انجینئر افتخار چودھری
خالد منہاس بڑا تگڑا صحافی ہے لفظ لکھتا ہے تو جی چاہتا ہے قلم کی مدح سرائی میں کوئی قصیدہ لکھا جائے البتہ متن سے اختلاف کی گنجائش رہتی ہے انہوں نے ایک کالم لکھا ہے جو پاکستان کے ایک ابھرتے ہوئے روزنامے میں چھپا ہے۔ فرماتے ہیں حکومت کے نیچے سے قالین سرک رہا ہے۔میں یہ تو دعوی نہیں کرتا کہ میں عمران خان کا بہت قریبی ہوں خاص طور پر حکومت بننے کے بعد وہ میری پہنچ سے بہت دور ہیں۔ ابھی فردوس عاشق اعوانوں اورندیم چنوں کے چن چڑھانے کے دن ہیں۔ جب پیارے قائد رج جائیں گے تو ہم بھی مستفید ہو جائیں گے لیکن پارٹی کی بڑی ذمہ داری کے لئے مجھے سیف اللہ نیازی نے چنا ہے اور مرکزی سپوکس پرسنز لسٹ میں بھی احمد جواد نے اعتماد کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ کی اضافی ذمہ داری بھی پارٹی قیادت ہی نے دی ہے۔میڈیا کا ایک بڑا گروپ بھی چلا رہا ہوں۔ پی ٹی آئی میڈیا کالمسٹ گروپ میں میرے ساتھ کوئی سو کے قریب صحافی ہیں یہ تو تھی دیسی گھی کی طاقتیں۔اب میں فرزند شکر گڑھ اور یار جدہ خالد منہاس ابو عبداللہ کو جواب دینا چاہوں گا۔پہلی بات تو یہ ہے میرے بھائی نہ تو عمران خان کسی فرش مخمل پر چل رہے ہیں اور نہ ہی کسی دبیز قالین پر۔پہلے دن سے ہی وہ انہی پتھروں پر چل رہے ہیں جن پر چلنے کا حوصلہ کوئی کوئی کرتا ہے۔2018 کے انتحابات میں عمران خان کو کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لے کر حکومت بنانا پڑی۔کھوبے میں پھنسی گاڑی کو باہر نکالنے میں انہی دوستوں نے زور لگایا۔ہم تو خوش ہیں وہ کسی نے کیا خوب کہا سب کو دو اور ہمیں بھی نہ بھولو۔کہ ہم چاہنے والے ہیں تیرے
اوروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جان وفا یہ ظلم نہ کر۔یہ ظلم نہ کر۔
قارئین! ہم کون سا شکوہ کرتے ہیں۔ دل لگی ہے اپنے لیڈر کے ساتھ سامنے بھی ہوں تو ایسے ہی کہتے ہیں اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس نے یہ ساری جد وجہد معین قریشی اور شوکت عزیز‘ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی بننے کے لئے کی ہے تو اسے اپنے ذہن سے یہ بات نکال لینی چاہئے
اہم بات یہ ہے کہ اگر عمران خان نے کوئی کام غلط کہے ہوتے تو وہ بچھ بچھ جاتا وہ لوگ جو اسے کٹھ پتلی سمجھتے تھے آج وہ دوسری جانب کھڑے ہو کر درفنتنیاں چھوڑ رہے ہیں۔ انہیں کج نہیں لبھے گا۔جو کچھ نہ کر سکے وہ کسی کو کچھ کرتا دیکھ کر بھی نادم نادم سے ہیں۔
میں بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بات ضرور کروں بلکہ ایک چھوٹی سی نشست کی بات سنا کر آگے بڑھتا ہوں۔دو روز پہلے شہباز گل سے میرا وقت طے تھا اس وقت وہ پنجاب ہاؤس نہیں پہنچ سکے لیکن جیسے ہی وہاں سے گڈی کے کے نکلا تو کال آ گئی کہ پلیز واپس آئیے گل صاحب آگئے ہیں۔ملاقات ہوئی گل بات ہوئی اور گلوں گلوں میں ایک کم دی گل یہ بتائی کہ انجنیئر صاحب خوش قسمتی جسے luck کہتے ہیں یہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے ورنہ جتنا کام بھائی عمر چیمہ اور آپ کا ہے وہ کیا عمران خان کو نہیں معلوم لیکن جس دن اللہ نے چاہا حکومتی ذمہ داری بھی مل جائے گی میں نے بر وقت کہا ہمیں بھی کوئی کالہی نہیں۔ قارئین میرا کالم کوئی کالم ہوتا ہے یہ تو میں دل کی باتیں اور دل کے ساز کے تار تڑن کر کے چھیڑ دیتا ہوں ضیا شاہدصاحب اور مجیب شامی‘ الطاف حسن قریشی‘مجید نظامی جیسے لوگوں کو پسند آجاتا ہوں۔میں دراز قد خوبصورت باتوں کے شہنشاہ شہباز گل کی باتیں سن رہا تھا۔کبھی کبھی چھوٹے میاں کو سپیڈ شریف کہا جاتا تھا اب شہباز گل کے لیے اتنا ہی کہوں گا۔
تینوں رب دیاں رکھاں
فرخ حبیب کو اور فواد چوہدری کو یاد کر رہا تھا کہ یہ بہترین ٹیم ہے جو میرے قائد کا دفاع کر رہی ہے۔
باقی فیاض چوہان کی بات ہی الگ ہے لیڈر اور صوبائی اسمبلی کا۔ممبر بننے میں فرق ہوتا ہے۔بندے کو اچھے دن یاد کرنے چاہئیں۔ اللہ کی ذات نے انہیں عمران خان کی نمائیندگی کرنے کے لیے چن لیاہے ہم پارٹی کا پرچم تھامے کسی اور میدان میں نکل گئے آخر انڈین میڈیا پر جو چھترول میں کرتا ہوں ان کے پاس وہ محاذ تو نہیں ہے۔لہٰذا خالد منہاس بھائی سے کہنا چاہوں گا کہ قالین ایک دو بندوں کی نوکری اپوائنٹمنٹ سے نہیں سرکا کرتے۔عمران خان اس ملک کے کروڑوں لوگوں کا چہیتا ہے اور آج بھی اس کی کال پر میدان بھر جاتے ہیں۔
ایک ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن کی وجہ سے ٹکراؤ ہو جائے گا یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا خدا کے بندو یہ بابے شیخ کی ہٹی ہے جو لٹ جائے گی پٹ جائے گی۔یا یہ دونوں بڑے اسکول بوائے ہیں کہ معمولی سی بات پر تھو کر لیں گے اور بولیں گے نہیں۔اصل میں وہ طبقہ جسے ہمیشہ یہ بات پسند رہی کہ پاکستان میں ہنگامے ہوتے رہیں شور شرابے چلتے رہیں سب کچھ ہو امن نہ ہو۔
دوستو!جمہوریت جتنی پاکستان میں،، کمزور،، دکھائی جا رہی ہے اتنی ہے نہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ زنجیر اتنی ہی کمزور ہوتی ہے جتنی اس کی کمزور کڑی۔ عمران خان دوسری کڑیوں کی طرح ایک مضبوط کڑی ہے جس نے اپنے پاؤں کے نیچے،،کھیڑی،، پہنی ہو جس کے سول،،ٹائر کے ہوں وہ سلپ نہیں کرتا اور سب سے زیادہ طاقت کیا سبز گنبد والا اسے اکیلا چھوڑے گا اور ان دنوں میں جب،،ہفتہ رحمت اللعالمین،،منانے جا رہا ہو اور منائے عمران خان۔ دوستا سوچی وی ناں۔
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭