تازہ تر ین

حسینؓ تہذیب وشرافت کانام ہے

قسور سعید مرزا
جہاں مُحبت و عشق ہے وہاں ایثار و قربانی لازم و ملزوم ہے۔ محبت آزمائی جاتی ہے۔ عشق رنگ چڑھاتا ہے، جب رنگ چڑھتا ہے تو رقص بھی آتا ہے۔ آتش نمرود میں عشق نے چھلانگ لگائی تھی مگر ربِ کریم نے اس قربانی کی تکمیل نہ ہونے دی اور آگ کو حکم دیا گیا کہ…… ”اے آگ ٹھنڈی ہو جا سلامتی کے ساتھ ابراہیم علیہِ السلام پر……“ حضرت اسماعیل ؑذبیح اللہ کو بچا لیا جاتا ہے اور جب پٹی کھولی جاتی ہے تو دنبہ موجود ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ فرعونی یلغار سے بچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے لیکن آپ کو آسمان پر اُٹھا لیا جاتا ہے۔ نبیوں نے قربانیاں دی ہیں اور ہمارے نبی پاکؐ نے بھی قربانی دی ہے مگر فرق یہ تھا کہ جتنے انبیاء نے بھی قربانی دی وہ انفرادی قربانی تھی یا انفرادی جہاد تھا مگر شخص واحد کا اگر جہاد اجتماعی تھا تو یہ سعادت اور شرف اللہ تعالیٰ نے صرف سیدنا کریم کو عطا کیا۔ آپ کے نواسوں کو بخشا۔ جن کے قافلے میں سب سے چھوٹا محض چھ ماہ کا تھا اوران کی خادمہ اور غلام جناب بی بی فضہ سلام اللہ علیہابھی ستّر برس کی تھیں۔ جب تک عظمت رسولؐ کو نہیں مانا جائے گا تو عظمت اہل بیت سے آگاہ نہیں ہو سکتے۔ اگر دل میں اہل بیت کی محبت نہیں ہے تو انجام مشکوک ہے۔ نبی پاکؐ کی احادیث مبارکہ کو زندہ کر کے دکھانا مقصود تھا۔ یہ کسی اور خانوادے کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ بہت پاکیزہ فعل تھا۔ اس کو صرف پاکیزہ نفس ہی اداکر سکتے تھے۔ جناب حضرت ابراہیم ؑکی آگ روک دی گئی۔ حضرت اسماعیل ؑکی جگہ دنبہ جنت سے بھیج دیا گیا۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کو بچا لیا گیا۔ حضرت عیسیٰ کو اُٹھا لیا گیا تو آخر آپ ؐ کے نواسوں کو کیوں نہیں بچایا گیا؟ دراصل یہ عاشق اور معشوق کے درمیان ایک رَمز ہے۔
معشوق عاشق کو آزماتا ہے۔ محبوب اپنے مُحب کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔ آزمائش ہر شخص کی حیثیت کے مطابق ہوتی ہے، جب باتیں راز کی ہوں تو ہر شخص اپنی استطاعت، توفیق، عقل اور سمجھ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ لب جن کو نبی پاکؐ بوسہ دیتے تھے،بھلا اندازہ کریں کتنے متبرک ہوں گے اور جب نواسہ رسولؐ نماز میں پیٹھ مبارک پر سوار ہوئے تو حضرت جبرائیل کہہ رہے تھے کہ…… ”سجدہ لمبا کیجئے حسینؑ آپؐ کی پیٹھ پر ہیں۔“ نبی پاکؐ نے پہلے بتا دیا تھا کہ میری اُمت یہ ظلم کرے گی اور یہ کن کے بیٹے تھے کہ جنہوں نے خود کو مَولا نہیں کہا تھا نبی پاکؐ کا ارشادِ مبارک تھا کہ جس کا میں ؐ مَولا اُس کا علیؑ مُولا۔ اِسی طرح نبی پاکؐ کا جُوٹھا پینا اور بات ہے لیکن نبی پاکؐ کے کاندھوں پر سوار ہونا عطائے خداوندی ہے۔ اسی طرح مومن اور امیر المومنین ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنتی ہونا اور بات ہے اور جنت کا سردار ہونا اور منزل ہے۔ سَر تن سے جدا ہو اور بولتا ہو، تلاوت کرتا رہے کیا انسانی تاریخ میں ایسا معجزہ اور بھی ہے؟ سَر کٹ گیا، مزاج نہ بدلا۔ اے حافظو! بتاؤ قرآن کون ہے؟ ماں کی طہارت کا اصل بول رہا تھا۔ جو زبان مبارکؐ چوسی گئی تھی یہ اُس کا کرشمہ ظاہر ہو رہا تھا۔ صاف گوئی اور گُستاخی جڑواں بہنیں ہیں۔ یہ ایک ہی انداز رکھتی ہیں۔ حقائق کو سامنے لانا ہو تو صاف گوئی ہے۔ بزرگوں اور شریفوں کے منہ آنا ہو تو گستاخی کہلائی جائے گی۔ جملے کا نہیں لہجے کا فرق ہوتا ہے۔ کربلا قیامت تک پوری دنیا پر محیط ہے۔ کربلا صرف میدانِ کربلا کے چند سو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی جگہ کا نام نہیں۔ جو آج دنیائے استکبار و ظلم اسلامی جمہوریہ کے سامنے کھڑی ہے۔ اس تحریک کربلا سے سو عنوان اور سو باب اخذ کئے جا سکتے ہیں کہ جن میں سے ہر ایک باب، ایک قوم، ایک پوری تاریخ، ایک ملک، ذاتی تربیت، معاشرتی اصلاح اور قرب خدا کے لیے اپنی جگہ ایک مکمل درس کی حیثیت رکھتا ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ…… ”پیارے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں اپنے رَب ہونے کو ظاہر ہی نہ کرتا……“ ایک اور حدیث قدسی ملاحظہ فرمایئے کہ…… ”اگر میں تم کو پیدا نہ کرتا تو دُنیا ہی نہ بناتا……“ …… تو ایسی ہستی جب یہ فرمائے کہ ”حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ……“ تو اس فرمان عالی شان کی موجودگی میں کوئی شخص امام عالی مقامؓ کا ہم مرتبہ ہو سکتا ہے؟۔ راز کربلا یہ ہی ہے کہ شہادت امام حسینؓ دراصل شہادت نبی پاکؐ ہے۔ خونِ حسین دراصل توہین رسالتؐ ہے۔ کربلا کے اندر بظاہر سب ایمان والے ہیں لیکن سب عشق والے نہیں ہیں۔ یزیدیت بھی محو نماز تھی اور حسینیت بھی محو نماز ہے۔ ایک جانب خالی ایمان والوں کی نماز ہے جو ظلم کرکے نماز پڑھ رہے ہیں، دوسری جانب عشق والوں کی نماز ہے جو اپنے خون میں نہا کر رکوع اور سجود میں ہیں جو اپنے خون میں نہا کر نماز ادا کر رہے ہیں۔
؎ حَرم رُسوا ہوا اہلِ حَرم کی کم نگاہی سے
عشق والے خود مُشکل کشا ہیں مگر یہ مُشکل کشائی اپنی ذاتی کے لئے نہیں کرتے۔ تسلیم و رضا والے اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہیں حالانکہ وہ خود کُن فیکوں کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں لیکن راز افشاء نہیں کرتے۔ دوست کا بھید ظاہر نہیں کرتے خود اپنی جان سے گزر جاتے ہیں۔ مگر حقیقی اور قلبی ساری کامیابیوں کا سہرا شہید کے سر ہوتا ہے۔ خود جان دے کر قوم کو زندہ کر جاتا ہے۔ آپ نبی پاکؐ کو شہادتوں کے دونوں شرف حاصل ہوئے۔ شہادت سرّی حضرت حسنؓ کی شہادت کی صورت میں اور شہادتِ جہری حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی صورت میں …… حسنین کریمین کی شہادتیں نبی پاکؐ کی شہادتیں ہیں۔ اسی طرح اِن کے قاتل آپ سرکار والاؐ کے قاتل ہیں۔ اگر امام حسینؓ بیعت یزید کر لیتے تو یہ امام حسینؓ کی بیعت نہ ہوتی بلکہ نبی پاکؐ کی بیعت کہلاتی۔ واقعہ کربلا آدھے دن یا اس سے تھوڑی سی زیادہ مدت پر محیط ہے لیکن واقعہ کربلا نے اپنی مختصر مدت اور شہداء کی چھوٹی جماعت کے ساتھ اتنی عظمت حاصل کی بلکہ یہ حقیقت اس سے بھی زیادہ عظیم ہے۔ کیونکہ اس واقعہ نے وجودِ بشر کی گہرائیوں میں نفوذ کیا ہے اور ایسا صرف اور صرف اس واقعہ کی رُوح کی وجہ سے ہے۔ واقعہ کربلا کی روح اور حقیقت یہ ہے کہ امام عالی مقام ایک لشکر یا انسانوں کے ایک گروہ کے مدمقابل نہیں تھے بلکہ آپ انحراف و ظلمات کی ایک دنیا کے مدمقابل کھڑے تھے۔ اس واقعہ کی عظمت کا پہلو یہ ہی ہے کہ اس میں خالصتاً اللہ ہی کے لئے قیام کیا گیا تھا۔ امام عالی مقام نے شب عاشور فرمایا کہ…… ”آپ سب چلے جایئے۔ یہاں کوئی نہ رہے۔ میں اپنی بیعت تم سَب سے اُٹھا لیتا ہوں کیونکہ یہ لوگ صرف میرے خون کے پیاسے ہیں ……“ یہ امام عالی مقام کے کام کی عظمت تھی کہ آپ نے ظالم و جابر، خلافتِ رسول کے مُدعی اور انحراف کے پورے ایک جہان کو قبول نہیں کیا۔ جو نبی پاکؐ کے کندھوں پر سوار ہوتے تھے اُن کو نیزوں سے گرا دیا گیا۔ جن ہستیوں کی وجہ سے پردہ قائم کیا گیا تھا اُنہیں بازار میں پھرایا گیا۔ حُسنِ ازل نے ہمیشہ عشق ہی کو اپنی اداؤں کا تختہِ مشق بنایا ہے۔ رکوع میں انکسار اور سجدہ میں دیدار عشق کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
؎ صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صَبر حسین بھی ہے عشق
معرکہئ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
ناناؐ رحمت عالم…… نواسہ رہبر عالم…… لیکن ہوا کیا…… ہوا یہ کہ جب جب یزیدیت سر اُٹھائے گی، عزم حسینؓ رہنما ہوگا کیونکہ اس شجر کی آب یاری خون پاک سے ہوئی ہے۔ شہادت نیکی کی حد ہے۔ شہادت ناز کا مُقام ہے۔ شہادت کا نشہ اذیت پر غَالب ہوتا ہے۔ حُسین ایک مِلت ہے۔ حسین صدائے انقلاب ہے جو ہر دور میں بلند ہوتی رہے گی۔ حسینؓ ایک تہذیب کا نام ہے۔ حسین شرافت کا معیار ہے۔ حسینؓ ایک آفاقی پیغام ہے۔ حسین ایک مذہب ہے جو ہمیشہ طاغوتی طاقتوں سے ٹکرانا سکھاتا رہے گا۔ حسین ایک سیاست کا نام ہے جو کسی قیمت پر اصولوں پر سودے بازی نہیں سکھاتی۔
؎ دُنیا کے سب یزید اِسی غم میں مر گئے
سر مِل گیا حُسین کا بیعت نہیں مِلی
فرشتو! سلام بھیجو اُس شرفِ آدم پر جس نے پھر سے آدم کی عظمت کا راز پیش کر دیا۔ ستارو سلام بھیجو اُس ہستی پر کہ جس کی نیکیاں تم سے زیادہ ہیں۔ اور یزید تو اسلام کی مقدس پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے۔ دین کی پاک چادر پر ایک سیاہ دَھبہ ہے۔ مذہب کے نورانی ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ جس نے امانتِ الیہہ میں خیانت کی اِس کو امام حسینؓ کے بالمقابل کھڑا کرنا ہی دین کی توہین ہے۔ مِٹی کو عالمِ بالا سے کیا نسبت۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain