All posts by Daily Khabrain

تحریک طالبان پاکستان کا جنگ بندی کا اعلان

راولپنڈی (بیورو رپورٹ)کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے فائربندی کا اعلان کردیا۔کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے جنگجوؤ ں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائر بندی کردی گئی۔کالعدم تنظیم کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مشران نے تمام جنگجوؤں کو 20 اکتوبر تک فائربند ی کا حکم دیا ہے۔اعلامیے کے مطابق ہمارے مشران کی کچھ خفیہ بات چیت چل رہی ہے۔قبل ازیں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس حکومت سے بات کرنا چاہتے ہیں، ہم بھی ٹی ٹی پی کے کچھ گروپس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کالعدم ٹی ٹی پی کو غیر مسلح کرنے اور انہیں عام پاکستانی شہری بنانے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی ن لیگ اور پی ڈی ایم کی کچی دیگ

تحسین بخاری
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال ہو چکے ہیں مگر عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے تاحال کوئی وعدہ پورا نہیں ہو سکا۔مہنگائی پر قابو،کرپشن کا خاتمہ،ملاوٹ سے پاک اشیا اور سو دنوں کے اندر اندر سرائیکی صوبے کے قیام سمیت کوئی بھی ایسا وعدہ نہیں جس پر گورنمنٹ پورا اتری ہو۔یہ تین سال پچھلی حکومتوں کی برائیاں گنوانے میں گزاردئیے گئے جبکہ عوام اس وقت مہنگائی کے بد ترین عذاب سے گزر رہی ہے۔ اب توعوام کا سیاستدانوں پرسے اعتماد ہی اٹھ چکا ہے عوام جان چکے ہیں کہ ن کی باتوں پر یقین کرنا بے وقوفی ہے دودھ کی نہریں بہانے اور سونے کی سڑکیں بنانے کے دعوے محض اقتدار حاصل کرنے کا ایک ڈرامہ ہوتا ہے۔
اپوزیشن کی صورتحال یہ ہے کہ بالکل نظر ہی نہیں آتی۔اسٹیبلشمنٹ سے جنم لینے والی ن لیگ کو اب اسٹیبلشمنٹ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسٹیبلشمنٹ جب ن لیگ کو سپورٹ کرے تو اچھی اور جب ہاتھ کھینچ لے تو بری بن جاتی ہے۔اپوزیشن سیاسی دورازے سے باہر نکلنا تو چاہتی بھی ہے مگرگرین سگنل نہ ملنے کی وجہ نکلنے کی جرا ت نہیں کر پارہی،مولانا فضل الرحمان کی دیگ میں پی ڈی ایم کا پکا یا جانیوالا پکوان ابھی آدھا بھی نہیں پک پایا تھا کہ پیپلزپارٹی دیگ کے نیچے جلنے والا ایندھن کھیچ کر بلاول ہاوئس لے گئی اب اس دن سے مولانا صاحب مسلسل دیگ میں چمچہ بھی ہلا رہے ہیں اورایندھن کی واپسی کیلئے بلاول ہاؤس کی طرف نظریں بھی جمائے بیٹھے ہیں مگر پیپلز پارٹی یہ ایندھن واپس کر کے خود کون لیگ نہیں بنانا چاہتی۔ مولانا صاحب اپنے بزرگ منہ سے ہو ا پھونک پھونک کر بجھی ہوئی آگ کو دوبارہ جلانے کی کوشش میں بے حال ہو چکے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب سے گزرنے والے پاکستانی عوام کے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے اگرچہ اپنے کیمپ سے باہر نکل کر سیاسی درجہ حرارت چیک کرنے کی کوشش کی ہے تاہم ان کی سرگرمیاں اپوزیشن کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے بالکل ناکافی ہیں۔
بلاول کے سرائیکی بیلٹ کے دورے نے سیاسی تالاب میں جو پتھر پھینکا ہے اس سے تالاب میں پچھلے تین سالوں سے بیٹھے سیاسی مینڈکوں نے توقع کے مطابق اگرچہ اچھل کود تو نہیں کی تاہم کروٹ ضروربدلی ہے۔بلاول کا سرائیکی وسیب کا دورہ بھی خاصا دلچسپ رہا،انکے رحیم یار خان کے دورے کے دوران متحرک اورا نر جیٹک نوجوان ایم پی اے مخدوم عثمان محمود خاصے متحرک دکھائی دئیے،مخدوم عثمان محمود پنجاب اسمبلی میں اپنے خطے کی بھرپور نمائندگی کرنے کی وجہ سے نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں جبکہ حلقے کی غریب عوام انھیں اپنا لیڈر نہیں بلکہ دوست سمجھتے ہیں۔جمالدین والی میں ہونیوالے ورکر کنونشن میں ماحول کا جائزہ لینے کے لئے بلاول سے قبل مخدوم عثمان محمود جیسے ہی پنڈال میں پہنچے تو جیالے انہیں دیکھتے ہی دیوانہ وار انکی طرف ٹوٹ پڑے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر سردار حبیب الرحمان خان گوپانگ اپنی کرسی کسی مہمان کے حوالے کرکے پورے جلسے میں کھڑے رہے۔انتظامیہ ان کے لئے دوسری کرسی لاتی تووہ فورا ًپیچھے بیٹھے کسی مہمان کو آگے بلاتے اور کرسی ان کے حوالے کر دیتے ان کی اس اخلاقی قدر کو سیاسی مبصرین نے بے حد پسند کیا۔مخدوم ارتضیٰ سے بھی بلاول خاصی گپ شپ کرتے نظر آئے کیونکہ بلاول کو پتہ ہے کہ مخدوم ارتضیٰ اس کے والد آصف علی زرداری کا بھی لاڈلا ہے اور بلاول ہاؤس میں آصف زرداری کے ساتھ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر اگر کوئی پورے جاہ و جلال سے سگریٹ کے بھر پور کش لگا سکتا ہے تو وہ مخدوم ارتضیٰ ہے،میاں عامر شہباز بھی بلاول کے دورے میں پیش پیش رہے ان کے ورکر کنونشن کو بلاول نے بہت پسند کیا،عامر شہباز کے ورکر کنونشن کے دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم عثمان محمود کی آپس میں مسلسل سرگوشیاں بھی عوامی توجہ کا مرکز بنی رہیں،راجہ سولنگی نے سینکڑوں جیالوں کے ساتھ بلاول کا شاندار استقبال کیا جس سے بلاول متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور گاڑی سے نیچے اتر کر اسے گلے سے لگا لیا۔صحافی برادری کی صحافتی تسکین پیپلز پارٹی کے راہنما جاوید اکبر ڈھلوں کے پروگرام میں پوری ہوئی۔جاوید اکبر ڈھلوں نے اپنے پروگرام میں تمام صحافیوں کو مدعو کر کے بلاول سے تفصیلی ملاقات کروائی بلاول بھی صحافیوں سے گھل مل گئے اور خوب گپ شپ کرتے رہے۔ صحافی برادری نے بھی جاوید اکبر ڈھلوں کی صحافیوں سے اس محبت کا قرض ان کے پروگرام کو بھر پور کوریج دے کر اتارا۔بعد ازاں بلاول پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری چوہدری جہانذیب رشیدکے گھر بھی گئے اور پھر اپر پنجاب کے دورے کے لیے روانہ ہو گئے۔
بلاول کے دورے کے بعد سنا ہے اب ن لیگ کا سیاسی طیارہ بھی لاہور سے سرائیکی وسیب کیلیے پرواز بھرنے کیلیے تیار کھڑا ہے حمزہ شہباز کا اس دورے کا شیڈیول بھی جاری ہو چکا ہے تاہم عوام کا جو فی الحال مزاج ہے وہ سڑکوں پر نکلنے والا بالکل نہیں ہے عوام ابھی خاموش ہیں۔مولانا صاحب بھی مسلسل پی ڈی ایم کی کچی دیگ کو پکانے کیلیے دم درود کر رہے ہیں مگر اب شاید بلاول ہاؤس میں پڑا اس دیگ کا ایندھن انہیں واپس نہ مل پائے کیونکہ اس ایندھن کی واپسی اب کسی اور قوت سے مشروط ہو چکی ہے اوریہ قوت فی الحال پی ڈی ایم کی اس دیگ کو کچا ہی دیکھنا چاہتی ہے۔
(کالم نگارسیاسی و سماجی ایشوز پرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

غربت‘مہنگائی کاخاتمہ۔حکومت کاعزم

طارق ملک
قارئین کرام!میں اپنے کالموں میں مسلسل غربت مہنگائی اور بے روز گاری کا ذکر کر رہا ہوں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہونے والی مہنگائی تو ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے۔لیکن حکومت وقت ایسے اقدامات کرکے جن سے غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کو فوری فائدہ ہو سکے ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے جب کہ لاہور کی آبادی 12600000 ہے لاہو ر میں کئے گئے اقدامات کو پورے صوبے میں بلکہ پاکستان میں نقل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ لاہور پاکستان کا دل ہے اور پنجاب کا صوبائی دارلحکومت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی نظریں لاہور پر لگی ہوتی ہیں پنجاب کی کل آبادی 11کڑور ہے جو کہ باقی تین صوبوں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ لاہورمیں ہو شربا مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے حکومت وقت واقعی بہت پریشان ہے اور حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشنوں میں بھی لاہور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لاہور میں غربت اور مہنگائی، مصنوعی مہنگائی بے روزگاری، متعدی بیمارویوں اور قدرتی آفات سے احسن طریقہ سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت نے نوجوان محنتی، تجربہ کاراور قابل افسر محمد عمر شیر چٹھہ کو ڈپٹی کمشنر لاہور تعینات کیا ہے۔جوبطورڈپٹی کمشنر میانوالی اور سیالکوٹ کام کرچکے ہیں۔ ان کے اہم ٹارگٹس میں پبلک سروس ڈلیوری، غربت اور بے روز گاری میں کمی،مہنگائی اور مصنوعی مہنگائی کو کنٹرول کرنا، متعدی امراض کو بروقت کنٹرول کرنا، کرونا ویکسین سو فیصد مکمل کروانا اور ناگہانی آفات سے لاہور کے باسیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔
اسی طرح لوگوں کی درخواستوں پر مناسب احکامات جاری کرتے ہیں۔ مہنگائی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اورہونے والی مہنگائی ڈالر کی قیمت میں کمی سے ہی ختم ہو سکتی ہے مگر مصنوعی مہنگائی یعنی اور چارجنگ کو ختم کرنے کے لیے ضلعی حکومت نے کمر کس لی ہے۔
پرائس مجسٹریٹوں کی تعد اد 40 سے بڑھا کر 80 کر دی گئی ہے اور گراں فروشی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جا رہا ہے۔
کریا نہ کی اشیا ء فروخت کرنے والے کافی حد تک راہ راست پر آگئے ہیں۔ لیکن فروٹ اور سبزی فروخت کرنے والے ریڑھی بان اپنی غربت کی چھتری تلے چھپ جاتے ہیں۔ ان کو بھی راہ راست پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میں نے عمرشیرچٹھہ سے کہا کہ تمام دکانوں جن میں کریانہ کی دوکانیں، سبزی اور پھلوں کی دوکانیں اور دیگر اشیا خورد نوش کی دکانیں شامل ہیں پر ڈیڑھ فٹ ضرب اڑھائی فٹ کا بورڈ ہر دوکان پر نمایاں جگہ پر لگایا جائے جن پر اشیا خور د نوش کی قیمتیں درج ہوں تاکہ گاہک اس بورڈ کو پڑھ سکیں اور انہیں اشیا خورد نوش کی قیمتوں کا علم ہو سکے اس بورڈ کے پیچھے اس علاقے کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کا نا م اور موبائل نمبر درج ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی دوکان دار کے پاس محکمہ کی طرف سے ریٹ لسٹ بھی ہونی چاہیے۔ تاکہ گاہک کسی قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لیے بورڈ کے ساتھ ریٹ لسٹ کا موازنہ کرسکیں۔
اس ضمن میں پرائس مجسٹریٹس خوامخواہ تبدیل نہ کیے جائیں اس سے ایک تو ان کے علاقہ کے عوام کی ان سے شناسائی ہو جائے گی۔ دوسرے وہ اپنے علاقہ میں مصنوعی مہنگائی / اورچارجنگ کے ذمہ دار ہوں گے۔ علاوہ ازیں اکبری منڈی میں مقررہ تھوک ریٹ پر فروخت کو یقینی بنایا جائے اگر کوئی دوکاندار کسی پرائس مجسٹریٹ کو اکبری منڈی سے مقررہ نرخوں سے زائد پر خرید کی رسید دے تو اکبری منڈی کے اس تاجر کے خلاف ڈپٹی کمشنرآفس سے سخت کارروائی کی جائے۔ اسی طرح سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤ س میں بھی سرکاری تھوک نرخ کی پابندی کروائی جائے کیونکہ اگر دوکانداروں کو اکبر ی منڈی، سبزی منڈیوں اور سلاٹر ہاؤس سے اجناس، سبزیاں، پھل اور گوشت سرکاری رتھوک ریٹ پر نہیں ملے گا تو وہ یہ چیزیں اپنی دوکان پر لاکر پرچون سرکاری ریٹ پر فروخت نہیں کرسکیں گے۔
ڈپٹی کمشنر لاہور نے میری ان گزارشات کو بڑے غور سے سنا اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ لاہور میں اس وقت دس پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں جہاں ناشتہ‘ دوپہر اوررات کاکھانا حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق دیا جاتاہے جوکہ داتا دربار، بھاٹی گیٹ، فروٹ سبزی منڈی، ریلوے ا سٹیشن، بس سٹینڈ لاری اڈا، ٹھوکر نیاز بیگ، نگہبان سنٹر، گجومتہ، کوٹ خواجہ سعید، جوہرٹاؤن اور بند روڈ پر ہیں۔ ان پناہ گاہوں میں روزانہ 718 لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ ان پناہ گاہوں میں اب تک 355540 لوگ ٹھہر چکے ہیں۔ڈپٹی کمشنرنے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ وزیراعظم کے پروگرام کوئی بھوکا نہ سوئے کے تحت غریب علاقوں میں ٹرکوں کے ذریعے کھانا پہنچا یا جاتا ہے اور غریب علاقوں میں فری لنگر خانے بھی قائم کیے گئے ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی فہرستوں کے مطابق اساس پروگرام کے تحت غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی ماہانہ مدد کی جارہی ہے یہ فہرستیں 2009 میں بنی تھیں اب انکو دوبارہ ترتیب دیا جارہا ہے تاکہ اگر کوئی مستحق رہ گیا ہے تو اس کا نام بھی شامل کیا جائے۔
حکومت کے خدمت کے جذبے اورعمرشیرچٹھہ کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد لاہور مصنوعی منہگائی سے پاک ہو جائے گاا ور غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد اور خدمت میں اضافہ ہو گا اور انشااللہ لاہورماضی کی طرح پنجاب بلکہ پورے پاکستان کے لیے رول ماڈل بن جائے گا۔ آمین
(کالم نگار ریٹائرایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ہیں)
٭……٭……٭

مزاحمت ومفاہمت کے بعد گناہ وثواب کا قصہ

عارف بہار
مسلم لیگ ن کے راہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں حمزہ شہباز نے اخبار نویسوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع درست فیصلہ تھا۔جو ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا۔اب جبکہ مدت ملازمت میں توسیع کو دوسال سے زیادہ عرصہ ہوچکا یہ بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟شاید اس لئے کہ چند دن قبل اسلام آباد میں ایک پریس ٹاک کے دوران ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا تھا کہ وہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے گناہ میں شریک نہیں تھیں۔صاف اشارہ میاں شہباز شریف کی طرف تھا جو ایک مرحلے پرمیدان میں کود پڑے تھے اور اپنی پارٹی کو جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر آمادہ کیا تھا۔یہ کوئی خسارے کا سودا بھی نہیں تھا اس ایک فیصلے سے کئی ایک دروازے کھلتے چلے گئے تھے۔اس عرصے میں مریم نواز اس معاملے پر خاموش رہیں مگر اب انہوں نے اپنے موقف کو مزید وزن دار بنانے کے لئے گناہ وثواب کا قصہ چھیڑ کر حقیقت میں شہباز شریف پر تنقید کا راستہ اپنایا اور اسی بات کے دفاع میں حمزہ شہباز نے تبصرہ کرنا ضروری سمجھا۔مسلم لیگ ن کئی ضمنی انتخابات کے بعد کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابی نتائج میں اچھی کارکردگی کے باوجود”ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں“ کے انداز میں اپنی حتمی منزل سے کوسوں دور ہے۔ہر سیاسی جماعت کی طرح وہ حتمی منزل ملک کا اقتدار ہے۔جارحانہ سیاسی انداز مزاحمت کا بیانیہ پاک ٹی ہاؤس کی محفلوں میں بہت خوش کن اور بحث کو گرم سے گرم تر کرنے کا سامان ہو سکتا ہے اور جدید دور میں سوشل میڈیا پر داد سمیٹنے کے لئے بھی اچھا خیال اور تحسین کا اچھا سامان ہے مگر اس کا کیجئے کہ پاکستان میں اقتدار کی راہیں بہت پرپیچ ہیں۔یہ ماضی میں کبھی موچی دروازے اور پا ک ٹی ہاؤس سے ہو کر گزری ہیں نہ جدید دور میں فیس بک اور ٹویٹر یا جی ٹی روڈ سے گزر تی ہیں۔یہ بھول بھلیوں کی دنیا نظروں سے اوجھل ہوتی ہے کہنے کو ان راستوں کوپنڈی کے پرانے شہر میں جانا اورسمجھا جاتا ہے۔یہ تاثر حقیقت سے قریب تر ہے۔اقتدار میں واپسی کے دو طریقے ہیں ایک ہے ایران کے امام آیت اللہ خمینی اور فلپائن کی مسز کوری اکینو کا راستہ جو ملک میں ایک طوفانی عوامی سیلابی ریلے پر سوار ہو کر اختیار واقتدار کے مالک بن بیٹھے۔اس کے لئے انقلابیوں کا بلند اخلاقی مقام پر فائز ہونا ضروری ہوتا ہے۔انقلابی قیادت میں جیل کے مچھروں اور مکھیوں سے مزاحمت اور مقابلے کا مادہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔اس کا ماضی فقر وقناعت کی بنیاد پر عام سوسائٹی سے جداگانہ ہوکیونکہ انقلابی نے لوگوں کو جان دینے پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔انقلاب تو جمی جمائی طاقتوں کو الٹ ڈالنے کا نام ہے اور اس کھیل میں جمی ہوئی طاقت حالات پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے ہر حربہ اپناتی ہے۔انقلاب کے اصول اور سبق جی ٹی روڈ کے راہیوں پر لاگو کریں تو آگے دھند ہی دھند ہے۔جو کچھ نظر آتا ہے فقط ہے کہ پاؤں مار کر سپیس حاصل کی جائے۔اسی سپیس کا جائزہ لینے ایک با ر زبیر عمر بھی اتفاقی ملاقات کر بیٹھے تھے۔
زبیر عمر بے چارے ایک وڈیو سیاست کی زد میں آگئے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ وڈیو ز کی دیگ کا ایک صرف دانہ ہے اصلی دیگ ابھی کسی ذخیرے میں باقی ہے۔یہ ذخیرہ کس کے پاس ہے کچھ پتا نہیں۔ یہ مزاحمت کا ماڈل ہے اور دوسرا راستہ مفاہمت کا ہے یعنی طاقت کے اصل مراکز کے ساتھ رسم وراہ پیدا کرکے خیمے میں داخل ہونے کا راستہ۔مسلم لیگ ن نے وسطی پنجاب میں اپنی طاقت کو آزماتے ہوئے جی ٹی روڈ پر ”مجھے کیوں نکالا“کی صداؤں سے حالات کا انداز ہ لگایا لیا تھا۔یہ ”مس فائر“ہوایوں جی ٹی روڈ کا سفربھی مکمل ہوا اور گردوپیش کا منظر بھی وہی رہا۔نہ کوئی سیاسی آندھی چلی نہ اس میں کوئی اُڑا بس ایک موج اُٹھی مگر ساحل سے نہ ٹکرا نہ سکی۔لے دے کر مفاہمت کا راستہ باقی رہا۔مزاحمت برائے مفاہمت کا فلسفہ بھی اپنا جلوہ دکھا نہ سکا۔مزاحمت جنہیں کرنی تھی وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ایسے میں باقی رہ گیا مفاہمت کا فلسفہ۔مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور ان کا گھرانہ مستقل مفاہمت کی علامت رہے ہیں۔یہ حقیقت پسندی کی خوبیوں سے مالا مال ہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ آنکھیں دکھانے کے لئے اپنا دامن صاف ہوبنا چاہئے صرف خود اپنی زبان سے پارسائی کے دعوے حقیقت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔یوں وہ کبھی مزاحمت کبھی مفاہمت یا”مزاحمت برائے مفاہمت“ کے قائل نہیں رہے۔ان کے خیال میں مفاہمت ہی پرامن بقائے باہمی کا اصول اور راستہ ہے۔جو کشمکش مسلم لیگ ن نے باہر کی قوتوں سے کرنی تھی وہ مفاہمت اور مزاحمت کے اس کھیل میں اندر ہی چل پڑی۔اب مزاحمت اور مفاہمت سے بات آگے بڑھ کر گناہ وثواب تک جا پہنچی۔ آمدہ انتخابات سے پہلے ہی مسلم لیگ ن گناہ وثواب کے اس بیانیے کی بھول بھلّیوں میں کھو سکتی ہے۔ان حالات میں ن لیگ کو ایک بڑی جماعت کے طور پر اندرونی تضادات پر قابو پانا ہوگا۔یہ پاکستان ہے اور یہاں انقلاب کی باتیں محض تخّیلاتی اور تصوراتی محل ہی ثابت ہوتی ہیں۔یہاں قومی مفاہمت پر مبنی شہباز شریف کا ”جیو اور جینے دو“ کا اصول ہی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہے۔
(کالم نگارقومی وسیاسی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭

سٹرکچرز اور سسٹمز

لیفٹیننٹ جنرل(ر)اشرف سلیم
سیاسی پارٹیاں بیرون ملک سے کسی قسم کی امداد یا فنڈ نہ جمع کر سکیں۔ پاکستان سے باہر سیاسی پارٹیوں کی تنظیم سازی پر مکمل پابندی ہو تاکہ بیرون ملک پاکستانی وہاں پاکستان کی نمائندگی کریں نہ کہ گروپوں میں تقسیم ہو کر سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ بن کر آپس میں لڑائی مار کٹائی کے مرتکب ہوں۔ ہمیں بیرون ملک پاکستان کا ایک مشترکہ اور متحدہ عکس پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اس طرح بیرون ملک سے سیاسی فنڈنگ بھی ختم ہوگی۔ بیرون ملک سے پاکستانیوں کو سرمایہ بھیجنے کی بینکنگ نظام میں بہترین اور سستی ترین سہولیات دی جائیں۔زندگی بھر میرا تھیسز اورتاثر یہی رہا ہے کہ ووٹنگ کے سسٹم میں بہترین اصلاحات کی جائیں جس میں الیکشن کمشن کے اندر انتظامی استعداد کار بڑھانے کی اصلاحات شامل ہوں الیکشن کمیشن کے ارکان انتظامیہ اور فوج سے ریٹائرڈ تجربہ کار افراد کو لگایا جائے جو صاف اور شفاف الیکشن کو یقینی بنا سکیں۔ زیادہ سے زیادہ اچھی شہرت اور کارکردگی کے اہل سرکاری عملہ الیکشن کمیشن کی مدد کے لئے تعینات کیا جائے اور اگر اس میں کوئی کمی ہو تو مسلح افواج کے افسران اور عملہ ڈیوٹی پر لگایا جا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے اورامیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں زیادہ وقت دیا جائے اور اس عمل میں اس کو بینکنگ کونسل اور تمام انٹیلیجنس اداروں کا مکمل تعاون حاصل ہو۔ Interum یا عارضی حکومت کا قیام ختم کیا جائے اور جو بھی گورنمنٹ حکومت میں ہو وہ حکومت کا انتظام سنبھالے رکھے مگر اس کو الیکشن کے عمل میں کسی قسم مداخلت کی اجازت نہ ہو۔ الیکشن کمیشن اس بارے میں مزید قانون یا رولز بنا سکتا ہے۔ جیسے سرکاری عملہ کی تبدیلی بند کر دی جائے یہ تبدیلی الیکشن کمیشن کی اجازت سے مشروط کی جا سکتی ہے۔
حکومتی نظام میں اصلاحات میں سب سے ضروری کام عدلیہ میں اصلاحات ہیں جن کا مقصد انصاف کی فوری اور سستے سے سستے طریقے سے فراہمی ممکن بنانا ہو۔ عدلیہ کو ایک سروس قرار دیا جائے جس میں اینٹری entry سول جج لیول سے ہو اور ہر جج مختلف مراحل سے گزر کر ہائر لیول عدلیہ کا تجربہ کار اور ٹیسٹڈ ممبر بنے۔ ہر لیول پر ہر جج کی اہلیت عدلیہ ہی کے اوپر والے جج پرکھیں اور اس پر سالانہ کارکردگی رپورٹ لکھیں۔ بے ضابطگیوں اور مالی معاملات سے متعلق ان پر باقی سرکاری اہلکاروں والے قانون لاگو ہوں۔ ہاں تنخواہوں وغیرہ کے معاملات میں عدلیہ کو ترجیح ہونی چاہئے۔ اور عدلیہ کے تحفظ اور سیکیورٹی بارے خاص انتظامات کئے جائیں تا کہ عدلیہ اپنے فیصلے بلا خوف و خطر کر سکے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے سپیشل سکروٹنی کا سسٹم بنایا جائے جس میں جج صاحبان کی گزشتہ سروس میں کارکردگی اور ان کی اخلاقی برتری پر زیادہ توجہ دی جائے۔
ملک میں تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو برابر کے مواقع دینے کے لئے اور تمام ووٹرز کے حقوق کا مکمل تحفظ اور نمائندگی یقینی بنانے کے لئے ملک میں متناسب نمائندگی کا اصول نافذ کیا جائے۔ متناسب نمائندگی پورے ملک کی بنیاد پر نافذہو اور جو پارٹی ڈالے گئے ووٹوں کا جتنا پرسنٹیج یا تناسب حاصل کرے اس کو اس تناسب سے سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیٹیں الاٹ کی جائیں۔ تمام سیاسی جماعتیں الیکشن سے اپنے نمائندگان کی بالّترتیب اور ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن اور ملکی میڈیا میں اعلان کر دیں اور اسی تناسب سے ہر صوبے کو نمائندگی یقینی بناتے ہوئے ایوان بالا ایوان زیریں اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں صوبائی بنیاد پر دی جائیں۔ اس پر مزید قوانین اور ضابطے متعلقہ ہاؤس اور ادارے بنا سکتے ہیں۔ مجوزہ سسٹم میں تمام سٹیک ہولڈرز مختلف ایوانوں میں اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر موجود ہوں گے اور قومی سیاست میں بھر پور حصہ لیں گے اور ان ایوانوں کو موثر بنائیں گے اور ان ایوان نمائیندگان کی مدت پوری کرنے میں سب برابر کے حصہ دار ہوں گے۔
کسی بھی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ملک میں جاری لا اینڈ آرڈر کا رول بہت ہی ضروری اور کار آمد ہے۔ لا اینڈ آرڈر کو بہتر سے بہتر بنانے میں عدلیہ کے کردار کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کی دوسری اہم ذمہ داری پولیس سسٹم کی ہے پولیس سسٹم کا مناسب اور نہایت ہی موثر ہونا انتہائی اہم ہے۔ پولیس کی خرابی یا کمزور ہونا باقی تمام سسٹمز خاص طور پر عدلیہ کے کردار کو بھی کافی حد تک غیر موثر کر دیتا ہے۔پاکستان میں ملکی سطح پر یکساں اور بہترین پولیس کا نظام لانا نہ صرف عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے ضروری ہے بلکہ موجودہ دور کے ففتھ جنریشن اور ہاء برڈ وار فیر کے ماحول میں ملکی سلامتی کے لئے انتہائی لازم ہے۔ پرانی طرز کی ڈھیلی ڈھالی اور معمولی تربیت یافتہ پولیس خود اندرونی دشمنوں کا آسان شکار بن جائے گی۔
پولیس کی تنظیم نو اور اس کے ٹریننگ سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے اس کو ایف سی اور رینجرو اور باقی سول آرمڈ فورسز میں اس کی انٹگریشن ہونی ضروری ہوگی پولیس کی لیڈرشپ کی ٹریننگ کے لئے تمام پولیس آفیسرز کم از کم چھ ماہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں بنیادی فوجی ٹریننگ لیں۔ اس کے بعد انفینٹری سکول کوئٹہ کے بنیادی ٹیکٹکسز اور ویپن ٹریننگ کے کورسز فوجی افسروں اور سول آرمڈ فورسسز کے عملے کے ساتھ کریں۔ پولیس عملہ کی جسمانی فٹنس پہ بہت زور دینا ہوگا۔ پولیس کی تنظیم ایسی ہو کہ پولیس میں مناسب ریسٹ اور چھٹی کا سسٹم رائیج ہو سکے۔ اسی طرح پولیس کا لاجسٹک یا انصرام و انتظام کا نظام بہت سی بہتری چاہتا ہے۔ living off the land ایک بہت کمزور بندوبست ہے۔ خاص طور پر چھوٹی ٹولیوں یا سنگل پولیس مین کی ڈیوٹی کو اچھے انتظام اور کھانے یا لنگر کے سسٹم یا سیلف کوکنگ کے سسٹم سے منسلک کیا جائے۔ اس سلسلے میں پولیس کی self esteem کو بحال اور بلند کرنا ضروری ہے۔ پروٹوکول اور وی آئی پی سیکیورٹی کے لئے ٹریفک پولیس کی طرح علیحدہ سسٹم بنایا جائے۔
ہمارا سب سے بڑا نفسیاتی قومی رویہ ہے کہ ہم جیسے ہیں ویسے ہی چلتے رہیں اور ہم اپنی موجودہ حالت میں مست رہنا چاہتے ہیں ہم ملک سے زیادہ صوبوں کو اہمیت دینے لگ گئے ہیں اسی لئے ہم نے کوئی اور صوبہ بننے ہی نہیں دیا حالانکہ ہمارے موجودہ صوبے غیر موثر اور تقریباً dysfunctional ہو چکے ہیں۔عوام مسائل کے انبار میں پس رہے ہیں حکمران اور سرکاری مشینری اپنے آپ کو عوام کے مسائل سے بالا تر رکھے ہوئے ہے اور کسی ریفارم کو اپنے مفادات کے مخالف گردانتی ہے۔ آئین میں ایسی ترامیم جو مرکز کو انتہائی کمزور اور صوبوں میں کیپیسٹی (capacity)نہ ہونے کے باوجود بھی ان کو اختیارات دئے گئے اور زیادہ وسائل دئے گئے جس سے ترقئی معکوس اور وسائل کے ناجائز استعمال کو فروغ ملا۔ ملکی سطح پر پالیسی کوآرڈینیشن (coordination)کمزور اور غیر موثر ہوئی۔ مرکز گریز رجحانات کو بھی فروغ ملا۔
ڈ۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسلہ ہے ٹیکس نادہندگی اور ایف بی آر کی کم استعداد۔ در اصل ملک میں ہر شخص ٹیکس دہندہ ہو خواہ اس کی روزانہ آمدنی سو یا پانچ سو روپئے ہو مگر اس کے لئے ٹیکس کی شرح صرف ایک فیصد ہو یعنی سو روپئے آمدنی والا ایک روپیہ ٹیکس دے اور جیسے جیسے آمدنی بڑھے ٹیکس شرح بتدریج بڑھے لیکن کسی بھی صورت ٹیکس دہندہ کی معقول ٹیکس ادا کرنے کی حد سے اوپر نہ ہو۔ اس کے لئے ایک نہایت سادہ اور قابل فہم ایک صفحے کا فارم ہر شخص بھرے اور کسی بھی بنک میں جمع کر اسکے۔ایف بی آر صرف صنعتی اداروں اور کارپوریٹ ٹیکس جمع کرے یا امپورٹ ڈیوٹیز کا حساب رکھے۔ ضلع اور اس سے نچلی سطح پر ٹیکس جمع کرنے کا سسٹم ضلعی حکومتوں کا حصہ اور ذمہ داری ہو۔پاکستان میں پہلے ہی ودہولڈنگ ٹیکس سسٹم بہت وسیع ہے جس کی موجودگی میں ایف بی آر کا کردار بہت کم رہ جاتا ہے اور اسی طرح ان کے اختیارات کو درست کرنا ضروری ہے تاکہ اس پورے نظام سے کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔
احساس اور بینظیر اِنکم سپورٹ سسٹم کو 65 سال کی عمر سے منسلک کیا جائے اور اس سے کم عمر کی ہر قسم کی امداد کو ٹیکنیکل ٹریننگ سے منسلک کیا جائے اور یہ ٹائم بانڈ ہو۔ اگر ٹریننگ چھ ماہ یا ایک سال کی ہو تو کفالتی رقم اور ٹریننگ کے اخراجات دئے جائیں اور ٹریننگ مکمل ہونے پر اپنا کام کرنے کے لئے مقررہ رقم دی جا سکتی ہے یا کہیں ملازمت کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ حکومتی پیسہ صرف ترقیاتی مد میں خرچ کیا جائے۔
اوپر صرف چند تجاویز دی گئی ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان اپنے موجودہ گورنینس اور اقتصادی بحران جو کہ دراصل مجموعہ ہے اور بہت سارے ذیلی بحرانوں پر کسی حد تک قابو پا سکتا ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ:
تن ہمہ داغ داغ است پنبہ کجا کجا نہم
لیکن سوائے بڑی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں لانے کے اور کوئی چار کار نہیں اور یہ تبدیلیاں ایک مربوط اور منظم طریقے سے لانے کے لئے تمام اداروں کا آپس میں تعاون بہت ضروری ہے جس میں سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں وہ بھی اپنے آپ کو موجودہ دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں: صرف توازن نہیں بلکہ متحرک توازن چاہئے جسے (dynamic homeostasis) بھی کہا جاتا ہے۔ ان تجاویز پر عمل مشکل ہو گا جس کی بڑی وجہ مروجہ نظام سے برتر قوتوں کا مفاد ہے۔ جتنا شدید جس طبقے کا مفاد ہے اتنی ہی شدت سے وہ طبقات تبدیلی کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ان ظالم اور مفاد پرست طبقوں سے نجات حاصل کرنی ہے یا ہم زنجیروں میں جکڑے رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
بدلنا ہے تو مئے بدلو طریق مئے کشی بدلو
وگرنہ ساغر و مینا بدل دینے سے کیا ہو گا
تبدیل نہیں ہونگے تو ہم جیسے ہیں اس سے بھی بڑی پستی کا شکار ہو جائیں گے۔ خدانخواستہ
(کالم نگار ہلال ملٹری امتیازاورسابق ہائی کمشنر ہیں)
٭……٭……٭

”خبریں“ اور خبر

قسور سعید مرزا
کاغذ کا ہر ٹکڑا ایک نظر کا مستحق ضرور ہوتا ہے۔ ذوقِ مطالعہ کی یہ قطعاً دلیل نہیں کہ آراستہ پیراستہ کمرہ ہو، چمکدار جلد کی کتابیں ہوں، چار رنگی طباعت ہو، آرام دہ کرسی اور صاف و شفاف میز ہو۔ جنہیں قدرت نے ذوقِ مطالعہ سے نوازا ہے وہ گلی میں لگے بلب کی روشنی میں بھی اِس کی تسکین کر لیتے ہیں جنہیں مُطالعہ سے وحشت ہو وہ ڈرائنگ روم کے قیمتی فانوس سے بھی کوئی استفادہ نہیں کر پاتے۔ اخباری مضامین سے لے کر ٹھوس تحقیقی مواد تک سبھی کا مُطالعہ ناگزیر ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کس دارالعلوم اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے؟ مگر اِن کا اسلوب نگارش بیسیوں اہل قلم کا آستانہ بنا جہاں وہ جُھکتے رہے۔ مولانا مودودیؒ نہ دیو بند میں پڑھے اور نہ بَریلی میں، مگر اِن کی نثر کیا ہے ایک شکر پارہ ہے جو مُنہ میں گُھلتی ہے، خواجہ حسن نظامیؒ بَھلا کہاں کے ڈگری ہولڈر تھے کہ علامہ اقبال کو کہنا پرا کہ ”مُجھے اگر خواجہ حسن نظامیؒ جیسی نثر لکھنے پر قدرت حاصل ہوتی تو میں بھی شاعری کو ذریعہ اظہار نہ بناتا۔“ یہی حال شورش کشمیری کا تھا نہ سکول گئے نہ مدرسہ دیکھا۔ احسان دانش بھی عمر بھر مزدور ہی رہے۔ جناب ضیا شاہد صاحب تو تعلیم یافتہ تھے۔ اِن کے ہاں مقصدِ مطالعہ برائے مطالعہ نہیں بلکہ کسب فیض رہا اور سچی بات یہ ہے کہ جب بھی ان کو پڑھا تو خیالات کو رفعت ملی۔ کبھی سوچ کو وسعت نصیب ہوئی۔ کبھی ذہن کو پختگی اور کبھی دماغ کو بلندی حاصل ہوئی۔ کبھی زاویہئ نظر دُرست اور کبھی قبلہ فکر راست ہوا۔ الفاظ و حروف سے دِل میں ہلچل بھی ہوئی اور آنکھوں میں جَل تھل، غنچہئ تخیّل چٹک اُٹھا اور کبھی شُعلہئ عمل بھڑک اُٹھا۔ کبھی احساسات کے آنگن میں چاند اُتر آیا اور کبھی جذبات کے افق پر سورج اُبھر آیا۔ کبھی اردگرد رنگ و نور کے ہالے بھی دیکھے اور کبھی کیف و سرور کے چشمے بھی۔
ضیا شاہد کہنہ مشق لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب کتاب بھی تھے۔ صحافت آج کے دَور میں محض لکھت پڑھت کا نام نہیں رہا بلکہ یہ قصّر والدین سے لے کر خاکِ اُفتادگان تک کی سیاسی و سماجی ضرورت بن چُکی ہے۔ اِس لئے اِس کے اثرات ہمہ گیر بھی ہیں اور دُور رس بھی۔ جب سے اربوں انسانوں پر مشتمل یہ دُنیا ”گلوبل ویلیج“ میں تبدیل ہوئی ہے تو اُسی لمحے سے ابلاغ اور اِس کے ذرائع کو بے حد اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ کوئی مغلِ اعظم کسی انارکلی کو دیوار میں چُنوا دے اور کسی کو خبر تک نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ صحافت پہلے تین ستونوں کی کمزوریوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا تنہا کیسے مقابلہ کر رہی ہے۔ تاہم گناہ گاروں کے سمندر میں نیکیوں کے جزیرے ہر دَور میں پائے گئے اور ہر شعبہ میں موجود رہے۔ ایک وقت تھا کہ اخبارات کی بھیڑ نہ تھی تو ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود تھا۔ آج اخبارات ہیں تو لکھنے والوں کا حال ہمارے سامنے ہے۔ روزنامہ ”کوہستان“ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ پھر ”مشرق“ کا دور آیا ”امروز“ کی اپنی اونچی پرواز تھی۔ اخبار پڑھنے والے ”نوائے وقت“ کا بھی بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ”انجام“ کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؔ کے ”الہلال“ اور ”البلاغ“ مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اپنے وقت کی للکاراور پُکار تھے۔ یہ سبھی لوگ فاقے لے کر کال کوٹھڑی تک پہنچے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان اور پاکستانی عوام کا واسطہ زمینی خداؤں سے پڑ گیا۔ صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو سزاؤں سے نوازا گیا۔ لیکن ایک عوامی اور آزاد اخبار کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی۔ جناب ضیا شاہد مرحوم نے یہ محسوس کر لیا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر ایک محنتی انسان تھے۔ صبح سے شام تک لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے۔ نت نئے آئیڈیاز پرکام کرنا اِن کا شوق تھا۔ انہوں نے محنت کے ساتھ روزنامہ ”پاکستان“ کو متعارف کرایا لیکن اکبر بھٹی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے۔ انہیں خدا حافظ کہا اور روزنامہ ”خبریں“ کی بنیاد ڈالی۔ دفتری امور و معاملات کو دیکھنے اور ہر پہلو پر نظر رکھنے میں ضیا شاہد صاحب کو مہارت حاصل تھی۔
محترم ضیا شاہد پاکستان کے پہلے اور اب تک آخری صحافی ہیں جنہوں نے قومی سطح کے دو اخبارات نکالے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ راقم کے مرحوم ضیا شاہد صاحب کے ساتھ ذاتی تعلقات اور نیاز مندی تھی۔ میں نے انہیں کام کرتے دیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو سیاسی شعور دیا اور ضیا شاہد صاحب نے ”خبریں“ کے پلیٹ فارم سے غریبوں، کمزوروں اور مظلوموں کو آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ بے شمار نوجوانوں کو قلم پکڑنا اور لکھنا سکھایا۔ ایک زمانہ تھا جب کوئی اخبار کا مالک یا مدیر کسی عورت کے اغوا کی خبر چھاپنا جُرم سمجھتا تھا لیکن ”خبریں“ نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو شائع کیا۔ سَب کی خبر دی اور سَب کی خبرلی۔ جہاں غریب وہاں خبریں، ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ کی پالیسی کو دھڑلے سے اپنایا۔ ظالم کے مقابلے میں مظلوم اورطاقت کے مقابلے میں محروم کی آواز بنا۔
لاہور، اسلام آباد، کراچی، ملتان، پشاور، حیدرآباد، سکھر، مظفر آباد میں واقع ”خبریں“ کے دفاتر مظلوموں، بے کسوں، بے نواؤں کی پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ بے شک مرحوم کی محنت، کام سے لگن، بے باک جرأت، بے دھڑک اندازِ تحریر اور شعلہ بیانی ان کو آگے سے آگے بڑھاتے چلی گئی۔ انہوں نے کبھی بھی دفتر چھوڑ جانے والے اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کا بُرا نہیں منایا۔ نہ اِن کے جانے پر اظہار ناراضگی کیا اور نہ ہی اِن کی دوبارہ واپسی پر دفتر کے دروازے بند کئے۔ یہ ایک بہت بڑی خوبی تھی جو ان کو اپنے صحافتی حلقے اور برادری میں ممتاز کرتی ہے۔ ضیا شاہد صاحب نے اپنے نوجوان ہونہار بیٹے کی وفات کا صدمہ بڑے جگرے کے ساتھ برداشت کیا۔ بیٹی کو بیوہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ جو ایک باپ کے لئے بہت ہولناک ہوتا ہے۔ خود بھی بہت ساری بیماریوں کا شکار ہوئے لیکن مجال ہے کہ ان کی استقامت، بہادری اور بے خوفی متاثر ہوئی ہے۔ یہ مظلوموں اور محروموں کے لئے مسیحا تھے اور”خبریں“ ان کا ہسپتال بنا رہا جہاں سے انہیں شفا اور دوا ملتی ہے۔ مظلوموں کا ترجمان بننے کے ساتھ ساتھ خبریں نے دو قومی نظریئے کو مضبوط و مستحکم کیا۔ بدعنوان افسر شاہی کو بے نقاب کیا۔ عدلیہ کی آزادی کے لئے کام کیا۔ زبان و نسل کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی ہر سازش کو بے نقاب کیا۔ پاکستان کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے سیاسی، معاشی اور جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ سرائیکی وسیب کو صوبہ بنانے کی آواز کو تقویت دی۔
کرونا وَبا کے دِنوں میں خبریں کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ اِس مصیبت کے دوران امتنان شاہد صاحب باہر نکلے۔ رَضا کار تیار کئے۔ مُفت کھانے تقسیم کئے۔ عوام کے ساتھ ٹھہرے اور کہا کہ ہمیں سادہ راشن بھیجیں۔ آپ بھجوائیں گے۔ ہم پہنچائیں گے۔ اخبارات بہت ہیں مگر ملک میں عوام دوست پالیسی کا ایک ہی اخبار ہے۔ جناب ضیا شاہد مرحوم کی روح سکون محسوس کر رہی ہو گی اور مسرور ہو گی کہ اُن کے ہونہار سپوت جناب امتنان شاہد صاحب نے نہ صرف اخبار کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالا ہے۔ بلکہ آج وہ قدم بڑھا کر سرائیکی وسیب کے دوسرے بڑے شہر بہاول پور سے ”خبریں“ کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے ادارے کی 29 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اودھم بازی کے دَور میں کسی نئے سنٹر سے اخبار کا اجرا کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کے لئے امتنان شاہد صاحب اور ادارے کے کارکن مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اپنے ہاں محترم ضیا شاہد صاحب، عزیزم عدنان شاہد اور چیف صاحب کے داماد کے درجات بلند کرے اور امتنان شاہد صاحب کو عزت و صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا کرے اور مزید کامیابیاں سمیٹنے کی توفیق و ہمت بخشے (آمین)
(کالم نگارایوان صدر پاکستان کے
سابق ڈائریکٹرجنرل تعلقات عامہ ہیں)
٭……٭……٭

کروناسے سی پیک منصوبے متاثرہوئے عمران خان کا اعتراف

اسلام آباد (نامہ نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں کو مشکلات کا سامنا رہا تاہم اب اسی رفتار سے منصوبے تکمیل کی جانب ہیں،اب صنعتی ترقی کی جانب ساری توجہ مرکوز ہے کیونکہ صنعتی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور ملکی قرضہ نہیں اتر سکتا۔ یہاں 600 کے وی مٹیاری تا لاہور ٹرانسمیشن لائن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ تمام افراد مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے 2018 سے شروع ہونے والے منصوبے کو تیزی سے مکمل کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ٹرانسمیشن لائن جدید خطوط پر استوار کی گئی ہے اور اس میں لائن لاسز محض 4 فیصد ہیں، اب تک لائن لاسز 17 فیصد تھے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ایک فیصد لائن لاسز کی صورت میں کئی ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔انہوں نے سی پیک سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے سی پیک کے منصوبے متاثر ہوئے تھے لیکن اب وہ تیزی سے تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سی پیک کی مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس میں تین مراحل کا تذکرہ کیا گیا جس میں جنریشن، سڑک اور ٹرانسمیشن شامل ہے، ٹرانسمیشن ہماری بنیادی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری ٹرانسمیشن لائن بہت پرانی ہوچکی ہیں اور اسی وجہ سے لائن لاسز زیادہ ہیں، بجلی ہونے کے باوجود صارفین کو بلاتعطل بجلی نہیں پہنچا سکتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سابقہ ادوار میں ٹرانسمیشن لائن پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور یوں لائن سز میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔انہوں نے آئندہ اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب صنعتی ترقی کی جانب ساری توجہ مرکوز ہے کیونکہ صنعتی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور ملکی قرضہ نہیں اتر سکتا۔عمران خان نے کہا کہ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کو بڑھ کر صنعتی ترقی میں حائل رکاوٹ دور کریں گے اور یقینی طور پر اس طرح ملکی خزانے میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کہا کہ کورونا کی وجہ سے سپلائی چین متاثر ہوئی اور یوں پوری دنیا میں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تاہم یہ عارضی طور پر ہے اور جیسے ہی ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوگا تو معمولات زندگی بحال ہوجائے گی۔وزیر اعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ کورونا کی اگلی لہر کے اثرات کم ہوں گے اگر ملک میں ویکسینیشن کا عمل مکمل ہوجائے۔ حکو مت نے کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا فیصلہ کرلیا اس حوالے سے پاکستان سیٹیزن پورٹل پرکسانوں کے لئے خصوصی کیٹیگری آلاٹ،وزیر اعظم کی ہدایت پر کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں کو خصوصی ہدایت کی گئی۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ افسران کسانوں کی شکایات کے فوری حل کے لیے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے کہاکہ سرکاری افسران کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔وزیر اعظم ڈیلیوری یونٹ نے تمام صوبائی حکومتوں کو مراسلہ جاری کردیا جس میں کہاگیاکہ کسان اپنے مسائل براہ راست سیٹیزن پورٹل پر درج کروا سکیں گے،وزیراعظم آفس کے مطابق کسانوں کو سرکاری دفاتر کے چکر نہیں لگانا پڑیں گے۔ مراسلہ میں کہاگیاکہ چیف سیکریٹریز کسانوں کے مسائل کے حل پر افسران کی سہ ماہی کارکردگی رپورٹ مرتب کریں،تمام صوبوں میں کسانوں کے مسائل کے لئے 123 سرکاری افسران کو زمہ داریاں تفویض کر دی گئی،خیبر پختونخواہ کے 43 پنجاب کے 57 افسران کو زمہ داری دی گئی ہے، بلوچستان12سندھ4،وفاق4،آزادکشمیر2اور گلگت میں 1 سرکاری افسر کو زمہ داری سونپ دی گئی،کسان کارڈ،کھاد، بیج، پانی کی چوری، فصل، اجناس کی قیمتوں پر شکایات درج کروا سکیں گے۔ وزیر اعظم آفس کے مطابق کیڑے مار دوائیاں اور دیگر 52مسائل کا ادراک بروقت ممکن ہو سکے گا۔مراسلہ میں کہاگیاکہ کسانوں کی آگاہی کے لیے ضلعی سطح پر مہم بھی چلائی جائے۔

اسلام آباد(آئی این پی) وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت ماحولیاتی تحفظ کیلئے جنگلات کی زمینوں کی حفاظت کو یقینی بنا رہی ہے،فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی اس وقت بشمول پاکستان دنیا بھر کا سب سے اہم مسئلہ ہے،حکومت قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے اقدامات کررہی ہے،کیڈسٹرل میپمنگ سے ڈیڈ کیپٹل کی نشاندہی اور اس کا بہتر استعمال ممکن ہو سکے گا، انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو قومی رابطہ کمیٹی برائے ہاؤسنگ و تعمیرات کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا، اجلاس میں وزیرِ مملکت فرخ حبیب، معاونِ خصوصی ڈاکٹر شہباز گِل اور متعلقہ اعلی افسران نے شرکت کی،اجلاس کو چیئرمین سی ڈی اے نے اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سیبریفنگ میں کہا کہ سیکٹر I-15کی تکمیل ایک سال کی قلیل مدت میں یقینی بنائی گئی،پاکستان ہاؤسنگ کے تحت فراش ٹاؤن اور دیگر انفراسٹرکچر کے منصوبے بھی جلد مکمل کر لئے جائیں گے،اسلام آباد میں جنگلات کی زمین کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن بھی تقریبا مکمل کی جا چکی ہے، اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد اور لاہور سمیت پورے ملک میں ڈیجیٹل میپنگ اور سرکاری زمینوں کی نشاندہی پر کام تیزی سے جاری ہے، اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈویلپمنٹ زونز پیری اربن سیٹلمنٹس کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی،منصوبے سے زمین کا بہتر استعمال اور غیر قانونی سوسائٹیوں کی روک تھام میں مدد بھی ملے گی، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کیڈسٹرل میپمنگ سے ڈیڈ کیپٹل کی نشاندہی اور اس کا بہتر استعمال ممکن ہو سکے گا، حکومت ماحولیاتی تحفظ کیلئے جنگلات کی زمینوں کی حفاظت کو یقینی بنا رہی ہے،فوڈ سیکیورٹی اور موسمیاتی تبدیلی اس وقت بشمول پاکستان دنیا بھر کا سب سے اہم مسئلہ ہے،حکومت قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے اقدامات کررہی ہے، وزیر اعظم نے ہدایت کہ کہ قبضہ شدہ زمین کو واگزار کرانے کیلئے قانون کا سختی سے نفاذ یقینی بنایا جائے۔

 

کامیڈین عمر شریف جرمنی کے شہر نیورم برگ کے اسپتال میں زیر علاج

برلبن(مانیٹرنگ ڈیسک)کامیڈین عمر شریف جرمنی کے شہر نیورم برگ کے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔جبکہ پاکستانی قونصل جنرل زاہد حسین نے عمر شریف کی عیادت بھی کی۔اہلیہ عمر شریف زریں غزل کے مطابق عمر شریف کو نمونیا کی شکایت ہوئی اور کل تک وہ واشنگٹن روانہ ہوجائیں گے۔

شہباز شریف کمر درد میں مبتلا، ڈاکٹرز کا 2ہفتے مکمل آرام کامشورہ

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)شہباز شریف کمر درد میں مبتلا، ڈاکٹرز نے 2ہفتے مکمل آرام کامشورہ دیا۔شہباز شریف کی تمام سیاسی سرگرمیاں ملتوی ہو گئیں۔نوازشریف اور مریم نواز نے شہبازشریف کو فون کرکے خیریت دریافت کی۔نواز شریف کو شہباز شریف کی میڈیکل رپورٹ اور ایکسرے رپورٹ کی تفصیلا ت سے آگاہ کیا گیا۔