امریکہ کاافغانستان سے فرار

قسور سعید مرزا
والدہ صاحبہ کی بیماری اور بیٹی کے چھت سے گرنے کے باعث ریڑھ کی ہڈی کے ایک مُہرے پر چوٹ آنے سے گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ مَاں جی ملتان کارڈیالوجی میں زیر علاج تھیں تو بیٹی گنگارام ہسپتال میں داخل تھی۔ اللہ کریم کا کرم ہوا ہے تو کچھ ہوش ٹھکانے آئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ راقم قارئین کرام کی خدمت میں قدرے تاخیر سے حاضر خدمت ہے۔ یہ عاجز اور مسکین معذرت خواہ ہے اور اپنے کرم فرماؤں کی دعاؤں کا محتاج ہے۔ یاد کرنے والے ہوں تو یادیں رہ جاتی ہیں ورنہ کون کس کو یاد کرتا ہے۔ کورونائی موسم نے دو سالوں سے اودھم مچایا ہوا ہے۔ بہت سوں کو یہ موسم دیکھتے ہی دیکھتے کھا گیا ہے۔ کوئی دل کے ہاتھوں چل بسے ہیں۔ کسی کو بخار لے بیٹھا ہے، کسی کو کینسر چاٹ گیا ہے۔ کوئی بے جگری کے ساتھ جگر دے چلا۔ ہم ایک دوسرے کی عزت اور قدر کریں۔ اچانک ایک دوسرے سے محروم ہو رہے ہیں، عزرائیل اپنی پرواز میں مگن ہے۔ اس وقت راضی اور عزت کرنے کی کیا ضرورت رہ جائے گی جب یہ فرشتہ اپنا کام دکھا جائے گا۔ ہم تو عمر کے ہاتھوں ویسے ہی ”ریڈ زون“ میں رہ رہے ہیں۔ ہم مُردوں کے تو پجاری بنتے ہیں اور زندوں سے الجھ پڑتے ہیں اور کیا خوب کہا ہے مولانا رومؒ نے کہ…… ”کل جو میری قبر چوموں گے تو بہتر ہے کہ ابھی میرے چہرے کو چوم لو کہ ابھی ہم وہی کے وہی ہیں“…… لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سے موضوعات سامنے آ گئے ہیں۔ کس پر بات کی جائے اور کس سے نظر چرائی جائے۔ خارجہ محاذ پر بھی معاملات نہایت سنجیدہ ہیں اور اندرون ملک میں بھی بے چینی اور ذہنی انتشار موجود ہے، ملک کی سرحد پر افغانستان کی صورت حال دن بدن تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ 1978ء میں نور محمد ترکئی اقتدار میں آئے تھے اور سردار داؤد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس دن سے لے کر آج تک 43 برس ہو گئے ہیں مارا ماری جاری ہے۔ نہ جانے کتنی خواتین بیوہ ہو چکی ہیں، یتیم ہونے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے اور انتقام لینے میں پختوں ماں بہت مضبوط ہے۔ افغانیوں نے پہلے روس کو افغانستان سے نکالا اور اب رات کے اندھیرے میں جس طرح امریکہ اور گورے افغانستان سے نکلے ہیں تو اس پر مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ قوموں کی تاریخ کارخانوں، بڑے پلازوں اور اونچی عمارتوں سے نہیں بنتی بلکہ اپنی پہچان اور روایات کو زندہ اور قائم رکھنے سے تاریخ میں عزت و احترام پاتی ہیں۔
افغانستان اجڑ گیا لیکن افغانیوں نے ثابت کر دیا کہ ان پر کوئی بیرونی طاقت حکمرانی نہیں کر سکتی۔ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ ہے کہ پہلے روس کو نکالا اور اب سپر پاور امریکہ اور دیگر ممالک کی فوجوں کو افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ جنگ ایک سیکولر ایکٹویٹی ہے جبکہ جہاد ایک روحانی سرگرمی ہے۔ جہاد کی برکت دیکھتی ہوں تو افغانستان میں دیکھ لو۔ افغانستان میں ایمان کے ہاتھوں ٹیکنالوجی کو شکست ہوئی ہے۔ یہ عقل پر عشق کی بالادستی ہے۔ عربوں کی اسرائیل کے خلاف جنگیں ہوئی ہیں، جہاد نہیں ہوا ہے۔ جہاد کسی مُلا یا مولوی کی ایجاد نہیں ہے یہ اللہ اور نبیؐ پاک کا حکم ہے۔ یہ جنگ پر جہاد کی فتح ہے۔ یہ 21 ویں صدی کا معجزہ ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد اپنے بیان میں واضح طور پر قومی پالیسی بتا دی ہے کہ ہم افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے ہرممکن مدد فراہم کریں گے جبکہ مسئلہ کو حل کرنا متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح مغربی محاذ پر بھارت میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ سقوط کابل کے بعد اس کے کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ اس سوال کا جواب ماپی کے آئینے میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ ہنود کے ذہن کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے کابل اور پاک افغان سرحد پر جو کارستانیاں کی ہیں، پاکستان کے حساس ادارے باخبر ہیں اور اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ چکے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی برصغیر پاک و ہند میں سینکڑوں سالہ حکمرانی میں ایک بھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا جبکہ ہندوؤں کے 72 سالہ دور حکومت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہندو اچھے محکوم تو ہو سکتے ہیں لیکن اچھے حکمران نہیں۔
بی جے پی ایک سیاسی جماعت نہیں، ایک جنونیت کا نام ہے۔ یہ بھوٹان اور سکم کی طرح کشمیریوں کو بنانا چاہتے ہیں۔ ان کو تکبر کا کینسر ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ جاندار سفارت کاری کے ذریعہ بھارت کے انسانی حقوق سے متعلق غلط رویے کے خلاف عالمی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کرے۔ اس طرح آواز بلند نہ کی جائے کہ جس طرح سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے امریکی صدر کا وزیراعظم عمران خان کو فون نہ آنے پر کی ہے۔ ایک طرف ایک فون کال کے لئے پوری دنیا میں رونا پیٹنا کیا گیا ہے تو دوسری جانب یہ کہہ کر اپنی سُبکی کو چھپایا جا رہا ہے کہ اگر امریکی صدر عمران خان سے بات نہیں کرتے، فون پر تو نہ کریں۔ یہاں بائیڈن کا کوئی انتظار نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر معید یوسف کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ موصوف کے پینٹاگون سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور بوسٹن یونیورسٹی سے ان کا تعلق ہے۔ یہ جناب شاہد حسن صاحب کے داماد ہیں۔ اس یونیورسٹی میں حسین حقانی صاحب بھی پڑھاتے ہیں۔ حفیظ شیخ ٗ ڈاکٹر وقار مسعود ٗ ڈاکٹر عشرت ٗ حمید ہارون بھی اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ یونیورسٹی سی آئی اے کا اڈہ ہے۔ امریکی صدر پر تنقید کرنا ان کی مجبوری تھی وہ پاکستان کے خاص حلقوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے ہوں گے۔ اس سطح پر سوچ سمجھ کر بولا جاتا ہے۔
سلامتی امور کا مشیر ہونا ایک اہم ریاستی عہدہ ہے۔ ذہنی پختگی اور بالغ نظری کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس عہدے پر جنرل ناصر جنجوعہ اور طارق عزیز جیسے سنجیدہ لوگ اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح شہباز گل صاحب بھی گل افشانیاں کرتے رہتے ہیں۔ جس سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں سمجھنا چاہئے کہ سی پیک کے معاملے میں چین بہت زیادہ حساس ہے۔ سی پیک پاکستان کے لئے بھی کہوٹہ پلانٹ کی طرح اہم منصوبہ ہے جو امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
چین 2025ء میں اس منصوبے کو شروع کرنا چاہتا تھا لیکن یہ جنرل کیانی کی محنت و کوشش اور جناب زرداری کے پے در پے چین کے دوروں کے بعد سی پیک کے ایم او یو زپر دستخط ہوئے۔ عمران خان کو بھی وزیراعظم بننے کے بعد جناب آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی طرح سی پیک کے لئے سرگرمی دکھانی چاہئے تھی لیکن ہوا یہ کہ ان کی حکومت آتے ہی رزاق داؤد نے سی پیک پر ایک سال تک کام معطل کرنے کا غیر ذمہ دارانہ بیان داغ دیا۔ یہ اپنی ذاتی زندگی میں نپے تلے انسان ہیں۔ نفع نقصان کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اسد عمر بھی ماضی میں ان منصوبوں کے خلاف تقریریں کر چکے تھے اور امریکہ میں سی پیک کے خلاف بریفنگ لے چکے تھے۔ اوپر سے امریکہ کے دورے نے وزیراعظم کو ٹرمپ کے قریب کر دیا تھا اور وطن واپسی پر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ اس صورت حال سے چینی نہایت نالاں تھے۔
راقم کے پاس اس ضمن میں تحریر کرنے کے لئے قیمتی اور معلوماتی مواد موجود ہے جو ایک علیحدہ مضمون میں پیش کروں گا۔ چین اب ایک عالمی طاقت بن چکا ہے۔ اقتصادی طور پر پہلے نمبر پر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اب اس کے پاس ہے۔ یہ امریکہ کی سوچ سے بھی زیادہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ زیادہ بولتے نہیں ہیں اور نہ باتیں بناتے ہیں، خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے تو اپنی فطرت دکھانی تھی، چنانچہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے اس منصوبے میں پوری دلچسپی لینے کا فیصلہ کیا۔ سی پیک اور گوادر کو جو اہمیت اور کلیدی حیثیت حاصل ہے عسکری قیادت اور فوج کو اس کا احساس اور ادراک ہے۔ سی پیک کے منصوبے پر کام کی جو تیز رفتاری چینی دیکھنا چاہتے تھے وہ گراؤنڈ پر نہیں تھی۔ گزشتہ روز پاکستان میں چینی سفیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں ہماری ٹاپ کی حساس ہستی ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے۔ بس سمجھ جانا چاہئے کہ یہ ملاقات کتنی اہم ہوگی۔ عام حالات میں اس نوعیت کی ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ چینیوں کا جن پر اعتماد اور بھروسہ ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس مسئلہ پر ہر وقت حاضر دماغ رہنے کی ضرورت ہے اور گفتگو بھی نپی تلی اور محتاط ہونی چاہئے۔ اندرون ملک پی ڈی ایم دوبارہ متحرک ہو گئی ہے۔ ان کی جانب سے آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں دوبارہ پس پردہ رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭

آہوئے صیاد دیدہ

کرنل (ر) عادل اختر
افغانستان ایک آہوئے صیاد دیدہ ہے۔ وادیاں ویران، میدان بیابان ہیں‘ ویرانے میں نہ جانے کون سی کشش ہے کہ سپر پاورز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ اس وادی غیر ذی زرع میں پانی کم برستا ہے اور خون زیادہ۔ یا تو سدا خانہ جنگی چلتی رہتی ہے یا غیر ملکی افواج امن کو روند رہی ہوتی ہیں۔ جو شدت موسم میں ہے وہی یہاں کے باشندوں میں ہے۔ قبائلی مزاج کبھی نچّلا نہیں بیٹھنے دیتا۔ ان کی پیاس خون سے بجھتی ہے۔ چاہے خون اپنا ہی کیوں نہ ہو۔
سترہویں صدی میں انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ جمانا شروع کیا تو روسیوں کے دل میں بھی گرم پانی کی ایک بندرگاہ پر قبضے کا خیال آیا۔ کوئی ڈیڑھ دو سو برس تک برطانیہ اور روس کے درمیان پنجہ آزمائی چلتی رہی جسے Great Game کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برطانیہ کے سینکڑوں کھوجی اور جاسوس اس علاقے میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ سیاحوں، تاجروں، ملاؤں کے روپ میں۔ کابل، سمر قند، بخارا میں جابر اور ظالم حکمران مسلط تھے۔ راستے ڈاکوؤں سے پٹے پڑے تھے۔ ناقابل برداشت گرمی یا سردی۔ پانی کی نایابی، زہریلے کیڑوں مکوڑوں، مکھیوں اور مچھروں کی کثرت ایک انگریز سیاح نے اپنی ڈائری میں لکھا۔ Heat in this area is move deadly than the sword of eremy انگریزوں کی جیب میں دو بھرے ہوئے پستول آنکھوں پر دوربین، ہاتھ میں قطب نما تھیلے میں طرح طرح کی دوائیں دل میں شوق مہم جوئی، انگریز راستے کھوجتے فوجی نوعیت کی معلومات حاصل کرتے‘ اگر انگریزوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو سمر قند و بخارا پر بھی ان ہی کا قبضہ ہوتا۔ افغان تاریخ خون سے لالم لال ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو حبیب اللہ بادشاہ تھے انہیں قتل کر دیا گیا تو نادر شاہ بادشاہ بنے۔ انہیں قتل کر دیا گیا تو ان کے بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بنے۔ 1973ء میں انہیں معزول کر کے ان کے کزن داؤد خان صدر بن گئے۔ چند سال کے بعد انہیں ان کے خاندان کے ساتھ صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا اور ایک بوڑھے سیاست دان نور محمد ترکئی کو صدر بنا دیا گیا۔ چند برس کے بعد نور محمد ترکئی کو گلا گھونٹ کے مار دیا گیا اور حفیظ اللہ امین صدر بن گئے۔ چند برس کے بعد امین اللہ حفیظ کو بھی بمعہ خاندان صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا اور ببرک کارمل کو صدر بنا دیا گیا۔ چند برس کے بعد ببرک کارمل کا صفایا کر کے ڈاکٹر نجیب اللہ کرسیئ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔ روسی افواج واپس گئیں تو نجیب اللہ فرار ہو گئے۔ محکمہ جاسوسی کے سربراہ نے خودکشی کر لی۔ نجیب اللہ کو ڈھونڈ نکالا گیا اور پھانسی دے کرکھمبے سے لٹکا دیا گیا۔
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی آئیڈیل نہ رہے۔ 1979ء میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ پاکستان میں ایک زبردست سیاسی زلزلہ محسوس کیا گیا۔ ایک سپر پاور دروازے پر آ کر بیٹھ گئی۔پاکستان ایک سپر پاور کو کس طرح روک سکتا ہے۔ دانشوروں نے سوچا۔ اب جلد ہی روسی سپاہی پنڈی اور پشاور کے کلبوں میں بیٹھ کر وڈکا پیا کریں گے۔ کراچی کی بندرگاہ کو جدید اور عظیم بنانے کا منصوبہ شروع ہو جائے گا۔ اس وقت پاکستان کے پاس دو آپشن تھے۔ روس کے سامنے سینہ سپر ہو جائے یا گھٹنے ٹیک دے۔ دونوں آپشن خطروں سے بھرپور تھے۔ پاکستان نے روس سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ پاکستان میں اسلحہ اور ڈالروں کی برسات شروع ہو گئی دشمنوں نے الزام لگایا کہ جنرل ضیا نے آدھا اسلحہ اپنی فوج کو دے دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کا ایٹمی پروگرام چل رہا تھا۔ امریکہ کبھی پاکستان کو ایٹم بم نہ بنانے دیتا۔ لیکن سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے صَرفِ نظر کر لیا……اس طرح افغانستان میں جنگ ہوتی رہی اور کہوٹہ میں بم بنتا رہا……جنگ میں افغان بہت اچھے سپاہی ثابت ہوئے سخت جان اور مستقل مزاج جبکہ روسی اچھے سپاہی ثابت نہ ہوئے۔ ان کی برتری ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کی وجہ سے تھی۔ چند سال کے بعد جب امریکہ سے اسٹنگر میزائل آئے تو انہوں نے افغانستان کو جہازوں اور ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا۔ یہ برتری جاتی رہی۔ روسی سیکس اور شراب (ٹھرا) کے عادی ہو گئے۔ اور بڑی بے دلی سے لڑتے تھے۔روس میں حکمران بدلتے رہے 1988ء میں نئے صدر گوربا چوف نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کا اعلان کر دیا۔
نقصانات: اس جنگ میں روس کے ساٹھ سے ستّر ہزار فوجی مارے گئے یا معذور ہو گئے۔ ہزاروں جہاز، ہیلی کاپٹر، ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہوئیں اربوں ڈالر کے اخراجات ہوئے واپسی پر روسی فوجوں کا استقبال بڑی سردمہری سے ہوا……روس میں مہنگائی اور بے روزگاری کا غلبہ تھا۔ بارہ تیرہ لاکھ افغان مارے گئے یا معذور ہو گئے لاکھوں بچے یتیم ہوئے۔ لاکھوں عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ پچاس لاکھ افغان وطن چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ پچیس لاکھ اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو گئے۔ ستّر ہزار پاکستانی شہید ہوئے۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ جنگ ختم ہوئی تو مجاہدین خوش تھے کہ انہوں نے روس کو ہرا دیا۔ روس خوش تھا کہ اے بے حاصل جنگ سے جان چھوٹی۔ امریکہ خوش تھا کہ اس نے روس کی گرم پانی تک رسائی نہ ہونے دی۔
دونوں سپر پاورز نے جنگ میں کئی ٹریلین ڈالر جھونک دیئے۔ اگر اس کی آدھی کی آدھی رقم افغانستان کی ترقی پر خرچ کی گئی ہوتی تو افغانستان ایک ترقی یافتہ چمن بن گیا ہوتا۔ لعنت ہے انسان کی ہوس اور ملک گیری پر افغانستان کی سرزمین پر دنیا کے کئی عظیم انسان پیدا ہوئے۔ مولانا روم اور حضرت داتا گنج بخش کا تعلق افغانستان سے تھا۔ ان کے افکار سے پوری دنیا میں روشنی ہوئی۔ اور بھی ہزاروں افغان، صوفی، علماء اور اولیاء برصغیر کی زمین آسودہ ہیں۔ غالبؔ کے دادا بھی افغانستان، ازبکستان کے سرحدی علاقے سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔ علامہ اقبال نے افغانستان کے ویرانوں میں حُسن کا گنج گرانمایہ دریافت کیا۔
اے باد بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دلسوزی، سرمستی و رعنائی
(سیاسی ودفاعی مبصر اورتجزیہ نگار ہیں)
٭……٭……٭

سندھ سلامت

انجینئر افتخار چودھری
میر پور متھیلو سندھ شاہی بازار میری زندگی کی حسین یادوں کا مرکز ہے۔اس روز اس شہر سے گزر ہوا گاڑی روکی دل نے چاہا اس رونق میں واپس جاؤں جو میں نے 1970 میں دیکھی تھی۔میٹرک کا امتحان دینے کے بعد میں والد صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لیے یہاں آ گیا تھا.کیا قیامت کے دن تھے گوٹھ میں ان سہولیات کا فقدان تھا جو آج ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔اے سی تو دور کی بات ہے پنکھا بھی نہیں دستیاب تھا۔بڑا شوق تھا کہ ایک نئی جگہ جا رہے ہیں۔لاہور سے گاڑی پکڑی کراچی ایکسپریس گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھی ماں نے گھر سے نکلتے وقت اتنی احتیاطیں بیان کیں اور بار بار مجھ سے یقین دہانیوں کرائیں کہ گاڑی کے ڈبے میں بیٹھ کر گھوٹکی سے پہلے نہیں اترنا۔
وہ تو اس قدر پریشان تھیں اور مجھے ایسا سمجھ رہی تھیں جیسے میں فیڈر لیتا بچہ ہوں ویسے بھی 15 سال کوئی عمر ہوتی ہے ۔جستی چادر کے ایک چھوٹے سے بکسے میں دو عدد جوڑے ایک قینچی چپل رکھی خود میں نے کھسہ پہن رکھا تھا کرتا اور تقریباً چوڑی دار پائجامہ بیج کلر کا جوڑا تھا ساتھ میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو تھا ایک دوبیٹری سیل بھی احتیاط کے طور پر لے لئے۔ کچھ کتابیں یہی توشہ تھا۔ بے جی نے دو تین پراٹھے بھی باندھ دیے تھے ان کا کہنا تھا کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی اور کسی سے ٹرین میں فری بھی نہیں ہونا۔ان کا بس چلتا تو میرے ساتھ ہی ہو لیتیں۔ اس وقت سے چند سال پہلے جب وہ شٹل برقع پہن کر بازار جاتیں تو میں رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا وہ مجھے وہی افتخار سمجھتی تھیں۔مجھے کچھ یاد نہیں کہ لاہور مجھے کون چھوڑنے آیا گھر میں بڑے بھائی کے بعد میں ہی بڑا تھا والد صاحب پہلے سے ہی میر پور متھیلو زمینوں پر تھے۔پنجابیوں نے زمینوں کی آباد کاری میں جان لڑا دی۔جنگلوں کی کٹائی اور زمین سے منڈیاں نکالنا ایک دشوار گزار عمل تھا۔ان مراحل سے ہم نکل چکے تھے۔
جیسے تیسے گھوٹکی پہنچا تو استقبال کے لیئے بڑے بھائی اسٹیشن پر موجود تھے۔ میں کچھ دیر پہلے گھوٹکی اسٹیشن سے آیا ہوں اب تو دنیا بدل گئی ہے اسٹیشن خوبصورت ہے۔ مرزا ابڑو جو اسٹیشن کے کنٹرول روم میں تھے ان سے جانکاری کی لکھاری جھوٹ نہیں بولتا مرزا ابڑو اعظم سواتی کا بھی مداح تھا مگر اس کی نظر میں خواجہ سعد رفیق بیسٹ منسٹر تھا اس کا کہنا تھا کہ نون لیگ کے اس وزیر نے اپنے دور میں کمال کام کیا ہے۔
اللہ انہیں خوش رکھے شائد اسی لیے اچھے بندے کی ادھر ن میں بھی کوئی قدر نہیں۔مقصود 2008 میں پی ٹی آئی جائین کرتے کرتے رہ گئے تھے۔ میں جب اٹھارہ بیس گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا تو بھائی امتیاز کو منتظر پایا وہ روسی ٹریکٹر لے کر آئے تھے۔ ٹریکٹر کیا تھا ٹریکٹر سے زیادہ بلڈوزر تھا۔اس کے آگے بلیڈ لگا کر زمین ہموار کی جاتی تھی اس کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر ہم لوگ کشمیری ہوٹل پہنچے چائے پانی پیا۔اور شام کو گھر پہنچے۔گوٹھ کوئی ایک ایکڑ زمین پر محیط تھی سامنے کے حصے میں ایک کمرہ ہمارے پاس تھا پچھلی سائیڈ پر مزارع رہتے تھے۔گوٹھ کے بڑے راستے کے ساتھ باہر کی جانب ٹیوب ویل تھا اندر دائیں مڑتے ہی اوطاق تھا جسے ڈرائنگ روم کہہ سکتے ہیں۔
مجھے میٹرک کے نتیجے کا بھی انتظار تھا امتحان کے بعد کوئی تین چار ماہ کا عرصہ لگ جاتا تھا ان دنوں موبائل یا دوسرے ذرائع تو تھے نہیں۔خط و کتابت ہی واحد ذریعہ تھا ایک روز میرے ذہن میں کیا آیا میں نے گپ چھوڑ دی کہ میرے 605 نمبر آ گئے ہیں ویسے بھی ہم دوستوں نے تخمینہ لگا رکھا تھا خاورحنیف نثار بھٹی ہم تین چار ٹاپر تھے کسی نے 610 کسی نے 615 اور کسی نے 605۔یقین کریں اگلے دن گزٹ آیا تو میرے603 تھے خاور اور نثار کے نمبربھی آگے پیچھے تھے۔اب اگلی منزل کالج میں داخلہ تھی جو گورنمنٹ پولی ٹیکنیک ٹھہری۔
میں دوسری طرف نکل گیا ہوں مجھے آج آپ کو 52 سالہ پہلے کا میرپور متھیلو دکھانا ہے۔دنیا آگے نکل گئی یے لیکن سچ پوچھیں میر پور کا بازار پیچھے چلا گیا ہے اس وقت پاکستان کی بڑی انڈسٹری یہاں لگ چکی ہے۔ ایف ایف سی اور تو اور ضلعی ہیڈ کوارٹر تک ادھر ہیں۔سابق وزیر اعلی سندھ علی محمد مہر نے بے انتہا کام کرائے ہیں۔مہر یہاں کے وڈیرے ہیں۔
ستر کی دہائی کے دنوں میں بازار بڑا پر رونق تھا صاف تھا اور ایک عجیب سی دل کشی کا حامل تھا اس کے اندر سے ایک مخصوص خوشبو محسوس ہوتی تھی پورا ڈھکا ہوا دن میں بلبوں کی روشنی ایسا لگتا تھا جیسے ایک میلہ ہو۔سندھ واپڈا نے اور کچھ کیا ہو یہ نہ کیا ہو۔میٹر وغیرہ بہترین لگائے ہیں۔پنجاب واپڈا کمپنیوں کو ان سے سیکھنا چاہیے۔
نصف صدی پہلے بازار میں ہندوؤں کی دکانیں عام تھیں لوگ سودہ سلف خریدتے اور راستہ ناپتے نکل جاتے شہر کے پہلے سرے پر پنجابی کشمیریوں کا ہوٹل تھا۔جس پر عصر کے وقت سندھی مانو بڑی سی چارپائیوں پر بیٹھے فرمائیشی گیت سنتے عنائت حسین بھٹی کی بڑی دلبر آواز میں گیت تو پورا شہر سن رہا ہوتا تھا
پُچھ پُچھ ہاریاں اکھیاں دل توں، ہوسی کدوں دیدار دلبر ملسی کیہڑو وار
او سانول ملسی کیہڑو وار۔
عنائت حسین بھٹی اس وقت کے معروف فنکار تھے۔”چن مکھناں“ سے انہوں نے شہرت کی بلندیاں چھو لی تھیں۔
میں جب بھی یہاں آتا بنئیے کی دکان سے ”سلام عرض“ اور ”جواب عرض“ڈائجسٹ ضرور خرید کے لے جاتے میرے کھجور سے بنے بچھڑے میں روز مرہ کی چیزیں بھی ہوتیں۔بس کا سفر بھی یاد گار تھا۔سندھی اور پنجابی کمیونٹی میں بہت بڑی دراڑیں تھیں دوریاں تھیں۔علاقائی جماعتیں زوروں پر تھیں۔سندھی بھائی پنجابیوں کی طرح محنت نہیں کرتے تھے۔ پنجابیوں کو یا فوج کی جانب سے زمینیں ملی ہوئی تھیں ہم نے تو آکشن پر لی تھی۔
دن میں قیامت کی گرمی ہوتی تھی رات کو مچھر تنگ کرتا۔گتی نامی ایک مچھر تھا بڑی کتی چیز تھی۔دھواں لگا کر سوتا تھا بھینسیں تڑپ تڑپ جاتی تھی گھاس پھوس جلا کر انہیں مچھر زدگی سے بچانا میرا کام تھا۔
آج پچاس سال پہلے کا میر پور نہیں ہے آج یہ ایک بڑا مصروف شہر ہے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس شہر کے باسیوں سے کوئی خاص محبت ہے۔شہر کے اندر تجاوزات کی بھرمار ہے بازار کے اندر جگہ جگہ شاپر پھیلے ہوئے ہیں۔تجاوزات نے پاکستان کے شہروں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مانگنے والے بھی زوروں پر ہیں۔
میں نے بھگوان داس کی دکان سے چند سندھی ٹوپیاں اور اجرکیں خریدی ہیں۔بچوں کے لیے کچھ اجرک میں بنی شالیں بھی۔
اب نہ تو پرانے سندھی بڑی بڑی شلواریں پہنے بے فکرے ہو کر کشمیری ہوٹل پے چائے پیتے دکھائی دیتے ہیں سڑکوں نے سندھی ثقافت کو بھی ہاتھ ڈال دیا ہے لیکن سندھیوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی زبان سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔سندھ مہمان نوازی میں سب سے آگے ہے۔پاکستان میں نمبر ون سندھ ہے۔
آج فیکراٹو گیا تھا زمین ادھر ہی ہے وہ کھالہ بھی جہاں سے جمپ لگا کر پار ہوتے تھے اب زمین میں تین چار سمت سے راستہ جا رہا ہیڈاکٹر خالد مہر جیسے لوگ اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
جدہ کی دوستیاں کام آ رہی ہیں
آج واپسی ہے۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭

کامیاب اور ناکام لوگ

نعیم ثاقب
پاکستان میں ایکسپو (Expo) کے باوا آدم خورشید برلاس صاحب زندہ دل، ہنس مکھ اور بڑے محنتی انسان ہیں۔ نئے نئے آئیڈیاز پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان صنعتی نمائش،میڈ ان پاکستان، پاکستان ہینڈی کرافٹ سمیت کئی ایکسپوز کروا چکے ہیں۔ یو کے پاکستان بزنس کونسل اور پاکستان ایسوسی ایشن آف ایکسپو انڈسٹری کے بانی بھی ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات انتہائی نفیس شخصیت کے مالک راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے موجودہ صدرناصر مرزا صاحب کے ساتھ ہوئی۔ اور پھر یہ ملاقات دوستی اور عقیدت میں بدل گئی۔ ان سے گاہے بگاہے رابطہ رہنے لگا۔ کچھ دن پہلے ایک نئے پراجیکٹ کے سلسلے میں ان سے بات ہو رہی تھی تو کسی بات پر اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگا کر کہنے لگے۔آپ بھی میری طرح جنونی ہو اور جنونی لوگ مجھے بہت پسند ہیں۔کیا مطلب! میں سمجھا نہیں میں نے پوچھا؟ برلاس صاحب کہنے لگے جنونی مطلب متحرک اور ایکشن میں رہنے والے، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے باتوں کی بجائے عمل کرنے والے، دوڑ لگانے والے، دن رات ایک کرکے منزل تک پہنچنے کی جدوجہدکرنے والے جنونی ہی تو ہوتے ہیں۔
فون بندہوا توکسی دانا کا قول یاد آگیا کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچا ئے۔ کامیاب اور ناکام لوگوں میں بنیادی فرق ایکشن یعنی عمل کاہے ناکام لوگ بھی بڑے خواب دیکھتے ہیں، ارادے باندھتے ہیں،منصوبے بناتے ہیں۔ بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں مگر یہ اپنے اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہو پاتے یہ صرف اپنے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر خیالی پلاؤ پکاتے رہتے ہیں۔ ان کی کامیابی کی راہ میں جس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ عمل ہے جبکہ بڑا اور کامیاب آدمی باتوں کی بجائے عمل پر توجہ دیتا ہے۔ ارادے اور منزل،خواب اور تعبیر، خواہش اور تکمیل کے درمیان بھی صرف عمل کی کمی ہوتی ہے۔ کامیاب آدمی باتوں کی بجائے کام کرتا ہے اور ناکام آدمی کام کی بجائے باتیں۔ دنیا باشعور، عقلمند، دانشور، زمانہ ساز اور اہل علم ناکام لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی ناکامی کی وجہ بھی عمل کی کمی ہے ایسے لوگ فیصلہ سازی میں بہت کمزور ہوتے ہیں اورزندگی بھر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔جو لوگ حرکت میں بر کت پر یقین رکھتے ہیں وہ بڑے خواب دیکھتے ہیں ان کی تعبیر کے لیے کمر کس کر ایکشن لیتے اور منزلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔
سورہ النجم میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
ترجمعہ:اور انسان کے لئے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہو۔
مشہور چینی کہاوت ہے ”ایک ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔”
اور پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہو تا ہے۔خوابوں کی تعبیر آسانی سے تو نہیں ملتی اس کے لیے عمل کرنا، خون تھوکنا، جنوں دکھانا۔ پسینہ بہانا اور کشٹ اٹھانا پڑتا ہے۔ کامیابی عمل اور جستجو سے حاصل ہوتی ہے دعوؤں اور نعروں سے نہیں۔ عمل کرنے اور صرف اعلان کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ شہرہ آفاق ماہر نفسیات سی جی جنگ نے کہا، “تم وہی ہو جو تم کرتے ہو، وہ نہیں جو تم کہتے ہو کہ تم کرو گے۔” اگر کامیابی چاہتے ہیں تو روزانہ ایسے اقدامات کریں جو آپ کو اپنے مقاصد کی تکمیل کی طرف لے جائیں۔ چھوٹا عمل بلند دعوے سے بہتر ہوتا ہے اور عمل کے بغیر ایمان بھی مشکوک ہو جاتا ہے نیت کچھ نہیں ہے عمل سب کچھ ہے۔ مقاصد کا حصول محض خیالوں اور تقریروں سے ممکن نہیں۔ کامیابی چاہتے ہیں تو شور مت مچائیں اپنے ارادے کو سینے میں چھپائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔ آپ جتنے بڑے مرضی ویژنری ہوں بغیر عمل کے ویژن صرف دھوکہ ہو تا ہے۔ اپنی کامیابی کے متعلق سوچیے اور اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کام شروع کر دیجیے۔ خواب ذہن میں ہی رہ جائیں تو روگ اور پچھتاوا بن جاتے ہیں اور اوریہ پچھتاوا آپ کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے۔ مایوسی اور ڈپریشن کا علاج صرف اور صرف عمل ہوتاہے۔ عمل اعتماد،ہمت اور حوصلہ پیدا کرتا ہے۔یہ خوف کا تریاق ہے اگر آپ خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تو ذہن میں ناکامی کی بجائے اپنی کامیابی کا سوچیے۔اور پہلا قدم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ جہاں ہیں وہاں نہیں رہیں گے”۔ سب سے مشکل چیز عمل کرنے کا فیصلہ ہے اور باقی استقامت ہے۔ سوچنا چھوڑیں، کرنا شروع کریں۔ صرف ناممکن سفر وہ ہے جسے آپ نے کبھی شروع نہیں کیا۔
بقول شاعر!
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا
جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا
تو کب تک دیر لگائے گا
یہ وقت بھی آخر جائے گا
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جو موقع پا کر کھوئے گا
وہ اشکوں سے منہ دھوئے گا
جو سوئے گا وہ روئے گا
اور کاٹے گا جو بوئے گا
تو غافِل کب تک سوئے گا
جو ہونا ہے وہ ہوئے گا
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
یہ دنیا آخر فانی ہے
اور جان بھی اِک دن جانی ہے
پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
جب ہمت کی جولانی ہے
تو پتھر بھی پھر پانی ہے
اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
واصف علی واصف کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹا دل نہیں رکھتے۔جن لوگوں کی منزلیں اور مقصد بڑے ہوتے ہیں ان کے دل میں کسی چیز کا خوف نہیں ہو تا بس دل اور دماغ میں ایک ہی لگن ہوتی ہے کہ ہم نے کامیاب ہو نا ہے اور جن کے دل چھوٹے ہوتے ہیں ان کے لیے شاعر نے کیاخوب کہا ہے۔
جو یقیں کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

پاکستان افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے لئےحمایت جاری رکھے گا; زاہد حفیظ چوہدری

ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری کا بیان

پاکستان افغانستان میں وقوع پزیر صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے :ترجمان دفتر خارجہ

سیاسی تصفیہ کے لئے کوششوں کی پاکستان حمایت جاری رکھے گا :زاہد حفیظ چوہدری

امید کرتے ہیں کہ تمام افغان فریقین داخلی سیاسی بحران حل کرنے کے لئے مل کر کام کریں گے :زاہد حفیظ چوہدری

کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پاکستانیوں کو ضروری معاونت اور مدد فراہم کررہا ہے :زاہد حفیظ چوہدری

پاکستانی سفارت خانہ افغان شہریوں ،سفارتکاروں اور عالمی برادری کو قونصلر خدمات بھی فراہم کررہا ہے :زاہد حفیظ چوہدری

کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پی آئی اے پروازوں کے لئے کوآرڈینیشن بھی کررہا ہے :ترجمان دفتر خارجہ

صورتحال کے پیش نظر وزارت داخلہ میں اعلی سطحٰ بین الوزارتی سیل قائم کردیاگیا ہے :زاہد حفیظ چوہدری

سیل کے قیام کا مقصدسفارتی عملے، اقوام متحدہ کے اداروں ، عالمی تنظیموں، میڈیا اور دیگر کوویزا اور آمد سے متعلق سہولیات فراہم کرنا ہے :ترجمان دفتر خارجہ

افغانستان کی بدلتی صورتحال، وزیراعظم نے قومی سلامتی کا اجلاس طلب کرلیا

اسلام آباد:  افغانستان کی موجودہ صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ سطح کی مشاورت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس اہم معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔

بروز پیر مورخہ 16 اگست کو بلائے گئے اجلاس میں خطے خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ اجلاس میں سول اور عسکری قیادت شرکت کرے گی۔

دوسری جانب خطے کی تیزی سے بدلتی صورتحال کے پیش نظر افغانستان کی سیاسی قیادت پاکستان پہنچ گئی ہے۔ افغان سپیکر میر رحمان رحمانی بھی وفد میں شامل ہیں۔ خصوصی نمائندہ افغانستان محمد صادق نے مہمانوں کا استقبال کیا۔

ذرائع کے مطابق افغان وفد میں محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم، احمد ضیاء مسعود، احمد ولی مسعود، عبداللطیف پیدرام اور خالد نور بھی شامل ہیں۔ افغان سیاسی رہنما افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد کی صورتحال پر ملاقاتیں کریں گے۔

افغان جنگ امریکا کے پانچویں صدر تک منتقل نہیں ہونے دوں گا، جو بائیڈن

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ افغان جنگ امریکا کے پانچویں صدر تک منتقل نہیں کروں گا اور نہ ہونے دوں گا۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں سفارتی عملے اور شہریوں کے انخلا کے لیے بھیجے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 3ہزار سے بڑھاکر 5 ہزار کردی ہے، صدر جوبائیڈن نے نیشنل سیکیورٹی ٹیم سے مشاورت کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ امریکی مشن کے خاتمے اور عملے کی واپسی کے لیے 5 ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے جب کہ کابل کا رخ کرنے والے طالبان انخلا کے مشن میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔

امریکی صدر نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے کا ایک بار پھر دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت 4 امریکی صدور کے دور میں افغانستان میں امریکی افواج موجود رہی ہیں تاہم اب امریکا کے پانچویں صدر تک یہ جنگ منتقل نہیں کروں گا اور نہ ہونے دوں گا۔

افغناستان کے مسئلے پر دنیا اور پاکستان ایک پیج پر ہیں، وزیر خارجہ

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے پر دنیا اور پاکستان ایک پیج پر ہیں کہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔

ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان بارہا یہ کہتا آیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور پاکستان کے اس موقف کو دنیا نے تسلیم کیا اور خصوصاً یہ وزیر اعظم عمران خان کا سالوں پرانا موقف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا اور پاکستان ایک پیج پر ہیں اور وہ ایک پیج یہ ہے کہ افغانستان کا مسئلہ گفت وشنید اور مذاکرات سے حل کیا جائے۔

خبر میں مزید تفصیلات شامل کی جا رہی ہیں۔

طالبان افغان دارالحکومت کابل میں داخل ہونا شروع

طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔

افغان وزارت داخلہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان تمام اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق کابل میں سرکاری دفاتر کو خالی کروا لیا گیا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں دکانیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ مجاہدین جنگ یا طاقت کے ذریعے کابل میں داخل نہیں ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور کابل کے پرامن سرینڈر کے لیے طالبان کی افغان حکام سے بات چیت جاری ہے۔

نیٹو عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اسٹاف کے کئی ارکان کابل میں نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل ہو گئے ہیں جبکہ امریکی عہدیدار کا بتانا ہے کہ امریکی سفارت خانے کا 50 افراد سے بھی کم عملہ کابل میں موجود ہے۔

امریکی سفارت خانے سے دھواں نکلتے دیکھا گیا

ذرائع کا بتانا ہے کہ آج صبح کچھ ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارتخانے کی جانب آتے دیکھا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا نے اپنا سفارتی عملہ وہاں سے نکال لیا ہے۔

ذرائع کا یہ بھی بتانا ہے کہ  امریکی سفارت خانے کی حساس دستاویزات کو جلا دیا گیا ہے اور سفارت خانے سے دھواں نکلتے بھی دیکھا گیا تھا۔

 تنہا اور معصوم افغان شہریوں کو زخمی یا قتل نہیں کرنا چاہتے: طالبان

غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنماؤں نے کسی بھی قسم کا انتقام نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی سیز فائر کا اعلان نہیں کیا لیکن ہم تنہا اور معصوم افغان شہریوں کو زخمی یا قتل نہیں کرنا چاہتے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے کابل شہر سے نکلنے والوں کو راستہ دینے اور خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا بھی اعلان کیا جا رہا ہے۔

طالبان کا عام معافی کا اعلان

دوسری جانب افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ملک میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی امارات افغانستان کے دروازے ان تمام افراد کے لیے کھلے ہیں جنہوں نے حملہ آوروں کی مدد کی۔

سہیل شاہین کا کہنا تھا ہم نے پہلے بھی معاف کیا اور ایک بار پھر سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور قوم و ملک کی خدمت کریں۔

پاکستان اسمارٹ فونز برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل

پاکستان پہلی مرتبہ’مینوفیکچرڈ ان پاکستان’ کے ٹیگ کے ساتھ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو کھیپ بھیجنے کے ساتھ فور جی اسمارٹ فونز کا برآمد کنندہ بن گیا۔

 رپورٹ کے مطابق انووی ٹیلی کام کے تیار کردہ پہلے 5 ہزار 500 اسمارٹ فونز جمعہ کو یو اے ای برآمد کیے گئے۔

تاہم موبائل فون کے مقامہ مینو فیکچررز نے برآمدات معاون پالیسی بنانے پر زور دیا ہے تا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے خطے میں حریفوں کو شکست دے سکے۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے کمپنی کو اس کامیابی پر مبارک باد دی اور اس امید کا اظہار کیا کہ مستقبل میں اسمارٹ فونز کی برآمدات میں مزید اضافہ ہوگا۔

ریگولیٹر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘یہ ملک میں موبائل ڈیوائس کی مینو فیکچرنگ کا ماحول بنانے کے لیے کی گئی ٹھوس کوششوں کا نتیجہ ہے’۔

انووی ٹیلی کام پرائیویٹ لمیٹڈ کو موبائل فون مینوفیکچرنگ کی اجازت اپریل میں دی گئی تھی اور انہوں نےاپنا پہلا برآمدی آرڈر چار ماہ میں مکمل کرلیا۔

انووی ٹیلی کوم کے چیف ایگزیکٹیو ذیشان میاں نور کا کہنا تھا کہ ان کا اہم ہدف مشرق وسطیٰ کی کم قیمت مارکیٹوں مثلاً عراق، ایران اور افغانستان میں داخل ہونا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم چینی برانڈ مینوفیکچر کر رہے ہیں اور خلیجی ممالک میں تارکین وطن ملازمین کی بڑی تعداد موجود ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک میں مہنگے صارفین دنیا کے بہترین موبائل فونز کو ترجیح دیتے ہیں اور ہمیں اس مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ ممالک کی عوامی مارکیٹیں ان کا اولین ہدف ہے، ایران ، عراق اور افغانستان کا عام شہری 100 ڈالرز تک کے موبائل فونز کو ترجیح دیتا ہے۔

وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکشن امین الحق نے ڈان کو بتایا کہ سازگار حکومتی پالیسیوں نے پاکستان کو خالصتاً موبائل درآمد کنندہ سے برآمد کنندہ میں تبدیل ہونے کاسنگ میل عبور کرنے میں مدد دی ہے۔

انہوں کہا کہ موبائل ڈیوائسز بنانے والی مقامی کمپنیوں کو سازگار ماحول فراہم کیا جارہا ہے اور ڈیوائس آئیڈینٹی فکیشن رجسٹریشن اور بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) سے موبائل فونز کی اسمگلنگ رک چکی ہے۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ سال موبائل فونز کے اسپئر پارٹ کی پیداوار کے بعد مقامی مینوفیکچررز بالآخر زائد قیمت موبائل فونز کا بھی رخ کریں گے۔

دوسری جانب اس میدان کے تجربہ کار کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ بدلتے ہوئے منظر کے پیش نظر برآمدی مارکیٹ کو فروغ دینے کے حوالے سے حکومت کا نقطہ نظر سست تھا۔

ٹرانسیشن ٹیکنو الیکٹرانک کے سی ای اور عامر اللہ والا کا کہنا تھا کہ چین سے موبائل فونزکی مجموعی برآمدات ایک کھرب 40 ارب ڈالر ہے، لیکن یہ صرف مزدوری کی کم لاگت کی وجہ سے تھا جس میں اب نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین ہائی- ٹیک کی طرف بڑھ رہا ہے اور اپی موبائل فون مینوفیکچرنگ دیگر ممالک مثلاً بھارت، ویتنام ،انڈونیشیا اور بنگلہ دیش منتقل کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویت نام اور انڈونیشیا میں مزدوری کی لاگت بہت زیادہ تھی اور بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے چینی کاروبار بھارت میں نہیں پھیل رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب بنگلہ دیش سے مقابلے کے لیے پاکستان واحد کھلاڑی بچا ہے لیکن کیا حکومت ہمیں بھی اس ہی سطح کی سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہے۔

انہوں نے تبصرہ کیا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ کار ہدف پورا کر سکتے ہیں لیکن مستقبل میں موبائل فونز سیٹ کی برآمدگی حکومت پالیسیوں پر منحصر ہے۔