تازہ تر ین

سندھ سلامت

انجینئر افتخار چودھری
میر پور متھیلو سندھ شاہی بازار میری زندگی کی حسین یادوں کا مرکز ہے۔اس روز اس شہر سے گزر ہوا گاڑی روکی دل نے چاہا اس رونق میں واپس جاؤں جو میں نے 1970 میں دیکھی تھی۔میٹرک کا امتحان دینے کے بعد میں والد صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لیے یہاں آ گیا تھا.کیا قیامت کے دن تھے گوٹھ میں ان سہولیات کا فقدان تھا جو آج ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔اے سی تو دور کی بات ہے پنکھا بھی نہیں دستیاب تھا۔بڑا شوق تھا کہ ایک نئی جگہ جا رہے ہیں۔لاہور سے گاڑی پکڑی کراچی ایکسپریس گھوٹکی ریلوے اسٹیشن پر تھوڑی دیر کے لیے رکتی تھی ماں نے گھر سے نکلتے وقت اتنی احتیاطیں بیان کیں اور بار بار مجھ سے یقین دہانیوں کرائیں کہ گاڑی کے ڈبے میں بیٹھ کر گھوٹکی سے پہلے نہیں اترنا۔
وہ تو اس قدر پریشان تھیں اور مجھے ایسا سمجھ رہی تھیں جیسے میں فیڈر لیتا بچہ ہوں ویسے بھی 15 سال کوئی عمر ہوتی ہے ۔جستی چادر کے ایک چھوٹے سے بکسے میں دو عدد جوڑے ایک قینچی چپل رکھی خود میں نے کھسہ پہن رکھا تھا کرتا اور تقریباً چوڑی دار پائجامہ بیج کلر کا جوڑا تھا ساتھ میں ایک ٹرانسسٹر ریڈیو تھا ایک دوبیٹری سیل بھی احتیاط کے طور پر لے لئے۔ کچھ کتابیں یہی توشہ تھا۔ بے جی نے دو تین پراٹھے بھی باندھ دیے تھے ان کا کہنا تھا کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی اور کسی سے ٹرین میں فری بھی نہیں ہونا۔ان کا بس چلتا تو میرے ساتھ ہی ہو لیتیں۔ اس وقت سے چند سال پہلے جب وہ شٹل برقع پہن کر بازار جاتیں تو میں رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا وہ مجھے وہی افتخار سمجھتی تھیں۔مجھے کچھ یاد نہیں کہ لاہور مجھے کون چھوڑنے آیا گھر میں بڑے بھائی کے بعد میں ہی بڑا تھا والد صاحب پہلے سے ہی میر پور متھیلو زمینوں پر تھے۔پنجابیوں نے زمینوں کی آباد کاری میں جان لڑا دی۔جنگلوں کی کٹائی اور زمین سے منڈیاں نکالنا ایک دشوار گزار عمل تھا۔ان مراحل سے ہم نکل چکے تھے۔
جیسے تیسے گھوٹکی پہنچا تو استقبال کے لیئے بڑے بھائی اسٹیشن پر موجود تھے۔ میں کچھ دیر پہلے گھوٹکی اسٹیشن سے آیا ہوں اب تو دنیا بدل گئی ہے اسٹیشن خوبصورت ہے۔ مرزا ابڑو جو اسٹیشن کے کنٹرول روم میں تھے ان سے جانکاری کی لکھاری جھوٹ نہیں بولتا مرزا ابڑو اعظم سواتی کا بھی مداح تھا مگر اس کی نظر میں خواجہ سعد رفیق بیسٹ منسٹر تھا اس کا کہنا تھا کہ نون لیگ کے اس وزیر نے اپنے دور میں کمال کام کیا ہے۔
اللہ انہیں خوش رکھے شائد اسی لیے اچھے بندے کی ادھر ن میں بھی کوئی قدر نہیں۔مقصود 2008 میں پی ٹی آئی جائین کرتے کرتے رہ گئے تھے۔ میں جب اٹھارہ بیس گھنٹے کا سفر کر کے پہنچا تو بھائی امتیاز کو منتظر پایا وہ روسی ٹریکٹر لے کر آئے تھے۔ ٹریکٹر کیا تھا ٹریکٹر سے زیادہ بلڈوزر تھا۔اس کے آگے بلیڈ لگا کر زمین ہموار کی جاتی تھی اس کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر ہم لوگ کشمیری ہوٹل پہنچے چائے پانی پیا۔اور شام کو گھر پہنچے۔گوٹھ کوئی ایک ایکڑ زمین پر محیط تھی سامنے کے حصے میں ایک کمرہ ہمارے پاس تھا پچھلی سائیڈ پر مزارع رہتے تھے۔گوٹھ کے بڑے راستے کے ساتھ باہر کی جانب ٹیوب ویل تھا اندر دائیں مڑتے ہی اوطاق تھا جسے ڈرائنگ روم کہہ سکتے ہیں۔
مجھے میٹرک کے نتیجے کا بھی انتظار تھا امتحان کے بعد کوئی تین چار ماہ کا عرصہ لگ جاتا تھا ان دنوں موبائل یا دوسرے ذرائع تو تھے نہیں۔خط و کتابت ہی واحد ذریعہ تھا ایک روز میرے ذہن میں کیا آیا میں نے گپ چھوڑ دی کہ میرے 605 نمبر آ گئے ہیں ویسے بھی ہم دوستوں نے تخمینہ لگا رکھا تھا خاورحنیف نثار بھٹی ہم تین چار ٹاپر تھے کسی نے 610 کسی نے 615 اور کسی نے 605۔یقین کریں اگلے دن گزٹ آیا تو میرے603 تھے خاور اور نثار کے نمبربھی آگے پیچھے تھے۔اب اگلی منزل کالج میں داخلہ تھی جو گورنمنٹ پولی ٹیکنیک ٹھہری۔
میں دوسری طرف نکل گیا ہوں مجھے آج آپ کو 52 سالہ پہلے کا میرپور متھیلو دکھانا ہے۔دنیا آگے نکل گئی یے لیکن سچ پوچھیں میر پور کا بازار پیچھے چلا گیا ہے اس وقت پاکستان کی بڑی انڈسٹری یہاں لگ چکی ہے۔ ایف ایف سی اور تو اور ضلعی ہیڈ کوارٹر تک ادھر ہیں۔سابق وزیر اعلی سندھ علی محمد مہر نے بے انتہا کام کرائے ہیں۔مہر یہاں کے وڈیرے ہیں۔
ستر کی دہائی کے دنوں میں بازار بڑا پر رونق تھا صاف تھا اور ایک عجیب سی دل کشی کا حامل تھا اس کے اندر سے ایک مخصوص خوشبو محسوس ہوتی تھی پورا ڈھکا ہوا دن میں بلبوں کی روشنی ایسا لگتا تھا جیسے ایک میلہ ہو۔سندھ واپڈا نے اور کچھ کیا ہو یہ نہ کیا ہو۔میٹر وغیرہ بہترین لگائے ہیں۔پنجاب واپڈا کمپنیوں کو ان سے سیکھنا چاہیے۔
نصف صدی پہلے بازار میں ہندوؤں کی دکانیں عام تھیں لوگ سودہ سلف خریدتے اور راستہ ناپتے نکل جاتے شہر کے پہلے سرے پر پنجابی کشمیریوں کا ہوٹل تھا۔جس پر عصر کے وقت سندھی مانو بڑی سی چارپائیوں پر بیٹھے فرمائیشی گیت سنتے عنائت حسین بھٹی کی بڑی دلبر آواز میں گیت تو پورا شہر سن رہا ہوتا تھا
پُچھ پُچھ ہاریاں اکھیاں دل توں، ہوسی کدوں دیدار دلبر ملسی کیہڑو وار
او سانول ملسی کیہڑو وار۔
عنائت حسین بھٹی اس وقت کے معروف فنکار تھے۔”چن مکھناں“ سے انہوں نے شہرت کی بلندیاں چھو لی تھیں۔
میں جب بھی یہاں آتا بنئیے کی دکان سے ”سلام عرض“ اور ”جواب عرض“ڈائجسٹ ضرور خرید کے لے جاتے میرے کھجور سے بنے بچھڑے میں روز مرہ کی چیزیں بھی ہوتیں۔بس کا سفر بھی یاد گار تھا۔سندھی اور پنجابی کمیونٹی میں بہت بڑی دراڑیں تھیں دوریاں تھیں۔علاقائی جماعتیں زوروں پر تھیں۔سندھی بھائی پنجابیوں کی طرح محنت نہیں کرتے تھے۔ پنجابیوں کو یا فوج کی جانب سے زمینیں ملی ہوئی تھیں ہم نے تو آکشن پر لی تھی۔
دن میں قیامت کی گرمی ہوتی تھی رات کو مچھر تنگ کرتا۔گتی نامی ایک مچھر تھا بڑی کتی چیز تھی۔دھواں لگا کر سوتا تھا بھینسیں تڑپ تڑپ جاتی تھی گھاس پھوس جلا کر انہیں مچھر زدگی سے بچانا میرا کام تھا۔
آج پچاس سال پہلے کا میر پور نہیں ہے آج یہ ایک بڑا مصروف شہر ہے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اس شہر کے باسیوں سے کوئی خاص محبت ہے۔شہر کے اندر تجاوزات کی بھرمار ہے بازار کے اندر جگہ جگہ شاپر پھیلے ہوئے ہیں۔تجاوزات نے پاکستان کے شہروں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مانگنے والے بھی زوروں پر ہیں۔
میں نے بھگوان داس کی دکان سے چند سندھی ٹوپیاں اور اجرکیں خریدی ہیں۔بچوں کے لیے کچھ اجرک میں بنی شالیں بھی۔
اب نہ تو پرانے سندھی بڑی بڑی شلواریں پہنے بے فکرے ہو کر کشمیری ہوٹل پے چائے پیتے دکھائی دیتے ہیں سڑکوں نے سندھی ثقافت کو بھی ہاتھ ڈال دیا ہے لیکن سندھیوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی زبان سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔سندھ مہمان نوازی میں سب سے آگے ہے۔پاکستان میں نمبر ون سندھ ہے۔
آج فیکراٹو گیا تھا زمین ادھر ہی ہے وہ کھالہ بھی جہاں سے جمپ لگا کر پار ہوتے تھے اب زمین میں تین چار سمت سے راستہ جا رہا ہیڈاکٹر خالد مہر جیسے لوگ اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
جدہ کی دوستیاں کام آ رہی ہیں
آج واپسی ہے۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain