لندن( ڈاکٹر اختر گلفام سے)امریکہ، برطانیہ، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ میں دنیا بھر کے کرپشن کے ساڑھے 6کھرب ڈالر پڑے ہیں، تحقیقاتی رپورٹ
۔ پانامہ پیپرز، وکی لیکس پیراڈائز پیپرز اور فن سین فائلز کا مرکز بھی برطانیہ تھا،کالے دھن سے خفیہ جائیدادیں خریدنے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، برٹش ورجن آئی لینڈ،کجن آئی لینڈ جزیرہ بھی برطانوی حکومت کی ملکیت ۔ برطانوی جزیروں پر بنائی کمپنیوں پر ٹیکس صفر، لوٹے پیسوںکو تحفظ حاصل، 1598پاکستانوں کے نام بھی شامل۔
All posts by Daily Khabrain
نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی تک جاوید اقبال قائم
اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) حکومت کی جانب سے چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو توسیع دینے کا فیصلہ کر لیا گیا،وزراء پر مشتمل حکومتی کمیٹی نے سفارشات کا مسودہ تیار کر لیا، مسودے میں نیب آرڈیننس میں 1 سے زائد ترامیم کی گئی ہیں۔ترامیم مشیرِ پارلیمانی امور بابر اعوان اور وزیرِ قانون فروغ نسیم نے تجویز کیں۔مسودے میں موجودہ چیئرمین کی توسیع سے متعلق قانونی نکات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ذرائع کے مطابق گزشتہ روز حکومتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نیب کی توسیع سے متعلق قانونی نکات کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا گیا اور کئی تجاویز پیش کی گئیں۔ذرائع کے مطابق وزرا پر مشتمل حکومتی کمیٹی نے سفارشات کا مسودہ تیار کرلیا جب کہ مسودے میں نیب آرڈیننس میں ایک سے زائد ترامیم کی گئی ہیں۔ذرائع کے مطابق ترامیم مشیرپارلیمانی اموربابراعوان، وزیرقانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے تیار کی ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے حکومتی کمیٹی کی جانب سے نیب آرڈیننس کے ترمیمی مسودے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد چیئرمین نیب کی ملازمت میں توسیع کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔واضح رہے کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کی مدت ملازمت 8 تاریخ کو ختم ہورہی ہے اور گزشتہ روز ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نئے چیئرمین نیب کی تقرری تک موجود چیئرمین اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہیں گے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہو گی، چیئرمین نیب کو ہٹانے کا طریقہ کار نئی ترامیم میں واضح کردیا ہے۔
پولیس کے شہیدوں کو سلام
انجینئر افتخار چودھری
چندروزقبل اے ایس آئی اسلم فاروقی تھانہ سول لائنز کی حدود میں منشیات فروشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔اللہ کے پیارے اس نوجوان کی عمر صرف اٹھائیس سال تھی انا للہ و انا الیہ راجعون
مقابلے میں ایک منشیات فروش بھی ہلاک ہو گیا لعنت بر مردار
راولپنڈی پولیس کے ملازم اس سے پہلے ان سماج دشمن عناصر کے خلاف لڑتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر چکے ہیں
اس سے چند ماہ قبل مری میں ایسا واقعہ ہو چکا ہے عمر صدیق گجر نامی ایک سب انسپکٹر نے بہادری کا مظاہرہ کیا منشیات فروشوں پر ہاتھ ڈالا تو اس کو گولیاں ماری گئیں جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔پولیس کے اس بہادر جوان کی ہمت دیکھئے کہ اپنے سینے میں سانس کی نالی کے پاس گولی کے ٹکڑے لئے یہ گجروں کا بیٹا پھر ڈیوٹی پر پہنچ گیا اور اگلے روز اس نے ایک منشیات فروش کو گرفتار بھی کر لیا۔شیر کا جگرا ہے اس کے پاس اللہ پاک اپنی حفاظت میں رکھے آمین۔
قارئین نشے نے ہماری نسل کشی شروع کر دی ہے ندی نالوں میں پڑے آدھ موئے یہ بھی کسی کے لعل ہیں۔ ان کے پیدا ہونے پر بھی شادیانے بجائے گئے ہوں گے ماؤں نے خوشیاں کی ہوں گی اور باپ نہال ہوئے ہوں گے لیکن دولت کے پجاریوں نے انہیں نشے پر لگا کر انہیں ناکارہ بنا دیا ہے جس گھر میں ایک بھی نشئی ہوتا ہے وہ گھرانہ تباہ ہو جاتا ہے معاشرے میں وہ نفرت کا نشانہ بن جاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں اس کی سرکوبی کے لیے عام پولیس ناکافی ہے ANF گرچہ ایک الگ سے فورس موجود ہے لیکن اس کا کام شہروں گلیوں اور چوکوں میں کارروائیاں کرنا نہیں یہ کام پولیس کو ہی کرنا پڑتا ہے۔عام ملزمان سے نپٹنا پولیس کے لیے معمولی کام ہے لیکن منشیات فروش کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں انہیں علم ہے کہ گرفتاری کی صورت میں عمر بھر جیل کا سامنا کرنا پڑے گا وہ اس ڈر سے پولیس پر فائر کھول دیتے ہیں کہ پکڑے گئے تو مارے جائیں گے۔سماج کے یہ دشمن کسی رحم کے قابل نہیں ہیں
دوسری جانب پولیس کو دیکھیں تو اکثر اوقات یہ گلہ سننے کو ملتا ہے کہ پولیس کے پاس مناسب لوازمات نہیں ہوتے اسلحہ مناسب نہیں ہوتا گاڑیاں کھٹارہ ہوتی ہیں ان کے پاس وہ ضروری چیزیں نہیں ہوتیں کہ وہ ان سماج دشمن عناصر کا مقابلہ کر سکیں جن کے پاس جدید اسلحہ اور گاڑیاں ہوتی ہیں اور مزے کی بات ہے ان کی سر پرستی بھی کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی پولیس کی کارکردگی پہلے سے بہت بہتر ہے۔خاص طور پر سی پی او احسن یونس کے آنے کے بعد راولپنڈی قدرے سکون میں ہے۔جرم انسانی فطرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے روز اول سے قتل ہو رہے ہیں۔شہر کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں ۔ایک دن ڈی سی کی میٹنگ میں سی پی او نے جو بریفینگ دی اس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ عوام محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
کاش دوسرے محکموں کے ہیڈ بھی سر جوڑ کر اور دل سے اپنا کام کریں۔شہر بدلنا کوئی مشکل کام نہیں اگر محکمے کا سربراہ سوچ لے کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو وہ کام ہو کے رہتا ہے۔
قارئین ایک اسلم فاروقی نہیں ہزاروں ایسے جوان ہیں جو ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔افسوس یہ ہے کہ شہریوں کی جانب سے جو ستائش ہونی چاہئے تھی وہ ہو نہیں رہی۔ایک بے حسی کا عالم ہے۔”پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی“ بھی اپنی جگہ مگر یہ بھی تو ہے ”عوام کا ہے فرض مدد پولیس کی“ کے وہ بھی تو اس سلوگن کو اپنائے ۔
یہ میرے اور آپ کے لیے ایک خبر ہے اس سے پہلے عمران شہید کی بھی ایک خبر ہی تھی جسے شہید کر دیا گیا تھا کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ انہیں بھی فوج کے شہدا کی طرح مانا جائے ان کو بھی بہادری کے تمغات دئے جائیں انہیں بھی زمینیں مربعے الاٹ ہوں اور ان کے نام کی سڑکیں ہوں بازار اور شہر ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شہدا کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے ان کی اولاد اور بچوں کو دست شفقت مہیا ہوں۔صدر پاکستان اور گورنر ان کے گھروں میں پہنچیں یا اپنے پاس بلائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔میں نے تو صدر پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ کم از کم ان شہدا کے ورثا کو تو بلائیں جو اس ملک کو بدلنے کے لئے گمنام راہوں میں مارے گئے ۔
اسلم فاروقی تو اپنا فرض نبھا گیا لیکن اب اس کے ماں اور باپ پر جو گزر رہی ہے اس کا مداوا کون کرے گا ۔ ضروری ہے کہ ہم انہیں قومی ہیرو تسلیم کریں۔میں اس روز دکھی ہوا جب میں نے دیکھا کہ انسپکٹر عمران شہید کے بیٹے کو سی پی او اور ان کا سکواڈ ایک جلوس کی شکل میں لے کر سکول جا رہے تھے۔
کاش یہ کام اس شہر کے اور اس حلقے کے اسمبلی کے ممبر نے کیا ہوتا کاش ہم اس جلوس میں شامل ہوتے اور ثابت کرتے کہ ہمارے لئے جس نے جان دی ہے ہم اس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
اسلم فاروقی آج جان پر کھیل گئے اگر ہم نے اس قسم کے جوانوں کو خراج عقیدت نہ پیش کیا تو یاد رکھئے نوکریاں تو سب ہی کرتے ہیں وہ بھی جان بچا سکتا تھا اسے اگر اس خوف نے آن گھیرا کہ میری بھی ایک بچی ہے میں کیوں جان پر کھیلوں لیکن وہ قوم کے ان بیٹوں اوربیٹیوں کے لئے جان دے گیا جو اس قسم کے بد معاشوں کی نظر ہو جاتے ہیں اسلم سوچتا کہ مجھے گولی لگ سکتی ہے میری بیٹی یتیم ہو سکتی ہے میں بھی کنارے ہو جاتا ہوں لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ آگ کا دریا ہے اور کود کے جانا ہے اس نے اس دریا میں آگ لگا دی۔ہم اہل قلم بھی خاموش رہیں گے دیکھ لیجئے گا کہ کوئی نہیں لکھے گا سب خاموش ہوں گے سب کو چپ لگی ہو گی ستائش ہو گی اس کی جس سے کچھ ملے گا آج کل تو فرمائشی کالم لکھوائے جاتے ہیں تعریف کرائی جاتی ہے اور کالم میں مطالبے کئے جاتے ہیں کہ اس بندے کو فلاں نوکری دے دو۔فلاں پوسٹ پر لگا دو۔
افسوس اس بات پر ہے کہ یہ شہر راولپنڈی فوج کا شہر ہے وزیر داخلہ کا شہر ہے لیکن یہاں امن و امان قائم کرنے والے ادارے کہ ہاں آئے روز لاشیں گر رہی ہیں اور ہم سب خاموش مجرم بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہ 114 واں شہید ہے ۔منشیات فروش قاتل ہیں ان کے لیے سخت قوانین نافذ کئے جائیں ایک اور افسوس بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے کیپٹل پنشمینٹ دے رکھی ہے یہاں ان قومی مجرموں کو وکیل بھی مل جائے گا اور تگڑا وکیل کھڑا ہو گا اور پھر عدالت میں گواہی کون دے گا۔عدالتی نظام کی مثال دیکھئے میرے گھر ڈاکہ پڑا آج دو سال کے قریب ہونے کو ہیں آئے روز ملزمان ضمانت کے لئے عدالتوں میں موجود ہوتے ہیں پولیس مجھے کال کرتی ہے کہ صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں ایمر جینسی میں کون پہنچ سکتا ہے چار مختلف ڈاکوں نے مجھے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ایک کی ضمانت لگتی ہے تو دوسرا بلا لیتا ہے۔ان کے ہاس اتنے پیسے کہاں سے آ گئے جو تگڑے سے تگڑا وکیل کر لیتے ہیں۔ایک تو گھر سے لاکھوں گئے اوپر سے عدالتوں میں گھسیٹ گھسیٹ کے میرا لک توڑ دیا ہے صبح فلاں عدالت میں پہنچ جائیں اصالتا یا وکالتا۔اس عمر میں گھروں گھر گوایا باہروں۔۔۔
ہم چھوٹے تھے تو کہا کرتے تھے گھروں پئیاں جتیاں تے باہروں پئیاں کتیاں۔
اسلم قریشی کا باپ بھی عدالتوں میں رلے گا؟اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا؟جو ہر شہید کے والدین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ایک احسن یونس کے اچھے اقدامات سے اسلم فاروقی کو سکون نہیں ملے گا یہاں سسٹم ہونا چاہئے سب سے پہلا میرا مطالبہ ہے کہ پولیس کے شہید کو بھی فوج کے شہید کی طرح مقام دیا جائے سرکاری اعزاز جو ہمارے ان فوج کے بہادروں جوانوں کو ملتا ہے جو دشمن سے لڑتے ہوئے جان دیتے ہیں پولیس کو بھی وہی اعزاز وہی مراعات ملنی چاہئیں۔
پاکستان کی پولیس کی ٹریننگ بھی اسی سطح کی ہونی چاہئے جس طرح فوج کی ہوتی ہے۔انہیں بھی مشکل سے مشکل تر حالات کا سامنا کرنے کا تجربہ ہونا چاہئے اس لئے کہ پولیس کو بھی فوج ہی کی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پولیس پر حملے کے واقعات پر دہشت گردی کی دفعات لگنی چاہئیں۔اس کے لیے انکوائری ٹیمز تشکیل دیں کہ ان دفعات کا غلط استعمال نہ ہو۔مری کے واقعے پر جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر نظر ثانی ہونا چاہئے۔پندرہ سالہ بچی کا معاملہ ہے
عمر صدیق تو زندہ بچ گیا اسے بھی علم ہونا چاہئے کہ پولیس کے وہ جوان جو گولیوں کا سامنا کرتے ہیں اگر وہ بچ جائیں تو حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ملازمین چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہماری منتیں کرتے ہیں پولیس کا ایک شعبہ ہو جو ان کے جائز کام آسانی سے کرا دے انسپکٹر مشتاق کی بچی کا وزارت تعلیم میں معمولی کام ہے یہ کام آپ کے آئی جی آفس کی جانب سے ہونا چاہئے کہ وہ وزیر اعلی سے کرا کر دیں ہم سیاست دانوں نے تو شائد اللہ کو جواب نہیں دینا کہ کسی کا آسانی سے کام کر دیں بدنام تو ہم نے اداروں کو کرنا ہے۔مراد راس سے گزارش کی ہے پتہ نہیں کون سی ادا ان کو راس آئے گی کہ وہ لوگوں کے کام آسانی سے کر دیں ایک راس نہیں سب کا یہ حال ہے۔
سوال یہ نہیں کہ 2023 میں کیا ہو گا سوال یہ ہے جو آئیں گے ان کا بھی یہی حال ہو گا عوام پہلے بھی رلتی تھی پھر بھی رلے گی ویسے لگتا تو یوں ہے کہ ہم نے طے کر رکھا ہے کہ عمران خان کو رلائیں گے۔اس کا واحد حل ہے کہ پولیس اپنے لوگوں کی رفاہ کا کام بھی خود ہی کرے باقی،،جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا،،
ایک اکیلا عمران خان سر پھوڑ رہا ہے باقیوں کو اللہ سمجھے۔اسلم فاروقی شہید کی خدمات کو سلام اللہ پاک شہید کو جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز کرے میرا رب اس کی معصوم بیٹی کو عافیت میں رکھے والدین کو صبر دے۔سلام پنجاب پولیس سلام پنڈی پولیس۔”جاگدے رہنا“
(کالم نگار پاکستان تحریک انصاف کے سینٹرل ایڈوائزر ٹریننگ اور ایجوکیشن ہیں)
٭……٭……٭
شبیہہ مصطفیؐنواسہ رسول حضرت امام حسنؓ
آغا سید حامد علی شاہ موسوی
28صفر المظفر 50ھ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نواسہ رسول ؐ لخت دل علیؑ و بتول ؑخلیفۃ المسلمین حضرت امام حسن مجتبی ؑ درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقم طراز ہیں کہ امام حسن ؑ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔یہ زہر اس قدر سخت تھا کہ جگر اور انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نکلتے تھے۔امام حسن فرماتے کہ مجھے کئی بار زہر دیا گیا ہے لیکن اس قدر سخت زہر کبھی نہیں دیا گیا۔(سر الشہادتین)یہ زہر روم سے منگوایا گیا تھا جسے زہر ہلاہل کہا جاتا ہے۔
اے شہسوارِ دوشِ پیمبرؐ مرے امام
اے والیئِ بہشت بریں، رحمت تمام
تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام
نامور عالم اہلسنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی شہادت کو شہادت رسولِ خداؐ سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر عیسی ٰ ؑ تک تمام پیغمبران کے اوصاف، کمالات اور خوبیاں خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ میں جمع ہو گئی تھیں،مگر ایک کمال باقی رہ گیا تھا وہ تھا شہادت کا مرتبہ وہ حضور کو خود حاصل نہیں ہوا تھا اس کا راز یہ تھا کہ اگر حضور ؐ کسی جنگ میں شہید ہو جاتے تو اسلام کی شوکت متاثر ہوتی۔حکمت الہی اور کارسازی نے یہ پسند فرمایا کہ شہادت کا کمال بھی حضور ؐ کو مل جائے۔مظلومیت و شہادت ان کی مناسب تھی جن کی منزلت کا رتبہ فرزند کے برابر ہوتاکہ ان کا حال حضور کے حال میں شامل سمجھا جائے اور ان کا کمال رسول ؐ کا کمال سمجھا جائے۔اللہ تعالی کی عنایت نے اس امر پر توجہ کی اور حسنین(حسن و حسین)علیھما السلام کو اپنے نانا کی نیابت بصورت شہادت عطاکی۔اس لئے کہ یہ دونوں پرتو کمال محمدی ؐ کے دوآئینے ہیں حضور اکرم ؐ کے جمال کے دوآئینے ہیں۔ حسن ؑو حسین ؑ کا رسول کا بیٹا ہونا دلائل سے ثابت ہے اور ان دونوں نواسوں کی شہادت رسول ؐ کی شہادت ٹھہری (سر الشہادتین)
خون خیر الرسلؐ سے ہے جن کا ضمیر
ان کی بے لوث طینت پہ لاکھوں سلام
ان کی بالا شرافت پہ اعلی درود
ان کی والا سیادت پہ لاکھوں سلام
(اعلی حضرت بریلوی ؒ)
امام حسن علیہ السلام 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیربن کر صحن علی المرتضی ؑ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؑ میں تشریف لائے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کیلئے امام حسن ؑ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کوجواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا دشمن ہوگا۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا یعنی امام حسن ؑ و حسین ؑکو قرار دیا گیا۔
حضرت عمرابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ”ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؑ کے،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں“حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ)اور رشتہ کے (حاکم المستدرک،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی)۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کیلئے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؑ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔
بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؑ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؑ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔
امام شافعی ؒکابیان ہے کہ کسی نے امام حسن سے عرض کی کہ ابوذرغفاری فرمایاکرتے تھے کہ مجھے تونگری سے زیادہ ناداری اورصحت سے زیادہ بیماری پسندہے آپ نے فرمایاکہ خدا ابوذرؓ پر رحم کرے ان کاکہنادرست ہے لیکن میں تویہ کہتاہوں کہ جوشخص خداکے قضا و قدر پر توکل کرے وہ ہمیشہ اسی چیزکوپسند کرے گا جسے خدااس کے لیے پسندکرے۔
امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے 21رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ21رمضان40 ھ یوم جمعہ کاہے(ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی. سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ ”اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی“سب نے اس شرط کو قبول کرلیا. آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا. اطراف میں عمال مقرر کئے, حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے.لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اورآپ نے تخت حکومت کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ امام حسن ؑ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کااجراء چاہئے تھاامام حسن ؑ نے دین خدا کی سربلندی کے لئے اورفتنہ وفساد کا سر کچلنے،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اپنے نانارسول خدا ؐ کی صلح حدیبیہ کی تاسی میں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تاریخی صلح کی وہ اسلام کی تاریخ کا ایساناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
امام حسن ؑ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، لیکن حق کے مرکزاور تعلیمات محمدی ؐ کے سرچشمہ امام حسن کا قائم رہنا دشمنان دین کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کرنواسہ رسول ؐ امام حسن کوزہردے کر شہیدکردیاگیا(مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفداء،روضۃالصفا، حبیب السیر،طبری،استیعاب) رسول کے پیارے نواسے امام حسن ؑ نے 28صفر50ھ کو جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
امام حسن و حسین ؑ کے ساتھ رسول خدا ؐ کی محبت محض رشتے کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ اس کردار کے سبب تھی جس کا مظاہرہ نبی ئ کریم کے نواسوں نے آزمائش کے ہر مرحلے پر کیا۔امام حسن ؑ کی زندگی تعلیمات مصطفوی ؐ کی عملی تفسیر ہے آپ کا ہر کلام ہر اقدام امت مصطفوی کیلئے درس حیات ہی نہیں راہ نجات بھی ہے۔عہد حاضر جسے دور جنگ و جدل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گااور بالخصوص عالم اسلام پر اس ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔اسلام جو دنیا کے ہر مظلوم اور محروم کے درد کا مداوا اور کائنات کے تمام مسائل کا شافی و کافی علاج پیش کرتا ہے وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے الزامات کی زد میں ہے تو دوسری جانب اس کے ماننے والوں میں انتشار افتراق کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں۔لہذا تاریخ کے اس نازک مرحلے پر پوری امت مسلمہ اور بالخصوص مسلم حکمرانوں و لیڈران کو سیرت امام حسن ؑ کی پیروی کرنا ہوگی جنہوں نے جنگ و جدل کے جھلسے ہوئے ماحول میں اپنے کردارکے ذریعے امن کے پھولوں کی مہکار بکھیر دی اور امن کے چمن کو گلنار رکھنے کیلئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ آج بھی بدترین انتشار کا شکارامت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل نواسہئ رسول ِزمن ؐحضرت امام حسن ؑ کے افکار و کردار میں پوشیدہ ہے۔
ٹھکرا کے تخت و تاج حسن ؑ نے یہ کہہ دیا
لے لے جسے یہ ریت کی دیوار چاہیے
منشور ِامن عالم اسلام جو بنے
مذہب کو آج بھی وہی کردار چاہئے
(سربراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ)
٭……٭……٭
غریب کریں تو کیا کریں
عبدالباسط خان
اتوار کا دن سکون اور آرام کا دن ہوتا ہے گھر میں ہو تو بچوں پوتے اور پوتیوں، نواسے اور نواسیوں سے گفت و شنید ہوتی ہے۔ دل میں راحت محسوس ہوتی ہے اور اپنے بچپن کی یادیں تازہ ہوتی ہیں گھر سے باہر نکلیں تو سڑکوں پر بہت سکون ہوتا ہے لوگ مارکیٹوں میں چنے نان اور نہاریوں کے لئے لائن لگائے ہوتے ہیں۔ غرضیکہ غریب ریڑھی والے یا دوکان والے کے چہرے مسرت اور شادمانی سے سرشار نظر آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو رزقِ حلال کماتے ہیں رات کو پکوان لوگوں کیلئے تیار کرتے ہیں اور صبح صبح لوگوں کو چنے، حلیم، نہاری جیسے مزیدار کھانے بنا کر دیتے ہیں اور ایک قلیل سی رقم منافع میں حاصل کر کے خوش اور شادمان رہتے ہیں وہ لوگوں کو خوش کرتے ہیں اور خود بھی خوش ہوتے ہیں اور پھر یہ غریب لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں لیکن کیا صرف غریبوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ وہ اپنے بچوں کو گرمیوں کی چھٹیوں میں مری کی سیر کرائیں کیا ان کا دل نہیں کرتا کہ ان کا اپنا گھر ہو اور ان کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کریں کیا وہ نہیں چاہتے کہ کم از کم ہفتے میں ایک دن گوشت پکائیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کے بچے اچھے کپڑے پہنیں کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ ان کی بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہی جائیں یقینا ان کا دل چاہتا ہے مگر موجودہ مہنگائی نے ان کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے ہیں ابھی یہ ذکر میں صرف غریب ترین طبقے کا کر رہا ہوں اگر متوسط طبقے یا تنخواہ دار طبقے کی بات کریں تو وہ بھی اس ہوشربا مہنگائی سے بہت تنگ نظر آرہے ہیں حالات بہتری کی طرف نہیں جا رہے اور نہ ہی امید ہے کہ مستقبل قریب میں ہماری عوام کے مسائل حل ہوں گے کیونکہ ہمارے ملک کے سیاستدان جو لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں وہ اچھے اچھے مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں کھانے اور پارٹیاں کھاتے ہیں بیرون ملک کی سیر کو نکل جاتے ہیں باہر کے ملکوں میں ان کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں ان کے شاندار بنگلے اور گھر موجود ہوتے ہیں وہ عوام کی صرف فرضی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں واجبی سے انداز میں میڈیا کے سامنے بولتے ہیں کہ غریبوں کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ غریبوں کو دووقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ جب ان محلوں اور شاندار بنگلوں میں رہنے والے لوگوں سے یہ گفتگو میڈیا میں دیکھتے ہیں تو ہم لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں کیا واقعی ان کو اس عوام کے دکھ درد کا احساس ہے جن سے ووٹ لینے کے لئے یہ منت سماجت اور التجائیں کرتے تھے۔
گرانی کا درد یا پریشانی صرف ایک غریب ہی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ خود اس چکی میں پس رہا ہوتا ہے وگرنہ یہ خوش شکل خوش پوش پراڈو اور لینڈ کروزر میں پھرنے والے غربت، تنگدستی، بیماری، افلاس جہالت کی اندرونی کہانیوں سے واقفیت یا ادراک ہرگز نہیں رکھ سکتے یہ ان کے ڈی این اے میں بھی نہیں ہوتی ہے وگرنہ پاکستانی بخوبی واقف ہیں کہ کرونا جیسی موذی بیماری جس نے پوری دنیا کے بازار، ہوئی اڈے، ریسٹورنٹ، ہوٹل، دکانیں، مالز بند کروا دیئے تھے ہمارے ان بڑے صنعت کاروں، بزنس ٹائیکون، سرمایہ داروں، اربوں ڈالرز کے گھر بیرون ملک بنانے والوں نے پاکستان کی عوام کو کیا دیا صرف حکومت پر تنقید بازار کیوں بند کر دیئے یا بازار کیوں بند کریں کیا کسی ایک سیاست دان نے اپنے حلقے میں ہی لوگوں کے کرونا ٹیسٹ فری کروائے کیا کسی بڑے بینک کے سربراہ نے اپنے ملازمین کیلئے ویکسین کی دستیابی ممکن بنائی؟
کیا کسی بڑے سے بڑے سرمایہ دار نے لوگوں میں پیسے تقسیم کئے جن کی دیہاڑی نہیں لگی؟ بالکل نہیں۔ اب ذرا سیاستدانوں کی طرف آ جائیں ہر پارٹی میں رئیس ابن رئیس، بڑے بڑے سرمایہ دار جاگیردار صنعتکار موجود ہیں مگر کسی نے بھی حکومت کو پیشکش نہیں کی کہ ہم احساس پروگرام میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں ہم ایک لاکھ یا دو لاکھ ویکسین لوگوں کے لئے فری دینا چاہتے ہیں قوموں کے مزاج اوران کی عظمت بڑائی کا اندازہ اس وقت ہی لگتا ہے جب کوئی آفت مصیبت سیلاب، زلزلہ یا وبائی امراض وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں فلمی اداکاروں سے لے کر ٹاٹا، برلا مکیش امبانی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے اپنے ملازمین کیلئے کرونا ٹیسٹ ویکسین سے لے کر فوت ہو جانے والوں کے بچوں کی تاحیات نوکریوں کا بندوبست کیا لیکن ہمارے ملک میں امیر آدمی یہ سوچتا رہ گیا کہ شائد اگر اس نے غریب آدمی کیلئے چندہ دے دیا تو وہ غریب ہو جائے گا ہم لوگ من حیث القوم بے حس، ذہنی طور پر دیوالیہ اور موت کوبھول چکے ہیں موت کا خوف عارضی طور پر اس وقت آتا ہے جب قبرستان میں تدفین کیلئے جاتے ہیں ہم لوگ برائی کرنے نکتہ چینی کرنے دوسروں کو تہ تیغ کرنے، اجاڑنے بے بس کرنے میں پیش پیش اور نیکی کرنے ہاتھ پھیلانے والے کو اور فلاح عامہ کے کاموں میں ہاتھ بٹانے چندہ دینے خاص طور پر ایسے نادار اور غریب دیہاڑی دار طبقے کی مدد کرنے میں سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ کوئی مجھ سے سوال ضرور کرے گا کہ یہ کام تو حکومت کے ہوتے ہیں تومیں کہتا ہوں کہ حکومت کے پاس ہے کیا جو وہ عوام کو دے سکتی ہے۔ حکومت رات دن یہ راگ الاپتی ہے کہ ہم تو صرف ماضی کی حکومتوں کے قرضوں کا سود ہی ادا کر رہے ہیں ٹیکس وصولی کا حال ہم سب بخوبی جانتے ہیں اس ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں اگر آپ لوگوں کے طرز بودو باش کا اندازہ لگائیں تو آپ عرب ممالک کے شہزادوں کو بھول جائیں۔ افسروں کے گھروں میں بیرون ملک کی تمام اشیا اس طرح موجود ہیں جس طرح غریب آدمی کو کھانے کے لئے بھنے چنے یا سوکھی روٹیاں۔ بزنس مین طبقہ ہر وقت حکومت سے مراعات کا متلاشی رہتاہے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں سمیت ٹیکس ربیڈ، ریفنڈ، پرچیز ان کی دسترس میں ہے کیونکہ ان کے ہی چہیتے دوست حکومت میں موجود ہیں لیکن ایکسپورٹ میں اضافہ واجبی سا بڑے بڑے بزنس مین کارخانے والے بجلی چوری میں پیش پیش ہوتے ہیں۔گھرتو چھوڑیں گاؤں کے گاؤں، بجلی چوری سینہ تان کر کرتے ہیں مجاز ہے کہ بجلی میٹر چیک کرنے والا وہاں داخل ہو لہٰذا ان کی چوری جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوتا ہے کا سارا ملبہ غریب لوگوں پر پڑ جاتا ہے غریب کرے تو کیا کرے۔ غریب آدمی اپنے بجلی کے بل کی قسطیں کروانے کیلئے دربدر پھر رہا ہوتاہے دو تین مرلے کے مکان میں رہنے والے بے چارے پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ کا بل لئے وفاقی محتسب کی عدالت میں XEN اور SDO کے دروازے پر سارا دن گزار دیتے ہیں۔ یہ حکومت آئی تو کہا گیا کہ گردشی قرضے ختم کر دیئے جائیں گے مگر یہ نہ ہو سکا کیونکہ اس معاشرے میں مافیاز لاتعداد میں موجود ہیں۔ بجلی چوروں کے گارڈین اور محافظ۔ ہمارے ملک میں بیوروکریٹس سے لے کر وزراء اور حکومتی پارلیمنٹرین سب برابر کے شریک ہیں غریب کریں تو کیا کریں۔
لوگ بل ادا کریں یا کھانا کھائیں یا بیماری کا بل ادا کریں، ڈاکٹر کی فیس وہ نہیں دے سکتے اور ڈاکٹر بھی ملے تو وہ بھی گزارا لائق امیروں کے لئے بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال بڑے بڑے ڈاکٹر ہر قسم کی مشینیں دستیاب مگر غریب بیچارہ کہاں جائے اگر وہ کلرک ہے یا عام سا ملازم تو پھر وہ رشوت نہ لے تو کیا کرے اور اگر رشوت میں پکڑا جائے تو پھر اس کی ضمانت میں گھر کے زیور بیچنے پڑ جاتے ہیں۔ رہ سہ کر ایک آٹا تھا جس کو پکا کر غریب آدمی دو وقت کی روٹی پیاز کے ساتھ کھا لیتا تھا مگر اب آٹا بھی اس کی دسترس سے باہرہے۔ وہ ملک جو زرعی ملک ہے اور اب لاکھوں ٹن گندم باہر سے امپورٹ کر رہا ہے غریب کریں تو کیا کریں۔
(کالم نگارمختلف موضوعات پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
خبریں۔اُفقِ صحافت پرچمکتا چاند
میجرجنرل(ر) زاہدمبشرشیخ
70ء کی دہائی سے ہم نے ایک نوجوان اور بیباک صحافی کا نام سننا شروع کیا۔ ضیا شاہد کا نام کبھی اردو ڈائجسٹ میں نظر آیا اور کبھی مشہور صحافیوں میں شمار ہونے لگا تھا۔ پھر انہوں نے اپنا پرچہ ہفت روزہ ”کہانی“ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ ”کہانی“ کے بعد انہوں نے ہفت روزہ صحافت کا اجراء کیا۔ اس ہفت روزہ کا ایک سادہ سا دفتر ایک کوٹھی کے گیراج میں چوبرجی کے قریب واقع تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہفت روزہ صحافت ایک مقبول ہفت روزہ بن گیا۔ پھر اچانک ہی یہ ہفت روزہ ایک مقبول عام روزنامہ میں تبدیل ہوگیا۔ اس زمانے میں لاہور میں کافی روزنامے موجود تھے لیکن جو چیز روزنامہ صحافت کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھی وہ عوامی دلچسپی کے موضوعات تھے۔ روزنامہ صحافت سرکاری محکموں کیلئے بھی ایک محتسب کا کردار ادا کرتا تھا۔ رشوت خور افسر اور وزیر روزنامہ صحافت سے خوف کھاتے تھے اور جن بے کس عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہوتی تھی وہ جناب ضیا شاہد کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے انصاف کے طلبگار ہوتے تھے۔
وقت نے ایک اور کروٹ لی اور روزنامہ خبریں کا اجراء 26ستمبر 1992ء کو لاہور سے کیا گیا۔ کچھ عرصے بعد روزنامہ صحافت کی ادارت خوشنود علی خان صاحؓ کے حصے میں آئی اور جناب ضیا شاہد نے اپنی زندگی روزنامہ خبریں کیلئے وقف کردی۔ اس کے بعد ضیا شاہد صاحب نے پیچھے ہٹ کر نہیں دیکھا۔ روزنامہ خبریں ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا۔ ترقی کے اس سفر میں ان کے شریک زندگی محترمہ یاسمین شاہد صاحبہ نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ وہ خود بھی ایک جیّد صحافی ہیں۔ وہ ضیا شاہد صاحب کیلئے ایک آئیڈیل شریک حیات ثابت ہوئیں۔ انہوں نے نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں ان کا ہاتھ بٹایا بلکہ ان کی اولاد کی تعلیم وتربیت بھی نہایت احسن طریقے سے کی۔ جناب ضیا شاہد کی قیادت میں روزنامہ خبریں پاکستان کے مقبول ترین اخبارات میں سے ایک ہے۔
آج روزنامہ خبریں پاکستان کے آٹھ بڑے شہروں سے شائع ہوتا ہورہا ہے۔ روزنامہ خبریں اب ایک مضبوط ادارے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ اسی ادارے کے زیر نگرانی دوپہر کا اخبار ”نیا اخبار“ بھی شائع ہوتا ہے۔ پنجابی روزنامہ ”خبراں ِِ بھی اس ادارے کا اخبار ہے۔ سندھی روزنامہ ”خبرون“ سندھ کے صوبے میں اس ادارے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی ادارے نے ٹی وی ”چینل ۵“ کا اجراء بھی کیاجو آج کل ایک مقبول ٹی وی چینل ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میں نے اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تو روزنامہ خبریں سے رابطہ کیا۔ ادھر میں ایک طویل عرصے تک خبریں لکھتا رہا۔ اس دوران جناب ضیا شاہد سے ملاقات کا شرف بھی بارہا حاصل ہوا۔ میں نے ضیا شاہد صاحب کو ایک محب وطن پاکستانی اور ایک صاحب علم شخصیت پایا۔ ان کی سب سے زیادہ وابستگی پاکستان کے کے ساتھ تھی اور اس کے بعد جمہوریت کے ساتھ۔ وہ پاکستان اور جمہوریت ہر قربانی کیلئے تیار رہتے تھے۔ اپنے ہونہار بیٹے عدنان شاہد کی جواں سال موت نے انہیں گہرا صدمہ دیا اور اس کے بعد ان کی صحت گرتی چلی گئی۔
اس بڑے میڈیا گروپ کی عنان اب ان کے دوسرے بیٹے امتنان شاہد کے ہاتھ ہے۔ امتنان شاہد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک بڑے ماں باپ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اپنے عظیم والد کی وفات کے بعد امتنان شاہد نے جس طرح اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے کام کو آگے بڑھایا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ وہ اسلام‘ پاکستان اور جمہوریت کا علم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ یکم اکتوبر سے9ویں شہر بہاولپور سے روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس موقع پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو جناب ضیا شاہد کا صحیح جانشین ثابت کردیا ہے۔ روزنامہ خبریں کی تمام ٹیم کو دی مبارکباد۔
(کالم نگاریوکرائن میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں)
٭……٭……٭
آف شورکمپنیاں۔پیسہ باہرکیسے گیا؟
ملک منظور احمد
آج سے پانچ سال قبل جب دنیا میں پانامہ پیپرز کا اجرا کیا گیا تھا تو اس وقت عوام کو اور شاید سیاست دانوں کو بھی اس معاملے کی سنگینی اور ہنگامہ خیزی کا اندازہ نہیں تھا۔اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف بھی شاید اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے اور اس کے نتیجے میں انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ بلکہ اپنے سیاسی کیرئیر سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔اس بار ایک تبدیلی ضرور تھی کہ پنڈورا پیپرز کے عالمی صحافتی تنظیم آسی آئی جے کی جانب سے اجرا سے قبل ہی میڈیا سمیت سیاست دان بھی سانس روکے ہوئے بیٹھے تھے۔کچھ اشارے اس حوالے سے بھی دیے گئے کہ شاید وزیر اعظم عمران خان کی بھی کو ئی نئی آف شور کمپنیاں منظر عام پر آسکتی ہیں لیکن آئی سی آئی جے نے حوالے سے وضاحت کر دی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے نام پر کوئی آف شور کمپنی موجود نہیں ہے۔لیکن بہر حال وفاقی وزراء جن میں وزیر خزانہ شوکت ترین،مونس الہیٰ شامل ہیں اس کے علاوہ سینیٹر فیصل واوڈا،سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے صاحبزادے علی ڈار،علیم خان،سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سمیت کئی اہم کا روباری،سابق عسکری اور میڈیا شخصیات کے نام ان پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔اور یہ نام سامنے آنے کے بعد یہ سوال سب کے ذہنوں میں اٹھ رہے ہیں کہ اب کیا ہو گیا؟ کیا پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والی شخصیات کے خلا ف تحقیقات ہوں گی اور اگر ہوں گی تو کیسی ہو ں گی۔معاملہ پر سیاست بھی ہو رہی ہے جو کہ ہونی ہی تھی اپوزیشن کا اس حوالے سے مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے ہی سابقہ بیانات کی روشنی میں پہلے اپنے وزراء اور ساتھیوں سے استعفی ٰ لیں اور اس کے بعد تحقیقات کروائیں،اور اصولی طور پر دیکھا جائے تو اپوزیشن کی یہ بات خود وزیر اعظم کے سابقہ موقف کی روشنی میں وزن بھی رکھتی ہے۔لیکن کیا وزیر اعظم یہ اقدام اٹھائیں گے؟ اس بات کا جواب چند دنوں میں سب کے سامنے آجائے گا لیکن فی الوقت اس کے امکان انتہائی کم دکھائی دیتے ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعظم نے تحقیقات کے لیے انسپکشن کمیشن کے تحت تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تو تشکیل دے دی ہے،جس میں نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر کے نمائندے شامل ہوں گے لیکن ان کے ان اقدامات پر سوالات ضرور اٹھ رہے ہیں،اور سوال اٹھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا معائنہ کمیشن طویل عرصے سے مکمل طورپر غیر فعال ادارہ بن چکاہے۔اس ادارے کی رپورٹ پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ہے۔وزیر اعظم کے معائنہ کمیشن کے مینڈیٹ میں سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں،بے قاعدگیوں اور خلاف ضابطہ کام کے حوالے سے کام کرنا ہے لیکن وزیر اعظم معائنہ کمیشن کی کا رکردگی ہمیشہ سے ہی مایوس کن رہی ہے۔
اپوزیشن کے رہنما بھی پنڈورا پیپرز کے تحقیقاتی سیل کے قیام کے حوالے سے سرکاری اعلان کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم اپنے لوگوں کے خلاف سپریم کو رٹ جا ئیں گے؟یہ قیاس آرائیاں بھی جا ری ہیں کہ یہ سیل صرف اور صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے کا ہتھکنڈہ ثابت ہو سکتا ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پانامہ پیپرز کے اجرا کے بعد وزیر اعظم عمران خان جو کہ اس وقت اپوزیشن کے لیڈر تھے انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف اس حوالے سے ایسی عوامی اور قانونی مہم چلائی تھی جس کی شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس ے قبل مثال نہیں ملتی ہے۔اور اب عوام کی توقع یہی ہے کہ وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کے خلاف بھی اسی انداز میں سخت ایکشن لیں اور کا روائی کریں جس انداز میں سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ہوئی۔
یہاں پر یہ بات بھی نہایت ہی اہم ہے کہ پانامہ پیپرز لیکس میں بھی محض سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے نام شامل نہیں تھے بلکہ کئی سو پاکستانیوں کے نام اس فہرست میں شامل تھے لیکن ان کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے خلا ف بادی الّنظر میں کو ئی کا رروائی ہو ئی۔اگر اس حوالے سے تحقیقات ہونی ہیں تو اکراس دا بورڈ،اور نہایت ہی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں اسی طرح بہتر انداز میں اس معاملے کو ڈیل کیا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ پنڈورالیکس میں نام آنے والا ہر شخص ہی قصور وار ہو لیکن بہر حال اس حوالے سے تحقیقات ہونا لازمی ہیں۔پنڈورا میں جن 700پاکستانیوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی منی ٹریل کیا ہے اگر ان کی آف شور کمپنی قانونی بھی ہے تو پیسہ باہر کیسے گیا اور کیا اس پیسے پر ٹیکس کی ادائیگی ہوئی یا نہیں یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب آنا ضروری ہے۔
یہاں پر یہ اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے آئی سی آئی جے کے مقاصد بلکہ ان کی نیت پر شک و شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے یہ کہا جا رہا ہے کہ تنظیم امریکی فنڈڈ این جی او چلاتی ہیں اور فنڈ کرتی ہیں۔ان کی رپورٹس میں تضادات اور مبالغہ آرائی کے اعتراضات بھی اردن اور روس سمیت دیگر ممالک نے اٹھائے ہیں یقینا ان میں بھی وزن ہے اور اسی قسم کے اعترضات پانامہ لیکس کے وقت بھی سامنے آئے تھے لیکن اب اس حوالے سے جو مثال قائم ہو چکی ہے اور خود موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بطور اپوزیشن لیڈر قائم کی تھی اس کے بعد پنڈورا پیپرز کے بعد بھی سب کی نظریں اب وزیر اعظم عمران خان پر ہی مرکوز ہیں۔پنڈورا پیپرز کی تحقیقات یقینا بہت سارے لوگوں کی نظر میں جن میں ان کے ووٹرز بھی شامل ہیں وزیر اعظم کی ساکھ کا امتحان ہیں آیا وزیر اعظم اس امتحان میں کامیاب ہو تے ہیں یا نہیں اس سوال کا جواب ہمیں چند دنوں تک بڑی حد تک مل ہی جائے گا۔
(کالم نگارسینئرصحافی اورتجزیہ کارہیں)
٭……٭……٭
ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے ، معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں
اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے ، معلوم ہے مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں، ماضی میں غلط معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں، ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلنے سے ہم ترقی کے راستے پر چل نکلیں گے، ریاست مدینہ کا ماڈل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اسلام آباد میں کامیاب پاکستان پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ 74 سال قبل بڑی غلطی کی کہ ہم سمجھتے تھے کہ جب ہمارا ملک خوشحال ہوجائے، ہمارے پاس پیسہ آجائے پھر پاکستان کو فلاحی ریاست بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ سوچ کے پہلے ہمارے پاس پیسہ اکٹھا ہوگا، ملک میں سرپلس ہوگا تو ہم غریبوں پر لگائیں گے، یہ غلط فیصلے تھے، میں ریاست مدینہ کی اس لیے بات کرتا ہوں کیوں کہ وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے کامیاب ماڈل تھا اس کے نتائج تاریخ کا حصہ ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ میں پہلے فلاحی ریاست بنائی گئی تھی پھر پیسہ آیا تھا پھر خوشحالی آئی تھی، یہ خیال بالکل غلط ہے کہ پہلے پیسہ آیا تھا پھر انہوں نے نچلے طقبے کو منتقل کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلنے سے ہم ترقی کے راستے پر چل نکلیں گے، ریاست مدینہ کا ماڈل ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں غلط معاشی پالیسیاں اختیار کی گئیں، چین نے مدینہ کا ماڈل فالو کیا، ترقی حاصل کی، چین نے غربت کے خاتمے کے لیے مختلف منصوبے شروع کیے، چینی صدر نے حال ہی میں اعلان کیاکہ وہاں انتہائی غریب نہیں رہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ انسانیت اور انصاف تہذیبوں کی بنیاد ہیں، بھارت اور چین کو دیکھ لیں دونوں کی ایک جتنی آبادی ہے 35 سے 40 سال قبل دونوں ممالک کی صورتحال ایک جیسی تھی، آج چین آسمان پر پہنچ گیا جبکہ بھارت میں وہی امیر لوگوں کا ایک جزیرہ ہے اور نیچے غربت ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ بانیانِ پاکستان نے کہا تھا کہ یہ اسلامی فلاحی ریاست بنے گی تو اس فیصلے پر کبھی عمل ہی نہیں ہوا بلکہ اشرافیہ کا نظام بن گیا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کے نظام میں ہی دیکھ لیں کہ چھوٹے سے طبقے کو انگریزی میڈیم میں تعلیم دلوا کر نوکریاں انہیں دلوادیں باقی عوام اوپر ہی نہیں آسکتی اور پھر دینی مدرسے چل رہے ہیں، کبھی کسی نے ان سب کو ملانے کی کوشش نہیں کی کہ ایک ملک ہے ایک قوم ہے اس کا نصاب تو ایک ہو۔ملکی نظام ایسا تھا صرف اوپر والا طبقہ ہی مراعات حاصل کرسکتا تھا، معاشر ے میں عدم مساوات کسی بھی ریاست کے زوال کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معلوم ہے کہ اس وقت لوگ مشکلات کا شکار ہیں، اس وقت مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام تکلیف میں ہیں، اس وقت جب چیزیں مہنگی ہیں، حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے کہ غریب طبقے کو تکلیف نہ ہو، دنیا میں تیل کی قیمت گذشتہ چند ماہ میں 100 فیصد بڑھی ہے، پاکستان میں ہم نے اس وقت 22 فیصد بڑھائی ہے، دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 19 ممالک کے سوا، اس وقت ہم دنیا میں پاکستان میں سب سے کم قیمت پر پٹرول اور ڈیزل بیچ رہے ہیں، ہندوستان میں اس وقت پٹرول ڈیزل کی قیمت ہم سے دگنا ہے، کورونا کے باعث دنیا میں گندم کی 37 فیصد قیمت بڑھی ہے، پاکستان میں ہم نے 12 فیصد بڑھائی ہے، دنیا میں چینی کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستان میں ہم نے 21 فیصد بڑھائی ہے، حالانکہ ملک پر مالی خسارے اور قرضوں کی وجہ سے کافی دباﺅ ہے، ہم نے اپنی طرف سے غریب طبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس اور لیوی بھی کم کی ہے، اگر نہ نیچے لاتے تو حکومت کو ایک سال میں 400 ارب روپے کا فائدہ ہوتا، لیکن ہم نے 400 ارب کا نقصان کیا تاکہ لوگوں پر بوجھ نہ پڑے، قیمتیں بڑھنے سے یقینا لوگوں کو تکلیف ہے لیکن ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ لوگ کم سے کم متاثر ہوں، انشا اللہ آنے والے دنوں میں احساس ٹارگٹڈ سبسڈیز پروگرام لارہے ہیں، جس میں غریب گھرانوں کو آٹے، چینی اور گھی پر براہ راست سبسڈیز دیں گے، گھی ہم 75 فیصد درآمد کرتے ہیں، دنیا میں پام تیل کی قیمت 80 فیصد بڑھی ہے، ملک میں مہنگا ہونے کی وجہ ہی یہی ہے، بنیادی طور پر یہ درآمدی افراط زر ہے، امپورٹڈ انفلیشن کی وجہ سے ملک میں مہنگائی ہے، ہم ٹارگٹڈ سبسڈیز سے مہنگائی کے مسئلے پر قابو پائیں گے، اور امید ہے کہ دنیا میں اجناس کی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان میں بھی قیمتیں کم ہوں گی۔وزیراعظم نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملک کی ترجیحات اور عوام کی سوچ تبدیل کریں، جب حکمران عام آدمی کی زندگی بہتر کریں، غریب آدمی کی دعائیں لیں تو اسی معاشرے میں اللہ کی برکت آتی ہے۔
شادی کا وقت گزرچکا‘ اب پورے ہندوستان کی لڑکیوں کا بھائی ہوں: سلمان خان
ممبئی(این این آئی) بالی وڈ کے ”دبنگ“ اداکار سلمان خان نے شادی سے متعلق سوال کرنے پر بھارتی گلوکارہ افسانہ خان کو دلچسپ جواب دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی گلوکارہ اور بگ باس 15 کی کنٹیسٹنٹ افسانہ خان نے پریمیئر ایپیسوڈ کے دوران سلمان خان سے شادی سے متعلق سوال کیا۔افسانہ خان نے سلو میاں سے پوچھا کہ آپ پیار اور شادی کے بغیر کیسے رہ رہے ہیں، میں تو اپنے منگیتر کے بغیر بیمار پڑ گئی تھی۔ سلمان خان نے اپنے جواب میں کہا کہ ‘میں یہ نہیں کہوں گا کہ ابھی تھوڑا ٹائم ہے ، دراصل اب تو وہ تھوڑا ٹائم بھی نکل چکا ہے ۔گلوکارہ نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو ”بھائی“ کہوں تو ؟ اس کے جواب میں سلمان خان نے کہا کہ ‘ضرور کہیں، کیونکہ اب مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پورے ہندوستان کا بھائی ہوگیا ہوں۔
پٹرول کے بعد بجلی مہنگی‘ 1.65 پیسے فی یونٹ اضافہ
اسلام آباد(صباح نیوز) بجلی ایک سال کے لئے 1.65 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی۔تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے پیٹرول بم کے بعد نیپرا نے بجلی ایک سال کیلئے 1.65 فی یونٹ مہنگی کر دی ، جس کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت 16.44 سے بڑھ کر 18.16 روپے فی یونٹ ہو گئی اور اس فیصلے سے بجلی صارفین پر 90 ارب روہے کا بوجھ پڑے گا، اس حوالے سے اتھارٹی نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ۔نیپرا نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں ہونے والا حالیہ اضافہ 2019-20 اور 2020-21 کی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کی مد میں کیا گیا، فیصلے کا اطلاق 300 یونٹ سے زائد استعمال کرنے والوں پر ہو گا، 80 فیصد صارفین ماہانہ 300 یونٹ سے زائد استعمال کرتے ہیں، کے الیکٹرک صارفین پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔