محمد صغیر قمر
مغلیہ سلطنت کے عروج کا زمانہ ایک سو چھیاسٹھ سال بنتا ہے۔باقی عرصہ باہم جنگ وجدل اور کھینچا تانی میں گزر گیا۔ اس دوران نہایت عظیم صلاحیتوں کے مالک چھ بادشاہ مغلیہ سلطنت کو نصیب ہوئے ان میں نصیر الدین محمد ہمایوں جب شیر شاہ سوری سے شکست کھاکردہلی واپس آ رہا تھا توراستے میں ایک دریا دریا عبور کرنے کے لیے اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔بابر نے اپنے بیٹے کو تلوار چلانے میں تو ماہر بنا دیا تھا لیکن اسے تیرنا نہیں آتا تھا۔ شکست خوردہ ہمایوں یہاں پہنچ کر تذبذب کا شکار تھا کہ دریا کیسے پارکیا جائے؟ معاً اس کی نظردریا کے کنارے ایک فرد پر پڑی یہ ایک سقّہ (ماشکی)تھاجواپنے مشکیزے میں پانی بھر رہا تھا۔ ہمایوں نے اسے بلایا اور مدد طلب کی۔تب تک سقہ ّبے خبر تھا کہ یہ کروفر والا کون ہے؟اس نے بادشاہ کو دریاپار پہنچا دیا۔ اس بے لوث خدمت نے ہمایوں کو بے حد متاثر کیا۔
ہمایوں 1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کا حکمران رہا۔ 1540ء جب اس کو دوبارہ اقتدار نصیب ہوا تو اس نے اس سقّہ کو اپنے دربار میں طلب کرکیااوراسے انعام کے طور پر ایک دن کی بادشاہت عنایت کردی تھی۔ ہمایوں ہمارے جمہوری سیاسی رہنماوں کی ماننداحسان فراموش ہوتا تو شاید بھول جاتا۔ نظام الدین سقہ کوایک روز کی بادشاہت ملی تو اسن نے راتوں رات ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ تاریخ اس منصوبے کو”نظام سقہّ“ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ جس روز بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہوا تواس رات اس نے سوچا کہ اس مختصر سی مہلت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نے کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے۔؟ نظام کو یہ ترکیب سجھائی دی کہ اگر چمڑے کا سکّہ رائج ہو جائے تومختصر وقت میں خطیر رقم جمع کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے رات بھر اپنے واحد سرمایہ حیات چمڑے کے مشکیزے سے اشرفی کے برابر سکّے بنائے۔صبح تخت پر بیٹھتے ہی شاہی فرمان جاری کردیا کہ آج کے دن چمڑے کا یہ سکّہ سونے کی اشرفی کے مساوی شمار ہوں گے یعنی ایک ہی حکم سے طلائی اشرفیوں کو بے قیمت کردیا گیا۔
وہ ہندوستان کا ایک اور نامور بادشاہ تھا۔تاریخ اسے محمد شاہ رنگیلا کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اصل نام روشن اختر تھا اور شاہ عالم بہادر شاہ اول کا پوتا تھا‘روشن اختر 17 ستمبر 1719ء کو تخت پر بیٹھا اور اپنے لیے ’ناصر الدین محمد شاہ‘کا لقب پسندفرمایا۔ وہ ایک عیش پسنداور غیر متوازن شخص تھا‘ چوبیس گھنٹے افیون اور دیگرنشے کی وجہ سے دھت رہتا تھا۔رقص و سرود اور فحاشی و عریانی کا دل دادہ تھاقوانین بنانا اور خود ہی توڑنا اس کا معمول تھا‘ وہ ہر لمحے بدلتے مزاج یعنی متلون مزاجی کا خوگر تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں آتا کہ کسی شخص کو ہندوستان کا اعلیٰ ترین عہدہ سونپنا چاہیے تو وہ بلا کسی تاخیر کے اس پر عمل کرتا۔اس کا دل چاہتا تو وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے جیل بھجوا دیتا تھا اور اگلے روز باہر نکال دیتا،کسی دوسے عہدے پر فائز کر کے پھر جیل بھیج دیتا۔
کبھی کبھی اس کا دل کرتا تودربار میں ننگا آ جاتا تھا اور درباری بھی اس کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری میں کپڑے اتار دیتے تھے‘ جوش اور تکبر میں اپنے تخت سے اترتا، اس کے درباری اس حرکت پر تالیاں بجا کر داد دیتے اور اسے یقین دلاتے کہ اس عمل سے وہ بہت ”محظوظ“ہوئے ہیں۔اس کے وزراء‘ دارالحکومت دہلی کے شرفاء علما اور فضلا واہ واہ کہہ کر ناصر الدین محمد شاہ کی تعریف کرتے تھے‘۔وہ اچانک حکم فرماتے کہ کل تمام درباری اور مصاحب زنانہ کپڑے پہن کر آئیں اور کچھ وزیروں کو حکم ہوتا کل کچھ وزیر پاؤں میں گھنگرو باندھ کر آئیں گے اور وزراء مصاحب سر جھکا کر بات مان لیتے۔کبھی سرکار کے ذہن میں خیال آتا کہ کل سب درباری حلوہ پکائیں گے حلوہ پک جاتا تو بادشاہ سلامت سارا حلوہ گھوڑوں کے آگے رکھوا دیتے، جب گھوڑے نہ کھاتے تو حکم دیتے سب مصاحبین ”مل کر“ کھائیں،چنانچہ وہ سب خوشی خوشی تناول فرما لیتے بادشاہ سلامت کبھی اعلان کر دیتے جیل میں بند تمام مجرم آزاد کر د یے جائیں اور اتنی ہی تعداد میں لوگ جیل میں ڈال دیے جائیں تاکہ جگہ خالی نہ رہے۔جوقانون بناتے اگلے لمحے سب سے پہلے اس قانون کی خلاف ورزی کرتے اور قہقہے لگاتے۔
شاہانہ طبیعت کا یہ عالم تھا کہ شائد اب تک یہ واحد بادشاہ گزرے یہیں جنہون نے اپنے پسندیدہ گھوڑے کو بھی وزارت عطا کی تھی اور اسے خلعت فاخرہ پہنا کر دربار میں وزراء کے ساتھ کھڑا رکھتے۔جو خواتین ان کو ”اچھی“لگتیں ان کو تخت شاہی پر”بچھا“ کر ان پر بیٹھ جاتے اور احکامات جاری کرتے۔ان کا کہنا تھا کہ پورے ہندوستان کی خوب صورت خواتین ان کی ملکیت اور امانت ہیں۔اس امانت میں کہیں سے بھی خیانت کی اطلاع ملتی تو پہلی فرصت میں بغیر تفتیش کے اس کی گردن اڑا دی جاتی۔ کبھی نشے کے مارے بادشاہ سلامت تخت پر دراز ہو جاتے اور اس شدت سے خراٹے مارتے کہ اردگرد مصاحبین اسے ”بہترین موسیقی“قرار دے کر ان کا حوصلہ بڑھاتے۔چاپلوسی اور خوشامدی وزیروں کو بہت پسند کرتا لیکن کبھی کبھی مزاج میں بگڑ جااتا اور ان مصاحبین کو گھوڑا بنا کر ان پر سواری بھی کر لیتا۔یوں تو بد تہذیب تھا ہی لیکن اس کی ایک خوبی تاریخ میں بیان کی جاتی ہے کی حیرت انگیز طور پرذہین اورشاطر بھی تھا۔جو زیادہ تعریف کرتااکثر اس کے منہ میں اشرفیاں ڈالتا یہاں تک کہ سانس لینامحال ہو جاتا۔شاعر اور ٖاضل لوگ اس کے نزدیک ڈوم میراثی سے کم اہمیت پاتے لیکن کبھی کبھی اس کے مزاج میں تبدیلی آتی تو ان کو دربار میں بلا کر وزیروں کے کپڑے اتروا کر پہنا دیتا۔
1739ء میں جب نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا کے درمیان کرنال کے مقام پر جنگ ہوئی۔ محمد شاہ رنگیلا کی ایک لاکھ سے زائد فوج نادر شاہ کی پچپن ہزار فوج سے شکست کھا گئی۔ 12 مئی 1739ء کی شام دہلی میں سب کچھ معمول کے مطابق چل پڑا۔ دہلی کی گلی کوچوں میں چہل پہل تھی۔ غریبوں میں شربت اور طرح طرح کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ فقیروں کو بھاری بھاری رقوم عطا ہو رہی تھیں۔ شاہ رنگیلا کو شکست ہوئی تو اس کے چہرے پر پریشانی کے بجائے سکون تھا ہے۔ وہ نادر شاہ کے سامنے دونوں ہاتھ چھاتی پر رکھ کر اطاعت کے لیے راضی ہوگیا۔ جب نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہو رہا تھا تو درباری اسے بارہا نادر شاہ کی بڑھتی فوجوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے لیکن وہ تخت پر لیٹ جاتا اور شراب کے نشے میں دھت کہتا ’ہنوز دہلی دور است‘ میں ابھی یہاں موجود ہوں۔ چنانچہ نادر شاہ نے ہندوستان پر قبضہ کر کے خزانہ لوٹ لیا‘ محمد شاہ رنگیلا کثرت سے شراب نوشی اور افیون کے استعمال کے باعث 26 اپریل 1748ء کو دنیا سے چلا گیا لیکن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ”امر“ ہوگیا۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭