تازہ تر ین

پولیس کا ناقص نظامِ تفتیش

محمد سمیع اللہ خان
پاکستان میں پولیس طاقتور ہمہ گیر اور اہم فورس ہے لیکن اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ مختلف شکلوں میں ہر جگہ اور خاص طور پر شہروں میں موجود ہیں بڑے جرائم میں قتل عصمت دری نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی اغواء مسلح ڈکیتی، چوری منظم جرائم میں دھوکہ دہی، منشیات فروشی، سمگلنگ، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، تاوان وغیرہ شامل ہیں۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری خاص طور پر بڑے شہروں میں عام ہے۔ اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو گزشتہ تین سالوں کی نسبت اب جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے 2017ء میں جرائم کی تعداد چار لاکھ تھی تو 2021ء میں 7لاکھ پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ جرائم لاہور شہر میں ہو رہے ہیں۔ لاہور میں 80سے زائدپولیس سٹیشن ہیں اور 2021ء میں ان میں 2لاکھ کیسز رجسٹر ہو ئے ہیں۔ لوٹ مار، قتل، قبضہ گری، چوری، ڈکیتی وغیرہ جیسے سنگین جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پولیس کے اہم عہدیداران اورسب سے زیادہ نفری لاہور میں تعینات ہے لیکن جرائم میں روزبروز اضافہ حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور جرائم میں اضافہ کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ پولیس آرڈر 2002ء کے تحت پولیس کو مختلف 18شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ان میں اہم شعبہ جات تفتیش واچ اینڈ وارڈجرائم کی روک تھام اور خواتین کے خلاف جرائم کے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم شعبہ تفتیش کا ہے۔ پولیس کو جب کسی جرم کی بابت کوئی اطلاع ملتی ہے یا کیس رجسٹر ہو جاتا ہے توضابطہ فوجداری کی دفعات 155سے 157 کے تحت پولیس تفتیش کرتی ہے کیونکہ فوجداری مقدمات میں انصاف پولیس کے شعبہ تفتیش سے شروع ہوتا ہے لیکن ناقص نظام تفتیش کی وجہ سے گنہگار لوگ بے گناہ ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ سالہا سال تک جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے بے جا اخراجات اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتانے میں گزار دیتے ہیں۔ اس وقت لاہور پولیس سٹیشنز میں تقریباً 40فیصد تفتیشی آفیسر مڈل اور میٹرک پاس ہیں جو کہ جدید تفتیش کے تقاضوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے فرانزک رپورٹ، پوسٹمارٹم رپورٹ، میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ بھی نہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کا تجزیہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے علاوہ تقریباً پچاس فیصد تفتیشی افسران جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں۔
جب تفتیش کا نظام ہی ناقص ہو گا اور کم تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف لوگ سنگین جرائم کی تفتیش کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ بیگناہ لوگ جیلوں میں ہوں گے، جبکہ جرائم پیشہ افراد شہر میں دندناتے پھریں گے۔ لاہور شہر میں روز افزوں بڑھتے ہوئے جرائم کی سب سے بڑی وجہ ناقص تفتیشی نظام ہے۔ تفتیشی شعبہ میں نااہل افسران کی وجہ سے لاہور میں درج مقدمات جن میں قتل ڈکیتی، اغواء، بچوں اور خواتین سے جنسی تشدد سمیت دیگر سنگین جرائم میں ملوث 70فیصد ملزمان کو گرفتار کرنے میں پولیس ناکام ہو چکی ہے۔ پولیس کی کرپشن رشوت خوری، بربریت، ہراساں کرنا،خواتین پر تشدد جیسی شکایات سب کے سامنے ہیں اور پولیس افسران کو روزانہ اپنے ماتحت عملہ کے خلاف بہت سی شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن پولیس میں احتساب کا عمل مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی کا معیار روزبروز زوال پذیر ہے۔ پولیس کا بنیادی کام عام شہریوں کا تحفظ ان کے جان ومال کی حفاظت اور امن وامان کی بحالی ہے۔ پولیس آفیسر کی یونیفارم اور بیج اعتباریقین بھروسہ او ر وفاداری کی علامت ہے۔ جرائم کے خاتمہ اور فوجداری نظام کو کامیاب بنانے کیلئے پولیس کااہم کردار ہوتاہے۔
پولیس کو اخلاقی طور پر درست اور سماجی طور پر قابل قبول، انصاف پسند اور ہمدرد ہونا چاہیے۔ پولیس پر عوام کا جتنا زیادہ اعتماد آئے گا اتنا ہی پولیس فعال کردار ادا کرسکے گی اور پولیس پر عوامی اعتماد صرف اس صورت میں بحال ہو گا جب پولیس اپنے فرائض ایمانداری قابلیت اور انصاف کے ساتھ انجام دے گی اس لئے پولیس کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کے سامنے جوابدہ ہیں کیونکہ پولیس کسی بھی قوم کی سب سے اہم ضروری فورس ہوتی ہے اور ہم ایک مؤثر اور ذمہ دار پولیس فورس کے بغیر پر امن معاشرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، اس لئے پولیس کو جدید طرز پر ڈھالنا بہت زیادہ اہم ہوگیاہے اور پولیس کے شعبہ تفتیش میں اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہے تاکہ بڑھتے ہوئے جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی ہو سکے۔
(کالم نگارمختلف امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain