیاسے ہیں ……“ یہ امام عالی مقام کے کام کی عظمت تھی کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافتِ رسول کے مُدعی اور انحراف کے پورے ایک جہان کو قبول نہیں کیا۔ جو نبی پاکؐ کے کندھوں پر سوار ہوتے تھے اُن کو نیزوں سے گرا دیا گیا۔ جن ہستیوں کی وجہ سے پردہ قائم کیا گیا تھا اُنہیں بازار میں پھرایا گیا۔ حُسنِ ازل نے ہمیشہ عشق ہی کو اپنی اداؤں کا تختہِ مشق بنایا ہے۔ رکوع میں انکسار اور سجدہ میں دیدار عشق کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
؎ صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صَبر حسین بھی ہے عشق
معرکہئ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
ناناؐ رحمت عالم…… نواسہ رہبر عالم…… لیکن ہوا کیا…… ہوا یہ کہ جب جب یزیدیت سر اُٹھائے گی، عزم حسینؓ رہنما ہوگا کیونکہ اس شجر کی آب یاری خون پاک سے ہوئی ہے۔ شہادت نیکی کی حد ہے۔ شہادت ناز کا مُقام ہے۔ شہادت کا نشہ اذیت پر غَالب ہوتا ہے۔ حُسین ایک مِلت ہے۔ حسین صدائے انقلاب ہے جو ہر دور میں بلند ہوتی رہے گی۔ حسینؓ ایک تہذیب کا نام ہے۔ حسین شرافت کا معیار ہے۔ حسینؓ ایک آفاقی پیغام ہے۔ حسین ایک مذہب ہے جو ہمیشہ طاغوتی طاقتوں سے ٹکرانا سکھاتا رہے گا۔ حسین ایک سیاست کا نام ہے جو کسی قیمت پر اصولوں پر سودے بازی نہیں سکھاتی۔
؎ دُنیا کے سب یزید اِسی غم میں مر گئے
سر مِل گیا حُسین کا بیعت نہیں مِلی
فرشتو! سلام بھیجو اُس شرفِ آدم پر جس نے پھر سے آدم کی عظمت کا راز پیش کر دیا۔ ستارو سلام بھیجو اُس ہستی پر کہ جس کی نیکیاں تم سے زیادہ ہیں۔ اور یزید تو اسلام کی مقدس پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ دین کی پاک چادر پر ایک سیاہ دَھبہ ہے۔ مذہب کے نورانی ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جس نے امانتِ الیہہ میں خیانت کی اِس کو امام حسینؓ کے بالمقابل کھڑا کرنا ہی دین کی توہین ہے۔ مِٹی کو عالمِ بالا سے کیا نسبت۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭

مسلم کانفرنس اورآزادکشمیر کے انتخابات

وزیر احمد جوگیزئی
انگریز بر صغیر سے جاتے جاتے ہندوستان کو تقسیم تو کر گئے لیکن نئے بننے والے دونوں آزاد ممالک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کا قضیہ ضرور چھوڑ گئے۔اس مسئلہ کے باعث دنوں ملکوں کی گزشتہ 74سالوں سے اسی مسئلہ کی بنیاد پردشمنی آج تک چلی آرہی ہے دونوں ملکوں نے تین جنگیں لڑیں اور خطے کا امن تباہ ہو گیا۔اور کم از کم پاکستان اور کشمیر میں جمہوریت بھی اس لڑائی کے باعث اس جگہ تک نہ پہنچ سکی جس تک اسے پہنچنا چاہیے تھا۔دوسرے الفاظ میں جمہوریت پاکستان میں عروج حاصل نہ کر سکی جو کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔میں اس جمہوریت کی بات کر رہا ہوں جس کا اشارہ علامہ اقبا ل نے اپنے خطابات میں اور اپنے مضا مین میں کیا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت وہ آئیگی جو کہ مسلم دنیا کے چہرے پر آمرانہ دور کے لگے ہوئے داغ ہٹا دے گی۔لیکن بد قسمتی سے نہ تو ہم ملک میں وہ جمہوریت لا سکے جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے کی تھی اور نہ ہی عالمی سطح پر درست انداز میں کشمیریوں کی نمائندگی کر سکے اور نہ ہی ان کی آواز بن سکے۔
حال ہی میں آزاد جموں کشمیر میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔اور بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے ان انتخابات میں اور اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں کسی نے مقبوضہ کشمیر کے دکھ کی بات نہیں کی بلکہ پاکستا ن کی سیاست کوکشمیر پہنچا دیا گیا جو کہ کشمیر کے مفاد کے حق میں نہیں ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان انتخابات میں سیاسی مہم کا مرکز ہو تا ہی کشمیر کو درپیش مسئلہ کا حل ہو تا۔اس حوالے سے کوئی علاج کوئی تجاویز پیش کی جاتیں،لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا،ان انتخابات میں پیپلز پا رٹی کا اپنا بیانیہ تھا۔مسلم لیگ ن کا اپنا بیانیہ تھا اور پاکستان تحریک انصاف کا تو انداز ہی نرالہ تھا۔ان تینوں آوازوں میں اور ان تینوں جماعتوں کے جلسوں میں پاکستان کی سیاست تو نمایاں تھی لیکن کشمیر کا مسئلہ غائب تھا اور ان جلسوں میں کشمیر کے مسئلہ کے حل کے حوالے سے نہ تو کوئی بات چیت کی گئی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پروگرام مرتب کیا گیا۔اگر واقعی کشمیر کازسے ہماری سیاسی جماعتیں ہمدردی رکھتی ہیں تو انہیں وہاں پر اپنے مسائل سے باہر نکل کر کشمیریوں کے ساتھ مل کر یک آواز ہو کر کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے بات کرنی چاہیے تھی اور اس آواز پر کشمیر کے الیکشن لڑے جانے چاہئیں تھے میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آزاد جموں کشمیر کا ایک اپنا سیاسی ایجنڈا ہونا چاہیے جو کہ خالصتا ً کشمیری ہو،اور کشمیر یوں کی جانب سے مرتب کیا جائے۔یہ ماننا پڑے گا کہ الیکشن میں تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے میدان میں اتارے گئے تمام امید وار کشمیری ہی تھے اور کشمیر کے پرانے سیاسی کارکنوں کے ساتھ ساتھ کئی نوجوان اور نئے چہرے بھی سیاسی میدان میں اترے لیکن یہ امید وار کشمیریوں کے لیے مسلم کانفرنس یا اس جیسی آواز نہیں بن سکتے ہیں۔ مسلم کانفرنس کشمیر کی اپنی جماعت تھی جس کو کہ حقیقی طور پر کشمیر کی نمائندہ جماعت کہا جاتا تھا اور یہ جماعت انتخابی میدان میں کشمیر کی آواز اور کشمیر کا پروگرام لے کر اترتی تھی لیکن آہستہ آہستہ پاکستان کی سیاست حاوی ہو تی گئی پیپلز پا رٹی یا ن لیگ کی آوازیں یا پھر پاکستان تحریک انصاف کا انداز کشمیر اور کشمیریوں کے مسائل کا مداوا نہیں کر سکتا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ جب بھی کشمیر میں الیکشن ہو ئے ہیں لا محالہ اسلام آباد ان انتخابات پر اثر انداز ہو تا آیا ہے اور مظفر آباد میں اسلام آباد کی پسند کی حکومتیں بر سر اقتدار آتی رہی ہیں۔کشمیر میں الیکشن قومی انتخابات کے ساتھ ہی منعقد کروانا چاہیے تاکہ کشمیر میں جو بھی حکومت بنے وہ حکومت اسلام آباد کی حکومت کے ساتھ ہی اپنے پانچ سال پورے کرے۔یہ بات تو طے ہے کہ جنگ و جدل کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکالا جاسکتا ہے،اور نہ ہی آج تک نکلا ہے پاکستان اور بھارت نے اس مسئلہ پر تین جنگیں لڑیں ہیں لیکن سوائے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے وعلاوہ اور کچھ نہیں کر سکیں ہیں۔اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک بہت ہی بہترین سفارت کاری کی ضرورت ہے اور اس کا ایک موقع اس خطے اور دنیا کو مل رہا ہے اور وہ موقع افغانستان میں طالبان کی دورباہ آمد ہے۔
طالبان پہلے بھی افغانستان اور دنیا میں ایک اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔اور اس مرتبہ تو حالات پہلے کی نسبت بہت مختلف ہیں۔ان کو پہلے سے کہیں زیادہ بین الا اقوامی تائید بھی حاصل ہے۔ہمیں افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں خطے کے تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ تمام ممالک کو ساتھ لے کر افغانستان کے امن اور ترقی کے لیے چلنے کی ضرورت ہے۔اور اس عمل میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے،ایران،روس اور چین کا بھی اس حوالے سے اہم ترین کردار ہو گا۔اور اگر تمام علاقائی ممالک ایک علاقائی اپروچ کے ساتھ چلیں تو عین ممکن ہے کہ افغانستان کے علاوہ کشمیر کے مسئلہ کا بھی کوئی حل بات چیت کے ذریعے نکالا جاسکے۔یقینا ڈاکٹر محمد علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا تھا۔اور اگر اس دل میں سکون ہو گا تو ہی ایشیا میں بھی سکون ہو گا۔اور اگر افغانستان میں امن کو اپنا قومی فریضہ سمجھ کر کام کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ جو اس خطے میں مشکل حالات پیدا ہو ئے ہیں ان کا کو ئی دیر پا حل نکل آئے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭

سرائیکی خطے کا درد اور مرثیہ گوئی

قرآن پاک بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کلام اترا تو عرب سرزمین پر لیکن اہل مصر نے قرآن پڑھنے کا حق ادا کیا۔آج بھی جب مصری قاری کلام الہی کی تلاوت کرتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ابھی دلوں پر اتر رہا ہو۔ اسی طرح سانحہ کربلا کا غم دنیا کے ہر خطے، ہر زبان میں منایا جاتا ہے لیکن دکھ،کرب اور غم کا جو اظہار سرائیکی زبان اور سرائیکی خطے میں پایا جاتا ہے وہ کسی علاقے یا زبان میں نہیں۔ آج بھی عزاداری امام حسینؓ کے دو بڑے مراکز لکھنؤ اور ملتان ہیں لیکن جو (وینڑبَین)اور آہ وزاری سرائیکی مرثیہ میں ہے وہ لکھنؤی اردو میں بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں جہاں بھی مرثیہ گوئی کی جاتی ہے وہاں دیگر زبانوں کے ساتھ سرائیکی مرثیہ کو بھی بطور خاص نا صرف پڑھا بلکہ بے حد پسند بھی کیا جاتا ہے۔
اصناف ادب کا زبانوں کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غزل اور قصیدہ گوئی فارسی زبان کا خاصہ ہے۔ فن تنقید اور ڈراما انگریزی زبان کی طرف سے آیا جو باقی تمام زبانوں نے بھی اپنا لیا۔ اسی طرح مرثیہ بنیادی طور پر عرب کی پیداوار ہے جو آج تقریباً ہر زبان میں پایا جاتا ہے لیکن مرثیہ کی بنیادی روح سرائیکی خطے کے قریب تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں پڑھا جانے والا مرثیہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔
عمومی طور پر مرثیہ کے دو حصے ہیں۔ ایک مرثیہ جس میں واقعات کربلا اور غم اہلبیت رضی شامل ہو۔ اور دوسرا شخصی مرثیہ جو کسی بڑے شخص یا ہیرو قرار دئیے گئے فرد کے کارنامے اور وفات پر مشتمل ہوتا ہے۔ عمومی طور پر 8 چیزیں مرثیہ کے اجزائے ترکیبی سمجھی جاتی ہیں۔1 چہرہ، 2 سراپا، 3 رخصت، 4آمد، 5 رجز، 6 جنگ، 7 شہادت (وفات)اور 8 بین۔
مکمل مرثیہ انہی 8 اجزا پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اپنے ممدوح کے حُسن و جمال،اس کے سراپا،اس کی خصوصیات، اس کی محبت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور پھر ایک بڑے مقصد کے لیے اسے جانا ہوتا ہے۔ اس کی رخصت یا ہجرت کرب کے لمحے ہوتے ہیں۔ اہل خانہ و احباب سے آخری ملاقات، اس موقع پر دل چیرنے والے جذباتی مناظر، آخرکار میدان کارزار کو روانگی سے مرثیہ کی بنیادی ہئیت ترتیب پاتی ہے۔میدان عمل میں کارنامے اور آخر کار اپنی جان اس اعلیٰ ٰمقصد کے لیے قربان کر دینے کو منظوم شکل دینا مرثیہ ہے۔
امام عالی مقام امام حسین ؓکی دین اسلام کیلئے میدان کربلا میں دی گئی عظیم قربانی پوری انسانیت کیلئے اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے ادبی صنف مرثیہ بھی بنیادی طور پر اس عظیم واقعہ کیلئے مختص ہو گیا ہے۔ سرائیکی مرثیہ میں جب داستان کربلا کا ذکر کیا جاتا ہے تو کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ کسی الگ زبان یا کسی دوسرے خطے میں وقوع پذیر ہوا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس کی اپنی مٹی کی کہانی ہے۔کربلا میں امام حسینؓ کے پیروکاروں پر پانی بند کیا گیا اور ہر طرف سے”العطش، العطش”کی صدائیں آرہی تھیں۔ اب اس پیاس کو وہی بہتر سمجھ سکتا ہے جو خود اس کیفیت سے گزرا ہو۔اب چولستان کے باسیوں سے بڑھ کر ”العطش“ کو کون سمجھ سکتا ہے جو پانی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور بے آب و گیاہ ریگستان میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ہفتوں بعد گزرنے والے روہیلوں کو ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ ہجرت و رخصت کے کرب کو اس خطے کے باسیوں سے بہتر کون جان سکتا ہے جو تلاش روزگار کیلئے اپنی مٹی کو الوداع کہتے ہیں۔ غرض سرائیکی خطہ اپنے اندر بے پناہ درد سمیٹے ہوئے ہے جو ظلم و استحصال کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی طربیہ شاعری بھی حزن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں کے گلوکاروں کی خوشی کی لَے بھی آخر میں جا کر چیخ میں بدل جاتی ہے اور جب کربلا جیسے بڑے سانحے کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہاں کے وینڑ درد کی وہ انتہا لئے ہوتے ہیں جس کی نظیر کسی زبان میں نہیں ملتی۔اسی وجہ سے شمیم عارف قریشی نے کہا
انہاں کربل والے سیّداں کوں
کوئی ساڈے وانگ تاں رو ڈیکھے
اس تحریر کا اختتام میں خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن شریف کے ان دو اشعار پر کرنا چاہوں گا جن میں درد کے ساتھ ڈھارس بھی ہے۔
دل درد تو ماندی نا تھی
درد جگر ایویں ہوندن
ویسن گزر، اصلو نہ ڈر
ظلم و قہر ایویں ہوندن
عشاق دے سالار و سر
کربل دے غازیاں دے صدر
مرسل محمد دے پسر
جان و جگر ایویں ہوندن
اے دل ان دکھوں سے مت گھبرا، مانا کہ جگر چیرنے والے یہ درد واقعی اذیت ناک ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسا نہیں جس کا اختتام نا ہو، ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ ظلم وقہر بھی ختم ہو جائیں گے۔عشقِ الٰہی میں قربانی کی انتہا دیکھنی ہے تو امیر شہدائے کربلا امام حسینؓ کو دیکھو جنہوں نے راہ خدا میں پورا گھرانہ قربان کر دیا اور ایسا وصف پیغمبر محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لخت جگر کا ہی ہو سکتا ہے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭

طالبان کی باتوں پر یقین نہیں، دیکھیں گے جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل کب ہوتا ہے: امریکا

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہےکہ طالبان کی باتوں پر یقین نہیں، جو کہہ رہے ہیں اس پر عمل کب ہوتا ہے؟ یہ دیکھیں گے۔ 

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے بریفنگ میں کہا کہ امید ہے طالبان انسانی حقوق سے متعلق کیے گئے نئے وعدوں کی پاسداری کریں گے، اگرطالبان کہتے ہیں کہ وہ شہریوں کے حقوق کا احترام کریں گے تو امید کرتے ہیں وہ اپنے بیان پر ثابت قدم رہیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ باتوں پر یقین نہیں، جو کہا جارہا ہے اس پر عمل کب ہوتاہے؟ دیکھیں گے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں بریفنگ دیتے ہوئے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا سوال قبل از وقت ہے، طالبان کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں رہا، طالبان کے طرز عمل پر منحصر ہوگا کہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ کون ہیں اور کیسے آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟

مشیر قومی سلامتی نے تسلیم کیا کہ طالبان نے امریکی اسلحے اور آلات کے بڑے ذخیرے پر قبضہ کر لیا ہے، احساس ہے طالبان یہ ساز و سامان آسانی سے واپس نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکی صدر نے کسی عالمی رہنما سے بات نہیں کی۔

’آزادی افغان قوم کا حق تھا اور 20 سال بعد اسے حاصل کیا‘

گزشتہ روز  طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پہلی بار ملکی و غیر ملکی میڈیا کے روبرو پریس کانفرنس میں افغانستان میں جلد سیاسی حکومت کی تشکیل اور ہر خاص و عام کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پہلی بار منظر عام پر آئے اور کابل میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، آزادی افغان قوم کا حق تھا اور 20 سال بعد اسے حاصل کیا۔

’اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین کوکام کرنے کی اجازت ہوگی‘

خواتین کے کام کرنے سے متعلق سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ خواتین ہمارے معاشرے کا معزز حصہ ہیں اور انہیں وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو دین نے دیے ہیں، اسلامی اصولوں کے مطابق خواتین کوکام کرنے کی اجازت ہوگی۔

ملا عبدالغنی برادر کی 20 سال بعد افغانستان آمد

طالبان کے سیاسی ونگ کے سربراہ اور نائب امیر ملاعبدالغنی برادر افغانستان پہنچ گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ملا عبدالغنی برادر 20سال بعد افغانستان پہنچے ہیں اور انہیں افغانستان میں طالبان کی ممکنہ حکومت میں اہم ذمہ داری سونپے جانےکا امکان ہے۔

افغانستان کی موجودہ صوتحال

خیال رہے کہ طالبان نے اتوار 15 اگست 2021 کو افغان دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کرلیا ہے جس کے بعد وہاں موجود امریکی فوجی اور افغان صدر اشرف غنی سمیت متعدد اہم حکومتی عہدے دار ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔

طالبان نے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا ہے اور عالمی برادری کو پیغام دیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔