خدا یار خان چنڑ
ڈیڑھ دو ماہ پہلے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ چینی بحران تو کچھ بھی نہیں، پاکستان میں یوریا کھاد کی قلت کا مسئلہ اٹھے گا تو سب کو پچھلے سارے بحران بھول جائیں گے۔ گورنمنٹ آف پاکستان کو پہلے ہی الرٹ کیا تھا اور کچھ تجاویز بھی پیش کی تھیں مگر اس پر حکومت کی نظر نہیں گئی۔ اگر حکومت ڈیڑھ دو ماہ پہلے اس طرف توجہ دیتی ہے تو شاید آج کسانوں کو اتنی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج صورت حال یہ ہی کہ ان کی فصل تباہ ہو رہی ہے۔ یوریا مل نہیں رہی۔ اگر تھوڑی بہت آتی بھی ہے تو کسانوں کو لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا ہو کر شناختی کارڈ پر ایک یا دو بوری دے دی جاتی ہے۔ جو اس کی فصل کی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی۔
ابھی کھاد کا بحران ختم نہیں ہوا کہ مکی کے سیڈ کے حوالے سے کسان پر ایک اور بم گرائے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اگلے ماہ مکی کی کاشت شروع ہونے والی ہے لیکن سیڈ مافیا نے ابھی سے زمیندار کی چمڑی اتارنے کے لیے چھری کانٹے تیز کر لیے ہیں۔ بیجائی ابھی شروع ہی نہیں ہوئی کہ مکئی کا بیج تین سے چار ہزار روپے فی تھیلا بلیک ہو چکا ہے۔ اب مکئی کا بیج 6317 اور 7024 کا ریٹ جو MRP ہے وہ 10500 روپیہ ہے جس میں 800 سو روپیہ فی تھیلی منافع بھی ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان دو ورائٹیوں کا ریٹ 14000 روپے تک چلا گیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بجائی کے وقت اس کا ریٹ کہاں تک چلا جائے تھا۔ حکومت پاکستان کو اس طرف فوراً توجہ دینی چاہیے۔ ابھی ایک ماہ ہے فوراً وافر مقدار میں مکئی کا بیج درآمد کر لینا چاہیے۔ ورنہ یہ سیڈ مافیا زمیندار کو کنگلا کر دے گا۔ اس مافیا میں کوئی معمولی یا چھوٹا موٹا بزنس مین نہیں ہو سکتا۔
اگر ایک شخص کے پاس پچاس ہزار تھیلی پڑی ہیں تو اس کی قیمت ایک ارب روپے بنتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ سیڈ مافیا میں ارب پتی لوگ ہیں۔ حکومت پاکستان ڈائریکٹ بیچ کمپنیوں سے زمیندار کو دلوا دے تو سیڈ مافیا جو اسٹاک بلیک کر کے مال بنانے کا انتظار کر رہا ہے اس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ آئندہ بھی مافیا کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوگی۔ابھی حکومت نے % 17 فی صد ٹیکس لگا دیا ہے مگر یہ سیڈ مافیا نے پرانے سٹاک پر بھی کسانوں سے وصول کر رہے ہیں حکومت نے تو ٹیکس 2022میں لگایا ہے مگر ان ظالمو ں نے جو 2021کا مال پڑا ہے اس کے اوپر بھی لگا کر زمیداروں کو لوٹ رہے ہیں کبھی کبھی بڑا افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی سیڈ تک نہیں بنا سکتا۔ مکئی سورج مکھی اور دیگر ہائبرڈ بیج بھی باہر سے آتے ہیں۔
اگر وہ ہمیں یہ بیج فراہم نہ کریں گے تو ہم فصل کاشت نہیں کر سکیں گے۔ آج بھی ہم دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں آخر کب تک ہم محتاجی کی زندگی گزاریں گے۔ اگر وہ ہمیں نہ دیں تو ہم فصلیں کاشت نہ سکیں گے اور ہماری زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ افسوس ہوتا ہے کہ حکومت محکمہ زراعت کی ترقی کیلئے اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن کام یہ ایک ٹکے کا نہیں کرتے اور المیہ یہ ہے ہم آگے جانے کی وجہ روز بروز پیچھے جا رہے ہیں۔ اور ہم ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہے۔ دیگر سرکاری اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی سفید ہاتھی بن چکا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک پاکستان نے بڑی ترقی کی ہم نے بڑی بڑی مشینیں فیکٹریاں تو لگائیں حتی کہ ایٹم بم اور میزائل تک بنا لیے لیکن کسانوں کے لیے اور ملک کی ترقی کے لئے سیڈ تک تیار نہ کر سکے۔ یہ ایک المیہ ہے اور محکمہ زراعت کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اب وزیراعظم پاکستان عمران خان کا مہنگائی ذخیرہ اندوزی منافع خوروں کے خلاف خود میدان میں نکل آئے ہیں۔ ان نا جائز منافع خوروں کے خلاف نیا قانون پاس ہوگیا ہے۔ اپ جو بھی ذخیرہ اندوزی یا ناجائز منافع خوری کرے گا تو نئے قانون کے مطابق تین سال جیل اور ایک لاکھ جرمانہ ہو گا۔ دونوں سزائیں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ اب یہ ایک ناقابل ضمانت جرم ہو گیا ہے۔ پہلے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف انتظامیہ ایف آئی آر درج کرتی تھی تو یہ قابل ضمانت جرم تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کو ایف آئی آر کا تو کوئی خوف ہی نہیں تھا۔ اسی وقت ضمانت بھی ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے یہ لوگ بے لگام ہو گئے تھے۔ اب حکومت اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کروا لیتی ہے تو بڑے بڑے مگرمچھوں ذخیرہ اندوزوں کو جیل کی ہوا کھانا پڑے گی اور یوں یہ معاملات خود بخود حل ہو جائیں گے۔
یوریا کھاد کی قلت پر عمران خان نے فیکٹری مالکان اور اہم زمہ داران سے بھی میٹنگ کی ہے۔ یوریا کی قلت کی وجہ پوچھی گئی تو انھیں بتایا گیا کہ 2020 میں 12 کروڑ 8 لاکھ بوری سیل ہوئی تھی۔ 2021ء میں 12 کروڑ 66 لاکھ بوری سیل ہوئی تھی۔ پہلے یومیہ 20 ہزار ٹن یوریا بنتی تھی۔ اب کھاد فیکٹریوں نے یوریا کی پیداوار 25 ہزار ٹن پر چلی گئی ہے۔ کھاد کی پروڈکشن پہلے سے کافی زیادہ ہے۔ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خوروں کی وجہ سے کھاد مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔ اب عمران خان نے کھاد کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد کھاد کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا اور اگر سیڈ کے حوالے سے مناسب اور بروقت اقدامات کیے گئے تو یہ بحران جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گا۔
(کالم نگارسیاسی وسماجی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭