سان فرانسسكو: (ویب ڈیسک) اوپر جتنی بھی تصاویر دکھائی دے رہی ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت نے لکھے ہوئے الفاظ سے انہیں تیار کیا ہے۔ اسے ٹیکسٹ ٹو امیج جنریٹر کا نیا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی آب جو کچھ لکھیں گے اسی مناسبت سے ایک تصویر سامنے آجائے گی۔
اگرچہ اس کے کمرشل اور مہنگے سافٹ ویئر موجود ہیں تاہم گوگل نے اس ضمن میں خود اپنا سافٹ ویئر بنایا ہے جو کمرشل DALL-E پروگرام کا ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
تصاویر کے لیے بس اتنا کرنا ہے کہ ٹیکسٹ باکس میں کچھ لکھیں اور یوں اسے دیکھ کر سافٹ ویئر ایک بہترین تصویر بنا دے گا۔ اس طرح سی جی آئی، عام تصویر اور آئل پینٹنگ کی صورت میں بھی تصاویر حاصل کی جاسکتی ہیں۔
گوگل نے گزشتہ ماہ اس پروگرام کا باضابطہ اعلان کیا تھا اور اب یہ زبردست تصاویر بنا رہا ہے۔ گوگل کا اے آئی ماڈل انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی تصاویر تیار کرتا ہے۔ اس سے قبل دیگر پروگراموں میں ٹیکسٹ سے بننے والی تصاویر بے ہنگم، بھدی اور دھندلی بن رہی تھیں۔
گوگل نے اپنے پروگرام کا نام Imagen رکھا ہے ۔ تحقیقی ٹیم نے 200 کے قریب تصاویر کے انتہائی بنیادی اجزا معلوم کئے ہیں اور انہیں سافٹ ویئر میں شامل کیا ہے۔ اس کے بعد ماہرین نے ٹیکسٹ سے بننے والی تصاویر کے معیار کا جائزہ لیا اور اس ردِ عمل کو بھی سافٹ ویئر میں شامل کیا۔ اس سے الگورتھم مزید بہتر ہوگیا اور تصاویر اچھی سے مزید بہتر بننے لگیں۔
تاہم گوگل اسے عام افراد کے لیے پیش نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی وجہ جعلی خبروں، افواہوں، اور لوگوں کی فرضی تصاویر سے بچنا ہے۔ انٹرنیٹ پر پہلے ہی جعلی تصاویر کی بھرمار ہے جو عوام اور اداروں کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔
تاہم اس کی پشت پر تصاویر کا ایک عظیم ڈیٹا بیس بھی موجود ہے جسے دیکھ کر اے آئی پروگرام کو تربیت دی گئی ہے۔ ماہرین نے ٹیکسٹ سے تصاویر بنانے والے تمام سافٹ ویئر میں ایک اور مسئلہ دیکھا۔ جب فلائٹ اٹینڈنٹ لکھا گیا تو ساری تصاویر خواتین کی تھیں حالانکہ مرد بھی فضائی میزبان ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب سی ای او لکھا گیا تو سفید فام افراد کی تصاویر سامنے آئی لیکن کسی جاپانی، افریقی اور چینی سی ای او کا عکس سامنے نہ آسکا۔
اسی لگے بندھے ضوابط سے بچنے کے لیے گوگل نے بطورِ خاص بہت کوشش کرکے پروگرام سے تعصب کا خاتمہ کیا ہے۔