افضل عاجز
جب میں بس میں داخل ہوا تو اس نے مجھے ایسے مخاطب کیا جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت جانتے ہیں مگر حافظے پر زور دینے کے باوجود مجھے یاد نہیں آرہا تھا کہ ہم کب اور کہاں ملے ہیں۔ اسی گومگو کی کیفیت میں میں اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اتفاق سے میری سیٹ بائیں جانب کی پہلی سیٹ تھی اور اس کے بالکل آگے اس کی سیٹ تھی۔ تھوڑی دیر بعد بس چلی تو اس نے مائیک پکڑتے ہوئے پہلے عربی میں سفر کی دُعا پڑھی پھر اُردو اور انگلش میں دورانِ سفر کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے کہا اور پھر کہا سفر کے دوران اگر کسی کو قے کی حاجت ہو تو وہ مجھ سے بیگ لے سکتا ہے۔ اس کی اس آفر پر تقریباً آدھی بس نے ہاتھ کھڑے کردیئے۔ وہ سیٹوں کے درمیان اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے ہر ایک کو بیگ تھماتی ہوئی واپس اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے مسکراتے ہوئے پوچھا کیا حال ہے آپ کا اور خیریت سے جارہے ہیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا تو اس نے پوچھا آپ کی بیگم صاحبہ کی طبیعت کیسی ہے۔ میں ان کیلئے دُعا کرتی رہتی ہوں۔
میں نے اسے بتایا علاج جاری ہے، دُعا کیجئے پروردگار صحت عطا فرمائے اور پھر سوالیہ انداز میں نے اسے دیکھا تو اس نے مجھے بتایا میں آپ کی فیس بُک فرینڈ ہوں، وہاں سے آپ کی بیگم صاحبہ کے بارے میں پڑھتی رہتی ہوں۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا فلاں نام کے ساتھ آپ کی فرینڈ ہوں۔ میں نے پھر اس کا شکریہ ادا کیا۔ دورانِ گفتگو اچانک اسے پیچھے سے آواز آئی ”پانی لاؤ“۔ وہ خوش دلی سے اٹھی، بوتل اور گلاس ہاتھ میں تھامے نشستوں کے بیچوں بیچ چل پڑی مگر بس کے ہچکولوں سے اس کا جسم کسی نہ کسی سواری کے ساتھ ٹچ کر جاتا اور وہ شرم ساری کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔ وہ پانی دینے کے بعد ابھی اپنی نشست پر بیٹھنے ہی والی ہوتی کہ پھر آواز آتی ”شاپر“ دے دو۔ وہ پھر جھٹکے کھاتے ہوئے شاپر دینے کیلئے چل پڑتی۔ اس طرح بار بار اٹھنے پر میں نے اسے کہا تم یہ سب کچھ بس سٹینڈ پر ہی کیوں نہیں دے دیتیں۔ اس نے قدرے تلخ لہجے میں کہا یہ بھی کرکے دیکھ چکی ہوں، یہ لوگ دراصل ایسے ہی آوازیں لگاتے رہتے ہیں۔ یہ لڑکی ظاہر ہے کسی امیر خاندان کی نہیں تھی۔ اس کے والد شوگر اور دل کے مریض تھے۔ پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ماں آس پاس کے گھروں میں کام کرتی تھی۔ اس کی تعلیم بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ پڑوس میں رہنے والے ایک ڈرائیور نے اسے بس کمپنی میں ملازمت دلوائی تھی اور گزشتہ دوسال سے وہ یہ سروس کررہی تھی۔ اس نے دورانِ گفتگو ملازمت کے سلسلے میں بس میں موجود لوگوں کے کردار کے حوالے سے جو واقعات سنائے وہ انتہائی تکلیف دہ تھے۔ اس نے بس میں سوار اور اترتے ہوئے لوگوں کی حرکتیں بتائیں تو میرا سرشرم سے جھک گیا۔
میں نے کہا کہ آپ بس مالکان سے شکایت کیوں نہیں کرتیں۔ اس نے کہا بس مالکان کیا کرسکتے ہیں، وہ روزانہ لوگوں کے گلے تھوڑی پڑ سکتے ہیں۔ میں نے کہا بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر موجود ہوتا ہے وہ بھی کچھ نہیں کرتے۔ اس نے بتایا ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی کون سنتا ہے۔ اس گفتگو کے دوران وہ خاصی افسردہ ہوگئی تو میں نے بات بدلنے کیلئے پوچھا کھانا کھاؤگی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا بس جب اپنے مقام پر پہنچے گی تو پھر کھانا کھائیں گے۔ میں نے کہا میرے پاس کھانا موجود ہے اور میں دورانِ سفر گھر سے چند روٹیاں اور سالن ساتھ لے لیتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ کھانا کھا لو۔ اتفاق سے اس دن چنے کی دال پکی ہوئی تھی جو میری بیٹی نے بناکر بھیجی تھی۔ انکار کے باوجود میں نے اسے کھانے میں شریک کرلیا۔ تین روٹیاں اور سالن ہمارے لیے کافی ہوگیا۔ کھانے کے دوران بھی اسے ”پانی، شاپر“ کی آوازیں آنے لگیں مگر میں نے اسے روکے رکھا۔ کھانے کے بعد اس کی اداسی دور ہوگئی تو اس نے پوچھا سر لوگ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ قانوناً بھی انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارا قانون بھی عورت کو تحفظ دیتا ہے۔ سب سے زیادہ تحفظ تو اسلام دیتا ہے مگر یہاں معاملہ قانون کا نہیں ہے، اخلاقیات کا، ہمارے سماجی رویوں کا ہے، مرد کی خودساختہ مردانگی کا ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ تم دیکھو اس بس میں مجھ سمیت کوئی ایسا نہیں ہوگا جس کے گھر میں ماں، بیٹی، بہن، بیوی نہ ہو اور ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوگا جو اپنے کسی بھی رشتے کے ساتھ کسی بھی طرح کی بداخلاقی پسند کرتا ہو مگر بدقسمتی سے ہم جب گھروں سے باہر نکلتے ہیں تو تمام رشتوں سے آزاد ہوجاتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو بس میں تمہارے ساتھ کرتے ہیں۔ اس نے خاموشی سے سرجھکا لیا اور میں نے بھی شرمندگی سے سر نیچے کرلیا۔
(کالم نگارمعروف شاعر اورادیب ہیں)
٭……٭……٭