تازہ تر ین

امریکہ کاافغانستان سے فرار

قسور سعید مرزا
والدہ صاحبہ کی بیماری اور بیٹی کے چھت سے گرنے کے باعث ریڑھ کی ہڈی کے ایک مُہرے پر چوٹ آنے سے گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا تھا۔ مَاں جی ملتان کارڈیالوجی میں زیر علاج تھیں تو بیٹی گنگارام ہسپتال میں داخل تھی۔ اللہ کریم کا کرم ہوا ہے تو کچھ ہوش ٹھکانے آئے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ راقم قارئین کرام کی خدمت میں قدرے تاخیر سے حاضر خدمت ہے۔ یہ عاجز اور مسکین معذرت خواہ ہے اور اپنے کرم فرماؤں کی دعاؤں کا محتاج ہے۔ یاد کرنے والے ہوں تو یادیں رہ جاتی ہیں ورنہ کون کس کو یاد کرتا ہے۔ کورونائی موسم نے دو سالوں سے اودھم مچایا ہوا ہے۔ بہت سوں کو یہ موسم دیکھتے ہی دیکھتے کھا گیا ہے۔ کوئی دل کے ہاتھوں چل بسے ہیں۔ کسی کو بخار لے بیٹھا ہے، کسی کو کینسر چاٹ گیا ہے۔ کوئی بے جگری کے ساتھ جگر دے چلا۔ ہم ایک دوسرے کی عزت اور قدر کریں۔ اچانک ایک دوسرے سے محروم ہو رہے ہیں، عزرائیل اپنی پرواز میں مگن ہے۔ اس وقت راضی اور عزت کرنے کی کیا ضرورت رہ جائے گی جب یہ فرشتہ اپنا کام دکھا جائے گا۔ ہم تو عمر کے ہاتھوں ویسے ہی ”ریڈ زون“ میں رہ رہے ہیں۔ ہم مُردوں کے تو پجاری بنتے ہیں اور زندوں سے الجھ پڑتے ہیں اور کیا خوب کہا ہے مولانا رومؒ نے کہ…… ”کل جو میری قبر چوموں گے تو بہتر ہے کہ ابھی میرے چہرے کو چوم لو کہ ابھی ہم وہی کے وہی ہیں“…… لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سے موضوعات سامنے آ گئے ہیں۔ کس پر بات کی جائے اور کس سے نظر چرائی جائے۔ خارجہ محاذ پر بھی معاملات نہایت سنجیدہ ہیں اور اندرون ملک میں بھی بے چینی اور ذہنی انتشار موجود ہے، ملک کی سرحد پر افغانستان کی صورت حال دن بدن تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے۔ 1978ء میں نور محمد ترکئی اقتدار میں آئے تھے اور سردار داؤد کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس دن سے لے کر آج تک 43 برس ہو گئے ہیں مارا ماری جاری ہے۔ نہ جانے کتنی خواتین بیوہ ہو چکی ہیں، یتیم ہونے والے بچوں اور بچیوں کی تعداد تو لاکھوں میں ہے اور انتقام لینے میں پختوں ماں بہت مضبوط ہے۔ افغانیوں نے پہلے روس کو افغانستان سے نکالا اور اب رات کے اندھیرے میں جس طرح امریکہ اور گورے افغانستان سے نکلے ہیں تو اس پر مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ قوموں کی تاریخ کارخانوں، بڑے پلازوں اور اونچی عمارتوں سے نہیں بنتی بلکہ اپنی پہچان اور روایات کو زندہ اور قائم رکھنے سے تاریخ میں عزت و احترام پاتی ہیں۔
افغانستان اجڑ گیا لیکن افغانیوں نے ثابت کر دیا کہ ان پر کوئی بیرونی طاقت حکمرانی نہیں کر سکتی۔ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ ہے کہ پہلے روس کو نکالا اور اب سپر پاور امریکہ اور دیگر ممالک کی فوجوں کو افغانستان سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ جنگ ایک سیکولر ایکٹویٹی ہے جبکہ جہاد ایک روحانی سرگرمی ہے۔ جہاد کی برکت دیکھتی ہوں تو افغانستان میں دیکھ لو۔ افغانستان میں ایمان کے ہاتھوں ٹیکنالوجی کو شکست ہوئی ہے۔ یہ عقل پر عشق کی بالادستی ہے۔ عربوں کی اسرائیل کے خلاف جنگیں ہوئی ہیں، جہاد نہیں ہوا ہے۔ جہاد کسی مُلا یا مولوی کی ایجاد نہیں ہے یہ اللہ اور نبیؐ پاک کا حکم ہے۔ یہ جنگ پر جہاد کی فتح ہے۔ یہ 21 ویں صدی کا معجزہ ہے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد اپنے بیان میں واضح طور پر قومی پالیسی بتا دی ہے کہ ہم افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے ہرممکن مدد فراہم کریں گے جبکہ مسئلہ کو حل کرنا متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح مغربی محاذ پر بھارت میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ سقوط کابل کے بعد اس کے کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ اس سوال کا جواب ماپی کے آئینے میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ ہنود کے ذہن کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے کابل اور پاک افغان سرحد پر جو کارستانیاں کی ہیں، پاکستان کے حساس ادارے باخبر ہیں اور اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ چکے ہیں۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی برصغیر پاک و ہند میں سینکڑوں سالہ حکمرانی میں ایک بھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا جبکہ ہندوؤں کے 72 سالہ دور حکومت میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہندو اچھے محکوم تو ہو سکتے ہیں لیکن اچھے حکمران نہیں۔
بی جے پی ایک سیاسی جماعت نہیں، ایک جنونیت کا نام ہے۔ یہ بھوٹان اور سکم کی طرح کشمیریوں کو بنانا چاہتے ہیں۔ ان کو تکبر کا کینسر ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ جاندار سفارت کاری کے ذریعہ بھارت کے انسانی حقوق سے متعلق غلط رویے کے خلاف عالمی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کرے۔ اس طرح آواز بلند نہ کی جائے کہ جس طرح سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے امریکی صدر کا وزیراعظم عمران خان کو فون نہ آنے پر کی ہے۔ ایک طرف ایک فون کال کے لئے پوری دنیا میں رونا پیٹنا کیا گیا ہے تو دوسری جانب یہ کہہ کر اپنی سُبکی کو چھپایا جا رہا ہے کہ اگر امریکی صدر عمران خان سے بات نہیں کرتے، فون پر تو نہ کریں۔ یہاں بائیڈن کا کوئی انتظار نہیں کر رہا۔ ڈاکٹر معید یوسف کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ موصوف کے پینٹاگون سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور بوسٹن یونیورسٹی سے ان کا تعلق ہے۔ یہ جناب شاہد حسن صاحب کے داماد ہیں۔ اس یونیورسٹی میں حسین حقانی صاحب بھی پڑھاتے ہیں۔ حفیظ شیخ ٗ ڈاکٹر وقار مسعود ٗ ڈاکٹر عشرت ٗ حمید ہارون بھی اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ یونیورسٹی سی آئی اے کا اڈہ ہے۔ امریکی صدر پر تنقید کرنا ان کی مجبوری تھی وہ پاکستان کے خاص حلقوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتے ہوں گے۔ اس سطح پر سوچ سمجھ کر بولا جاتا ہے۔
سلامتی امور کا مشیر ہونا ایک اہم ریاستی عہدہ ہے۔ ذہنی پختگی اور بالغ نظری کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس عہدے پر جنرل ناصر جنجوعہ اور طارق عزیز جیسے سنجیدہ لوگ اپنے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ اسی طرح شہباز گل صاحب بھی گل افشانیاں کرتے رہتے ہیں۔ جس سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں سمجھنا چاہئے کہ سی پیک کے معاملے میں چین بہت زیادہ حساس ہے۔ سی پیک پاکستان کے لئے بھی کہوٹہ پلانٹ کی طرح اہم منصوبہ ہے جو امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
چین 2025ء میں اس منصوبے کو شروع کرنا چاہتا تھا لیکن یہ جنرل کیانی کی محنت و کوشش اور جناب زرداری کے پے در پے چین کے دوروں کے بعد سی پیک کے ایم او یو زپر دستخط ہوئے۔ عمران خان کو بھی وزیراعظم بننے کے بعد جناب آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کی طرح سی پیک کے لئے سرگرمی دکھانی چاہئے تھی لیکن ہوا یہ کہ ان کی حکومت آتے ہی رزاق داؤد نے سی پیک پر ایک سال تک کام معطل کرنے کا غیر ذمہ دارانہ بیان داغ دیا۔ یہ اپنی ذاتی زندگی میں نپے تلے انسان ہیں۔ نفع نقصان کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اسد عمر بھی ماضی میں ان منصوبوں کے خلاف تقریریں کر چکے تھے اور امریکہ میں سی پیک کے خلاف بریفنگ لے چکے تھے۔ اوپر سے امریکہ کے دورے نے وزیراعظم کو ٹرمپ کے قریب کر دیا تھا اور وطن واپسی پر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ اس صورت حال سے چینی نہایت نالاں تھے۔
راقم کے پاس اس ضمن میں تحریر کرنے کے لئے قیمتی اور معلوماتی مواد موجود ہے جو ایک علیحدہ مضمون میں پیش کروں گا۔ چین اب ایک عالمی طاقت بن چکا ہے۔ اقتصادی طور پر پہلے نمبر پر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اب اس کے پاس ہے۔ یہ امریکہ کی سوچ سے بھی زیادہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ یہ زیادہ بولتے نہیں ہیں اور نہ باتیں بناتے ہیں، خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے تو اپنی فطرت دکھانی تھی، چنانچہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے اس منصوبے میں پوری دلچسپی لینے کا فیصلہ کیا۔ سی پیک اور گوادر کو جو اہمیت اور کلیدی حیثیت حاصل ہے عسکری قیادت اور فوج کو اس کا احساس اور ادراک ہے۔ سی پیک کے منصوبے پر کام کی جو تیز رفتاری چینی دیکھنا چاہتے تھے وہ گراؤنڈ پر نہیں تھی۔ گزشتہ روز پاکستان میں چینی سفیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں ہماری ٹاپ کی حساس ہستی ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے۔ بس سمجھ جانا چاہئے کہ یہ ملاقات کتنی اہم ہوگی۔ عام حالات میں اس نوعیت کی ملاقاتیں نہیں ہوتیں۔ چینیوں کا جن پر اعتماد اور بھروسہ ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اس مسئلہ پر ہر وقت حاضر دماغ رہنے کی ضرورت ہے اور گفتگو بھی نپی تلی اور محتاط ہونی چاہئے۔ اندرون ملک پی ڈی ایم دوبارہ متحرک ہو گئی ہے۔ ان کی جانب سے آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں دوبارہ پس پردہ رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain