تازہ تر ین

سرائیکی خطے کا درد اور مرثیہ گوئی

قرآن پاک بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کلام اترا تو عرب سرزمین پر لیکن اہل مصر نے قرآن پڑھنے کا حق ادا کیا۔آج بھی جب مصری قاری کلام الہی کی تلاوت کرتے ہیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ابھی دلوں پر اتر رہا ہو۔ اسی طرح سانحہ کربلا کا غم دنیا کے ہر خطے، ہر زبان میں منایا جاتا ہے لیکن دکھ،کرب اور غم کا جو اظہار سرائیکی زبان اور سرائیکی خطے میں پایا جاتا ہے وہ کسی علاقے یا زبان میں نہیں۔ آج بھی عزاداری امام حسینؓ کے دو بڑے مراکز لکھنؤ اور ملتان ہیں لیکن جو (وینڑبَین)اور آہ وزاری سرائیکی مرثیہ میں ہے وہ لکھنؤی اردو میں بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں جہاں بھی مرثیہ گوئی کی جاتی ہے وہاں دیگر زبانوں کے ساتھ سرائیکی مرثیہ کو بھی بطور خاص نا صرف پڑھا بلکہ بے حد پسند بھی کیا جاتا ہے۔
اصناف ادب کا زبانوں کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غزل اور قصیدہ گوئی فارسی زبان کا خاصہ ہے۔ فن تنقید اور ڈراما انگریزی زبان کی طرف سے آیا جو باقی تمام زبانوں نے بھی اپنا لیا۔ اسی طرح مرثیہ بنیادی طور پر عرب کی پیداوار ہے جو آج تقریباً ہر زبان میں پایا جاتا ہے لیکن مرثیہ کی بنیادی روح سرائیکی خطے کے قریب تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں پڑھا جانے والا مرثیہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔
عمومی طور پر مرثیہ کے دو حصے ہیں۔ ایک مرثیہ جس میں واقعات کربلا اور غم اہلبیت رضی شامل ہو۔ اور دوسرا شخصی مرثیہ جو کسی بڑے شخص یا ہیرو قرار دئیے گئے فرد کے کارنامے اور وفات پر مشتمل ہوتا ہے۔ عمومی طور پر 8 چیزیں مرثیہ کے اجزائے ترکیبی سمجھی جاتی ہیں۔1 چہرہ، 2 سراپا، 3 رخصت، 4آمد، 5 رجز، 6 جنگ، 7 شہادت (وفات)اور 8 بین۔
مکمل مرثیہ انہی 8 اجزا پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اپنے ممدوح کے حُسن و جمال،اس کے سراپا،اس کی خصوصیات، اس کی محبت کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اور پھر ایک بڑے مقصد کے لیے اسے جانا ہوتا ہے۔ اس کی رخصت یا ہجرت کرب کے لمحے ہوتے ہیں۔ اہل خانہ و احباب سے آخری ملاقات، اس موقع پر دل چیرنے والے جذباتی مناظر، آخرکار میدان کارزار کو روانگی سے مرثیہ کی بنیادی ہئیت ترتیب پاتی ہے۔میدان عمل میں کارنامے اور آخر کار اپنی جان اس اعلیٰ ٰمقصد کے لیے قربان کر دینے کو منظوم شکل دینا مرثیہ ہے۔
امام عالی مقام امام حسین ؓکی دین اسلام کیلئے میدان کربلا میں دی گئی عظیم قربانی پوری انسانیت کیلئے اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے ادبی صنف مرثیہ بھی بنیادی طور پر اس عظیم واقعہ کیلئے مختص ہو گیا ہے۔ سرائیکی مرثیہ میں جب داستان کربلا کا ذکر کیا جاتا ہے تو کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ واقعہ کسی الگ زبان یا کسی دوسرے خطے میں وقوع پذیر ہوا ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس کی اپنی مٹی کی کہانی ہے۔کربلا میں امام حسینؓ کے پیروکاروں پر پانی بند کیا گیا اور ہر طرف سے”العطش، العطش”کی صدائیں آرہی تھیں۔ اب اس پیاس کو وہی بہتر سمجھ سکتا ہے جو خود اس کیفیت سے گزرا ہو۔اب چولستان کے باسیوں سے بڑھ کر ”العطش“ کو کون سمجھ سکتا ہے جو پانی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور بے آب و گیاہ ریگستان میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ہفتوں بعد گزرنے والے روہیلوں کو ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ ہجرت و رخصت کے کرب کو اس خطے کے باسیوں سے بہتر کون جان سکتا ہے جو تلاش روزگار کیلئے اپنی مٹی کو الوداع کہتے ہیں۔ غرض سرائیکی خطہ اپنے اندر بے پناہ درد سمیٹے ہوئے ہے جو ظلم و استحصال کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی طربیہ شاعری بھی حزن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں کے گلوکاروں کی خوشی کی لَے بھی آخر میں جا کر چیخ میں بدل جاتی ہے اور جب کربلا جیسے بڑے سانحے کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہاں کے وینڑ درد کی وہ انتہا لئے ہوتے ہیں جس کی نظیر کسی زبان میں نہیں ملتی۔اسی وجہ سے شمیم عارف قریشی نے کہا
انہاں کربل والے سیّداں کوں
کوئی ساڈے وانگ تاں رو ڈیکھے
اس تحریر کا اختتام میں خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن شریف کے ان دو اشعار پر کرنا چاہوں گا جن میں درد کے ساتھ ڈھارس بھی ہے۔
دل درد تو ماندی نا تھی
درد جگر ایویں ہوندن
ویسن گزر، اصلو نہ ڈر
ظلم و قہر ایویں ہوندن
عشاق دے سالار و سر
کربل دے غازیاں دے صدر
مرسل محمد دے پسر
جان و جگر ایویں ہوندن
اے دل ان دکھوں سے مت گھبرا، مانا کہ جگر چیرنے والے یہ درد واقعی اذیت ناک ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسا نہیں جس کا اختتام نا ہو، ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ ظلم وقہر بھی ختم ہو جائیں گے۔عشقِ الٰہی میں قربانی کی انتہا دیکھنی ہے تو امیر شہدائے کربلا امام حسینؓ کو دیکھو جنہوں نے راہ خدا میں پورا گھرانہ قربان کر دیا اور ایسا وصف پیغمبر محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لخت جگر کا ہی ہو سکتا ہے۔
(کالم نگار قومی و سیاسی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain