لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
عدلیہ میں تمام کیسوں کی مکمل ویڈیو ریکارڈنگ ہونی چاہئے اور معمولی معمولی وجوہات پر اگلی تاریخ دینے کوئی موثر مداوا ہونا ضروری ہے۔ کیس جب عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس پر میڈیا میں بے جا تبصرے اور کیس کو متاثر کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ متعلقہ عدالت کسی بھی کیس میں اس کی میڈیا پر تشہیر روکنے کے احکامات جاری کر سکے۔ عدالتوں میں شہادت دینے والوں کی حفاظت اور ان کو کسی قسم کے نقصان سے بچانا ضروری ہے۔ اس کے لئے شہادت دینے والے افراد کو ویڈیو لنک video link سے شہادت اور جرح کی اجازت اور بندوبست ہونا ضروری ہے۔ عدلیہ نہ صرف قانون کا تحفظ کرے بلکہ اس سے بڑھ کے انصاف کریاور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے۔انصاف کے رستے میں اگر قانون بھی حائل ہو تب بھی انصاف کو ترجیح دی جائے۔ جوڈیشری کی اپنی صفوں میں کسی قسم کی رشوت ستانی کو روکنا عدلیہ کا ہی کام ہے اور اس سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل supreme judicial commissionاور ہائی کورٹس کے لیول پر ہائر جوڈیشل کمشن higher judicial commission فعال ہو اور اپنے ما تحت عدلیہ پر کڑی نظر رکھے۔ان دونوں کمشنرز commissions کے لئے بھی وقت کی حد مقرر کی جائے وہ اپنے فیصلے زیادہ سے زیادہ دو مہینے کے اندر مکمل کر کے سنا دیں۔
عدلیہ کو ضروری سروس قرار دے اس کے خلاف کئے جانے والے جرائم کے کیس سپیشل کورٹ یا اینٹی ٹیرورسٹ کورٹ یا ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں تاکہ عدلیہ مکمل آزادی کے ساتھ قوم کو جلد از جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ اگرچہ عدلیہ کے اوپر کوئی اور چیک check نہیں مگر گزشتہ کالموں میں قومی مشاورتی کونسل قائم کرنے کا کہا گیا ہے جس میں سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس بھی ممبر ہیں، یہ قومی مشاورتی کونسل عدلیہ کو انصاف کی عدم فراہمی یا کوئی اور غیر معمولی حالات پیدا ہونے کی صورت میں ایڈوائزری جاری کر سکتی ہے جس پر عدلیہ کے لئے لازم ہو گا کہ اس کونسل کو مطمئن کرنے کے لئے عمل کرے یا کونسل کو تسلی بخش جواب دے۔
عدلیہ کا احترام اور عزت ہر صورت برقرار رکھنا اشد اہم ہے۔ آئے دن وکلا کی طرف سے یا کسی اور شخص کا خاص طور پر ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے احترام کو پا مال کرنا کسی صورت برداشت نہ کیا جائے اور ایسے اشخاص کو کڑی سزائیں دی جائیں۔عدلیہ ایک باوقار ادارہ ہے اور اس وقار کو برقرار رکھنے میں عدلیہ اپنا کردار اور کارکردگی سے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ مندرجہ بالا چند تجاویز پر عمل کرکے پاکستان میں عدلیہ اور عوام میں اعتماد اور عزت کا بہترین معیار قائم کیا جا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سطح پر جج صاحبان کی کارکردگی performance، کردار integrity اور قابلیت competence کو ریکارڈ کیا جائے اور ان کو اگلی سطح پر ان کی پروموشن کے لئے معیار بنایا جائے۔ اس طرح ایک نہایت تربیت یافتہ، قابل اور بہترین کردار کی عدلیہ وجود میں آئے گی جو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد ہو گی اور اس میں نہ ہی کسی قسم کا وکلا کا دخل ہوگا جو وکلا جج بننا چاہیں وہ شروع سے اس سٹریم stream میں شامل ہوں اور اس کی تربیت لیں، کارکردگی اور کردار کا مظاہرہ کریں اور مختلف کورٹس میں بہترین خدمات انجام دیں۔
عدلیہ میں مقدمات کی بھر مار ہے اور پینڈینسی pendency بہت زیادہ ہے جو ہزاروں اور لاکھوں کیسز کی صورت میں نظر آتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کیس کی تحقیق میں تاخیر اور تحقیق کا غیر معیاری بھی ہونا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے کیسوں کے لئے عدلیہ کے ماتحت تحقیقات کا ایک علیحدہ ادارہ بنایا جائے جو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کیسز کو دوبارہ یا نامکمل تحقیق کو مکملْ کرنے کے لئے عدالت اس ڈیپارٹمینٹ کو ریفر refer کرے اور وقت کی حد مقرر کر کے اس تحقیق کو جلد مکمل کرا کے کیس کو نپٹایا جا سکے۔ اسی طرح ہر نوعیت کے کیس کو مکمل کرنے کے لئے ایک مناسب مدت مقرر کرے۔ کوئی بھی کیس کتنا بھی پیچیدہ ہو ایک سال سے زیادہ لٹکا نہ رہے۔ چھوٹے کیسوں کے لئے تو چار سے آٹھ ہفتے سے زیادہ وقت نہ لگے۔جیلوں میں قیدی کئی کئی سال تک اپنی اپیلوں کی تاریخ کا انتظار کرتے ہیں۔ جن کو چند دنوں یا ہفتوں میں نپٹایا جائے۔
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭