تازہ تر ین

پاکستان میں سیاسی اصلاحات

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
سیاست یا سیاسی نظام ایک وسیع معانی رکھنے والی اصطلاح یا اصطلاحات ہیں۔ سیاست کسی بھی ملک یا معاشرے کو نہ صرف بناتی ہے بلکہ اس کی ترقی اور استحکام میں سیاست کا نمایاں کردار ہوتاْہے۔سیاست جہاں بڑے ملکی معاملات کا احاطہ کرتی اور ان کو چلاتی ہے وہیں وہ درمیانے اور چھوٹے معاملات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ملکی نظام کو چلانے اور ان کے استحکام کیلئے سیاسی ادارے وجود میں لائے جاتے ہیں جن میں سیاسی پارٹیاں، الیکشن کمشن، پارلیمنٹ جو ایک یا دو ایوانوں پر مشتمل ہو سکتی ہے، حکومت کا مکمل نظام، ملک کی انتظامی تقسیم، عدلیہ کا کردار، ملکی معیشت اور مختلف نظام جو عوام کو تمام قسم کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ان سب اداروں اور عوامل کو ملکی آئین کی وضع کردہ حدود و قیود میں اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جو بات سب سے ضروری ہے وہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام یا اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت ملکی عوام کی مجموعی اور انفرادی معاشی ترقی، جان و مال کی حفاظت، ایک ایسے ماحول کا قیام جس میں رہ کر عوام بلا کسی تفریق کے اپنی اپنی زندگی کا معیار بلند کر سکیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔
پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک چند گنے چنے خاندانوں اور افراد کی سیاست پر نہ صرف اجارہ داری رہی ہے بلکہ اس سیاسی اجارہ داری کے نتیجے میں وسائل کی اکثریت اور دولت کا ارتکاز انہی چند خاندانوں اور افراد تک محدود رہا ہے۔ درمیانے اور نیچے درجے کے طبقات نہ صرف سیاسی محرومی کا شکار ہوئے بلکہ معاشرتی اور معاشی طور پر بھی یہ طبقات اپنی قسمت سے مایوس اور کسی حد تک ملکی معاملات سے بھی بے تعلق ہو گئے۔ خاندانی سیاسی پارٹیاں الیکشن کے وقت نہ صرف معاشرے کے طاقت ور لوگوں کو ہی اپنا امیدوار بناتی ہیں بلکہ ان کو منتخب کروانے کے لئے بے مہار قوم، حاوی طبقات کا اثر و رسوخ، ذات پات اور مذہبی فرقہ واریت کو بھی استعمال کرتی ہیں۔ ملک میں علاقائی، ذات برادری اور پیری مریدی کی بنیاد کا نا جائز فوائد کے لئے استعمال عام ہوتا ہے۔ ایوان بالا یا سینٹ کا انتخاب تو بھاری رقوم کے خرچ کرنے سے ہی عبارت ہے۔ نتیجہ کے طور پر صوبائی یا قوی اسمبلی ہو یا سینٹ ان میں نا اہلی اور بے توجہی کا راج ہوتا ہے۔ کسی کے لئے کو ئی تعلیمی یا مناسب اخلاقی معیار کا کوئی پیمانہ نہیں ملتا سوائے چند غیر مؤثر آئینی شکوں کے۔
پاکستان کے اس طرح کے سیاسی نظام اور ماحول میں کوئی سیاسی پارٹی یہاں تک کی فوجی حکومتیں بھی کوئی معنی خیز تیدیلی لانے میں نہ کامیاب ہوئیں اور نہ مستقبل میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے
اور اقبال رومی کی مثنوی سے بیان کرتے ہیں، گفت رومی:
ہر بنائے کہنہ کہ باداں کند
اوّل ایں بنیاد را ویراں کند
کہ جس پرانی عمارت کو آباد کرنا چاہتے ہو پہلے اس کو جڑ سے اکھاڑو۔
ایک اور جگہ اقبال خدا کے بندے سے سوال جواب کا بیان کرتے ہیں
گفتند جہان ما آیا بہ تو می سازش
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن
اللہ اپنے بندے سے پوچھتے ہیں کہ کیا میرا جہاں تمہیں راس ہے،بندے نے جواب دیا نہیں (یہاں تو ظلم ہے امرآ غریب کے حقوق پامال کرتے ہیں)
جواب یزداں آتا ہے تو اسے درہم برہم کردو (اور نیا جہاں بناؤ جو تمہیں سازگار ہو)
پاکستان کو ایک نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔ مغربی طرز جمہوریت کی جگہ وہ جمہوریت لانے ہوگی جو یہاں کے حالات سے مطابقت رکھتی ہو تاکہ عوام کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔جہاں کسان، مزدور اور نچلے طبقے کے لوگ بھی اسمبلیوں اور سینٹ میں جا سکیں۔ جہاں الیکشن میں بکنے بکانے، اور پیسے کی ریل پیل ختم ہو جائے اور تعلیم اور قوم کی تربیت کو اولین ترجیح ہو جہاں نظام صحت صرف شناختی کارڈ پر ہر انسان کا مکمل علاج کر سکے۔
مگر یہ سب ہو گا کیسے؟
جو نظام اگلے چند کالمو ں میں تجویز کیا جارہا ہے اسے اس ملک کے طاقتور طبقات مشکل سے قبول کریں گے مگر جب عوام جن کی قسمت میں محرومی ہے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یکجا ہو کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان کے سامنے سے بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان حقوق کے لئے جدوجہد تمام جمہوری ہے ملک کو کسی وقت غیر متوازن نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ممکنہ طریقوں میں:
ا- کوئی سیاسی پارٹی جس کی اٹھان انقلابی ہو ان اقدامات کو اپنے منشور کے طور پر لے اور کامیاب ہو کر ان پر مکمل عمل درآمد کرے۔
ب- ایک ملک گیر ریفرنڈم کے ذریعے ان سیاسی اصلاحات پر عمل کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔
ج۔ آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں consensus یا اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور عمل درآمد کی راہ ہموار ہو جائے۔
د- سپریم کورٹ اپنی صوابدید میں خاص حالات کے تحت کسی حکومت کو راستہ دے دے تاکہ ملک میں حقیقی فلاحی نظام اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔
س۔ قومی اسمبلی اور سینٹ اپنے مشترکہ اجلاس میں ان اقدامات پر عمل درآمد کی راہ نکالیں۔
سیاسی اصلاحات کا مقصد ملک میں حقیقی جمہوریت جس کا پاکستانی کردار نمایاں ہو کا قیام ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں غیر جمہوری مداخلت کا مداوا اور عام عوام کی حصہ داری اور ان کے حقوق کا مؤثر تحفظ ہے۔ملک کا سیاسی نظام ملکی سلامتی اور مسلسل ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہو۔اور سسٹم میں سیلف کوریکشن
(Self-correction) کی مکمل صلاحیت، گنجائش اور ضمانت ہو۔
پاکستان کا جمہوری سیاسی نظام مندرجہ ذیل اداروں پر مشتمل ہونا چاہئے:
سب سے اوپر(Apex Body) ایک قومی مشاورتی کونسل (National Consultative Council) جو نہ صرف جمہوریت، جمہوری اداروں اور روایات کی پاسداری کرے اور نگرانی کرے بلکہ ملکی سالمیت اور سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کو بھی دیکھے اور جہاں ضرورت ہو متعلقہ اداروں کو مشورہ اور اگر ضروری ہو تو حکم بھی جاری کر سکے۔ قومی مشاورتی کونسل کے ممبرز کی تعداد دس یا اس سے زیادہ ہو اور یہ سب نہایت تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد ہوں جن کی دیانت، قابلیت(competence)، امانت اور کردار پر کوئی سوال نہ اٹھایا جا سکے۔ ان سب ممبران کی عمر کی حد 65 سے 75 سال کے درمیان ہومگر اچھی صحت کے حامل ہوں – نہ یہ خود کوئی ذاتی کاروبار میں ملوث ہوں بلکہ ان کے نزدیکی خاندان کے افراد بھی ان سے کسی قسم کی ذاتی مراعات یا فائیدہ نہ لے سکیں۔اس میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو مختلف صوبوں کی آبادی کے تناسب سے تعلق رکھتے ہوں۔ دو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان، دو ملک کے سابق صدور یا وہ وزراآعظم جو پارٹی سیاست سے دستبردار ہوچکے ہوں اور آئندہ بھی حصہ نہ لے سکیں۔ دو بزرگ سیاست دان جن کا ماضی بے داغ اور ان کی فراست اور دیانت اور ان کی نزدیکی فیملی بھی اچھی شہرت کی مالک ہو۔ ایک سابق چیئرمین جوائنٹ چیف، ایک سابق آرمی چیف، ایک سابق نیول چیف، ایک سابق ایئر چیف، قومی مشاورتی کونسل کی ممبرشپ کی کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں ہونگی۔ صرف اس کونسل کے اجلاس کے لئے ٹی اے اور ڈی اے ملے گا جو کہ کسی بھی گریڈ بائیس کے افسر کو ملتا ہے۔ صرف پول(motor pool) کی گاڑی بمعہ ڈرائیور دستیاب ہو گی۔ اس کونسل کے لئے ایک مختصر مگر فنکشنل سیکریٹریٹ ہو گا۔ کونسل کے ہر ممبر کی مدت چھ سال اور ہر تین سال بعد آدھے ممبر تبدیل ہونگے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain