ڈاکٹرعبدالقادر مشتاق
قرآن کریم کہتا ہے کہ خدا سے ڈرو، تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کے ساتھ مل جاو۔ کائنات کا مالک اور اقتدار کا مرکز و محور خدا کی ذات ہے۔ اس کو مالک ماننا اور اس کے آگے سربسجود ہو کر گناہوں پر معافی کا طلبگار ہونا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکرگزار ہونا ہی اصل میں مذہب ربانی ہے۔ دل میں خوف خدا کو بیدار رکھنا اور گناہوں سے بچنا ہی تقویٰ ہے۔ انا وہ بیماری ہے جو براہ راست دل پر حملہ کرتی ہے۔ دنیاوی بودوباش اور واہ واہ کا کلچر اس بیماری کی آبیاری کرتا ہے۔ جس سے دل کمزور ہوتا جاتا ہے اور بیماری جڑ پکڑتی جاتی ہے۔ اس بیماری کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس بیماری کا تعلق باطن سے ہوتا ہے ظاہر سے نہیں۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ظاہر سے تعلق رکھنے والی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ انسان کے پاس دو جہاں ہیں ایک اس کے باہر کا اور ایک اس کے اندر کا۔ جن کو باہر کے جہاں کی فکر ہوتی ہے ان کو اہل ظاہر کہا جاتا ہے۔ جو اپنے اندر کی دنیا آباد کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں ان کو اہل باطن کہا جاتا ہے۔ اہل ظاہر اگر سب نیک کام بھی کرتے ہوں اور ان نیکیوں کا اثر باطن پر نہ ہو تو وہ نیکیاں ریاکاری میں آ جاتی ہیں۔ اب ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن کی صفائی ستھرائی بھی ضروری ہے۔ باطن کو لگنے والی بیماری کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ سچے لوگوں کے ساتھ رہا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سچے لوگ کون ہوتے ہیں؟
میرے خیال میں سچے لوگ وہ نہیں ہوتے جو سچے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے پاس علم کا سمندر ہوتا ہے لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ کو طالب علم سمجھتے ہیں، ان کے پاس خدا کی عطا کی ہوئی طاقت ہوتی ہے لیکن وہ طاقت کے نشے میں اندھے نہیں ہوتے، وہ عارف ہوتے ہیں علم کا سمندر پی جاتے ہیں لیکن چھلکتے نہیں۔ لوگ ان کو اذیتیں دیتے ہیں لیکن وہ خدا سے ان کے لئے ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی رضا اور خوشنودی میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ ایسے خدا کے نبی ہوتے ہیں، خدا کے نبی کے ساتھی ہوتے ہیں، اولیا اللہ ہوتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کو سچا کہا ہے۔ یہ لوگ باطن کی بیماریوں کے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ علاج کرتے ہیں وہ وقت کے قطب اور ابدال بن جاتے ہیں۔ جن سے نکلنے والی روشنی سے بہت سے اور لوگوں کے دلوں کا آپریشن ہوتا ہے۔ یہ شعاعیں دل میں انا اور میں کے پتھروں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں۔ جس سے انسان کے دل میں بہت خوبصورت پودے اگتے ہیں۔ ان میں پہلا پودا خدا کی محبت کے پھلوں سے بھر جاتا ہے۔ دوسرا پودا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے سرشار ہوتا ہے۔ تیسرا پودا خدا کی مخلوق کی خدمت کے جذبے سے اپنے پتوں کو جھکا چکا ہوتا ہے۔ اس دنیا میں محبت، عشق اور خدمت کے پودے ہوتے ہیں اور جو ان کے پھل کھا لیتے ہیں وہ پھر ساری عمر نعرہ لگاتے ہیں کہ میں ناہیں سب توں۔ کوئی ان سے اس زندگی کا راز پوچھتا ہے تو وہ کہتے ہیں
میں نوں مار کے منج کر، نکی کر کے کٹ
بھرے خزانے رب دے، جو بھاویں سو لٹ
بابا فرید جیسا بزرگ پکار اٹھتا ہے کہ
اٹھ فریدا ستیا تو جھاڑو دے مسیت
تو ستا رب جاگدا تیری ڈاھڈے نال پریت
پریت لگ جائے تو پھر آنکھ نہیں لگتی۔ کوئی اللہ والا پکار پکار کہتا ہے کہ
لگی والیاں دی اکھ نہیں لگدی
تیری نی کیویں اکھ لگ گئی
امیر خسرو کی ساری کی ساری شاعری ہی اسی فلسفے کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا فارسی میں کلام ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ “میں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اس کے کوچے کا غبار ہوں، اور میں نہیں جانتا کہ کہاں جا رہا ہوں “۔ عشق ومستی کی کیا خوب کیفیت ہے امیر خسرو کے ہاں۔ کہتے ہیں کہ
خدا خود میر مجلس بود، اندر لامکاں خسرو
محمد شمع محفل بود، شب جائے کہ من بودم
بابا بلھے شاہ جب اس منزل پر پہنچتے ہیں تو کہہ اٹھتے ہیں کہ
رانجھا رانجھا کر دی نیں میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نیں مینوں دیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
اللہ کے سچے لوگوں کی باتیں بھی عشق ومستی والی ہوتی ہیں اور عشق ومستی نام ہے کیفیت کا۔ یہ کیفیت تقویٰ سے آگے کی منزل ہے جس میں خوف نہیں ہے۔ محبت خوف سے بالاتر ہے۔ اس محبت کو پانے کے لئے سچے لوگوں کی تلاش ضروری ہے۔ مریض ڈاکٹر کے پاس چل کر جاتا ہے ڈاکٹر مریض کے پاس نہیں۔ اگر اس پر اعتراض کرنے والے میرے کالم کو پڑھ کر یہ کہیں کہ یہ کیسی تحریر جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو ان کو پھر صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ تو نے حقیقت کو سمجھا ہی نہیں، تو نے حقیقت کو جانا ہی نہیں۔ دوسرا اعتراض یہ ہو گا کہ کیا آج کے دور میں ایسے عشق ومستی والے لوگ ملتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مریض کو بیماری لگ چکی ہے لیکن وہ بے چینی میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی اصل بیماری کی تشخیص نہیں ہو پا رہی۔ وہ جن ڈاکٹروں سے علاج کرواتا ہے وہ اس بیماری کے ڈاکٹر ہی نہیں۔ اب بیماری کے لئے اصل ڈاکٹر کی تلاش تو کرنی پڑے گی۔ جب تک تلاش نہیں کرو گے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ کیونکہ تلاش میں ہی سب کچھ ہے۔ خدا کہتا ہے کہ میری عبادت کرو اور روزی کی تلاش میں نکل پڑو۔ رزق کا تو خدا نے وعدہ کیا ہوا ہے پھر تلاش کیوں؟ اس نے رزق بھی کسی کے وسیلے سے آپ تک پہنچانا ہے۔ خدا ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق دے۔
(کالم نگار جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکے
شعبہ ہسٹری کے چیئرمین ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
در کھل جائے
محمد صغیر قمر
دل کی دنیا زیر و زبر ہے۔کچھ برس یوں ہی گزر گئے آج مکہ المکرمہ یاد آیا اور بے پناہ یاد آیا۔میرے اور مکہ المکرمہ کے درمیان کئی برس ہوئے ”حاضری“ کا پروانہ کھڑا ہے۔جب بھی مکہ المکرمہ گیا اس کی سنگلاخ زمینوں میں انجان راہوں پر بچھڑے لمحے تلاش کرتا،اپنے زخموں کو کریدتا اور تازہ کرتا۔آخری بار میں مکہ شہر سے باہر وہ گھاٹی تلاش کرتا رہا۔ جہاں آل یاسر کی مصیبتوں نے چشم فلک کو نم ناک کر دیا تھا۔ دعوت اسلامی کے وہی پر آشوب دن تھے جب مکہ کی فضا میں ہر جانب ستم گر مٹھی بھر اسلام پرستوں کو مٹانے کو نکل آئے تھے۔آل یاسر یمن سے نکلے تھے حضرت یاسر ؓ کے ایک بھائی کہیں کھو گئے تھے۔ انہیں تلاش کرتے وہ مکہ مکرمہ آئے گئے۔ تب ان کے ہمراہ دو بھائی بھی آئے تھے۔ جو جلد ہی واپس یمن چلے گئے۔ انہوں نے یہاں مکہ میں ہی شادی کر لی۔ ان کے بیٹے عمار اسلام کے اولین فدائیوں میں شامل ہو گئے۔ مکہ میں ان کا کوئی اور رشتہ دارنہیں تھا اس لیے قریش نے اکیلا جان کر انہیں خوب اذیت دی دکھ محض یہ تھا کہ ان کے جھوٹے خداؤں کا مستقبل خطرے میں تھا۔ قریش انہیں شدید تشدد کا نشانہ بناتے‘ جلتی تپتی ریت پر لٹاتے یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔ ان کے والد حضرت یاسر ؓ اور والدہ حضرت سمیہ ؓ پر بھی ایسی ہی طبع آزمائی کی جاتی۔ اسی مشق ستم کے دوران حضرت سمیہؓ کو انتہائی وحشیانہ طریقے کے ساتھ ابو جہل نے سینے میں برچھی ماری اور وہ شہید ہو گئیں۔تب حضرت عمارؓ بھی قریش کی اذیت کا شکار تھے ان کی والدہ کو اسلام کی پہلی شہیدہ ہونے کا تا ابد اعزاز مل گیا۔
عمارؓ کو غلام بنا لیا گیا تھا لیکن وہ غلاموں کی نسل سے ہر گز تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سربلند کر کے نام نہاد آقاؤں کو دیکھتے تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگتے تھے۔ یہ کیسے آقا تھے جن کو ایک غلام نظر بھر کر دیکھتا تو انہیں اپنے قدموں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوتی۔ ایک بار یہ آقا انہیں گرفتار کر کے لائے اور دیوار کے ساتھ کھڑکر دیا۔ ابو سفیان چیخا۔
”محمدؐ تمہیں کیا سکھاتے ہیں؟“
”وہ فرماتے ہیں اللہ کے نزدیک سب انسان مساوی ہیں۔ ایسے جسے کنگھے کے دندانے“عمارؓ کا جواب بھی ویسا دبنگ تھا۔
امیہ‘ ابو سفیان اور بڑے بڑے سردار جو وہاں موجود تھے حضرت عمارؓ کا یہ جواب سن کر لال پیلا ہو گئے۔ اس ایک جواب نے ان کی صدیوں سے قائم سرداری کی عمارت کو بنیادوں تک ہلا دیا تھا۔ امیہ نے سرخ چہرے اور ابلتی آنکھوں سے ان پر جھپٹنے کی کوشش کی عمار اسی طرح استقامت سے کھڑے تھے۔ وہ بولے۔
”محمدؐ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔“
ابو سفیان کی نرم خوئی جاتی رہی اس کے چہرے پر سفاکی اور رعونت در آئی۔ چیخ کر بولا۔
”یہ کیسے ممکن ہے؟ محمد ؐ کو احساس نہیں کہ ہم مکے میں خداؤں کو گھر دیتے ہیں‘یہاں ہرقبیلے کا الگ خدا ہے۔ہم ان قبیلوں کو سہولت دیتے ہیں۔ یہی ”خدا“ ہمارے معبود اور کمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ پھر عمار ؓ سے مخاطب ہوا۔
”کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی سر پرستی نہیں کرتے۔“
ابو سفیان کو عمارؓ کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ بڑبڑایا۔
”اگر تم تین سو ساٹھ خداؤں کو نہیں مانو گے‘ صرف ایک خدا کو ماننے لگو گے جو تمہارے خیال میں ہر جگہ موجود ہے‘ تو پھر بتاؤ یہاں مکہ میں کون اور کیوں آ ئے گا؟ جب اسے طائف میں یروشلم میں ہرجگہ خدا میسر آ جائے گا تو پھر مکہ کی اہمیت کیا رہے گی؟“مکہ کے سرداروں کو بس فکر تھی تو یہ کہ محمدؐ جو بات کہتے ہیں وہ لوگوں کو اپیل کرتی ہے جس کی وجہ سے مکہ کا جما جمایا سرداری نظام زمین بوس ہو رہا تھا۔ خدشہ تھا کہ کمائی اور روز گار کے تمام ذرائع ختم ہو کر رہ جائیں گے۔
عمارؓ کی باتیں ان کے نزدیک بغاوت تھیں چنانچہ امیہ اور ابو سفیان دانت پیستے ہوئے آگے بڑھے۔امیہ نے چیخ کر کہا۔
”تم کہتے کہ تمام انسان برابر ہیں۔“ ”ہاں“ عمارؓ نے جرات سے کہا۔
امیہ آگے بڑھا اور اپنے غلام بلال ؓ کے پاس کھڑے ہو کر پوچھا۔
”پھر یہ سیاہ فام بلال جسے میں نے قیمتاً خریداہے کیا میرے برابر ہے“
امیہ اور ابو سفیان کا خیال تھا کہ وہ بہت وزنی دلائل دے رہے ہیں وہ بزعم خود بڑے فلسفی تھے۔ اس سوال کے بعد وہ یقین رکھتے تھے کہ عمارؓ کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا لیکن عمار ؓ ایک لمحے کے لیے بھی ڈگمگائے بغیر بولے۔
”ہاں! محمدؐ تو کہتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ کسی رنگ یا نسل کے ہوں۔“
یہ مسافر چشم تصور سے دیکھ رہا ہے۔ مکہ کی کسی گھاٹی کا وہ منظر …… جہاں بلال ؓ کی غلامی کا آخری دن طلوع ہو چکا تھا۔ امیہ کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے اس کا چہرہ سرخ تھا اور ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے آگے بڑھا اس نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا اور حکم دیا۔
”اس کو مار مار کر سبق سکھا دو۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ مکہ کے ایک سردار اور غلام میں کیا فرق ہوتا ہے؟“
لمحے تھم گئے۔ مکہ کی سرزمین پرایک غلام بغاوت کے لیے ڈٹ گیا۔ امیہ نے کوڑا بلال ؓ کو تھمایا تھا انہوں نے چند ثانیے عمارؓ کو دیکھا تب ان کے اندر کی دنیا بدل گئی تھی۔ امیہ کی غلامی سے آزاد ہو کر وہ اللہ کے غلام بن گئے تھے۔ انہوں نے کوڑا عمارؓ کو مارنے کے بجائے زور سے زمین پر دے مارا۔ اس لمحے انہیں عمارؓ کی آواز آئی تھی۔
”بلال ؓ یہ جو کہتے ہیں وہ کرو‘ ورنہ یہ تمہیں ماردیں گے۔“
امیہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اس کی سانسیں ٹھہر گئی تھیں۔ اس کے گمان میں بھی یہ بات کب تھی کہ ایک غلام وہ بھی سیاہ فام،بغاوت پر اتر آئے گا۔ اس کے خیال میں سیاہ فام تو پیدا ہی غلامی کے لیے ہوئے تھے۔ وہ چیخا۔
”بلال ؓ اگر تمہیں یہ گمان ہے کہ تم بھی کوئی انسان ہو اورتمہیں بھی خدا کو ماننے کا حق حاصل ہے تو کان کھول کر سن لو جو ہمارا خدا ہے وہی تمہارا سبھی کا خدا ہوگا۔کوئی نیا خدا ہر گز ہر گز نہیں ہوگا۔“
اٹھائیس برس غلامی میں گزارنے کے بعد اس روز بلال ؓ آزاد ہو گئے تھے۔ میں مکہ کی سرزمین پروہ جگہ تلاشتا ہوں جہاں بلال ؓ ریت پر لٹائے تڑپائے اور ستائے گئے …… ریت کے ان ذروں نے جہنوں نے بلالؓ اور عمار ؓکے جسم کو چھوا تھا۔ جہاں بلالؓ اور عمارؓکے قدم پڑے تھے وہاں اپنی آنکھیں رکھ دینا چاہتا تھا۔ ان ریت کے ذروں کو چھونا چاہتاہوں۔ وہ دن واپس چاہتا ہوں جب دوغلاموں نے ایکا کر کے انسانی خدائی کو مات دے ڈالی تھی۔ لیکن وہ ذرے کہاں گئے۔ وہ قریہ زمین کیا ہوا؟ وہ زمانہ کہاں گیا؟۔ کہاں گئے عمارؓ کہاں گئیں سمیہ ؓ……؟ آج انسانی خدائی کے علمبردار وں نے پھر سے انسان کو غلامی کی غاروں میں اتار دیا ہے۔جبر اور ظلم کو قانون کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔عمار و بلالؓ کے نا م لیوا غلامی کے سامنے ڈگیں ڈال چکے۔رب کی زمین پر رب کے دشمن ننگا ناچ ناچ رہے ہیں۔ وہ لمحے تھم جاتے۔اے کاش میں ان لمحوں میں موجود ہوتا۔
(متعدد کتابوں کے مصنف‘شعبہ تعلیم
سے وابستہ اورسماجی کارکن ہیں)
٭……٭……٭
غیرپیداواری اخراجات کم کریں
ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان تیزی سے بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے حکومت کو اس حوالے سے تیزی سے اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ایک مرتبہ پھر عالمی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔پاکستان کو اپنی برآمدات میں ہنگامی بنیادوں پر تیز رفتار اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔اور برآمدات بڑھانے کے لیے پاکستان کو اپنی مینو فیکچرنگ بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاکستان کی ہمیشہ یہی کوشش ہو تی ہے کہ امریکہ اور یورپ کو اپنی برآمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن امریکہ اور یور پ امیر اور ترقی یافتہ ہیں۔ان ممالک کی معیشتیں اب ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتی ہیں جبکہ افریقا کے 52ممالک ایسے ہیں جو کہ ابھی ترقی کی منازل سے گزر رہے ہیں۔اور ان کی معیشتوں کو درآمدات کی ضروت ہے اگر پاکستان ان 52افریقی ممالک کو اپنی برآمدات بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے انفراسٹرکچر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر توانا ئی کی قیمتیں کم کرنا پڑیں گی اگر پاکستان کی صنعت کو توانا ئی کم قیمت پرملے تو پاکستان کی انڈسٹری چین اور ہندوستان کا مقابلہ کر سکے گی۔اس حوالے سے حکومت کو بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ملک میں جاری پن بجلی اور ڈیم کے منصوبے جو کہ سستی بجلی کی پیدا وار کا باعث بنتے ہیں ان کی جلد از جلد تکمیل کے لیے تمام وسائل بروے کار لانے کی ضرورت ہے۔اس وقت دنیا میں چین کی مصنوعات اس لیے چھائی ہوئیں ہیں کہ برطانیہ جیسے ملک میں بھی جو چیز برطانیہ کی بنی ہو ئی 50پونڈ میں ملتی ہے وہی چیز چین کی بنی ہوئی 5پونڈ میں دستیاب ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چین میں توانا ئی کی قیمتیں سب سے کم ہیں۔ موجود حکومت نے لک افریقا کے نام سے اچھا منصوبہ شروع کیا تھا جس کے تحت افریقا میں پاکستان کے سفارت خانوں اور قونصلیٹ کی تعداد بڑھائی جانی تھی سفار ت خانوں میں کمرشل اتاشی لگائے جانے تھے اس کے علاوہ افر یقا کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات ہونے تھے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی نہیں ہو سکا۔
افریقا میں اب تک کوئی نیا سفارت خانہ نہیں بنا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس اہم منصوبے کو کا غذوں میں سے نکال کر عملی اقدامات کیے جا ئیں۔یہ منصوبہ پاکستا ن کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ دنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے،اگلے سال یہ 8ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ہمارے ہاں زرعی زمین کے اوپر تعمیرات کی جا رہی ہیں۔زرعی زمین جس نے آبادی کوخوراک دینا ہے اس کی کمی بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔اس حوالے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں آنے والے سالوں میں خوراک کی کمی بڑا مسئلہ ہو گا۔برطانیہ میں کسی بھی شخص کو ایک انچ زمین پر بھی بغیر اجازت تعمیرات کرنے کی اجازت نہیں ہے اگر کوئی کر لے تو اس کو 1000پونڈ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ میں مانتا ہوں کہ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں،لیکن پاکستان میں مہنگائی پرحکومت کا موثر کنٹرول نہ ہونے کے باعث بھی ہے،حکومت کومقامی سطح پر بھی مہنگائی کے عوامل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔حکومت کو ہر علاقے کے لیے الگ سے پرائس مجسٹریٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کے چار بنیادی اصول ہوا کرتے ہیں جن پر وہ ریاست کھڑی ہو تی ہے۔اور ان اصولوں میں علاقہ،آبادی،حکومت اور آزادی شامل ہیں جن ریاستوں کے یہ چار بنیادی عوا مل میں سے کوئی بھی کمزور ہو وہ ایک ناکام ریاست تصور ہو تی ہے۔پاکستان کو ہر صورت میں اپنے غیر پیدا واری اخراجات میں فوری کمی لانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بغیر حکومت چل نہیں سکتی ہے۔ملک ترقی نہیں کر سکتا ہے حکومت کو تمام تر وسائل کا رخ ملک کی پیدا وار بڑھانے پر موڑ دینا چاہیے یہی ایک طریقہ ہے جس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے اور معیشت مضبوط ہوسکتی ہے۔ سی پیک پاکستان کی معیشت کے لیے نہایت ہی اہم منصوبہ ہے حکومت کو اس منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کے حوالے سے توجہ دینی چاہیے،یہ منصوبہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے،میں یہاں پر یہ خصوصی طور پر کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کے تحت بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز پر جلد از جلد کام مکمل ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کی برآمدات کو بڑھایا جاسکے۔
ایف بی آر سمیت دیگر اہم اداروں میں اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اصلاحات سے ہی پا ئیدار بنیادوں پر پاکستان کی معیشت میں استحکام ممکن ہے۔ عالمی ما لیاتی اداروں کی سخت شرائط پوری کرنے کے لیے عوام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنا کسی صورت دانش مندی نہیں ہے۔حکومت عوام کے ووٹ سے منتخب ہو تی ہے اس کی ذمہ داری صرف عالمی اداروں کی شرائط ماننا ہی نہیں بلکہ اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے۔حکومت کو اس طرف توجہ دینا ہو گی پاکستان کے عوام ابھی تک کرونا وائرس اور روپے کی گرتی ہو ئی قدر کے جھٹکے سے پوری طرح سنبھل نہیں سکے ہیں اور مہنگائی یہ نیا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ملک کی معاشی خود مختاری کا تحفظ کیا جانا چاہیے، ورنہ مہنگائی کا ایک نیا طوفان عوام کا منتظر ہے۔
آرڈننس کے ذریعے قوانین کا اطلاق کوئی اچھی روایت نہیں ہے اور خاص طور پر ایسے قوانین جن کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہو سکتے ہیں،ایسے بڑے قومی مسائل پر حکومت کو تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے،اور پارلیمان سے مشترکہ طور پر قانون سازی کی جانی چاہیے،اگر اسٹیٹ بینک کو مکمل طورپر خود مختیار بنانا ملکی مفاد میں ہے تو آرڈیننس منظور کروانے کی بجائے پارلیمان کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کو دی جانے والی مرا عات اور ریلیف پیکج بہت خوش آ ئند ہے تعمیراتی شعبے کو دیے جانے والے ریلیف پیکج کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو ئے ہیں۔لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے اس پیکج میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں جو کہ وزیر اعظم کے ویژن کے سراسر بر عکس ہیں،اور اداروں کے اس رویے کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ دار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں،اس صو رتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے دیے جانے والے کنسٹریکشن پیکج سے معیشت کو فائدہ ہوا ہے لیکن اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔اسلام آباد شہر کی بات کی جائے تو اسلام آباد شہر کے مضافاتی علاقوں میں کافی نئی تعمیرات ہوئی ہیں۔لیکن اس حوالے سے یہ بھی کہوں گا کہ کافی لوگوں نے اس پیکج کو اپنا بلیک منی وائٹ کرنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭
جذبات سے نہیں‘سوچ سمجھ کرفیصلے کریں
وزیر احمد جوگیزئی
ہمیں قائد اعظم کا پاکستان چاہیے اور قائد اعظم کا پاکستان قائد اعظم کی زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی بھلا دیا گیا۔اور اس کے بعد ہم نے ہر قسم کے نعرے بلند کیے ہر قسم کی آ وازیں اٹھیں گوکہ ان آوازوں میں دم تھا لیکن آوازیں بلند کرنے والے شاید بے دم ہو گئے،میں یہاں پر ہر نعرے کی تفصیل میں تو نہیں جاؤ ں گا لیکن،بس یہ ہی کہوں گا کہ ہر نعرہ بس نعرہ رہ گیا۔اور پھر ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی اور پاکستان ایسی افرا تفری میں دو لخت ہو گیا۔اور جو لوگ ہم سے الگ ہوئے انھیں صدر ایوب خان کے دور میں ہی الگ ہونے کا کہا گیا تھا۔مگر بنگال والوں کی عقل کو سلام کہ انھوں نے کہا کہ ہم یہاں پر اکثریت میں ہیں اور ہم ہی پاکستان ہیں تم جانو اور تمہارا کام جانے اور اس بات پر نہ تو کوئی اصرار ہوا اور نہ ہی کوئی تکرار لیکن اس کے بعد مسلسل جمہوری اقدار کو پا مال کرتے گئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جنگ و جدل کے بعد ہم سے الگ ہو گئے اور آج اگر دونوں ممالک کا مواذنہ کیا جائے تو وہ ہم سے بہتر حالت میں ہیں۔ان کی آبادی کنٹرو ل میں ہے،ان کا تعلیم کا نظام صحیح طریقے سے چل رہا ہے اور ان کے ملک میں عدل قائم ہے،ان کی معیشت مضبوط ہے اور وہ ایک خوشحال معاشرے کی طرح ترقی کی منازل طے کررہے ہیں اور ایک طرف ہم ہیں جو کہ ابھی تک اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ کس طرح سے جمہوریت کو فروغ دینا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ جو بھی کام کرنے ہیں ان کو کس طریقے سے کیا جائے۔
ہماری ایک بھی اکائی ایسی نہیں ہے جو کہ درست طریقے سے اپنا کام سر انجام دے رہی ہو ہمارے موجودہ وزیر اعظم نے 22سال تک اقتدار میں آنے کے لیے جد و جہد کی،نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ان کی حمایت کی ان کا ساتھ دیا اور 22سالہ جدوجہد کے بعد یہ جماعت بر سر اقتدار آئی لیکن اقتدار حاصل کرنا اور اس کے بعد حکمرانی کرنا دو الگ چیزیں ہیں،لیڈر شپ کا اصل امتحان حکومت میں آنے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے،ملک کو درپیش مسائل جو کہ بہت ہی زیادہ ہیں،ان سے ملک اور قوم کو نجات کیسے دلانی ہے اس کام کی پلاننگ ہی اصل اہمیت کی حامل ہو ا کرتی ہے۔کن کن طریقوں سے اہداف کے حصول میں مدد مل سکتی ہے یہ بات اہم ہو ا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کے سامنے یہ تین اہداف ہیں۔آبادی کا کنٹرول،تعلیم کا نظام درست کرنا اور عدل کے نظام کو ٹھیک کرنا۔ اگر یہ تین اہداف حاصل کر لئے جا ئیں تو پھر قوم تیزی سے ترقی کرتی ہے لیکن ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے۔ہمیں چاہیے کہ کسی بھی کامیاب ملک کا نظام تعلیم میرا مطلب ہے کہ جس ملک میں کامیاب نظام تعلیم ہو،اس کی تقلید کرنی چاہیے،او ر وہ نظام یہاں پر لا کر نافذ کر دینا چاہیے۔ہم اپنی غلط پالیسوں سے تعلیم کو عام کرنے میں اور با مقصد بنانے میں ناکام رہے ہیں اور ہمیں اس حوالے سے اپنی ناکامی قبول کر لینی چاہیے اور یہی عقل مندی کا تقاضا بھی ہے اور اسی طریقے سے ہم اپنی معیشت کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں۔
ہماری معیشت جو کہ کبھی کسی زمانے میں ترقی پذیر ممالک کے لیے قابل تقلید ہوا کرتی تھی وہ آج تباہ حا ل ہے۔ بہت سارے ممالک نے پاکستان کی معاشی پلاننگ کی نقل کی اور وہ ترقی کی منازل طے کر گئے اور آج دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی حیثیت سے موجودہ ہیں اور اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں،لیکن ہم اپنی ہی پلاننگ پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں۔تعلیم کے میدان میں ناکام ہیں،صحت کے میدان میں ناکام ہیں اور ترقی کرنے میں بھی ناکام ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور وسائل مسلسل کم ہو تے جا رہے ہیں اور یہ صروتحال ہمارے ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔
ایک دور تھا جب پاکستان میں سوشلسٹ تھیوری بہت مضبوط ہو رہی تھی اور بہت عمدہ تھی اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں جو انسانی حقوق کے لیے جدو جہد شروع ہو ئی تھی وہ آج بھی جاری ہے،اور یہ جدو جہد آج بھی بہت سارے ملکوں میں سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔آزادی اظہار رائے اور کھل کر اپنی بات کرنے کے حوالے سے پاکستان کسی بھی دوسرے ملک سے پیچھے نہیں ہے لیکن یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کو آج تک بہتر قیادت نصیب نہیں ہوسکی ہے،پاکستان کی قوم نے لیڈر شپ چننے میں جذباتی فیصلہ کیا ہے،اور اس حوالے سے ہماری قوم نے سیاسی پختگی کا مظاہرہ نہیں کیا اگر جذبات سے ہٹ کر فیصلے کیے جا ئیں تو اتنی بڑی آبادی میں کیا ہمیں لیڈر شپ دستیاب نہیں ہے۔لیڈشپ موجود ہے لیکن ان کو سامنے لانا مشکل کام ہے۔اور مشکل یوں ہے کہ ہماری عوام ابھی تک جذباتی فیصلوں سے نکل نہیں سکے ہیں اور جذباتی نعروں سے نکل نہیں سکے ہیں۔
ہمارے عوام کو تعلیم کی حد سے زیادہ ضرورت ہے۔اگر ہم درست لیڈرشپ کا انتخاب کر لیں تو ہمارے ملک میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔ہمیں صرف بطور قوم اپنی ترجیحات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں ایک قوم بننے کی ضرورت ہے جو کہ کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ہمیں ایسے افراد سامنے لانے ہوں گے جو کہ نظام عدل میں اصلاحات لا سکیں۔اور ہمیں جذبات سے بالا تر ہو کر ایک نظام تعلیم نافذ کرنا ہو گا۔ہمارے ملک میں جس بے ہنگم طریقے سے مذہب کا استعما ل کرکے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ نہایت ہی افسوس ناک ہے،اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے،اس حوالے سے میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی صورت بھی ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے اور قومی مفادات کے سراسر منافی ہے۔اللہ کرے کہ ہمیں اس تمام صورتحال کا کوئی بڑا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
(کالم نگار سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی ہیں)
٭……٭……٭
سدابہاراورمضبوط تعلقات
ملک منظور احمد
کہاجاتاہے کہ جومشکل وقت میں مددکرے وہی انسان کاسچادوست ہواکرتاہے، اچھے وقتوں میں توسب ہی ساتھ ہواکرتے ہیں۔ ویسے تویہ مثال انسانوں کے آپس کے تعلقات کے حوالے سے دی جاتی ہے لیکن کچھ قوموں کے درمیان بھی ایسے ہی تعلقات پائے جاتے ہیں کہ ان پربھی یہ کہاوت بالکل فٹ آتی ہے۔ پاکستان اورسعودی عرب کے درمیان پاکستان بننے سے لیکرآج تک پاکستان اور سعودی عرب دونوں ممالک کے درمیان ایک خاص رشتہ پایاجاتا ہے۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مددکی ہے اور کبھی ایک دوسرے کوتنہانہیں چھوڑا۔ سعودی عرب نے قدرتی آفات زلزلے،سیلابوں اور مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی مددکی ہے اور پاکستان بھی سعودی عرب کی سکیورٹی کو اپنی سیکورٹی سمجھ کر سعودی عرب کی حفاظت کے فرائض سرانجام دیتا رہاہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے سعودی افواج کوٹرینڈ کرنے کے حوالے سے کلیدی کرداراداکیاہے اور ایک مخصوص تعدادمیں پاکستانی فوجی جوان سعودی عرب کی حفاظت کیلئے سعودی عرب میں تعینات ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ اسلامی دنیامیں پاکستان سعودی عرب کاقریبی اتحادی ہے اور پاکستان بھی سعودی عر ب کیساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور واقعات کبھی بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے آڑے نہیں آئے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دونو ں ممالک کی دوستی مزید مضبوط ہوتی رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعددونوں ممالک کی دوستی نے ایک نیاکروٹ لیا اور وزیراعظم عمرا ن خان اور سعودی عرب کے نوجوان ولی عہدمحمدبن سلمان کی قیادت میں دونوں ممالک کے تعلقات نے ایک نئی کروٹ لی اور دونوں ممالک کے تعلقات کونئی بلندیاں حاصل ہوئیں۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان کادورہ کیا اور پاکستان آمد کے موقع پروزیراعظم عمران خان خود ذاتی طورپران کی گاڑی کوچلاتے ہوئے ان کووزیراعظم ہاؤس تک لے کرآئے۔ دورے کے دوران سعودی ولی عہد نے پاکستان کیلئے10 ارب ڈالر کے پیکج کااعلان کیا اور اس پیکج کے باعث مشکلات میں گھری ہوئی پاکستان کی معیشت کو سہارا ملا اوریوں سعودی عرب سمیت پاکستان کے دیگرقریبی دوستوں نے پاکستان کودیوالیہ ہونے سے بچالیا اوراب ایک بار پھرسعودی عرب کی جانب سے وزیراعظم عمران کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران پاکستان کی مدد کیلئے 4.2ارب ڈالر کے پیکج کااعلان کیاگیاہے جس میں سے 3ارب ڈالر سعودی عرب نقدسٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھوائے گا جبکہ1.2 ارب ڈالرکاادھارتیل بھی اس پیکج کے تحت پاکستان کو دیاجائیگا اوریقینامشکل معاشی صورتحال پریہ پیکج پاکستان کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے پاکستان کی معیشت کواستحکام دینے بلندوبانگ دعوے کیے معیشت کی بہتری کی داستانیں عوام کوصبح شام سنائیں گے لیکن اب سواتین سال کی حکومت کرنے کے بعدہمیں پتہ چلاہے کہ معیشت کے حالات اس حدتک خراب ہوچکے ہیں کہ پاکستان کومدد کیلئے ایک بارپھرقریبی دوست سعودی عرب سے مددمانگناپڑی ہے اورسعودی عرب کی یہ فراخ دلی ہے کہ انہوں نے پاکستان کاسچادوست ہونے کاثبوت دیتے ہوئے مشکل حالات میں پاکستان کی ایک بارپھر مددکی ہے۔
پاکستان نے بھی ہمیشہ ہی جس انداز میں بھی ہوسکاہے سعودی عرب کی معاونت کی ہرممکن کوشش کی ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں لیکن پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ ایران کیساتھ بھی ہمسایہ اورمسلمان ممالک ہونے کے ناطے اچھے تعلقات رہے ہیں اور پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے دونوں اہم ترین مسلمان ممالک کے درمیان بہترتعلقات استوارکرنے میں مددکی جائے اور اب حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات اور ان مذاکرات میں مثبت پیشرفت کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان کے مثبت کردارکوکسی صورت نظر اندازنہیں کیا جا سکتا ہے۔سعودی عرب نے پاکستان کے نئے ابھرتے ہوئے شہرگوادرمیں بھاری سرمایہ کاری اورسی پیک منصوبے میں شمولیت کابھی اعلان کررکھاہے اور امید کی جارہی ہے کہ اس سلسلے میں بھی پیشرفت نظرآئے گی اور خاص طورپر 10ار ب امریکی ڈالر کی لاگت سے گوادرمیں ایک آئل ریفائنری کاقیام کے حوالے سے جلدہی کام شروع ہوجائیگا۔
میں یہاں پر پاکستان میں تعینات سعودی عرب کے سفیر سعیدنواف سعید المالکی کابھی خصوصی طورپر ذکرکرنا چاہوں گاکہ انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان موجود مضبوط باہمی تعلقات کو مزید تقویت دینے کیلئے کلیدی کردار ادا کیاہے اور ان کی اس حوالے سے خدمات قابل تحسین ہیں۔ نواف سعیدالمالکی کا ایک جہاندیدہ اورتجربہ کا سفارت کار ہیں اورحساس معاملات کو بہتراندازمیں ڈیل کرنے کافن بخوبی جانتے ہیں۔ پاکستان میں وہ سیاست دانوں، کاروباری شخصیات اور پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی مزیدمضبوطی ان کامشن ہے۔ پاکستان خوش قسمت ہے کہ اسے سعودی عرب اور چین جیسے مخلص دوست میسر ہیں۔
بہرحال اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی امداد سے ہٹ کرحکومت کواپنے بل بوتے پر بھی پاکستان کی معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان کی معیشت کودیرپااستحکام نصیب نہیں ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب جیسے عظیم دوست نے ایک بارپھر پاکستان کی معیشت کوسہاراتودے دیاہے لیکن حکومت خداراصرف باتوں اور دعوؤں سے نکل کرعملی طورپر بھی پاکستان کی معیشت کوبہتر کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے اور عوام کومہنگائی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان سے نمٹنے کیلئے ریلیف کے اقدامات کیے جائیں۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
اطاعت رسولؐ ہماری ذمہ داری
حیات عبداللہ
عقیدتوں کے حقیقی تقاضوں سے گریز پائی، مَحبّتوں کے اصل حُسن سے رُوگردانی اور چاہتوں کے سندر جذبوں سے کروٹیں بدل کر اپنے خود ساختہ تقاضوں پر مُصر ہو جانا اور اسے ہی دنیا و آخرت میں کامیابی سمجھ لینے کی رُتیں معلوم نہیں کہاں سے آ نکلی ہیں؟ جب ہم نے اپنی ساری مَحبّتیں محمد عربیؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہیں تو پھر ان بے کراں چاہتوں کے اظہار کے اسلوب، ان بے پایاں عقیدتوں کے اقرار کے تمام اطوار بھی اسی ذات ذی قدر سے سیکھنے چاہییں کہ آخر کس طرح حضرت محمدؐ نے صحابہ کرامؓ کو مَحبّت کرنے اور نبھانے کی راہیں بتلائیں، لاریب ہم تو ان عقیدتوں کا عُشرِ عشیر بھی اپنے دلوں میں نہیں رکھتے کہ جس قدر صحابہ ء کرامؓ کے دلوں میں مَحبّتِ رسولؐ کے شگوفے مہکتے تھے، مگر ہم ٹھہرے خواہشوں کے اسیر، سو ہماری مَحبّتوں کی منطقیں بھی عجیب سانچوں میں ڈھلی ہیں کہ ہر شخص ہی نبیؐ کے ساتھ مَحبّتوں کے خود ساختہ طریقوں اور تقاضوں کو پروان چڑھائے جا رہا ہے، اس حقیقت میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں ہیں کہ اگر دل، نبیؐ کی مَحبّت سے تہی ہوں گے تو پھر ایسے خانہ ء خراب میں ایمان داخل ہو ہی نہیں سکتا۔
اہلِ دل کے دلوں کی ہیں تسکین آپؐ
اہلِ ایماں کا سارا جہاں آپؐ ہیں
نبیؐ کے ساتھ مَحبّت کا اصل قرینہ یہ ہے کہ اس مقدّس و مطہّر شخصیت سے اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر مَحبّت کی جائے اور دیگر تمام مَحبّتوں کو بھی نبیؐ کی مَحبّت کے تابع کر دیا جائے کہ یہی تو مومن کی شان اور پہچان ہے۔واللہ! اگر نبیؐ کی مَحبّت کو ہم اپنے جسم و جاں سے جدا کرنے کا تصوّر بھی کر لیں تو ہمارے پاس باقی کچھ بھی تو نہیں بچتا۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الاحزاب میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”مومنوں کے لیے نبی کریمؐ ان کی جانوں سے بھی زیادہ مقدّم ہیں۔“ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ ”تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد، اپنے والدین اور باقی تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے مَحبّت نہ کرتا ہو۔“
مَیں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عقیدتیں اندھی نہیں ہُوا کرتیں، مَحبّتیں تیرگیاں نہیں پھیلایا کرتیں، یہ تو روشنی اور نور کے ہالے فروزاں کر دیتی ہیں، ایسے اجالے چہارسُو بکھیر دیتی ہیں کہ جس سے دل کی مراد پانے اور کوچہ ء جاناں تک پہنچنے کے تمام راستے واضح دِکھائی دینے لگتے ہیں اور اگر راست راہیں اور مستقیم منزلیں دِکھائی نہ دیں تو ایک لمحے کے لیے توقف کر کے اپنی مَحبّتوں کے انداز اور اسلوب پر نظرِ ثانی ضرور کر لیجیے کہ کہیں ان میں کمی، کجی اور سقم تو نہیں رہ گیا ہے۔اللہ اور اس کے رسولؐ نے اطاعت ہی کو مَحبّت کی علامت اور دلیل کہا ہے۔سورہ آل عمران آیت نمبر 31 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ”کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے مَحبّت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، خود اللہ تم سے مَحبّت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے، کہہ دیجیے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔“ آیئے! چند ثانیوں کے لیے ہی غور کر لیں کہ اطاعتِ رسولؐ سے روگردانی کرنے والوں کو اللہ نے کافروں کی فہرست میں شامل کیا ہے، اس لیے کہ تمام انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد ہی ان کی اطاعت تھا اور اس لیے بھی کہ اطاعت ہی مَحبّت کی دلیل ہُوا کرتی ہے۔سورۃ النساء آیت 64 میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے ان کی پیروی کی جائے۔“ اطاعتِ رسولؐ ہی مَحبّتِ رسولؐ کا واضح اور پُرنور ثبوت ہوتی ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔سورۃ الاحزاب آیت نمبر 71 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ”جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی۔“ نبیِ مکرمؐ نے اپنی اطاعت کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ امّتِ مسلمہ کو اپنی خواہشات تک شریعت کے تابع کرنے کا حکم دیا ہے۔نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی تمام خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے۔“ دنیا میں ہر شخص کی بات کو رد کیا جا سکتا ہے مگر محمد عربیؐ کی بات کو چھوڑنے کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اور باتیں فضول باتیں ہیں
آپؐ کی بات ہی خزینہ ہے
جو شخص جس قدر اطاعت رسولؐ کی گہرائی میں جائے گا اسی قدر اس کی مَحبّت مسلّمہ اور مصدّقہ ہوتی چلی جائے گی۔لوگوں کی اکثریت اطاعت کے بغیر ہی محض رسوم و رواج کے ذریعے سے مَحبّتِ رسولؐ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اطاعتِ رسولؐ کی بات کی جائے تو تمام جذبوں پر سکتہ کیوں طاری ہو جاتا ہے؟ پھر”اگر، مگر“کی قبیل سے تعلق رکھنے والے تمام الفاظ کیوں عود آتے ہیں؟ پھر”چوں کہ، چناں چہ“ سے ملحقہ اور ہم معانی تمام الفاظ زبانوں سے کیوں برآمد ہونے لگتے ہیں؟ ہم اپنے مَن چاہے قواعد اور رسوم پر عمل کرتے ہوئے بھی اعتدال کی تمام حدود و قیود سے گزر جاتے ہیں مگر اطاعتِ رسولؐ کو محض سرسری اور جزوی سی اَہمّیت دے کر کہیں اور نکل جاتے ہیں، کہِیں بہت دُور، بہت ہی پرے، چلو اسی کسوٹی پر آپ اپنے اردگرد پھیلے مَحبّت مآب رشتوں ہی کو پرکھ لیں یقیناً آپ کے ساتھ بھی مَحبّت کے درجنوں لوگ دعوے دار ہوں گے، کئی لوگ تو ایسے بھی ہوں گے جو آپ پر اپنی جان قربان کر دینے کی قسمیں بھی اٹھاتے ہوں گے اگر عین وہی جان وار دینے کے دعوے دار آپ کا کہنا نہ مانیں تو کیا آپ ان کی مَحبّت پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ یقینا آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ بالکل اسی پیمانے اور اسی ترازو کو ہم مَحبّتِ رسولؐ کے وقت کیوں فراموش کر بیٹھتے ہیں؟ سوچیے اور خوب سوچیے کہ کہیں ہماری نڈھال بصیرت نے ہماری مَحبّتوں کو لاغر تو نہیں کر ڈالا؟ کہیں ہمارے نحیف و ناتواں فہم اور تدبّر نے ہمیں مستقیم راہوں سے ہٹا تو نہیں دیا؟ وہی راست راہیں جن پر چلنے کا اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے ہمیں حکم دیا تھا۔
گر اطاعت نہ ہو حیاتؔ اُنؐ کی
ایسا جینا فضول جینا ہے
(کالم نگارقومی وسماجی امور پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
اکبر نام لیتا ہے…………
انجینئر افتخار چودھری
مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب میں لاہور کے کالج آف ٹیکنالوجی کی طلبہ یونین کا نائب صدر تھا اور اسی کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم بھی تھا۔ یہ 1974 کے دن تھے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے ان دنوں کالجوں میں امریکہ کے خلاف نعرے بازی عام تھی۔ بھٹو صاحب امریکہ جا رہے تھے ادھر ہم نے اعلان کر دیا کہ کالج میں احتجاجی مظاہرہ ہو گا اور یہ بھی اعلان ہوا کہ امریکی پرچم کو آگ لگائی جائے گی۔
ہو سکتا ہے یہ کام ہو جاتا رات کو اللہ جنت بخشے سلمان بٹ کالج ہوسٹل میں آئے کمرہ نمبر سات میں ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیں قائل کیا کہ آپ یہ کام نہ کریں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو امریکہ ملک کے لئے جا رہے ہیں کوئی مالی مدد کامسئلہ ہے اور کچھ ایسے مسائل کو پاک بھارت امور سے جڑے ہوئے ہیں ایسے میں اگر آپ امریکہ کاپرچم جلائیں گے تو اس سے منفی نتائیج نکلیں گے لہٰذااحتجاج ختم کیا جائے۔ سو ہم نے ان کی یہ بات مان لی اور اگلے روز کا احتجاج ملتوی کر دیا کچھ لڑکوں نے ہمیں طعنے دئیے کہ آپ حکومت سے مل گئے ہیں لیکن ہم نے ان کی باتوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھااور مظاہرہ ملتوی کر دیا۔قارئین ہمارے پاس طاقت تھی ہم الیکشن جیت چکے تھے طلبا میری ایک آواز پر لبیک کہتے تھے لیکن ہم نے تنظیم کا فیصلہ مانا اور احتجاج سے باز رہے۔
دوستو ابھی مفتی نعیم نوری کی کال تھی وہ مریدکے میں ہوتے ہیں میرے استاد محترم کے بیٹے ہیں اللہ انہیں خوش رکھے بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق ہے اوپر سے گجر بھی ہیں میں نے انہیں کہا تھا کہ اپنا رول پلے کریں اور تحریک لبیک کے بھائیوں سے درخواست کریں کہ تشدد کا راستہ نہ اپنائیں۔میں حیران ہوں ہمارے علما اور مشائخ ونگ میں بیٹھے لوگ اپنا کردار کیوں نہیں ادا کرتے ہمارے وزیر نورالحق قادری بڑے سمجھدار انسان ہیں انہیں اپنی ٹیم کے ساتھ ایسے لوگوں سے گفتگو کرنی چاہیے جن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔
تاجدار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے تو ہم بھی لگاتے ہیں میں تو 1974 کی تحریک کا بنیادی کارکن ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ تحریک اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین جو نشتر کالج ملتان کی تھی اس پر ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر تشدد کیا گیا ارباب عالم اس یونین کے صدر تھے اور ان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔اس وقت پورے پاکستان میں طلبہ یونینز میں اسلامی جمعیت طلبہ چھائی ہوئی تھی۔پھر جو کچھ ہوا وہ تحریک کا حصہ ہے جس کے نتیجے میں قادیانی غیر مسلمان قرار دئیے گئے۔ وہ تو ایک با مقصد تحریک تھی۔پھر مولانا خادم رضوی جب پہلے دھرنے کے لئے نکلے تو اس کے پیچھے بھی ایک آئینی ترمیم تھی جس کی وجہ سے وہ دھرنہ کامیاب ہوا۔اس سے پہلے بھی جب لبیک والے نکلے تو میں نے لاہور میں ہونے والے واقعات کی مخالفت کی۔اس وقت تو نبیؐ پاک کے خاکوں کی بات تھی لیکن اب کیا ہو گیا ہے۔آپ کا مطالبہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو نکالیں جناب جو سفیر ہے ہی نہیں اسے کیسے نکالیں اورنکالنابھی نہیں چاہیے۔
میں انجمن طلبائے اسلام کے ظفر اقبال نوری نور محمد جرال نواز کھرل ساجد عبدالرزاق اور دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس احتجاج کو روکیں۔تحریک انصاف کے لیڈران بھی اپنا کردار ادا کریں۔وہ لوگ جو علما مشائخ کانفرسوں میں شریک رہے ہیں انہیں کہا جائے کہ اس احتجاج کو ختم کرائیں۔پورے پاکستان کی پارٹی کی تنظیموں سے کہیں کہ بریلوی مکتبہ فکر کے علما سے ملاقاتیں کریں۔افسوس یہ ہے کہ عمران خان رحمتؐ العالمین کانفرنسیں کرے او آئی سی کے حکمرانوں کو جگائے اقوام متحدہ میں ریاست مدینہ کی باتیں کرے دشمنوں کی توپوں کے گولوں کا مقابلہ بھی کرے مزاروں پر حاضری دے اور ننگے پاؤں سرکارؐ دو عالم کے شہر میں جائے اور اس کے باوجود وہ طعنے بھی سنے وہ اکبر الٰہ بادی کا شعر ہے۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(تحریک انصاف شمالی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات ہیں)
٭……٭……٭
مجھے انصاف نہیں ملا
خیر محمد بدھ
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی وفات سے قبل ایک خط میں یہ شکایت کی تھی کہ انہیں اپنی قوم سے انصاف نہیں ملا۔ اس طرح گزشتہ روز الجزیرہ ٹی وی چینل پر صبح کی نشریات میں شیخوپورہ سے مظہر فاروق نامی شخص کا انٹرویو نشر ہواجس میں اس نے بتایا کہ وہ 21 سال موت کی کال کوٹھڑی میں بند رہا ہے۔ ہر روز آپ کچہری میں جائیں تو بچے، بوڑھے، جوان سب ہی یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ وہ سالہاسال سے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک حصول انصاف میں انہیں کامیابی نہ ملی ہے۔ لیبرکوٹ این آئی آر سی میں جا کر دیکھیں مزدور شکایت کریں گے کہ وہ عرصہ دراز سے انصاف کے حصول کیلئے چکر لگا رہے ہیں۔ میرے اپنے ضلع میں ایک سرمایہ دار نے فیکٹری کو غیر قانونی طور پر بند کر دیاحالانکہ لیبر قانون کے مطابق فیکٹری کو مکمل بند کرنے کیلئے لیبر کورٹ کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس طاقتور شخص نے بلااجازت کارخانہ بند کرکے سینکڑوں مزدوروں کو بیروزگار کر دیا اور آج تین سال ہو گئے ہیں ابھی تک کوئی فیصلہ نہ ہوا ہے۔ آپ ریونیو کی عدالتوں میں جائیں زمین کے تنازع پر قبضہ اور تقسیم کے معاملے پر وراثت اور حد برداری کے مسئلے پر لاکھوں لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔گزشتہ دنوں مظفرگڑھ میں ریونیو عدالت میں ایک بزرگ نے رو کر کہا کہ وہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہے کافی عرصے سے ناجائز قبضہ چھڑوانے کیلئے مقدمہ بازی کا سامنا کر رہا ہے لیکن اسے انصاف نہیں مل رہا، یہ کہہ کروہ عدالت میں گرگیا اور انتقال کر گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی بین الاقوامی شخصیات بھی انصاف نہ ملنے کا شکوہ کریں تو پھر نیچے کیا صورتحال ہوگی۔
انصاف نہ ملنے کا یہ مسئلہ صرف عدالتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے سماج میں سبھی شراکت دار کسی نہ کسی طرح سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مریض یہ شکایت کرتے ہیں کہ ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں علاج کرنے کے بجائے اپنے ذاتی کلینک پر ریفرکرتے ہیں اور ادویات بھی بازار سے منگواتے ہیں۔ والدین شکوہ کرتے ہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بہت زیادہ فیس لی جاتی ہے سہولیات کم ہیں جبکہ محکمہ تعلیم سے شکایت کی جائے تو پروا نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں سے ملے ہوئے ہیں۔ہر جگہ شہری شکایت کرتے ہیں کہ پینے کا صاف پانی نہیں ملتا جو واٹر فلٹریشن پلانٹ لگے ہوئے ہیں وہاں فلٹر تبدیل نہیں ہوتے۔ پانی میں آسینک زیادہ ہوتا ہے۔ جب میونسپل اداروں سے بات کی جائے تو پرواہ نہیں کرتے۔ اس طرح نالی گلیوں کی صفائی اور سیوریج کیلئے جب شکایت کی جائے تو وہ کوئی داد رسی نہیں ہوتی۔
وہ ادارے جن کے پاس کروڑوں روپے کے فنڈز ہیں، وسائل ہیں، گاڑیاں ہیں، ایئرکنڈیشن دفاتر ہیں،ٹھاٹ بھاٹ سے رہتے ہیں انکے کام اور خدمات Service Delivery کی یہ حالت ہے کہ لوگوں کو انصاف نہیں ملتا۔ اگر ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں، سول عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو دیکھا جائے تو ہر ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری محکمہ جات ریو نیو، بلڈنگ، آبپاشی، لوکل کونسل وغیرہ کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ کیا یہ ان اداروں کی نااہلی نہیں ہے کہ جو کام انکا ہے وہ نہیں کرتے اور لوگوں کو عدالتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح عدالتوں میں موجود درخواستوں میں اکثریت درخواستیں سرکاری محکمہ جات سے متعلق ہوتیں ہیں جن میں پولیس کا محکمہ سرفہرست ہے۔ جب لوگوں کو مقامی سطح پر انصاف نہیں ملتا تو پھر اعلیٰ عدالتوں میں اپنے حق کے حصول کیلئے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دیتے ہیں۔ جس سے عدالتوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور اخراجات بھی آتے ہیں۔
چند روز پہلے عدالت عالیہ میں ایک کام کے سلسلے میں جانا ہوا تو دوران سماعت ایک کیس میں یہ پتہ چلا کہ پولیس نے چالان پراسیکیوشن برانچ میں جمع کرادیا ہے اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ چالان متعلقہ عدالت میں نہ بھیجا گیا ہے۔ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں اور خود احتسابی کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہاں سے اخلاقیات کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اخلاقی طور پر دیوالیہ شخص اپنی غلطی کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ ہمارے معاشرے سے انصاف ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ گھر وں اور فیملی میں انصاف نہیں ہے۔ اولاد اپنے والدین کی نافرمانی پر تل گئی ہے۔یہاں تک کہ اطاعت والدین کا قانون بنانا نافذ ہوا ہے۔خاوند اپنی بیوی اور بچوں سے انصاف نہیں کرتے اس لیے فیملی کورٹس میں مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
زمیندار اپنے مزارع اور مستاجر سے انصاف نہیں کرتا، سرمایہ دار اپنے مزدور کو اس کا حق نہیں دیتا۔ ملاوٹ، کم تولنا، دو نمبری عام ہے۔ مصنوعی مہنگائی کر کے صارفین کا استحصال ہورہا ہے۔ سرکاری محکمہ جات،پولیس، ریونیو، لوکل گورنمنٹ میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے نا انصافی ہے واپڈا، بجلی،سوئی گیس اپنے لائن لاسز صارفین پر ڈال کر ناانصافی کر رہے ہیں۔ سیاست دان عوام کے مسائل اور شکایت پر توجہ دینے کے بجائے ایک دوسرے پر گالم گلوچ کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے ووٹرز سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ووٹ لینے کے بعد انہیں بھول جاتے ہیں اور میرٹ،قانون اور سماجی انصاف کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج تک ممبران پارلیمنٹ نے رشوت، بدعنوانی اور ناانصافی پر سخت قانون نہ بنایا ہے حالانکہ ان کا کام ہی قانون سازی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب گھر کا کوئی ایک آدمی غلط ہو تو گھر والے ا سے سمجھاتے ہیں لیکن جب سارے گھر والے ہی غلط ہوں تو پھر انہیں کون سمجھائے گا۔ اس وقت صورتحال بہت تشویشناک ہے، اخلاقی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں۔ جب کسی معاشرے سے اخلاقیات ختم ہو جائیں تو پھر انصاف کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ناانصافی سے زیادہ کوئی اور ظلم نہیں ہے۔ ہمیں اپنے اخلاقی نظام کو تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے ور نہ نانصافی کا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
(کالم نگار سیاسی وسماجی موضوعات پر لکھتے ہیں)
٭……٭……٭
مسٹر ایمبیسیڈر
سجادوریا
راجہ علی اعجاز پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بہترین،تجربہ کار اور مستعد و متحرک افسر ہیں۔ انتہائی تعلیم یافتہ اور وسیع المطالعہ شخصیت ہیں، ان کا مدلل اور دھیمہ انداز گفتگو ان کی شخصیت کو اور بھی دلکش بناتا ہے۔وہ ایک خالص کییریئر ڈپلومیٹ ہیں۔راجہ علی اعجاز سعودی عرب کے دارالحکومت ’ریاض‘ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں،انہوں نے جنوری ۲۰۱۹ء میں سفارتخانہ پاکستان کا بحیثیت سفیر چارج سنبھالا۔ سفارت کے میدان میں وسیع تجربہ رہا ہے،ریاض میں سفیر ِ پاکستان بننے سے پہلے وہ نیویارک میں پاکستان کے قونصل جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے۔انہوں نے کئی سال مشکل محاذ یعنی کابل میں پاکستانی سفارتخانے میں بھی کام کیا،وزارت خارجہ میں ڈی جی یواین کے طور پر بھی کام کیا، لندن میں پاکستان ہائی کمیشن میں بھی خدمات سرانجام دیں،میکسیکو میں پاکستان ایمبیسی میں بھی کام کیا۔ اس وقت سعودی عرب میں سفارتی میدان میں کھیلنے والے کپتان اور ٹیم دونوں نئے ہیں،ظاہر ہے ان کو مسائل،کمیونٹی اور سعودی قوانین کو سمجھنے میں وقت لگے گا،نچلی سطح پر بھی مقامی معاونین کو بدلا گیا ہے،جو کہ وقت کی مناسبت سے ٹھیک فیصلہ نہیں ہے،میری نظر میں وزارتِ خارجہ اور حکومت پاکستان کو سوچنا چاہئے اور سفیر پاکستان جنرل بلال اکبر صاحب کے ساتھ تجربہ کار ٹیم کو بھیجا جائے جو سفارتکاری میں تجربہ کار ہو۔
جیساکہ ہم جانتے ہیں سعودی عرب برادر ملک ہے،پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کام کرتی ہے،ہزاروں فیمیلیز یہاں قیام پذیر ہیں،تین ملین کے قریب پاکستانی یہاں رہتے ہیں،پاکستان ایمبیسی اسکولز کا نیٹ ورک بھی کام کررہا ہے،ریاض میں سفارتخانہ ہے،جدہ میں قونصلیٹ ہے،لیکن کئی دور دراز کے علاقوں میں مستقل قونصل خانے نہیں ہیں بلکہ ایمبیسی کے اہلکار ہفتہ میں ایک بار عارضی عمارتوں میں آتے ہیں،کمیونٹی کے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ایسٹرن ریجن میں کوئی مستقل عمارت نہیں ہے،الخبر کے تمیمی کمپاوٗنڈ میں عارضی بندوبست کیا گیا ہے،جہاں سفارتی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اوور سیز پاکستانیوں کا احساس ہے،لیکن سعودی عرب میں موجود پاکستانی اس احساس کو اپنے لئے بالکل بھی محسوس نہیں کر رہے۔سعودی قوانین کے مطابق اقاموں کی تجدید ایک بڑا مہنگا کام بن چکا ہے،جس کی وجہ سے ہزاروں مزدور اقامے تجدید نہیں کرواتے اور غیر قانونی طور پر رہ رہے ہیں،جب پکڑے جاتے ہیں تو سفارتخانے پر بوجھ بن جاتا ہے کہ جلدی ان کو پاکستان بھیجا جائے۔مجھے تسلیم ہے کہ سفارتخانے میں نچلی سطح پر سب ٹھیک نہیں ہے،سفارتی اہلکار،سُستی اورٹرخاؤ پالیسی کا سہارا لیتے ہیں،جو کام جلدی ہو سکتا ہے،اس کو لٹکاتے ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی،سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہے،سیاسی جماعتیں ان کے ورکرز،روایتی اختلافات کا شکار ہیں،سیاسی گروہ،سیاسی بنیادوں پر سفارتخانے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ایک گروہ پیچھے رہ گیا تو سوشل میڈیا پر اس کا اظہار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔سوشل میڈیا آج کے زمانے میں ایک بڑی طاقت ہے،میں حیران ہوتا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی بنیاد پر سابق سفیر راجہ علی اعجاز کو واپس بلایا،انکے خلاف انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔کیا نکلا؟ کوئی ثبوت ملا؟
میں سمجھتا ہوں کہ سفیروں کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں،افسران کی پوزیشنز بدلتی رہتی ہیں۔جس ڈھنگ سے ان کو میڈیا پر نشر کیا گیا،یہ صرف اور صرف سستی شہرت کا شاخسانہ لگتی ہے۔اِدھرسعودی عرب سے سفیر کو واپس بلانے کا علان ہوا،اُدھراسی سفیر کے ساتھ سیلفیاں بنوانے والے بڑھکیں مارنے لگے،یہ ہم نے کروایا ہے،نچلی سطح پر ایمبیسی اسٹاف کو باقاعدہ دھمکیاں دی جانے لگیں کہ دیکھو ہم نے سفیر بدلوا دیا ہے،تم لوگ کس کھیت کی مولی ہو؟
سابق سفیر پاکستان راجہ علی اعجاز کی خدمات قابلِ تحسین ہیں،بہت ہی قلیل عرصے میں بڑے موثر انداز میں وہ سعودی حکومت کے ساتھ سفارتی اور ذاتی سطح پر با اعتماد تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے،انہوں نے شدید دباوٗ اور بحران میں بھی مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا اور سفارتی خدمات کامیابی کے ساتھ سر انجام دیں۔انہوں نے کووڈ۱۹ کے لاک ڈاوٗن کے دوران کمیونٹی کے لئے جو کام کیا،اس کے اعتراف میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے تعریفی خط لکھا،اپنی کوششوں سے پی آئی اے کی پروازوں کو بحال کرانے پر پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک نے خط لکھ کر شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔جب وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے حوالے سے بیان دیا،سعودی عرب کی مختلف ائرلائنز میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس کو گراوٗنڈ کر دیا گیا،سفیر صاحب نے ذاتی دلچسی لیتے ہوئے سول ایوایشن اتھارٹی،گاکا اور وزارت خارجہ کے چینلز کو استعمال کرتے ہوئے سعودی حکومت کو رضا مند کیا کہ پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی تصدیق کی جائے،اس طرح ۱۷ پائلٹس اپنی ملازمتوں پر بحال ہو گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے ان کو جس انداز میں اپنی سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کیا،قابل افسوس ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر شکایات موصول ہوئیں تھیں تو سرکاری سطح پر،وزارتِ خارجہ اس کو ڈیل کرتی،میڈیا پر آکر سستی شہرت سمیٹنے سے کیا حاصل ہوا؟وزیر اعظم عمران خان کو کوئی سمجھائے کہ سفارتکاروں کو جب میڈیا پر بٹھا کر ذلیل کیا جائے گا تو وہ کیاخاک کام کریں گے؟آپ وزیر اعظم ہیں،باس ہیں آپ افسران کو تنبیہ کر سکتے ہیں۔اس بات کا سفیروں نے بہت بُرا بھی منایا تھا،وزیر خارجہ کی دانشمندی نے صورتحال سنبھال لی تھی۔میں تو کئی بار لکھ چکا ہوں کہ حکومت وزارتِ خارجہ کے تربیت یافتہ افسران کو سفیر بنا کے بھیج رہی ہے،یہ قابلِ ستائش ہے۔
راجہ علی اعجاز بہت سُلجھے،خوش اخلاق،خوش لباس،درویش منش بیوروکریٹ ہیں،انہوں نے خود کو حکومتِ وقت کے سامنے پیش کردیا،وزیر اعظم کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا، اور کہا”میں سرکاری ملازم ہوں،سرکار کے ہر حکم کا پابند ہوں،ہر انکوئری کے لئے حاضر ہوں،ہم نے کام کرنا ہے،جہاں سرکار بھیجے گی،پہنچ جائیں گے“۔
کمال بندہ ہے؟ کوئی شکایت نہیں؟ کوئی شکوہ نہیں؟ کمیونٹی گواہ ہے کہ اس بندے نے بڑا کام کیا ہے، انہوں نے کمیونٹی کے لوگوں کو اپنا فون نمبر دیا ہوا تھا،کھلی کچہری ہوتی تھی،کووڈ کے دنوں میں ماسک لگائے،کالا سُوٹ اورکالا چشمہ پہنے،سفیر صاحب سفارت خانے کے انتظامات دیکھنے باہر خود نکل پڑتے تھے۔سعودی سرکاری اداروں میں پہنچے ہوتے،سعودی سرمایہ کاروں سے ملتے،پاکستان کے لئے کام کرتے،جیل میں بند پاکستانیوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے سعودی قوانین سے رعایت کی سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔میں عرض کرتا ہوں کہ ہم ان کو عزت سے رُخصت کرتے،انکوائری انکی منتظر نہ ہوتی،پاکستان ان کو خوش آمدید کہتا۔ان کا جی خوش ہو تا،وہ شکر گزار ہوتے کہ میں نے اپنی قوم کی خدمت کی ہے،لیکن راجہ صاحب ہم وہ لوگ ہیں جن کی شکایت کرتے ڈاکٹر قدیر خان اگلے جہاں سدھار گئے،آپ کو کیا سمجھتے ہیں ہم؟ہم ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں،مسٹر ایمبیسیڈر
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی ایک فیشن
لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
بے ایمانی، کام چوری اور ہڈ حرامی زیر بحث تینوں خصوصیات بنیادی طور پر نہائیت ہی منفی اقدار اور رویہ اور کردار کی غماز ہیں۔ یہ اقدار شخصی طور پر یا اجتماعی طور پر معاشرے یا کسی گروپ یا کسی قسم کے قومی انحطاط کی علامت بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ اقدار انفرادی حیثیت میں یا اجتماعی مرض کے طور پر پر بھی پائی جا سکتی ہیں۔ترقی یافتہ اقوام یا معاشرے کافی حد تک ان منفی اقدار کو اپنے اجتماعی کردار سے زیر نگوں کر لیتے ہیں مگر ایسے ممالک اور معاشروں میں اجتماعیت اور انفرادی ذمہ داری کا احساس ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اجتماعیت اور مثبت سوچ کا ہونا اور بدرجہ اتم ہونا معاشروں کی سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
جمہوریت مادر پدر آزادی اور کرپشن کی کھلی چھٹی کا نام نہیں بلکہ یہ اجتماعی اور انفرادی احساس ذمہ داری کا ثبوت ہونا چاہئے -کسی بھی قوم میں لیڈرشپ کے فرائض ادا کرنے والے گروپ یا انفرادی خدمات انجام دینے والوں کے لئے تین بنیادی تصور یاconcept نہایت ہی اہم بلکہ لیڈرز کی موجودگی کے پیش رو یا prerequisite ہوتے ہیں:
مشن یا ذمہ داری- وسائیل، جو اس مشن یا کام مکمل کرنے لئے لیڈر کو دئے جاتے ہیں اور تیسرا اور سب سے اہم جز ہے احتساب/accountably یا ذمہ داری۔
ہمارے ہاں سب لوگوں کو افسر بننے یا لیڈر بننے کا بہت شوق ہے مگر وہ لیڈر ہو نے کے تقاضے نبھانے کی قابلیت اور احساس ذمہ داری سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عہدے سے جڑے انعامات اور ہم حقوق تو بڑے دھڑلے سے انجوائے کرتے ہیں مگر نہ تو وہ اپنی ذمہ داری یا فرض نبھاتے ہیں اور نہ عوام جن کو انہوں نے serve کرنا ہوتا ہے ان کی کسی قسم کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے اوپر والے معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین اپنے آپ کو ملازم کم اور افسر زیادہ تصور کرتے ہوئے عام لوگوں سے نہ صرف دوری اختیار کرتے ہیں بلکہ عوام کو اپنی خدمت پر مجبور کرتے ہیں۔ معاشرے کے نچلے طبقوں سے بہت کم لوگوں کو افسری کرنے یا سیاسی لیڈر بننے کا موقعہ ملتا ہے مگر جب ان کو موقعہ ملتا ہے تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے اور اس طرح وہ بھی اپنی گزشتہ معاشی محرومیوں کا پورا مداوا عوام کو مزید لوٹ کر کرتے ہیں۔ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے رویئے ایک ہی جیسے ہیں۔ سب مل کر یا اکیلے اکیلے سرکاری وسائل کو خوب لوٹتے ہیں اور جو وسائل عوام کی صحت اور تعلیم اور ان کو ہنرمند بناے پر خرچ ہونے تھے ان کو نہ صرف فضول خرچی کی نذر کیا جاتا ہے بلکہ قومی خزانے کا بھاری نقصان بھی ہوتا ہے۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بہت سارے وہ سرکاری ادارے جو اپنی افادیت وقت کے ساتھ کھو چکے ہیں اور سراسر نقصان میں چل رہے ہیں اور وہ تکنیکی اور صنعتی لحاظ سے قابل درستگی نہیں رہے مگر ان کے ملازمین کو اسی طرح مفت میں تنخواہیں دی جارہی ہیں اور ان اداروں کا مالی نقصان بھی حکومت اپنے مزید وسائل لگا کر برداشت کرتی ہے۔ ان اداروں کو یا تو نجی شعبے میں منتقل کیا جانا ضروری ہے یا پھر ان کو بند کر دیا جائے اور ان میں سے جو وسائل نکل سکیں ان کو کسی اور مصرف میں لایا جائے۔
بجلی اور گیس کے محکموں میں بھی پیسے کی لوٹ مار جاری ہے۔ بجلی کی چوری ایک بہت بڑے سکیل پر جاری ہے۔ ملک کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں یہ چوری انتہائی حدود پار کر چکی ہے۔ اس چوری کو روکنے کے جدید طریقے استعمال میں لائے جانے ضروری ہیں۔
اوپر دی گئی چند مثالیں ہمارے معاشرے میں جاری بے ایمانی اور کام چوری کی زیادتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ کام کی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ کام کے اوقات کار میں اپنے ذاتی کام کرنے نکل جانا یا موبائل پر فضول باتوں میں وقت ضائع کرنا اور چائے پر معمول سے زیادہ وقت لگانا۔ یہاں تک کہ نماز کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ وقت لگانا بھی اچھے work ethics کی علامت نہیں ہے۔
جو سرکاری افسر یا ملازم، اس کا تعلق کسی بھی گریڈ یا طبقے سے ہو اپنے کام کی جگہ یا دفتر وقت مقرر پر نہیں حاضر ہوتا وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسی طرح جو افسر یا ملازم وقت مقررہ سے پہلے اپنے کام سے چھٹی کر جائے وہ بھی اتنا ہی بڑا مجرم ہے۔ ہر بندہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور جو لوگ ان کے کام کے دائرہ کار میں آتے ہیں ان کو بھی ان ورک اخلاقیات کا پابند بنائے اور اگر وہ یہ اہتمام نہیں کرتا تو وہ اپنے کام میں خیانت کا مرتکب ہے۔ بہت سارے لوگ ہمارے معاشرے میں یا تو غربت کا بہانا کر کے یا اپنے پاس ہنر نہ ہونے کا بہانا کر کے کام چوری کے مرتکب ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے ملک میں بھیک مانگنا اور ہڈ حرامی عام ہے۔ کسی چوراہے، بس سٹاپ، ریلوے سٹیشن، ٹریفک لائیٹ حتیٰ کہ ایئر پورٹس پر بھی پاکستان کا پہلا تاثرجو یہ بھکاری ملک سے باہر سے آنے والے افراد کو دیتے ہیں وہ نہائیت ہی منفی ہوتا ہے۔ کیا ہماری ساری قوم بھیک مانگنے والوں کی ہیں؟ دراصل بعض حکومتوں نے ملک کا پیسہ بینظیر اِنکم سپورٹ اور احساس پروگرام وغیرہ کی مد میں جہاں بہت سارے مستحق لوگوں کو دیا ہے وہیں ایک بہت بڑی تعداد غیر مستحق اور ہڈ حرام لوگ جو پیشہ ور کام چور اور بھکاری ہیں ان میں بھی غیر ضروری بانٹا گیا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی قیادت میں بے نظیر اِنکم سپورٹ فنڈ کا جو تجزیہ ہوا اس میں لاکھوں ایسے سیاسی اور غیر مستحق لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔
ہونا یہ چاہیے کہ احساس پروگرام اور بے نظیر فنڈ کی رقم کو ملک میں بھکاری پن اور غربت کے خاتمے اور صرف بوڑھے لوگوں کی کفالت پر استعمال کیا جائے۔ بھیک مانگنے کو ملک میں جرم قرار دیا جائے اور پناہ گاہوں کو صرف غریب اور بوڑھے افراد کی کفالت کے لئے استعمال کیا جائے۔ ملک کے اندر skill development یا ہنر مندی کی تربیت اور تعلیم کو لازم قرار دیا جائے۔ ہر شخص میٹرک تک تعلیم حاصل کرے اور میٹرک کا سرٹیفکیٹ اسی کو جاری ہو جو کم از کم ایک ہنر میں طاق ہو۔ یہ ہنر میٹرک کے سلیبس کا حصہ ہوں۔ ہنرمند افرادکو ان فنڈز سے قرض دیا جائے تا کہ وہ کوئی معقول کام کر سکیں۔ تقریبا پانچ سے سات سال میں بذریعہ سکل یا ہنر کی تعلیم سے نہ صرف ان لوگوں کو ملک سے باہر بھی اچھی تنخواہیں اور نوکریاں ملیں گی بلکہ بے روزگاری کو کافی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
معاشرے سے بھکاری پن اور غربت کا خاتمہ کرنا ضروری ہے اگر ہم نے اپنے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور سیاسی لوگوں، دونوں کا رویہ تبدیل کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے نچلے لیول سے لوگوں کوبحال کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اوپر والے یا حکومتی الیٹس elites کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔
تربیت تعلیم کا ایک بہت ہی اہم جز ہے اور کئی ملکوں میں تو تعلیم کے پہلے کچھ سال کتابوں اور امتحانوں کی بجائے صرف اور صرف تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔ تربیت میں سڑک پار کرنے کے طریقے سے لیکر کھانے کے آداب اور بولنے اور دوسروں سے بات چیت کا طریقہ بھی سکھایا جاتاہے۔ بنیادی معاشرتی یا مذہبی اخلاقیات بچوں کو سکھانا بہت اہم ہے تاکہ وہ ملک کے اچھے شہری بن سکیں۔ہمارے ملک میں سرکاری سکولوں کا ایک بہت بڑا جال بچھا ہوا ہے مگر بتدریج انحطاط کی وجہ سے اس سکول سسٹم نے اپنا مقام کھو دیا ہے۔ پہلے پانچ سال کی تعلیم کے لئے صرف خواتین اساتذہ کی خدمات لی جائیں۔ اور بنیادی اخلاقیات اور دین کے بنیادی اصول پڑھائے جائیں۔ میٹرک تک باقی پانچ سال یکساں نصاب میں سائنس کی تعلیم دی جائے اور ہر طالب علم ایک ہنر میں ماہر بنے۔ تمام بچوں کو مفت تعلیم و تربیت یقینی بنانا ہو گا۔ بلکہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اس کی رجسٹریشن یونین کونسل یا جو بھی ریکارڈ رکھنے والی اتھارٹی ہو اس کے ساتھ ساتھ نزدیکی سکول میں بھی بچے کی رجسٹریشن ہو جائے اور جیسے ہی وہ بچہ پانچ سال کی عمرتک پہنچے سکول اس کو خود اپنے پاس داخلہ دے کر کلاسوں میں بٹھائے۔
آئیے ہم عہد کریں کہ:
ہم اپنے معاشرے کی ترقی کے لئے دن رات اپنے فرائض کو ایمانداری اور اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق محنت سے ادا کریں گے۔ہم خواہ پیدل ہوں سائیکل پر ہوں موٹر سائیکل پر ہوں یا کار یا کسی بھی گاڑی میں ہوں ہم سب ٹریفک کے قوانین کی مکمل پابندی کریں گے اپنے ہاتھ پہ رہنا اور رفتار کی پابندی اور سڑک کی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں گے
نہ کسی کو رشوت دیں گے اور نہ رشوت لیں گے۔ اپنے رزق حلال پر قناعت کریں گے اور اپنے بچوں کو حرام رزق کی ایک رتی بھی نہیں کھلائیں گے اور نہ خود کھائیں گے۔
بھیک مانگنا اور پیشہ ور بھکاری ہونا ایک معاشرتی لعنت ہے اور اس کی ہر صورت میں حوصلہ شکنی ضروری ہے اور پیشہ ور بھکاریوں کو کسی قسم کی امداد یا رقم دینا ہر لحاظ سے نا جائز ہے۔ اس سے اس جرم اور اس سے جڑے ہوئے دوسرے جرائم جن میں معصوم بچوں کا اغوا بھی شامل ہے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے اور ہر طرح کے جرائم جو ہمارے علم میں آئیں ان کی رپورٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کریں گے۔اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا نہ صرف گھر پر بندوبست کریں گے بلکہ ان کو بر وقت سکول بھجوائیں گے اور ان کے اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔نہ صرف اپنے بچوں اور خود کو منشیات سے دور رکھیں گے بلکہ معاشرے کو اس لعنت سے دور کرنے کے لئے حکومتی اور معاشرتی لیول پر اجتماعی کوششوں کا ساتھ دیں گے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭