تازہ تر ین

صوبہ تحریک اور سرائیکی رہنما

مقصود احمد دھریجہ ….بحث و نظر
ایک سرائیکی شاعر نے کہا ہے کہ ”اساں قیدی تخت لاہور دے نی ، ساکوں اپنیں گھانڑیں وات ڈتے “ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تخت لاہور کے قیدی بعد میں ہیں، سب سے پہلے ہمارے اپنے یعنی ہمارے سیاستدانوں نے وسیب کا بیڑہ غرق کیا ہے ۔ اپنی جگہ یہ بات ٹھیک بھی ہے اور اس پر اعتراض اور تنقید ہو رہا ہے اور ہونا بھی چاہئے لیکن کچھ اس طرح کا فیشن بھی بنا دیا گیا ہے کہ ہر بات کو لے کر تنقید کی بجائے تنقیس کی جاتی ہے اور اس کا انداز ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں مثبت اثر کی بجائے منفی اثر ہوتا ہے ۔
”خبریں“ 30 ستمبر کی اشاعت میں محترم سلیم صابر گورمانی ” سرائیکی صوبہ اور سرائیکی لیڈر شپ “ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ تحریک سرائیکی صوبہ کا نعرہ سب سے پہلے سرائیکی شعرا کرام نے لگایا اور اتنی شدت سے لگایا کہ تخت لاہور کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ سرائیکی کے نامور شاعر عزیز شاہد کو صرف اپنی ایک نظم کے مصرعے جو کہ یہ تھا ”دھر دے گونگے دھرتی واسو پل دے پیر سنجانڑو“ کی وجہ سے صدارتی ایوارڈ سے محروم کر دیا گیا۔ یہ بات حالات و واقعات سے مختلف ہے ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ صدارتی ایوارڈ کوئی نہیں ہے البتہ اکادمی ادبیات کی طرف سے ہر سال بہترین کتاب پر ایک ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ تمام زبانوں کیلئے ہے ، سندھی ایوارڈ کا نام ” شاہ لطیف ایوارڈ “ اور سرائیکی ایوارڈ کا نام ” خواجہ فرید ایوارڈ “ ہے ۔ ایوارڈ کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ اکادمی ادبیات تین جج مقرر کرتی ہے، جو کہ سال میں شائع ہونے والی کتابوں پر ان ججوں سے فیصلہ لیتی ہے ، جس کے حق میں وہ جج فیصلہ دے دیں ، اس کو ایوارڈ دے دیا جاتا ہے ۔ سرائیکی کتاب کیلئے سرائیکی ادیب اور شاعر جج ہوتے ہیں، سندھی کیلئے سندھی، بلوچی کیلئے بلوچی، پشتو کیلئے پشتون، اردو کیلئے اردو ۔ اب یہ بات سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ کسی شاعر یا ادیب کی کتاب کو ایوارڈ نہیں ملا تو گویا اس زبان کے ججوں نے نہیں دیا۔ اس میں اکادمی ادبیات کا کوئی دخل نہیں رہا۔ اس لئے یہ بات سرے سے ہی غلط ہے کہ عزیز شاہد کو ایوارڈ سے محروم کیا گیا ۔
محترم سلیم صابر گورمانی آگے لکھتے ہیں کہ ”سرائیکی صوبہ تحریک کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ، سرائیکی کے بڑے مگر مچھ ہیں ، کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے سینیٹ میں بل بھی پیش کر دیا تھا اور 100 میں سے 40 ووٹ بھی لے لئے تھے لیکن حالات بدلنے میں دیر کہاں لگتی ہے؟ اسی لیڈر نے پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر سرائیکی صوبے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا ۔ “ گورمانی صاحب کی یہ بات بھی غلط ہے ، ان کو پتہ ہی نہیں کہ سینیٹ نے سرائیکی صوبے کا بل پاس کر دیا تھا اور سو میں سے چالیس والی بات کا کوئی وجود نہیں ۔ میں نے یہی عرض کیا کہ اگر تنقید بھی کرنی ہے تو اس کا کوئی وجود ہونا چاہئے اور کوئی سر پیر ہونا چاہئے ۔ ایسے موقع پر سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ” ہوا وچ ڈانگاں مارن دا کوئی فائدہ کائنی“ ۔
محترم سلیم گورمانی آگے چل کر ایم این اے مخدوم خسرو بختیار کا نام خسرو پرویز لکھنے کے ساتھ ان کو سید بھی لکھا ہے ۔ میرا تعلق مخدوم خسرو بختیار کے حلقے سے ہے، وہ سید نہیں بلکہ قریشی ہیں۔ ان کے والد مخدوم رکن الدین قریشی الہاشمی کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اور سابق وزیر خزانہ مخدوم شہاب الدین ان کے کزن ہیں ۔ میں ایک بار پھر یہ گزارش کرتا ہوں کہ یہ بھی اچھی بات ہے کہ ہمارے وسیب کے لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے لیکن لکھنے کیلئے مطالعہ بھی ضروری ہے اور اس بات کا علم بھی ضروری ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں اس میں کتنی صداقت ہے۔ اب بھی ہم سرائیکی صوبہ تحریک، اپنی سچائی اور مثبت رویوں کے ساتھ آگے بڑھا سکتے ہیں اور فیشن کے طورپر تنقید سے احتراز بہتر ہے ۔ پہلے بھی محترم سلیم گورمانی نے اس طرح کا مضمون لکھا تھا ۔ جس پر بہت اعتراضات ہوئے اور اس کا جواب ”خبریں“ میں شائع بھی ہوا۔ روزنامہ خبریں کی یہ پالیسی بہت اعلیٰ اور بہترین ہے کہ وہ لکھنے والوں کو بحث کا موقع دیتے ہیں اور اس سے پڑھنے والے بخوبی اپنی اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں ۔ اسی کا نام آزاد صحافت ہے اور اس کا کریڈٹ ادارہ خبریں اور اس کے بانی جناب ضیاشاہد کو جاتا ہے۔٭٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain