عبدالستار خان
ہر جماعت‘ ہر سیاستدان کا حتمی ہدف لوگوں سے ووٹ لینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہو تو وہ لوگوں کی توجہ ان باتوں میں لگانے میں مصروف ہو جاتی ہے جس سے حکمران جماعت سے لوگ بیزار ہو جائیں اور انتخابات میں حکمران جماعت کو ووٹ نہ دیں۔ اسی طرح حکمران جماعت کی کوشش رہتی ہے کہ وہ لوگوں کیلئے کوئی ایسا کام کر جائیں جس سے اگلے انتخابات میں لوگ انہیں پھر ووٹ دینے پر مجبور ہو جائیں۔ پاکستان کی اس کی تازہ مثال وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب ہے جس میں وہ لوگوں کو ریلیف دینے کا عہد کرتے ہیں۔ دو بڑی ریلیف وہ ہیں جن میں لوگوں کی تعداد کا تعین بھی حکومت نے کرلیا ہے۔ ایک ریلیف میں دو کروڑ لوگ مستفید ہوں گے اور دوسرے ریلیف میں چالیس لاکھ لوگوں کو مستفید ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔
اب ان دونوں ریلیف کے حوالے سے ملک کے دو کروڑ چالیس لاکھ افراد مستفید ہوں گے۔ یوں تو ایک ریلیف میں دو کروڑ لوگوں کے ساتھ جڑے ہوئے 13 کروڑ لوگوں کی بات ہوتی ہے لیکن یہ 13 کروڑ لوگوں میں آبادی میں عمر کے تناسب سے بات ہوتی ہوگی جس میں کروڑوں کی تعداد وہ بچے بھی آتے ہوں گے جن کے غالباً ابھی تک ووٹ ہی نہ بنا ہو۔ شناختی کارڈ ہی نہ بنا ہو اور غالباً اچھی خاصی تعداد شاید ابھی سکولوں کا ہی رخ نہ کر سکے ہوں اس لیے دونوں ریلیف سے مستفید ہونے والے یقینی طور پر ووٹر بھی ہوں گے۔ اسی حساب سے دو کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کے مستفید ہونے کا امکان ہے بشرطیکہ یہ دونوں ریلیف پیکج کامیابی سے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔
اب دیکھا جائے تو موجودہ حکومتی جماعت کی یہ کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات کیلئے اپنے ووٹوں کو یقینی بنائیں جو کہ ہر ایک حکومتی جماعت کا جمہوری حق ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ملک کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مجموعی طور پر پورے ملک کی پانچ اسمبلیوں سے تین کروڑ سولہ لاکھ ووٹ پڑے تھے جن میں ایک کروڑ انسٹھ لاکھ ووٹ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کیے گئے تھے۔ ایک کروڑ گیارہ لاکھ ووٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ چودہ لاکھ ووٹ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ اکیس لاکھ ووٹ کے پی کے اسمبلی کے انتخابات میں حاصل کیے گئے تھے اور ایک لاکھ سے زائد ووٹ بلوچستان اسمبلی سے ملے تھے۔ کل ملا کر پاکستان تحریک انصاف کو تین کروڑ سولہ لاکھ ووٹ 2018ء کے انتخابات میں ملے تھے۔
اب عمران خان صاحب کے قوم سے دونوں ریلیف پیکیج میں دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کی تعداد کا تعین حکومت نے کیا ہے۔ اب اس بات کا پتہ چلانا انتہائی مشکل کام ہے کہ اگر یہ دو کروڑ چالیس لاکھ لوگ واقعی مستفید ہو جاتے ہیں اور وہ بھی آئندہ انتخابات سے قبل تو ان تین کروڑ سولہ لاکھ افراد کی کتنی تعداد ہوگی۔ جنہوں نے 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور ان لوگوں کی کتنی تعداد ہے جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ نہیں دیا بلکہ دوسری جماعتوں کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن پھر بھی دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کا واقعی مستفید ہونا تحریک انصاف کو آنے والے انتخابات میں اچھے خاصے ووٹوں کی شکل میں انعام مل سکتا ہے۔ چاہے دو کروڑ چالیس افراد کی تعداد 76لاکھ کم ہے ان تین کروڑ سولہ لاکھ سے جنہوں نے 2018ء میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔ بہت سمجھدار لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ عمران خان صاحب کو اس طرح کا قوم سے خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر عوام کو دیئے گئے ریلیف پیکیج حقیقی شکل ہی اختیار نہ کر سکے تو پھر کیا ہوگا۔
اگر یہ ریلیف پیکیج حقیقی صورت اختیار نہ کرسکے کہ تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کو گھر بیٹھے بیٹھے فائدہ ہو جائے گا کیونکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو2018ء میں مجموعی طور پر پورے ملک کی پانچ اسمبلیوں سے 2 کروڑ43 لاکھ ووٹ ملے تھے جن میں ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ قومی اسمبلی کے انتخابات حاصل ہوتے تھے۔ ایک کروڑ پانچ لاکھ ووٹ پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ 2 لاکھ35 ہزار ووٹ سندھ اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ چھ لاکھ 45 ہزار ووٹ کے پی کے اسمبلی کے انتخابات سے حاصل ہوئے تھے اور28 ہزار ووٹ بلوچستان اسمبلی کے انتخابات میں ملے تھے۔ اسی طرح پاکستان سے دونوں بڑی جماعتیں پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعتیں بن گئی تھیں۔ دونوں جماعتوں کے ووٹوں کے موازنہ کے حوالے سے تحریک انصاف کو پاکستان مسلم لیگ ن کے مقابلے میں 71لاکھ ووٹ زیادہ ملے تھے۔ اب عمران خان صاحب کے 2023ء کے انتخابات سے پہلے عوام سے خطاب کے دوران دو ریلیف پیکیج میں دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کے مستفید ہونے کی شنید ہے۔ اگر مکمل ہوگئی تو یقینی طور پر یہ عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اگر نہ ہوئیں تو پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے آنے والے انتخابات میں جیتنے سے کوئی نہ روک سکے گا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭