سید سجاد حسین بخاری
میرے پاس معیشت کو سدھارنے کیلئے ایک ماہر ٹیم موجود ہے جس نے گزشتہ 2سال سے پاکستانی معیشت کے کمزور پہلو پر کام شروع کردیا ہے اور جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو پاکستانی معیشت کا دُنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوگا۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خداحافظ کہیں گے۔ ایک کروڑ بیروزگاروں کو نوکریاں اور 50لاکھ بے گھر افراد کو گھر بناکر دیں گے۔ نئے پاکستان میں پوری دُنیا سے لوگ آکر ملازمتیں کریں گے۔ سب کا احتساب ہوگا جس کی شروعات میری ذات سے ہوگی۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لاؤں گا۔ بڑے مجرم قانون کی گرفت میں آئیں گے اور جنوبی پنجاب کو پہلے 100دنوں میں صوبہ بناکر اس خطے کی تمام تر محرومیاں ختم کردیں گے۔ یقینا یہ الفاظ موجودہ وزیراعظم عمران خان کے تھے جو وہ 2018ء کے ہر جلسے میں دُہرایا کرتے تھے مگر آج ساڑھے 3سال گزر گئے ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔
وقت نے ثابت کیا کہ وزیراعظم کی جیب میں کھوٹے سکے تھے۔ اسد عمر‘ حماد اظہر‘ عمر ایوب اور اب شوکت ترین وزرائے خزانہ بنائے گئے۔ 5مرتبہ خزانے کے سیکرٹریز تبدیل کئے گئے۔ متعدد چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ بھی بدلے گئے مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو معیشت کی بہتری کی خبریں سنائی جارہی ہیں مگر عملی طور پر یہ ثابت ہوچکا کہ پاکستان کی گزشتہ 70سال کی تاریخ میں اس وقت سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ غریب کو دو وقت کے بجائے ایک وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب کی قسمت میں دال روٹی کی گنتی کی جاتی تھی۔ موجودہ حکومت نے وہ بھی چھین لی۔ 22کروڑ کی آبادی کے ملک میں چند بڑے شہروں میں لنگرخانے اور پناہ گاہیں بنانے سے معیشت نہیں سدھرتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وزیراعظم کو ساڑھے 3سال حکومت کرنے کے باوجود بھی دال روٹی کے بھاؤ کا پتہ نہیں اور پھر بین الاقوامی مہنگائی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ معیشت کے بگاڑ کو سدھرانے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ حقائق سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ملازمین کو ہم نے گورنر سٹیٹ بینک‘ وزیر خزانہ اور مشیر لگائے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے ہمدرد کیسے بن سکتے ہیں؟ کیونکہ پاکستان سے واپس انہوں نے اپنے انہی اداروں میں جانا ہے جہاں سے وہ آئے ہیں لہٰذا یہ بات طے ہوچکی ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال میں بھی مہنگائی‘ بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں کوئی معجزہ ہوجائے تو وہ الگ بات ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں اور 50لاکھ گھر بھی عوام بھول جائیں‘ کچھ بھی نہیں ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی بھی نہیں ہوگی۔ پاکستانی عدالتیں‘ ایف آئی اے اور نیب کس مرض کا علاج ہیں؟ حکومت نے ان اداروں سے ایک مرتبہ بھی مشاورت نہیں کی۔ اگر روڈ میپ بنایا جاتا اور وقت مقررہ کا تعین بھی کیا جاتا تو آج لوٹی ہوئی دولت واپس آچکی ہوتی۔ نوازشریف کو کیوں اور کس کے کہنے پر بیرون ملک بھیجا گیا؟ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس ڈیل کو قوم سے آگاہ کریں۔ چلو زرداری تو موجود ہیں ان سے ریکوری میں کیا رُکاوٹ ہے؟ حکومت نے جب کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا تو وعدے کیسے اور کہاں سے پورے ہوتے؟
دُنیا بھر میں عمران خان جیسے لیڈر پہلی بار حکومت میں آتے ہیں تو وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے سپیشل سسٹم اور ٹیمیں بناتے ہیں جو دیئے گئے اہداف کو حاصل کرتے ہیں اور وہ حکومت سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ وہ صرف رہنمائی کرکے اہداف کو مکمل کرتے ہیں۔ عمران خان نے تو اس بابت کچھ بھی نہیں کیا‘ جو حکومت ساڑھے 3سال میں یہ طے نہیں کرسکی کہ لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لائی جاسکتی ہے وہ اور کیا کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان کا سرائیکی خطے کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ بھی تھا مگر اسے بھی ممبران اسمبلی کی تعداد سے مشروط کرکے ختم کردیا گیا۔ کسی نے آج تک حکومت سے نہیں کہا کہ جنوبی پنجاب کے 3ڈویژن اور 11اضلاع کے عوام نے آپ کو ووٹ دلواکر کامیاب کرایا‘ پھر بھی آپ نے صوبہ نہیں دیا۔ وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب کے لوگ جنوبی پنجاب کے عوام کو آزادی کیوں دیں گے اور پھر سیکرٹریٹ کا لولی پاپ جس کے آج تک اسمبلی سے رولز اینڈ بزنس بھی منظور نہیں کرائے گئے اور پھر ظلم یہ ہے کہ پنجاب میں اس وقت 44محکمے قانونی طور پر باقاعدہ کام کررہے ہیں مگر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کیلئے صرف 16محکمے کیوں؟ ایک سادہ سی بات کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی نے تحریک انصاف کو صوبہ بنانے کی پیشکش کی ہے مگر حکومت بھاگ گئی کیونکہ لاہور میں تحریک انصاف کی حکومت کے بجائے (ن) لیگ کی حکومت بنتی تھی‘ اس لئے عمران خان بھاگ گئے۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بناکر آپ وسطی اور شمالی پنجاب کی حکومت اکثریت رکھنے والی (ن) لیگ کو دے دیتے۔ آپ نے وہی کام کیا جو (ن) لیگ کررہی تھی کہ اتنے بڑے صوبے کی حکومت ہم کیوں قربان کریں؟ حکومت کو چاہیے کہ سرائیکی خطے کے عوام کو باقی کچھ نہیں دے سکتی صوبہ تو دے اور 44محکمہ جات بھی مکمل طور پر صوبہ سیکرٹریٹ میں بنائے جائیں۔ صوبے کی باؤنڈری اور پانی کی تقسیم کا‘ کیا کروگے؟ کیونکہ یہ بنیادی اور زندگی موت کا سوال ہے۔ میرے نزدیک تو موجودہ حکومت نے اس خطے کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری‘ ملازمتیں‘ گھر اور معیشت کا سدھار ہم سب معاف کرسکتے ہیں مگر صوبے کا نہ بننا لوگ معاف نہیں کریں گے اور پھر کس منہ سے جنوبی پنجاب کی عوام کے پاس آؤگے؟
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭