تازہ تر ین

سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو

محمد صغیر قمر
کئی مہینے گزر گئے،ادھرمیرے دفتر کے بالکل سامنے برسوں سے نصب عمار شہید کی یاد گار پھر سے تعمیر کے مرحلے میں ہے۔ دفتر کی بالکونی میں کھڑے ہوکر آج میں نے کارکل کے اس شہید کو بے طرح یاد کیا۔برسہا برس گزر گئے۔ اس کا جسد ِخاکی کارگل کی کسی برفیلی چوٹی پر رہ گئی۔ راولپنڈی میں چکلالہ اسکیم تھری کا چوک اس کے نام کر دیا گیا جہاں اب ایک میگا پراجیکٹ جاری ہے اور میرے عزیزکیپٹن کے نام سے ایک خوبصورت یادگار جلو گر ہورہی ہے۔اگرچہ اس جگہ کانام پہلے سے ”عمار شہید چوک“ ہے لیکن نہ جانے آج کیوں وہ بے اختیار یاد آیا۔
کیپٹن عمار کو شہید ہوئے کچھ دن گزرے تھے‘ ہم ان کے گھر حاضر ہوئے۔ سراپا استقامت ان کی ماں نے کہا‘
”عمار کارگل کے محاذ پر تھا تو میں نے خواب میں اسے دیکھا۔ ہم اپنے گاؤں میں ہیں اور آسمان سے لا تعداد لوگ پیرا شوٹ کے ذریعے اتر رہے ہیں‘ ان میں عمار بھی ہے۔ وہ بریگیڈیئر طارق محمود (ٹی ایم) شہید کے انداز میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہوئے نیچے آ رہا ہے۔ زمین پر اترتے ہی وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ میں پریشان ہو جاتی ہوں۔ پھر اچانک عقب سے آ کر وہ میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیتا اور کہتا ہے۔ ”امی“!!
”میں نے جب عمار کو پیرا شوٹ جمپ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے ہوئے دیکھا تو یقین ہو گیا کہ میرا جگر گوشہ ضرور کوئی عظمت لے کر آسمانوں سے اترے گا۔“ کوئی ماں اس سے بڑی عظمت و سعادت کا تصورکیا کر سکتی ہے؟ پچیس برس کے ایک نوجوان کی ماں کے لیے یہ فخر ہی دو جہاں کی دولت سے بڑھ کر ہے کہ اس کا کم عمربیٹا جس کی ابھی ابھی منگنی ہوئی تھی اس طرح اس کے دودھ کی لاج رکھتا اور تربیت کا حق ادا کرتا ہے۔ اپنے خاندان کو ایسی عظیم سعادت کا تحفہ دے کر خود ابدی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔
کیپٹن عمار ۵۲ مارچ ۵۷۹۱ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میجر محبوب حسین نہایت دیندار اور مزاجاً حریت پسند شخص تھے۔ اسلام کے شیدائی‘ بلکہ صحیح معنوں میں دیوانے۔ بیٹا دین کی محبت میں باپ پر بازی لے گیا۔ دیوانگی کی حد یہ ہے کہ اپنی آرزو پر اس محاذ پر جہاد کرنے پہنچ گیا جہاں بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ایک ہو جاتا ہے اور فرزانگی کی انتہا یہ ہے کہ ابدی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ عمار شروع ہی سے حریت پسند بچہ تھا اس کے والد بتایا کرتے تھے ”وہ بچپن ہی میں ولی معلوم ہوتا تھا۔“ ذہانت و فطانت میں ہمیشہ اپنے طالب علم ساتھیوں میں نمایاں رہے اور غیرت و حمیت کا جذبہ ایسا محکم تھا کہ چھ سات برس کی عمر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ”جنگ جنگ“ کھیلتے اور فتح پر خوشی مناتے تھے۔ عمار کے ماموں طارق کہتے ہیں کہ سات سال کی عمر میں ایک بار جہازی سائز کے کاغذ پر جنگ کا نقشہ بنایا۔ کاغذ کے درمیان لکیر کھینچ کر ایک طرف پاکستان کی فوج‘ ٹینک اور گاڑیاں بنائیں اور دوسری جانب ہندوستان کے فوجیوں اور اسلحہ دکھایا تو ان کی صلاحیتوں کا یقین تھا‘ اس نے وہ نقشہ ٹیچر کو دکھا یا لیکن ان کے ٹیچر کو یقین نہ آتاتھا کہ ایک معصوم بچہ جنگ کا ایسا پلان بناسکتا ہے۔سکول کی ہر جماعت میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے۔ کیئرئر کا سارا سفر تیزی رفتاری سے طے کیا۔ وہ ان بچوں میں سے تھے جو اپنا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے۔
۷۸۹۱ء میں ملٹری کالج جہلم میں داخلہ ملا۔ پانچ برس تک یہاں تعلیم پانے کے بعد ۲۹۹۱ء میں پی ایم اے جائن کیا۔ ۴۹ء میں پاس آؤٹ ہونے کے بعد۳۔ ایف ایف کا انتخاب کیا لیکن اضطراب کسی مقام پر رکنے نہیں دیتا تھا۔ ایس ایس جی کی تربیت حاصل کرنے پر کمربستہ ہوئے اور اکتوبر۷۹۹۱ء میں سپیشل سروسز گروپ کا کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد یلدرم بٹالین میں شامل ہوئے۔ یہاں بھی ان کے جنون کی شورش نہ گئی‘ اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ایک کورس کے بعد دوسرا کورس کرتے رہے۔ معرکہ کارگل سے قبل وہ انفنٹری کالج کوئٹہ کے لیے منتخب ہو گئے تھے لیکن کارگل میں بھارت سے جنگ چھڑ گئی تو وہ اس میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ کارگل کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو رضا کارانہ پیش کیا تھا۔ اس معرکے پر جانے کے لیے اپنے گھروالوں کو بھی خبر نہ ہونے دی۔ کیپٹن شیر خان شہید عمار کے کورس میٹ تھے۔ کارگل میں بھی ساتھ ساتھ تھے۔ دونوں نے ایک ہی روز شہادت پائی۔ کیپٹن عمار کس طرح شہید ہوئے؟ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دشمن جب ٹائیگر ہلز پر پاک فوج کی سپلائی کاٹنے میں مصروف تھا اس سے اگلی پوسٹ پر پاک فوج کے ۳۲ افراد پھنس گئے تھے۔ وہ بہادری سے لڑتے رہے لیکن ان میں سے ۹۱ افراد شدید زخمی ہو چکے تھے۔ ان کو دشمن کے گھیرے سے نکالنا ضروری تھا۔ کیپٹن عمار‘ کیپٹن کرنل شیر خان اور ان کے چھ ساتھی دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ ان کو اپنے زخمی بھائیوں تک پہنچنا اور انہیں وہاں سے نکال کر لانا تھا۔ یہ آسان کام نہ تھا مگر انہوں نے ایک بار پھر رضاکارانہ طور پر یہ ناممکن مشن پورا کرنے کی کوشش کی اور اس معرکے میں شہید ہو گئے۔
سورج طلوع ہو گیا اب وہ بھارتی فوج کی آنکھوں کے سامنے آ چکے تھے۔ دشمن فوج نے انہیں سرنڈر کرنے کی پیشکش کی۔ چاروں طرف سے گھرے ہوئے چندہمارے بہادرنوجوانوں نے ہتھیار ڈالنے اور بزدل دشمن کا جنگی قیدی بننے سے صاف انکار کر دیا اور ”شہادت شہادت“ پکار کر آخر تک جنگ جاری رکھی۔آخری لمحے تک دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچی رہی اور پھر سب بہادروں نے باری باری اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا دیں۔انہوں دشمن کی یلغار روک دی او سبز ہلالی پرچم لہرا کر دشمن کو پسپا کردی۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والے کچھ ساتھیوں کے جسد خاکی واپس آ گئے لیکن عماراور چندساتھی کارگل کے کسی ان دیکھے ان جانے پہاڑی گوشے میں ایسے محو خواب ہوئے کہ کسی کو ان کا سراغ بھی نہ مل سکا۔انہوں نے اپنے جسم کارگل کی برفیلی زمین میں بو دیے۔بالکونی مین کھڑے کھڑے میں نے ایک اچٹتی نظر زیر تعمیرعمار چوک پر ڈالی۔مجھے عمارسے آخری ملاقات یاد آئی وہ اپنے اباجی میجر محبوب کے ساتھ میرے پاس آیا تھا۔تب وہ چراٹ میں تعینات تھا۔اس کی دلچسپی کا محور اللہ کی راہ میں جہاد تھا۔اس روز عمار نے مجھ سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق کتاب ”الجہاد فی الاسلام“ کی فرمائش کی۔اتفاق سے کتاب میرے پاس تھی میں نے اسے پیش کردی۔اس کے چاند چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور بولا”تھینک یو انکل“میں نے کہا میں آپ کا”ہم عمر“ہوں۔انکل کیسے ہوگیا۔وہ کھلکھلا کر ہنسا اور میرا ہی ایک فقرہ جواباًکہہ دیا”تھینک یو انکل بھائی جان“!!
آج میں نے ان وفا شعاروں کو پھر سے یاد کیا جن کو قیامت تک اسرار کے پردوں میں لپٹ کر برف کی گہری تہہ میں سویا رہنا مرغوب ہوا۔ کیپٹن عمار اور ان کے چھ ساتھیوں کا گروپ پاک فوج کی جرات و شجاعت کا گواہ بن گیا۔ عمار کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا لیکن کیپٹن عمار اور ان کے جاں نثار ساتھی عظمت کی جن بلندیوں پر فائز ہو چکے ہیں۔دنیا کا بڑے سے بڑا ایوارڈ ان کی شان کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔میں نے تصور ہی تصور میں کارگل کی سرسراتی ہواؤں کو یاد کیا۔بے اختیار منہ سے نکلا:
سرسراتی ہواؤں کو پیغام دو
ایسی راہوں سے جب تم گزرنے لگو
سو رہا ہے جہاں ایک شہید وطن
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain