ملک منظور احمد
پاکستان تحریک انصاف ملک میں بلا امتیاز احتساب کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی تھی،وعدے تو خیر انھوں نے عوام سے اور بھی بہت سے کیے تھے لیکن بہر حال مرکزی وعدہ ملک میں کرپشن کے خاتمے اور طاقت ور اشرافیہ کے احتساب کا تھا۔خود وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے کئی مرکزی رہنما کئی بار یہ بات مختلف مواقع پر کر چکے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا بنیادی ایجنڈا احتساب ہی ہے لیکن اگر حکومت کے گزشتہ تین سالہ دور اقتدار پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ حکومت نے احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ تو بہت کی ہے متعدد اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور پابند سلاسل کیا گیا،اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے لے کر سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک اور سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر سابق وزیر اعظم نواز شریف تک تمام بڑے اور نامی گرامی رہنما سلاخوں کے پیچھے گئے سب نے جیل کی ہوا کھائی لیکن وہ سوال جو کہ اکثر میڈیا کی زینت رہتا ہے اپنی جگہ پر موجودہ ہے کہ آخر اتنی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے بعد حکومت اور اس سارے احتسابی عمل میں حکومت کا ہرا ول دستہ نیب آخر ان سیاست دانوں سے کتنی ریکوری کر سکے ہیں اور اس سوال کا جواب حکومتی وزراء اور لیڈروں کی جانب سے دیا بھی جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ جواب نہیں دیا جاتا، جواب میں کہا جاتا ہے کہ نیب نے تین سالوں میں کئی سو ارب کی ریکوری کر لی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاص نمبر بھی کوٹ کیا جاتا ہے لیکن اگر ان اعداد و شمار کے حوالے سے تفصیل میں جا کر غور کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ ریکوری ضرور ہوئی ہے اور نیب نے ہی کی ہے لیکن سیاست دانوں سے نہیں بلکہ دیگر کیسز میں ریکوری ہو ئی ہے۔نیب کا ادارہ اپنے قیام سے لے کر آج تک تنازعات کا شکار رہا ہے اور نیب کو حاصل بعض اختیارات جن میں بغیر ریفرنس دائر کیے ہوئے یعنی کہ بغیر مقدمہ کے گرفتاری اور پھر اس کے بعد ضمانت نہ ہو نا ایسے اختیارات ہیں جو کہ شاید دہشت گردی کے ملزموں کے لیے تو شاید ہوں لیکن وائٹ کالر کرائم کے ملزموں کے حوالے سے ضرورت سے زیادہ سخت معلوم ہو تے تھے اور اپوزیشن سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے بھی گاہے بگاہے اس حوالے سے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے سابقہ حکومتوں کے ادوار میں اور یہاں پر میں وضاحت کرتا چلوں کہ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پا رٹی کے ادوار کی بات کر رہا ہوں یہ جماعتیں اپنے آپ کو جمہوریت کی علمبردار قرار دیتی تھیں لیکن نہ صرف انھوں نے یہ قوانین نہیں بدلے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال بھی کیے۔پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور میں نیب قوانین کا بھرپور استعمال کیا گیا،ایک کے بعد ایک اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا لیکن کچھ ٹھوس حقائق سامنے نہیں آئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی مرتبہ نیب قوانین کو تبدیل کرنے کے حوالے سے بات بھی چلی اپوزیشن نے اس حوالے سے 34ترامیم بھی حکومت کے سامنے رکھیں جن کو حکومت کی جانب سے نہ صرف مسترد کر دیا گیا بلکہ اپوزیشن کو نشانے پر رکھ لیا گیا کہ اپوزیشن نیب قوانین میں ترمیم نہیں بلکہ این آر او مانگ رہی ہے۔اور حکومت اپوزیشن کو کسی بھی صورت میں این آر او نہیں دے گی۔بہرحال اس وقت نیب آرڈیننس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی لیکن اب اچانک چیئرمین نیب کی توسیع کے معاملے پر حکومت نے ایک نیب آرڈینس سامنے لا کر بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔اپوزیشن سے کسی قسم کی مشاورت کے بغیر یہ آرڈیننس سامنے لاگیا ہے بلکہ اب تو یہ آرڈیننس نافذ اعمل بھی کر دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع کی جاسکے گی۔اس حوالے سے صدر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے فیصلہ کرے گا۔نیب عدالتوں کو ضمانت کا اختیار حاصل ہو جائے گا مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی اور 6ماہ کے اندر اندر نیب مقدمات کا فیصلہ سنائے گا۔
اس کے علاوہ نجی کا روباری معاملات،بیو رو کریسی اور بینکوں کے معاملات کو بڑی حد تک نیب کی پہنچ سے استثنا دے دیا گیا ہے۔اس آرڈیننس میں جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے وفاقی اور صوبا ئی وزراء کو نیب قانون سے مبّرا قرار دے گیا ہے۔نیب کسی بھی وفاقی یا صوبائی وزیر کے معاملات کی چھان بین کے اختیار سے محروم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی فورمز جن میں ایکنک،سمیت دیگر شامل ہیں ان کے معاملات بھی نیب کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے نیب آرڈیننس کی یہ شق کئی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنی ہے۔اور بادی النظر میں وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے انصاف کے کرپشن کے حوالے سے دیرینہ موقف کی نفی معلوم ہو تی ہے۔اپوزیشن نے اس آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے اور اس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے لیکن ہمیں اس حوالے سے دیکھنا ہو گا کہ آیا اپوزیشن واقعی اس آرڈیننس کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے یا پھر اپوزیشن کے اس حوالے سے دعوے صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہو تے ہیں کیونکہ اس آرڈیننس کے تحت براہ راست سندھ حکومت کے وزراء کو بھی فائدہ پہنچے گا بلکہ اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں جن میں شاہد خا قان عباسی،مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال شامل ہیں ان کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے اور ان کے کیسز ختم ہو سکتے ہیں۔بہر حال حکومت کی کرپشن کے حوالے سے بیانیہ پر سوال ضرور اٹھ چکے ہیں اور الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وزرا ء کو اس حوالے سے استثناٰ دے کر حکومت نے اپنے اہم لوگوں کو این آر او نہیں تو منی این آر او تو دے ہی دیا ہے،اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس آرڈیننس کے بعد نہ صرف نیب کی کارروائیوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئے گی بلکہ ملک میں تین سال سے جاری احتساب کے عمل کی رفتار بھی نمایاں طور پر سست ہو جائے گی۔سیاسی حوالے سے بات کریں تو اس آرڈیننس سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کتنا نقصان پہنچے گا یہ تو بہر حال وقت ہی بتائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
اسمبلی سے استعفیٰ دے چکا‘ پی ٹی آئی بھی چھوڑ دی: عامر لیاقت
کراچی(این این آئی) پاکستان تحریک انصاف کے ناراض رہنما ڈاکٹرعامر لیاقت نے کہاہے کہ جن وزیروں اور مشیروں کے نام پنڈورا پیپر میں آئے ہیں وہ تاحال پاکستان چلارہے ہیں، انہیں کیوں نہیں ہٹایا جا رہا،اگر نام آنا کافی نہیں ہے تو پھر نوازشریف کے ساتھ جو ہوا وہ کیوں ہوا، تحریک انصاف کو ان لوگوں نے ووٹ دیا ہے جو کرپشن کے خلاف ہیں،وہ قلم کے آدمی تھے لیکن دوستوں نے ان کے ہاتھ میں بندوق تھمادی،اگر انہوں نے استعفے کی وجہ بتادی تو پورا پاکستان دہل جائے گا۔خصوصی گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹرعامرلیاقت نے کہاکہ تحریک انصاف کراچی میں عمران اسماعیل، علی زیدی اور فیصل واوڈا کے الگ الگ گروپ ہیں۔جنہوں نے کراچی کو تباہ کرنا تھا انہوں نے تباہ کردیا، اللہ پاکستان کی حفاظت کرے ورنہ جو کچھ ہورہا ہے بہت برا ہورہا ہے۔انہوں نے تو الیکشن جیت کر پیسے نہیں کمائے لیکن باقی لوگوں نے بہت کچھ کمایا ہے۔انہوں نے کہاکہ انہیں دیوار سے لگایا اور نظرانداز کیا جارہا ہے، انہیںنیشنل بینک نے ایک سال سے کسی کے کہنے پر قرضہ تک نہیں دیا۔
مسجد بے حرمتی کیس‘ صبا قمر اور بلال سعید پر فرد جرم کے لئے تاریخ مقرر
لاہور (خبر نگار) مسجد وزیر خان میں شوٹنگ اور ویڈیو بنانے کے معاملے پر اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید پر فرد جرم عائد کے لیے تاریخ مقرر کردی گئی۔لاہور کی ضلع کچہری میں مسجد وزیر خان میں شوٹنگ اور ویڈیو بنانے کے معاملے پر اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید کے کیس کی سماعت ہوئی، جوڈیشل مجسٹریٹ نے کیس پر سماعت کی۔ عدالت میں اداکارہ صبا قمر اور بلال سعید نے اپنے وکیل بیرسٹر حامد لغاری کے ہمراہ پیش ہو کر حاضری مکمل کرائی۔ اس موقع پر اداکارہ صبا قمر برقع پہنے عدالت آئیں۔ پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت میں چالان جمع کرا دیا گیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سوشل میڈیا پر صبا قمر اور بلال سعید کے گانے کی ریکارڈنگ کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے تقدس کو پامال کیا گیا تھا۔ ویڈیو پر سماجی اور مذہبی حلقوں سمیت سوشل میڈیا پر اس کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔
افغانستان کی صورتحال‘ امریکی نائب وزیرخارجہ آج اسلام آباد پہنچیں گی
واشنگٹن(این این آئی)امریکی محکمہ خارجہ نے کہاہے کہ امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین افغانستان کے معاملے پر امریکہ اورپاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے شگاف کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کی غرض سے آج (جمعرات کو) اسلام آباد پہنچیں گی،امریکی ٹی وی کے مطابق ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وینڈی شرمین دوطرفہ ملاقاتوں، سول سوسائٹی کی تقریبات اور انڈیا آئیڈیاز سمٹ میں شرکت کے لیے 6 اکتوبر کو نئی دہلی پہنچیں۔وہ 7 اکتوبر کاروباری شخصیات اور سول سوسائٹی کے اراکین سے ملاقاتوں کے لیے ممبئی کا دورہ کریں گی۔محکمہ خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ڈپٹی سیکریٹری وینڈی شرمین سینئر حکام سے ملاقاتوں کے لیے 7 سے 8 اکتوبر تک اسلام آباد کا سفر کرنے کے بعد اپنا دورہ مکمل کریں گی۔واشنگٹن میں موجود دیگر سفارتی ذرائع نے کہا کہ یہ ایک اہم اور بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد کسی بھی اعلی امریکی عہدیدار کا پہلا دورہ ہوگا۔وینڈی شرمین، امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کے بعد محکمہ خارجہ کی سب سے سینئر عہدیدار ہیں۔اسلام آباد کی جانب سے اس دورے کو اہم سمجھے جانے کے سوال پر سینئر سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ دورہ افغانستان اور پورے خطے میں پیشرفت دونوں کے تناظر میں بہت نازک وقت میں ہو رہا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بائیڈن انتظامیہ ایک ساتھ بھارت اور پاکستان کے دوروں میں تذبذب کا شکار نہیں نظر آتی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا تھا۔امریکیوں کا خیال ہے کہ ان معاملات پر موقف میں تبدیلی سے طالبان کی ساکھ پر مثبت اثر پڑے گا اور اقوام متحدہ میں انہیں تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تک پاکستان اور دیگر ممالک کو طالبان کو تسلیم کرنے میں تاخیر کرنی چاہیے۔
یوسف رضا گیلانی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا
اسلام آ باد (خبر نگار خصوصی ) سابق وزیراعظم اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کانفرنس میں شرکت کے لئے اٹلی جا رہے تھے۔ نام ای سی ایل میں ہونے کے باعث انہیں روکا گیا۔ یوسف گیلانی کے اسٹاف نے ایئرپورٹ سے امیگریشن کروائی تو کہا گیا آپ کا نام ای سی ایل میں ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر روکا گیا ہے۔ ایئرپورٹ حکام نے یوسف رضا گیلانی کو روکے جانے کی تصدیق کی ہے۔ سابق وزیراعظم بیٹی کے ہمراہ جا رہے تھے۔ ایئرپورٹ حکام نے بتایا کہ دوران امیگریشن یوسف رضا گیلانی کا نام ای سی ایل میں پایا گیا۔
پاکستان نے سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک توڑدیا
نیویارک (نیٹ نیوز)پاکستان نے سی آئی اے کا جاسوسی نیٹ ورک توڑدیا
کئی ممالک میں سی آئی اے کے ایجنٹ مارے گئے گرفتار بھی ہوئے
بے نامی جائیداد یں 25 ساستدانوں کے خلاف تحقیقات تیز
اسلام آباد(نئیر وحید راوت سے) ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی بورڈ آف ریونیو کے اہم زونز نے 25 سیاستدانوں پر بنائے گئے ہائی پروفائل کیسز بے نامی (اثاثہ جات) میں تحقیقات کو مزید تیز کردیاہے اور وذیر اعظم عمران خان کے ملک بھر میں ٹیکس ادائیگی کی وثرن کے مطابق پہلے “بڑوں ” پر لگائے گئے ٹیکسز کے معاملات کو فی الفور یکسو کرنے پر سختی سے ہدایت جاری کی گئی ہیں ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ کئی عرصہ سے ٹیکس کی مد میں اس مرتبہ کئی گنا اضافہ ملنے پربڑے مگر مچھوں پر عائد مقدمات اور تحقیقات کو جلد از جلد مکمل کرنے اور بلا امتیاز اسکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو مکمل کر کے رقم سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی ہدایت دے دی گئی ہیں ذرائع کے مطابق ہر کیس پر ٹائم فریم بھی دیا گیا ہے جبکہ اس ضمن میں ان زونز کو کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی مدد درکار ہو تو وہ بھی فی الفور دے دی جائے گی ذرائع نے بتایا ہے کہ دو صوبوں میں مطلوبہ سیاستدانوں نے ہزاروں کینال بے نامی زمین اور اثاثے 71 بے نامی داروں کے نام رجسٹرڈ کر رکھی ہے۔25 میں سے 15 ہائی پروفائل کیسز صرف لاہور زون میں ہی رجسٹرڈ ہیں جبکہ کراچی اور اسلام ا?باد زونز میں 5، 5 کیسز کی تحقیقات انتہائی سستا روی کا شکار تھی ساڑھے 7 ہزار کینال بینامی زمین پر بنے ایک کیس میں اسلام ا?باد زون نے اب تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک اعلی عہدیدار کے خلاف بے نامی ایکٹ کے تحت 6 ریفرنسز دائر کیے ہیں۔ایک اور کیس میں 1 لاکھ 25 ہزار کینال سے زائد بے نامی زمین شامل ہے جس کا تعلق شریف خاندان سے بتایا جارہا ہے۔جہاں اسلام ا?باد زونز میں دیگر 3 کیسز میں حکام تفصیلات کو سامنے نہیں لارہے ذرائع کے مطابق دیگر 3 کیسز میں بھی” اتحادی ” سیاست دان ہی شامل ہیں اور 5 کیسز میں کل 10 بے نامی دار ہیں۔ذرائع کے مطابق کراچی زون میں زیر تفتیش 5 کیسز میں سے اب تک کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکا تھا جبکہ لاہور زون راولپنڈی کے علاوہ پورے پنجاب کا معاملہ دیکھتا ہے جبکہ سندھ زون پورے سندھ اور بلوچستان کے معاملات دیکھتا ہے۔اسلام ا?باد زون پر اسلام ا?باد، خیبر پختونخوا اور سول ڈویڑن راولپنڈی کی ذمہ داری عائد ہے۔ان تمام میں سے، لاہور میں 39 اور کراچی میں 24 بے نامی اداروں کو درجنوں شو کاز نوٹسز جاری کیے جاچکے ہیں۔15 ارب روپے پر مشتمل اومنی گروپ کے اثاثوں، جس کے 45 مالکان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے یہ کیسز ان سب کے علاؤہ ہیں اب تک بے نامی ایکٹ کے تحت 10 ریفرنسز دائر کیے جاچکے ہیں۔زیادہ تر ہائی پروفائل کیسز، جن میں 25 سیاست دان ملوث ہیں، وزیر اعظم عمران خان کے ملک بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو اپنے علاقوں میں بے نامی اثاثوں کو رپورٹ کرنے کے احکامات کے بعد ضلعی لینڈ ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے پیش کیے گئے ڈیٹا سے سامنے ا?ئییاد رہے کہ اگست 2019 کو صوبائی حکومتوں کو بھیجے گئے ایک خط میں وزیر اعظم عمران خان نے بے نامی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کی تھیں۔رد عمل میں خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پشاور اور ضلع ٹانک میں تھوڑی بہت بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔پنجاب میں صوبے بھر میں 71 ارب 79 کروڑ روپے کے 28 ہزار 607 کینال پر 228 بے نامی جائیدادوں کی 13 اضلاع، بہاولنگر، بہاولپور، چنیوٹ، خشاب، ملتان، ننکانہ صاحب، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاک پتن، گجرات، حافظ ا?باد، فیصل ا?باد اور لاہور میں نشاندہی کی گئی تھیں تاہم کورونا کے باعث یہ معاملہ سست روی کا شکار ہو گیا تھا جبکہ سندھ میں ضلعی حکام نے زیادہ جائیدادوں کی نشاندہی نہیں کی۔واضح رہے کہ حکومت نے اسلام ا?باد میں 3 بے نامی زونز، لاہور، اسلام ا?باد، کراچی، قائم کیے ہیں جو کیسز کی تحقیقات کرتے ہیں اور اسلام ا?باد سے ان کے خلاف ریفرنس قائم کئیے جائینگے
ہماری معیشت کی زبوں حالی اور عالمی مالیاتی ادارے
ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
پاکستان کی معیشت اس وقت دو راہے پر کھڑی ہے۔ایک طرف تو پاکستان کی شرح نمو 5فیصد سے زائد ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ معیشت اسی رفتار کے ساتھ رواں معاشی سال کے دوران ترقی کرتی رہے گی جو کہ پاکستان کے لیے ایک مثبت بات ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کو ایک مرتبہ پھر 2017ء کی طرح بڑھتے ہوئے تجارتی اور کرنٹ اکا ؤنٹ خسارے کا سامنا ہے جو کہ پاکستان کے روپے پر دباؤ کا سبب بن رہا ہے۔اوپن ما رکیٹ میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قدر 173سے تجاوز کر چکی ہے اور اس میں مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔جتنا ڈالر مہنگا ہو گا اتنا ہی مہنگائی کی لہر میں شدت آئے گی۔پیٹرول،ڈیزل،بجلی اور گیس سمیت ہر چیز مہنگی ہو جائے گی جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ اور اشیا خوردونوش سمیت ہربنیادی چیز کی قیمت بڑھے گی اور عوام پر بم بن کر گرے گی۔یہ حکومت کے لیے یقینا ایک ابتر صورتحال ہے حکومت ایک طرف مشکل سے حاصل کی گئی ایک بہتر شرح نمو جو کہ ملک میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے،کو کسی صورت کھونا نہیں چاہے گی دوسری جانب کسی بھی صورت میں حکومت کی خواہش نہیں ہو گی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اتنا بڑھ جائے کہ حکومت کو پھر سے آئی ایم ایف کے در پر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو نا پڑ جائے۔
ہم تو اب ابھی 2019ء میں حاصل کیے گئے پہلے آئی ایم ایف پروگرام سے ہی نہیں نکل سکیں ہیں۔لیکن اس حوالے سے میں ابھی آگے چل کر بات کرتا ہوں۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک انٹر ویو میں بتایا ہے کہ حکومت کے اندازوں کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی برآمدات 40ارب ڈالر کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے جو کہ گزشتہ سال کی نسبت ایک بہت بڑا اضافہ ہو گا اور اگرہدف حاصل کر لیا جا تا ہے تو حکومت کی بڑی کامیابی بھی تصور ہو گی لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے ملک کی نہایت ہی تیز رفتار سے بڑھتی ہو ئی درآمدات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور اس حوالے سے حکومت کے تمام اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔حکومت کے اندازوں کے مطابق رواں مالی سال درآمدات کا ہدف 70ارب ڈالر رکھا گیا تھا،لیکن اب تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی درآمدات ہو ش ربا اضافے کے ساتھ 75 ارب ڈالر تک رہ سکتی ہیں جو کہ بہت زیادہ ہیں۔حکومت نے غیر ضروری درآمدات جن میں گا ڑیوں سمیت کئی لگژری آئیٹم بھی شامل ہیں پر اضافی ڈیوٹی عائد کی ہے اور اس امید میں عائد کی ہے کہ اس ڈیوٹی سے ان کی درآمد میں کمی ہو گی،سٹیٹ بینک نے شرح سود میں بھی 0.25بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا۔لیکن کچھ ماہرین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس شرح میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان کی شرح نمو 4.5فیصد تک بھی رہتی ہے تو ملک کے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر پاکستان کا کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے تو اس کی فنانسنگ کرنا یقینا موجودہ عالمی حالات اور افغانستان کی صورتحال اور پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں جوئے شیر لانے سے کم نہ ہو گا۔پاکستان کو ابھی سے اس صورتحال سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی برآمدات میں بڑے اضافے کی ضرورت ہے۔اگر کسی طرح رواں مالی سال تک پاکستان کی برآمدات 45ارب ڈالر تک چلی جا ئیں تو پاکستان کو زرمبادلہ کے مسئلے سے نجات مل سکتی ہے۔
میں نے وزیر خزانہ کے منہ سے ہی یہ بات بھی سنی کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کے حوالے سے یقینا بڑھتی ہو ئی درآمدات کا فیکٹر موجود ہے وہاں پر افغانستان کی صورتحال اور کچھ سٹے بازی کا عنصر بھی شامل ہے۔مجھے ان کی یہ بات سن کر بہت تعجب ہوا کہ اگر ملک کے وزیر خزانہ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے ڈالر کی سمگلنگ کی جارہی ہے تو اس حوالے سے کوئی پلان بنا کر بڑا کریک ڈاؤن کیوں شروع نہیں کیا جاتا؟ یہی باتیں کئی ماہرین کی جانب سے سامنے آرہی ہیں کہ چونکہ امریکہ نے افغانستان کے اسٹیٹ بینک کے 9.5ارب ڈالر کے زر مبا دلہ ذخائر منجمد کر دیے ہیں اس لیے اب افغانستان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان سے ڈالر افغانستان سمگل کیے جا رہے ہیں لیکن بات پھر وہیں آتی ہے کہ حکومت کو اس حوالے سے جامع پلان بنا کر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے،پاکستان کے عوام کو مہنگائی کی دلدل میں جھونکنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ایک تیسرا فیکٹر جس کا ذکر اثر ڈالر کی قیمت بڑھنے کے حوالے سے کیا جا رہا ہے وہ سٹے بازی ہے،بڑے بڑے سٹے باز افواہیں پھیلا کر ڈالر کی قیمت بڑھا رہے ہیں جبکہ وزیر خزانہ نے خود اپنے منہ سے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 165تک ہونی چاہیے اس سے زیادہ نہیں لیکن ہمیں معلوم ہی ہے کہ ڈالر کہاں تک چلا گیا ہے اور مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔حکومت کو اس حوالے سے بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئی،اس لیے مہنگائی بڑھ گئی،درآمدات بڑھ گئیں ہیں اس لیے ڈالر مہنگا ہو گیا اور اس کی وجہ سے بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے یہ باتیں زیادہ دیر تک عوام کو نہیں سنائی جاسکتی۔عوام حکومت کی جانب سے فوری ریلیف کے منتظر ہیں۔حکومت ڈالر کی قیمت کم کرے،اس کے لیے ایک مناسب حد تک شرح سود کیوں نہ بڑھانی پڑے وہ ضرور بڑھائے،عوام کو کھانے پینے کی اشیا ء پر سبسڈی دے اور درآمدات کے حجم پر بھی لگام ڈالی جائے،اگر رواں مالی سال پاکستان 65ارب ڈالر کی درآمدات بھی کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایک سال کے دوران 75ارب ڈالر کی درآمدات کسی صورت مناسب نہیں ہیں اور پاکستان کی معیشت ان کو ابھی افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
جہاں تک پاکستان کی برآمدات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے 40ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف اچھا ہے اس کو ہر صورت حاصل کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے کم برآمدات کی صورت میں پاکستان کا تجارتی عدم توازن پاکستان کو ایک اور شدید ترین مالی بحران میں دھکیل سکتا ہے۔اس کے علاوہ میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بھی کچھ بات کروں گا،ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے پاکستان کے آئی ایم ایف سے مذاکرات دوبارہ شروع ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف حکومت سے بجلی،گیس،پیٹرول سمیت دیگر ٹیکسز میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے،اگر حکومت نے ان میں سے آئی ایم ایف کے آدھے مطالبے بھی مان لیے تو پاکستان کے عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے حکومت کو عوام کے مفاد کا خیال کرتے ہوئے اس حوالے سے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر عوام کے لیے تو آنے والے دنوں میں معیشت کے میدان سے تو کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭
اہم ترین فصل کپاس کا عالمی دن
ڈاکٹر خالد حمید
7اکتوبر کو دنیا بھر میں اہم ترین فصل کپاس کا عا لمی دن منایا جاتا ہے۔ اس عالمی دن کو منانے کا مقصد کپاس کی پیداوار اور ٹریڈ کو بڑھانے کیلئے اسٹیک ہولڈر کے مابین ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کو مربوط بنانا ہے، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں کپاس کی پیداوار میں ترقی و استحکام کیلئے ٹریڈرز اور کسانوں کے مابین معاونت کو بہتر بنانا، کپاس کی پیداوار کو بڑھانے کی موئثر حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو کپاس کے کاشتکاروں کی بھر پور سر پرستی کرنے کی ترغیب دینا اور باہمی کاوشوں سے کپاس پر جدید زرعی تحقیق و کار آمد نئی ٹیکنالوجیز کی دریافت کے عمل کو تیز کر کے کپاس کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کو ممکن بنانا ہے۔
کپاس بہت سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کی معیشت میں بھی مرکزی اہمیت کی حامل فصل ہے۔ پاکستان اس وقت کپاس کی مصنوعات برآمد کر کے تقریباً 60 فیصدتک زرِ مبادلہ کما رہا ہے ملک کی 43فیصد افرادی قوت کپاس کی کاشت تا چنائی اور کپاس کی جننگ، ٹیکسٹائل، بنولے سے خوردنی تیل اور صابن سازی کی صنعتوں سے منسلک ہے۔
کپاس کی پیداوار اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں دو دہائیوں قبل پاکستان نے دنیا میں تیسرے نمبر پر آنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کپاس کی ایک بھی گانٹھ نہ اگانے والا بنگلہ دیش اس وقت ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں دنیا میں تیسرے نمبر پر اور چند برسوں قبل پاکستان سے کپاس کی پیداوار میں پیچھے رہنے والا ملک بھارت کپاس کی پیداوار میں ہم سے چار گنا اضا فہ کرکے اس وقت ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے والا دنیا کا پہلا بڑا ملک بن چکا ہے۔
پاکستان 1990 کی ابتداء میں ایک کروڑ 44لاکھ گانٹھ کپاس کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر آنے کا افتخار حاصل کر لیا تھا مگر لمحہ فکریہ ہے کہ اسکے بعد بتدریج ہماری کپاس کی پیداوار میں پتہ مروڑ وائرس، کیڑوں کے شدید حملہ اور تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کے باعث مسلسل کمی واقع ہونا شروع ہوئی جس سے نہ صرف ہماری معیشت بُری طرح متاثر ہوئی بلکہ پیداوار میں کمی کے باعث ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کم ہونے کے سبب زرمبادلہ کے حصول میں بھی شدید کمی واقع ہوئی جبکہ بہت سے ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش اور بنگلہ دیش منتقلی سے ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
پاکستان میں کپاس کی پیداوار کو عالمی دن کے بالاتر تقاضوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے سنبھالا دینے کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں اس بارے میں زرعی ماہرین کسان رہنماؤں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بڑی اہم سفارشات دی ہیں۔
زرعی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 22-23 سال سے کپاس کی بربادی پر قابو پانے کیلئے موئثر زرعی تحقیق و ٹیکنالوجی کی دریافت میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے، تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچاؤ کی موئثر ٹیکنالوجی و بیجوں کی ان اثرات کے خلاف قوتِ مدافعت پر مبنی اقسام کی عدم دستیابی، کپاس کے ناقص بیجوں کا کاروبار کرنے والے مافیا پر قابو پانے میں ناکامی، بی ٹی اقسام کیلئے وافر پانی کی عدم دستیابی، کپاس کے کسانوں کو طوفانی بارشوں، سیلاب، وبائی امراض اور کیڑوں و ٹڈی دل کے شدید حملہ سے ہونے والے نقصانات کا اعلانات کے باوجود آج تک کبھی کوئی ازالہ نہیں کیا گیا اور اس پر ستم یہ کہ متعدد پیسٹی سائیڈز اسپرے، مہنگی کھادیں، ناقص مہنگے بیجوں، ٹیوب ویلوں پر بجلی کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کی وجہ سے کپاس کے کسانوں کی پیداواری لاگت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے جس کے مقابلہ میں ملنے والا معاوضہ بہت کم ہونے کی وجہ کپاس کسان کیلئے خسارے کا سودا بن گئی ہے۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ حالیہ حکومت کے ایمرجنسی زرعی پروگرام میں کپاس کی صورتحال بہتر بنانے کی حکمت عملی کا کوئی ذکر نہیں۔ اِکا دُکا حکومتی اعلانات پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے نتیجتاً کپاس کے کسان اور معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھنے والی اس فصل کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ کسان رہنماؤں نے کہا کہ موجودہ وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی و ریسرچ سید فخر امام اور صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیاں گردیزی چونکہ خود کپاس کے ترقی پسند کسان ہیں لہٰذا امید بندھی ہے کہ وہ تمام فصلوں بالخصوص کپاس کے کسانوں کی بدحالی کو خوشحالی میں بدلنے کیلئے خصوصی اقدامات کریں گے۔
میری دانست میں کپاس کی پیداوار کو سنبھالا دینے کیلئے ہمیں تیز تر موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مدافعت رکھنے والے بیج اور موئثر ٹیکنالوجی کو زرعی تحقیق میں اولیت دینا چاہئے۔ بلاشبہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچاؤ اور ویلیو ایڈڈ کپاس اگانے والے کسانوں کو خصوصی مراعات دینا ہونگی۔ ہمیں کپاس کی زیادہ پیداوار کیلئے عظیم دوست ملک چین اور مسلم برادر ملک ترکی کے علاوہ مصر و برازیل سے نئی ٹیکنالوجی کی مدد لینا چاہئے ہمیں دنیا میں کپاس کی بہترین پیداوار لینے والے ممالک سے جدید ٹیکنالوجی ملک میں لانے والے اداروں اور کپاس کے ٹرپل و ڈبل جین بی ٹی بیجوں کی ڈویلپمنٹ میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی ٹیکنالوجی کو روایتی طریقوں کی بجائے فاسٹ ٹریک پر منظور کرنا ہو گا۔ ہمیں کپاس کی قبل از وقت بوائی کے نقصانات سے کسان کو آگاہ کر کے اسے صحت مند اورتوانا فصل کی بوائی سے صاف چنائی تک خصوصی عملی تربیت کا موئثر اہتمام کرنا ہوگا۔
ہمیں ناقص بیج بیچنے والے مافیا پر قابو پانے اور تصدیق شدہ بیج کے ساتھ تمام فصلوں کی کاشت پر اپنے کسانوں کو راغب کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت تصدیق شدہ کا 20تا22فیصد استعمال فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا بڑا سبب ہے۔
ہمیں آبپاشی کے لئے وافر پانی کی دستیابی یقینی بنانے کیلئے بڑے چھوٹے ڈیمز کی جنگی بنیادوں پر تعمیر کرنا ہو گی۔ ہمیں کپاس کے کسانوں کو معقول معاوضہ دلانے کا موئثر نظام اور طوفانی بارشوں،سیلابوں، کیڑے و بیماری کے وبائی عوارض اور ٹڈی دل جیسے مہلک عذاب سے متاثرہ کسانوں کی زرعی انشورنس اور زرعی مداخل کی سبسڈی کو پیداوار کے معاوضہ سے منسلک کرنا ہو گا۔
میں کپاس کے کسانوں کو یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں کہ تارا گروپ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مدافعت رکھنے والی انقلابی ٹیکنالوجی اور کپاس کے ٹرپل و ڈبل جین بی ٹی بیجوں کی دریافت میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو کسانوں کی پیداواری لاگت کم کرنے اور معیاری پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا انقلاب برپا کر کے کپاس کے کسان کو خوشحالی دلائے گی۔
تارا گروپ کی مثالی زرعی تحقیق سے کپاس کے ان انقلابی بیجوں کی فصل کا گزشتہ دنوں وفاقی وزیر جناب سید فخر امام اور صوبائی وزیر جناب سید حسین جہانیاں گردیزی نے تارا ریسرچ فارمز لودھراں پر معائنہ کیااور انتہائی صحت مند اور بھر پور فصل اور تارا گروپ کی زرعی تحقیق کو مثالی کاوش قرار دیا جو کپاس کی بحالی و ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔
میرے خیال میں کپاس کی پیداوار میں عالمی دن کے تقاضوں پر زیادہ سے زیادہ اضافہ کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کو ترقی پسند کسانوں، زرعی ماہرین، زرعی مداخل کی انڈسٹریز، جننگ و ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جلد موئثر حکمتِ عملی وضح کرنے کا اقدام کرنا ہو گا۔حکومت فی الفور کسانوں کو کپاس کی امدادی قیمت میں مزید اضافے کا اعلان کرے تو کاشتکار کا حوصلہ کافی بڑھے گا۔
حالیہ اطلاعات کے مطابق بے حد موافق موسمی حالات اور کیڑے و بیماری کے حملہ میں کمی کے سبب کپاس کی فی ایکڑ پیداوار میں اس مرتبہ خاطر خواہ اضافے کا امکان ہے ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق اس مرتبہ ایک کروڑ گانٹھ تک کی پیداوار متوقع ہے دُعا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں ان اندازوں کے مطابق اضافہ ملک اور کسان کی خوشحالی کو وسیلہ بنے گا۔
(کالم نویس معروف زرعی ماہراور امورِ زراعت و خوراک پر تجزیاتی کالم لکھتے ہیں)
خبریں۔ قومی صحافت کا درخشاں باب
کنور محمد دلشاد
روزنامہ خبریں کی 29ویں سالگرہ قومی صحافت کا درخشاں باب ہے۔ خبریں اخبار کی اشاعت 29ستمبر 1992ء سے آغاز ہوا۔ ضیا شاہد نے اپنی صحافت کا آغاز کالم نویس ہفت روزہ اقدام لاہور سے شروع کیا‘ ہفت روزہ ”اقدام“ ملک کے ممتاز صحافی ”م۔ش“ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا جس کی اشاعت کا دائرہ کار لاہور سے کوئٹہ تک پھیلا ہوا تھا‘ ہفت روزہ اقدام جناب ممتاز احمد خان کے پرنٹنگ پریس سے باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا‘ اسی طرح ضیا شاہد نے بطور سب ایڈیٹر روزنامہ ”کوہستان“ میں نسیم حجازی سے تربیت حاصل کی۔ بعدازاں روزنامہ ”حالات“ اردو ڈائجسٹ لاہور اور پھر ہفت روزنامہ کہانی‘ ایڈیٹر روزنامہ مغربی پاکستان لاہور‘ ایڈیٹر ہفت روزہ ”صحافت“ ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت‘ روزنامہ جنگ اور اپنے صحافتی سفر کے آخر میں چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان رہے اور قدرت کے نظام کے مختلف طریقے ہوتے ہیں اور بطور چیف ایڈیٹر روزنامہ پاکستان کے ان کے اختلافات بھٹی برادران سے ہوگئے اور یہاں پر جناب ضیا شاہد نے اپنا روزنامہ نکانے کا مصمم ارادہ کیا۔ ضیا شاہد سے تعلق کا آغاز ہفت روزہ ”کہانی“ سے ہوا تھا اور غالباً 1969ء میں انہوں نے اپنے ڈپٹی ایڈیٹر گلزار آفاقی کے ذریعے میرے تاریخی انٹرویو شائع کیے جس سے ہفت روزہ ”کہانی“ کی اشاعت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
روزنامہ خبریں کی ابتدائی تیاری 1991ء کے آخر میں شروع ہوئی اور ان کا تجربہ کامیاب رہا۔ضیا شاہد نے دوستوں اور مخلص ساتھیوں کے تعاون سے ایک کمپنی بنائی اور اس کے حصص فروخت کیے اور اٹھارہ ڈائریکٹرز کا تعین کیا‘ مجھے بھی ضیا شاہد نے کمپنی کے حصص خریدنے کی ترغیب دی تھی چونکہ سرکاری ملازمت کی وجہ سے میں نے ان کی پیشکش کا شکریہ ادا کیا لیکن کوئٹہ سے چند مخلص دوستوں کا تعارف میں نے فصیح اقبال چیف ایڈیٹر زمانہ کے ذریعے کروایا تھا اس طرح روزنامہ خبریں کا آغاز 29ستمبر 1992ء کو ہوا تاہم ضیا شاہد کی ہمت اور قوت کے باعث ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کے انقلابی ماٹو نے اس اخبار کو سہارا دیا اور آج تک یہ اخبار مظلوم کا ساتھی اور ظالم کا دشمن ہے۔ لاہور کے بعد اسلام آباد‘ ملتان‘ سکھر‘ حیدرآباد‘ کراچی‘ پشاور‘ مظفرآباد‘ آزادکشمیر سے خبریں شائع ہوا اور اب ان کے قابل ترین صاحبزادے امتنان شاہد کی زیر نگرانی یکم اکتوبر سے روزنامہ خبریں کا اجراء بہاولپور سے کردیا ہے۔ امتنان شاہد نے الگ کمپنی کے تحت چینل۵ ٹیلی ویژن کا آغاز کیا۔ روزنامہ خبریں نے صحافت کو خدمت خلق کا ذریعہ سمجھا اور اب بھی روزنامہ خبریں مظلوم کی آواز ہے۔
ضیا شاہد کی خواہش پر میں نے ان کی ملاقات سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے 1971ء کے آغاز میں کروائی تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے میری یقین دہانی پر کہ یہ ملاقات آف دی ریکارڈ ہوگی اور ان کے خیالات وتاثرات کو افشا نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا سابق صدر ایوب خان سے ان کی ملاقات تین گھنٹے تک رہی اور وعدے کے مطابق ضیا شاہد نے 35سال بعد اس تاریخی ملاقات کا احوال بڑی تفصیل سے روزنامہ خبریں میں شائع کیا اور سابق صدر ایوب خان کی ملاقات میں میرا حوالہ بڑی تفصیل سے دیا۔
ضیا شاہد نے ہی عمران خان کی خواہش پر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور ان کے گھر میں ہی تحریک انصاف کا منشور‘ آئین اور خدوخال طے ہوئے اور ان کے قریبی ساتھی حسن نثار اس امر کے گواہ ہیں‘ ضیا شاہد کے عمران خان سے قریبی تعلق رہا اور ان کے نظریاتی افکار کا روشناس کرانے میں ان کی معاونت کی‘ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ضیا شاہد نے ان سے فاصلہ ہی رکھا۔ روزنامہ خبریں سیاسی واقعات‘ ظلم اور جبر کی تاریخ ہے جس کا مطالعہ پاکستانی سیاست اور صحافت کے طالب علم کیلئے ضروری ہے۔ روزنامہ خبریں کو امتنان شاہد نے صحافت میں اعلیٰ مقام دیا ہے اور آج بھی روزنامہ خبریں ملک کے کونے کونے کی آواز ہے۔ حکومت اور پریس کا رشتہ بہت نازک اور پرلطف ہوتا ہے۔ حکومت اب اس پوزیشن میں نظر نہیں آتی کہ وہ اخبارات کو دبائے‘ آنے والے دنوں میں حکومتی دباؤ ختم ہوگا اور اخبار پر عوام کا تو کل مضبوط ہوگا۔
(الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری ہیں)
٭……٭……٭