لیفٹیننٹ جنرل(ر)نعیم خالد لودھی
افغانستان کامحل وقوع کچھ اس طرح کاہے کہ یہ وسطی ایشیا‘جنوبی ایشیا اورمغربی ایشیاکے سنگم پرواقع ہے اور خاص طورپر وسط ایشیا کے لئے سمندروں تک جانے کاراستہ بھی فراہم کر سکتا ہے اگر پاکستان او ر ایران تک اس کے ذریعے راستہ کھل جائے۔ اس بنیادی وجہ سے چین اورروس کے لئے یہ خاص اہمیت کاحامل ہے اور جس چیز سے بھی چین اور روس کوفائدہ پہنچے اس میں بھلا امریکہ اپنی ٹانگ کیوں نہ اڑائے؟
بھارت کے لئے بھی افغانستان کی بہت بڑی اہمیت ہے کہ یہ شمال کی طرف بھارت کو راستے فراہم کرسکتاہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل بن جاتاہے۔
اب ہم ذرا ایک ایک کرکے جائزہ لیتے ہیں کہ ان تمام ممالک جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان کے اورکون کون سے مفادات افغانستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے چین ہی کو لے لیں۔ افغانستان میں چین کے مفادات سیاسی بھی‘ معاشی بھی اورعسکری بھی ہیں۔ افغانستان میں چونکہ بے شمار معدنیات موجود ہیں تو خود افغانستاان کاخطہ چین کے معاشی مفادات میں واضح حیثیت رکھتاہے اس کے علاوہ بی آرآئی(Belt Road Initiative) ہے جوکہ وسطی اشیا اور بحیرہ عرب کی طرف راستوں کے ساتھ منسلک ہو جاتاہے۔ لہٰذا چین کو مشرقِ وسطیٰ‘ مغربی ایشیاء اور افریقہ تک رسائی دینے کاموجب بھی بنتا ہے۔
روس کے سلسلے میں تو یہ کہا جاسکتاہے کہ ان کاصدیوں کا گرم پانیوں تک رسائی کا خواب افغانستان اور سی پیک کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے۔اُدھر سے ان کو ایران تک بھی بآسانی رسائی حاصل ہو سکتی ہے گوکہ روس کے پاس ایران تک رسائی اور پہنچنے کے اوربھی راستے موجود ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی حیثیت تو بہت خصوصی ہے گوکہ بظاہر وقتاً فوقتاً دونوں ممالک میں کچھ تلخی نظر آتی رہی ہے لیکن بنیادی طورپر یہ دونوں ممالک دینی‘ نسلی‘ لسانی اور معاشرتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں اور دونوں ممالک کی سرحد بھی باقی تما م ممالک کے مقابلے پر سب سے لمبی ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی طورپر کئی بار یہ ایک ہی خطے کاحصہ رہے ہیں۔
اس کی وجہ سے پاکستان کے دو صوبے خیبر پختونخوااور بلوچستان اور افغانستان کے درمیانی طرف کے لوگوں کی آمدورفت صوبوں سے آسان رہی ہے اور کچھ سال پہلے تک ان دونوں ملکوں میں آنے جانے کے لئے ایسی سہولیات میسر تھیں کہ کسی پاسپورٹ یا ویزے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اب جا کے سفری معاملات کچھ باضابطہ بنائے جا رہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہر قسم کی تجارت سال کے تمام دنوں میں کھلی رہتی ہے لہٰذا پاکستان کے بھی افغانستان میں بہت گہرے مفادات ہیں۔
بھارت گو کہ افغانستان کا بلا واسطہ ہمسایہ تو نہیں ہے لیکن پاکستان کے ذریعے ان کی تجارت کا حجم بھی افغانستان کے ساتھ کافی بڑا رہا ہے گو کہ آج کل اس میں کچھ تعطل اور دشواریاں آئی ہیں جس کی بنیادی وجہ بھارت اور پاکستان کے تنازعات ہیں۔ جب ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ امریکہ اور چین کی معاشی اور سیاسی مخاصمت دنیا کے کئی خطوں میں موجود ہے، اس طرح افغانستان میں بھی امریکہ کی توجہ کا مرکزبن جاتا ہے۔ امریکہ کے روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے اس سلسلے میں بہت سے تحفظات موجود ہیں۔ اب تک قارئین کو یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے جو تسلط قائم کیا اس کا واحد مقصد فقط القاعدہ کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ وہ یہاں پر اس طرح براجمان ہونا چاہ رہا تھا جس سے وہ چین، روس اور وسط ایشیا کے کچھ ممالک کے لئے راستے کی دیوار بن جائے اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔
آپ یہ اندازہ کیجئے کہ وہ 20 سال تک وہاں رہ کر نہ تو افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکا اور نہ ہی سیاسی طور پر افغان عوام کی کوئی خدمت کر پایا بلکہ وہاں پر توڑ پھوڑ اور انتشار پیدا کرکے ایک بڑا کردار ضرور ادا کیا لیکن چین کے اثر و رسوخ کو اس نے 15 سال پیچھے دھکیل دیا اور دو دہائیوں تک روس کا گرم پانیوں تک پہنچنے والا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا۔ اب جبکہ امریکہ کی بساط افغانستان سے لپیٹ دی گئی ہے تو چین اور ایران اور پاکستان کے لئے بہت روشن روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں لیکن جس طرح کہا جاتا ہے“رسی جل گئی مل مگربل نہ گیا“ امریکہ کی آج بھی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت اپنے پاؤں نہ جمانے پائے، منافقت کی حد دیکھئے کہ نو ارب ڈالر کی وہ رقم جو افغانستان کے اپنے پیسے ہیں ان کو روک کر ان پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے۔ حالانکہ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن بار بار یہ انتباہ کر رہی ہے کہ افغانستان میں خوراک کے حوالے سے کہیں قحط نہ پڑ جائے۔
اب دیکھنا یہ ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پا چکی ہے، عمومی طور پر دنیا اور خاص طور پر جن ممالک کا سطور بالا میں تذکرہ ہوا ہے وہ اپنے رویوں میں کیا تبدیلی لے کر آتے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی سمیت کوئی درجن بھر ممالک افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا ہی چاہتے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش یہ ہے کہ اس نئی حکومت کو نہ تو وہ خود تسلیم کریں اور نہ ہی دوسرے ممالک کو ایسا کرنے دیں۔ ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ امریکہ اس حوالے سے دوبارہ منہ کی کھائے گا اور افغانستان کی حکومت کچھ عرصے میں سیاسی طور پر مستحکم ہو جائے گی البتہ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے افغانستان کو دوست ممالک کی مدد اور کچھ وقت ضرور درکار ہوگا اور دوستوں کی کمی ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس رسہ کشی کا جلد ہی اختتام ہونے والا ہے اور یوں لگتا ہے کہ آخرکار امریکہ، برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک اس علاقے کو چین اور روس کیلئے خالی چھوڑنے کی بجائے پینترا بدل کر یا بھیس بدل کر دوبارہ یہاں پر آن وارد ہوں گے اور اس سے پاکستان کی حیثیت بہت ممتاز ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل آپ کو مغربی ممالک کے بہت سے انتہائی اہم لوگوں کا آنا جانا نظر آتا ہے۔
(کالم نگار سابق کورکمانڈر اور وفاقی
سیکرٹری دفاع رہے ہیں)
٭……٭……٭
All posts by Daily Khabrain
آئی جی پولیس پنجاب ایک نظر اپنے گھر پر
سید سجاد حسین بخاری
جناب ڈاکٹر راؤ سردار صاحب موجودہ حکومت میں آپ پنجاب میں گزشتہ تین سالوں میں تعینات ہونے والے پانچویں انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔ آپ کی قابلیت اور ایمانداری شک وشبے سے بالا ہے اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ سفارش کی بجائے آپ میرٹ پر کام کرتے ہیں جوکہ آج کے دور میں بہت کم آفیسر ایسا کرتے ہیں۔لودھراں شہر کے آپ رہائشی ہیں جوکہ ہمارے وسیب کا ایک پسماندہ ترین علاقہ ہے۔آپ پنجاب پولیس کے اُس عہدے پر فائز ہیں جو ہر پولیس آفیسر کا خواب ہوتا ہے جسے خدا نے پورا کردیا اور جب تک خدا کو منظور ہوگا آپ اس عہدے پر قائم رہیں گے بس ایک ہی دعا ہے کہ جس عزت سے آپ آئے ہیں اسی طرح عزت سے آپ واپس جائیں۔
میں بھی چونکہ اسی خطے کا رہائشی ایک معمولی سا اخبارنویس ہوں اور زندگی میں اپنی اوقات اور عمر سے زیادہ دیکھ چکاہوں لہٰذا ضروری سمجھتاہوں آپ سے آپ کے محکمے کی چند باتیں شیئرکردوں ممکن ہے کہ آپ ان میں کوئی بہتری لاسکیں۔ پولیس میں صرف ایک عہدہ اہم ہوتا ہے جسے ایس ایچ او کہاجاتا ہے جس کی تعیناتی کیلئے اس علاقے کا سیاستدان اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاکر اپنی پسند کا ملازم لگواکر مرضی کے پرچے‘ پکڑدھکڑ وغیرہ اوراس کا کام اپنے مخالفین کی زندگی کو اجیرن بنانا ہوتا ہے۔ آپ کی بادشاہی میں جنوبی پنجاب وہ خطہ ہے جہاں پر پنجاب بھر میں سب سے زیادہ قتل وغارت‘ اغوا‘ بھتہ‘ قبضہ مافیا‘ منشیات مافیا‘ سٹریٹ کرائم‘ بچوں کے ساتھ نہ صرف زیادتی بلکہ اغوا‘ زنا اور پھر قتل یہ روز کا معمول ہے۔ گزشتہ صرف ایک ماہ کا ریکارڈ آپ اٹھاکردیکھیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے اور یہ تو رپورٹ ہونے والے مقدمات ہیں جبکہ اتنی یا اس سے زیادہ تعداد کے مقدمات کا اندراج ہی نہیں ہوتا۔ عام آدمی سے لیکر ججز اور خود پولیس آفیسر کے گھر تک محفوظ نہیں ہیں۔
اصل خرابی کہاں ہے؟ جی اصل خرابی کی جڑ آپ کا ایس ایچ او ہے اور خصوصاًرینکر ایس ایچ او برائی اور خرابی کی جڑ ہے کیونکہ وہ سپاہی یا اے ایس آئی بھرتی ہوتا ہے جب وہ ایس ایچ او لگتا ہے تو وہ منبع برائی یا خرابی ہوتا ہے اسے اپنے افسر کی بھی پروا نہیں ہوتی وہ دو کاموں سے سی پی او یاڈی پی او کو رام کرتا ہے۔ ایک سیاستدان سے دوسرا مال پانی سے اگر اس کا سی پی او کرپٹ ہو۔
اب ہرتھانے کا ایس ایچ او خصوصاً رینکر چار کاموں پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ پہلا کام وہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کرتا ہے اور ان میں اکثریت پراپرٹی ڈیلر کا فرنٹ مین اس کا ذاتی گارڈ یا ذاتی ڈرائیور ہوتا ہے یا پھر اس کا کوئی دوست اور وہ علاقے میں جو متنازعہ پلاٹ ہوگا یا کسی طاقتور نے کمزور کے پلاٹ پر قبضہ کیا ہوگا تو وہ ایس ایچ او اونے پونے خرید کرفل قیمت پر فروخت کرکے لاکھوں روپے کمالیتا ہے اور بدقسمتی سے آپ کے چندایس پیز لیول کے افسران بھی پراپرٹی کے دھندے میں نہ صرف ملوث ہیں بلکہ قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں جس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ پولیس کے افسران کا دوسرا بڑا کاروبار آج کل پولٹری شیڈز ہیں جن کے ذریعے کالے دھن کو پولیس افسران سفید کرتے ہیں اور جنوبی پنجاب میں تیسرا بڑا دھندہ پولیس افسران آج کل ایرانی تیل کی سمگلنگ کا کرتے ہیں۔ بڑے افسران نے کسٹم کے عملے کو ماہانہ رشوت طے کی ہوئی ہے اور صرف ڈیرہ غازیخان کے راستے سینکڑوں ٹرالے جنوبی پنجاب اور پھر پنجاب بھر میں داخل ہوتے ہیں۔یہ تینوں کام پولیس افسران آج کل بڑی ”محنت“اور”لگن“ سے کررہے ہیں جبکہ چھوٹے دھندوں میں منشیات‘چوریاں اورڈکیتیاں شامل ہیں۔ متعدد وارداتیں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں خصوصاً ڈاکوؤں کی تعداد‘واردات کا وقت‘ استعمال ہونے والی گاڑی یا موٹرسائیکل‘ مجھ جیسا غریب متاثر جب تھانے میں اپنا کیس بتاتا ہے تو مقامی پولیس کا افسر متاثرہ شخص کو خود بتاتا ہے کہ 125سی سی موٹرسائیکل تھی‘تین آدمی تھے دو نے منہ پر ماسک اور تیسرے نے ہیلمٹ پہناہوا تھا اور موٹرسائیکل والا دور کھڑا تھا؟؟؟مجھے تفصیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت جنوبی پنجاب میں سب سے بڑا دھندہ غریب اور کمزور یا غیرممالک میں مقیم پاکستانیوں کی پراپرٹی پر قبضہ ہے جو مقامی ایس ایچ او اورچند ایس پی کی ملی بھگت سے ہورہا ہے۔ جعلی کاغذات کا بننا اور پھر سول جج سے حکم امتناعی کو پولیس بہانہ بناکر مالک سے مک مکا کرکے لین دین کرتی ہے۔ میری آپ سے صرف ایک ہی درخواست ہے کہ آپ نوجوان جو مقابلے کا امتحان پاس کرکے آئے ہیں انہیں ایس ایچ او لگائیں رینکر کو دور رکھیں اور ہر تھانے میں تفتیش بھی نوجوان سب انسپکٹروں سے کرائیں۔ اسی طرح سرکل میں سی ایس پی پولیس افسران کو لگائیں۔ رینکر ایس پی کو قطعاً نہ لگائیں کیونکہ تمام برائی اور خرابی کی جڑ رینکر پولیس افسر ہے۔ خدارا ہمارے وسیب میں تمام گینگز کا خاتمہ کریں جب تک یہ کام نہیں ہوگا۔ پنجاب میں وارداتیں کم نہیں ہوں گی۔ ایس ایچ او کو ہر ڈکیت‘ چور قبضہ گروپ کا بخوبی علم ہوتاہے مگر وہ مقامی سیاستدان کے ہاتھوں بے بس ہے۔آپ صرف اتنا کریں۔
میرٹ پر نوجوان ایس ایچ اوز کی تعیناتیاں‘ سرکل میں بھی نوجوان اے ایس پی کی تعیناتی‘اغوا‘زنا اور قتل کرنے والے مجرموں کو پولیس مقابلوں میں اڑادیں۔
ذاتی کاروبار کرنے والے پولیس افسران کی تعیناتی پر پابندی لگادیں۔
سٹریٹ کرائم کرنے والوں کا ریکارڈ ہر تھانے میں موجود ہے ان کا خاتمہ۔
منشیات اور قبضہ گروپوں کے خلاف موقع پر سخت سے سخت کارروائیاں۔
جناب آئی جی صاحب۔ آپ کو ان تمام باتوں کا پہلے سے علم ہے میں نے صرف آپ کو یاددہانی کیلئے لکھا ہے۔ یہ بہت آسان اور مجرب فارمولا ہے اور آپ ایساکرسکتے ہیں۔
(کالم نگارقومی امورپرلکھتے ہیں)
٭……٭……٭
سابق کپتان محمد یوسف کورونا کا شکار
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور ٹیسٹ کر کٹر محمد یوسف کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سابق کرکٹر محمد یوسف پاکستان کے ٹی ٹوئنٹی پلئیر کے کیمپ میں بطور کوچ دستیاب نہیں ہونگے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد یوسف کی عدم موجودگی میں عمر رشید ٹی ٹوئنٹی پلیئرز کی نگرانی کریں گے۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ سیریز اور ورلڈ کپ اسکواڈ کے 5 کھلاڑیوں کا 16 ستمبر سے کیمپ شروع ہو رہا ہے۔
طالبان پر عائد پابندیاں ختم نہیں کریں گے، امریکا
واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان پر عائد اقتصادی پابندیاں نہیں ہٹائیں گے تاہم انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی مالی امداد کو یقینی بنایا جائے گا۔
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن نے سینیٹ میں ارکان کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے واضح انداز میں بتایا کہ طالبان پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا البتہ اقوام متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کی مدد سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی امداد جاری رکھی جائے گی۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید بتایا کہ رواں مالی سال افغان شہریوں کو 33 کروڑ ڈالر کی مالی امداد فراہم کی جائے گی اور یہ اعانت افغان شہریوں کو طالبان کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست پہنچانے کے انتظامات کیے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی امریکا نے نئے پیکج کے تحت 6 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی مالی امداد کا اعلان کیا تھا۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ افغان شہریوں کی مالی امداد میں اضافے سے صحت اور غذا کی ضروریات پوری کی جاسکیں گی جب کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
دو روز قبل اقوام متحدہ کی عالمی ڈونر کانفرنس میں افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر جمع ہوئے تھے جب کہ اقوام متحدہ نے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کو رواں برس کے آخر تک غذا، صحت، پناہ اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے عالمی برادری سے 60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے عطیات کی اپیل کی تھی۔
یورپی یونین کی سربراہ نے بھی افغان شہریوں کو خوراک اور ادویہ کی فراہمی کے لیے 10 کروڑ اضافی مالی امدا کا اعلان کیا ہے جب کہ افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی وانگ یو نے امارت اسلامیہ کے وزیر خارجہ امیر اللہ متقی سے ملاقات میں ڈیڑھ کروڑ مالی امداد کا اعلان کیا تھا
افغان خواتین فٹبالرز کی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آمد, پاکستان نے کل 115 افراد کو ویزے جاری کئے ہیں،حکام
افغانستان ویمن فٹبالر اپنی فیملیز اور کوچز کے ساتھ لاہور پہنچ گئیں۔
افغانستان کی خواتین فٹ بال کھلاڑی اور عہدیدار گذشتہ روز طورخم سرحد کے راستے پاکستان پہنچی تھی۔
صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت افغانستان ویمن فٹبالرز اپنی فیملیز اور کوچز کے ہمراہ لاہور میں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں کل 115 افراد کو ویزے جاری کیے جبکہ پہلے مرحلے میں 79 افراد پاکستان آئے ہیں جن کا استقبال پی ایف ایف اور سپورٹس بورڈ پنجاب کے حکام نے کیا ہے۔
اشفاق حسین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے دستے کے قیام کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔
ادھر پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کھلاڑیوں اور عہدیداروں کو خوش آمدید کہا اور واضح کیا کہ ان تمام کھلاڑیوں اور عہدیداروں کے پاس افغان پاسپورٹ اور پاکستان کے ویزے ہیں
نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ون ڈے کیلیے قومی ٹیم کا اعلان
راولپنڈی: نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جارہی ون ڈے سیریز کے پہلے میچ کے لیے قومی ٹیم کے 12 کھلاڑیوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میچ کے لیے 12 رکنی اسکواڈ میں بابراعظم (کپتان)، شاداب خان (نائب کپتان)، فخر زمان، حارث رؤف، حسن علی، افتخار احمد، امام الحق، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، سعود شکیل، شاہین شاہ آفریدی، عثمان قادر اور زاہد محمود شامل ہیں۔
پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین 3 میچز پر مشتمل ون ڈے انٹرنیشنل سیریز کا پہلا میچ جمعے کو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ میچ دوپہر 2:30 بجے شروع ہوگا۔ سیریز میں شامل بقیہ دو میچز 19 اور 21 ستمبر کو کھیلے جائیں گے، جس کے بعد دونوں ٹیمیں لاہور روانہ ہوجائیں گی، جہاں پانچ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کی سیریز 25 ستمبر سے 3 اکتوبر تک قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلی جائے گی۔
آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد
آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد ہائی کورٹ نےآئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست ناقابل سماعت قار دیتے ہوئے نمٹا دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کرانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی، درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی تجویز مسترد کر چکا ہے اور قائمہ کمیٹی کے سامنے 37 اعتراضات جمع کرائے، الیکشن کمیشن کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی نہیں روکی جا سکتی، پی ٹی آئی کے سوا تمام دیگر سیاسی جماعتیں اور خود الیکشن کمیشن بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے خلاف ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات کے حوالے سے مفصل رپورٹ طلب کی جائے، وفاقی حکومت کو الیکشن 2023 کے لیے الیکشن کمیشن کے کام میں مداخلت سے روکا جائے۔
دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال روکنے کی درخواست مسترد کردی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ہائی کورٹ مناسب فورم نہیں جہاں سیاسی عدم استحکام سے متعلقہ معاملات کو اٹھایا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے لیے تو قانون سازی نہیں ہو گی؟، ابھی یہ درخواست قبل از وقت نہیں؟ ابھی تو اس پر بحث ہو رہی ہے، میں آرڈر کر دوں گا آپ کو الیکشن کمیشن کے اعتراضات کی کاپی مل جائے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
ڈونلڈ ٹرمپ بمقابلہ پاکستانی حکمران
عبدالستار خان
پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی بھی سیاستدان جب ملک کا صدر‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنتاہے تو بہت سے تنازعات کامجموعہ بن جاتاہے۔ کبھی کرپشن کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے۔ کبھی واقعی بہت سنجیدہ قسم کی رپورٹ میڈیا میں آجاتی ہے۔کبھی تحقیقاتی ادارہ یا تو انکوائری شروع کردیتا ہے یا پھرگرفتار کرلیتاہے یا پھر کسی عدالت سے رہائی ہو جاتی ہے اوریا پھر سزا مل جاتی ہے۔ یعنی کہ کسی بھی صدر‘وزیراعظم اور وزیراعلیٰ چاہے اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ وہ تنازعات کے حوالے سے سب ہی زیادہ جانا اورپہچانا جاتا ہے۔ کتنی حقیقت ہے‘کتنی صداقت‘ بہرحال ہمارے لوگ حکمرانوں کو برائی کی جڑ سمجھنے پرمجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسا یقین ہونا شروع ہوجاتاہے کہ جیسے ملک کے تمام ترمسائل کی بنیادی وجہ ہی حکمران ہیں۔لیکن آج میں ایک ایسی صورتحال کو سامنے لا رہا ہوں جس نے ہمارے مبینہ طورپر یا حقیقی طورپر ہمارے کرپٹ حکمران ایک مسئلے پر کسی دوسرے ملک کے صدرسے بہتر ثابت ہوئے ہیں اور وہ ملک پاکستان کی نسبت اور غالباً پوری دنیاکے ممالک کی نسبت قانونی اوراخلاقی طورپر بہتر روایات کاپابند مانا جاتاہے اور وہ ملک ہے امریکہ اوروہ حکمران ہے امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔
ہم ایک چیز حقائق اور دستاویزاتی ثبوت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نسبت پاکستان کے موجودہ اور سابقہ صدر‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ زیادہ انکم ٹیکس جمع کرواتے رہے ہیں۔ آنے والے وقتوں میں ڈونلڈ ٹرمپ انکم ٹیکس کیس کی زد میں آسکتے ہیں اورکم ازکم انہیں 70ارب روپے دینے پڑ سکتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ہزار سولہ اور دوہزار سترہ میں مجموعی طورپر صرف اورصرف ایک لاکھ ستاون ہزار چارسو روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دوہزار سولہ میں دو لاکھ پانچ ہزار 5سو چوّن روپے اوردوہزارسترہ میں تین لاکھ ستّر ہزار5سو گیارہ روپے انکم ٹیکس دیاتھا۔ مجموعی طورپر ان دونوں سالوں میں پاکستانی صدرڈاکٹر عارف علوی نے پانچ لاکھ اناسی ہزار باسٹھ روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی انہی دو سالوں کے انکم ٹیکس سے چار لاکھ اکیس ہزار چھ سو پینسٹھ روپے زیادہ ہے۔
اسی طرح سے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے 2016ء میں ایک لاکھ انسٹھ ہزار روپے اور دو ہزار سترہ میں ایک لاکھ تین ہزار تریسٹھ روپے انکم ٹیکس دیاتھا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک لاکھ5ہزار نو سوبہتر روپے زیادہ ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف صاحب نے دوہزار سولہ میں پچیس لاکھ تیس ہزار2سوتیرہ روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں دو لاکھ تریسٹھ ہزار ایک سو تہتر روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر نوازشریف صاحب نے ان دوسالوں میں ستائس لاکھ چھیاسی ہزار تین سو چھیاسی روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے چھبیس لاکھ اٹھاسی ہزار نو سو چھیاسی روپے زیاد ہ ہیں۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دوہزار سولہ میں چھبیس لاکھ اُنسٹھ ہزار ایک سو تراسی روپے اور دوہزار سترہ میں تیس لاکھ چھیاسی ہزار نو سو روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں کے دوران شاہد خاقان عباسی صاحب نے ستاون لاکھ چھیالیس ہزار دوسو اکہترروپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے پچپن لاکھ اٹھاسی ہزار آٹھ سو اکہتر روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف صاحب نے دوہزار سولہ میں 95,00,000روپے انکم ٹیکس دیا اوردوہزار سترہ میں ایک کروڑ روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر شہبازشریف نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ95لاکھ روپے جمع کرائے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے انہی دو سالوں میں جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ ترانوے لاکھ 45ہزار روپے زیادہ ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب نے دوہزار سولہ میں 1,16,600روپے اوردوہزار سترہ میں 9,88,864روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سید مراد علی شاہ صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,646روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے9,48,064روپے زیادہ ہیں۔
کے پی کے سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے دو ہزارسولہ میں 8,18,869روپے انکم ٹیکس دیا اور2017ء میں 9,27,500روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر پرویزخٹک صاحب نے ان دو سالوں میں 11,500,644روپے انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے15,88,984روپے زیادہ ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری صاحب نے2016ء میں 14,11,000اور 2017ء میں ایک کروڑروپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر سردارثناء اللہ زہری نے ان دوسالوں میں ایک کروڑ14لاکھ روپے انکم ٹیکس دیا جوڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ تریپن ہزار چھ سو روپے زیادہ ہیں۔
بلوچستان کے موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے2016ء میں 40,17,743روپے انکم ٹیکس دیا۔2017ء میں 61,45,989روپے انکم ٹیکس دیا۔ مجموعی طورپر ان دوسالوں میں جام کمال خان نے ایک کروڑ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار7سو23روپے انکم ٹیکس دیاجو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے گئے انکم ٹیکس سے ایک کروڑ روپے زیادہ ہیں۔
موجودہ وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان نے 2016ء میں کوئی انکم ٹیکس نہیں دیاتھا لیکن2017ء میں 2,32,725انکم ٹیکس دیا جو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جمع کرائے انکم ٹیکس سے 75,325روپے زیادہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی انکم ٹیکس کا موازنہ پاکستان کے موجودہ اورسابقہ وزیراعظم‘موجودہ اورسابقہ وزیراعلیٰ سے کرنے کایہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہمارے سابقہ اورموجودہ حکمران امریکہ کے سابقہ صدر سے بہتر حکمران ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ڈرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے امریکہ کیInternal Revenue Service(IRS) یعنی کہ پاکستانیFBRکے پاس ہے امریکہ کے سابقہ صدر نے امریکہ کی انتہائی پیچیدہ ٹیکسیشن نظام کو انکم ٹیکس بچانے کے حوالے سے exploitکیا۔
پچھلے کئی سالوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی کمپنیاں خسارہ ظاہر کرتی رہیں اور انکم ٹیکس بچاتی رہیں لیکن اگرIRSنے ڈونلڈ ٹرمپ کے کیس کی پیچیدگیاں پکڑنے میں کامیاب ہوگئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کو فوری طورپر70ارب روپے کے قریب ٹیکس جمع کروانا پڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل بھی بری طرح متاثر ہو سکتاہے۔ امریکہ میں بہرحال یہ تاثر رہاہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کیImpeachmentسے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انکم ٹیکس کے حوالے سے کیس خطرناک ہے۔اسی لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ بچ نہیں سکتا لیکن پاکستان میں معاملہ بالکل ہی برعکس ہے۔ موجودہ حکمران سابقہ حکمرانوں کا رونارو رہا ہوتاہے اور سابقہ حکمران موجودہ حکمرانوں کو لعن طعن کررہے ہوتے ہیں کوئی بھی سیاسی جماعت اورسیاسی رہنما مبّرہ نہیں۔ ایک دوسرے کو کوسنے اورذاتیات پرکیچڑ اُچھالنے کے علاوہ سیاستدانوں کے پاس کوئی اور مناسب کام وقت گزاری کے لئے نہیں ہے۔
پی پی کادورہوتوFIAمسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے پیچھے پڑ جاتی ہے اورپھر مسلم لیگ ن کے دور میں پی پی پی کے رہنماؤں کی باری آجاتی ہے اور پھر اگر ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومت نہ ہوتوNABان دونوں سیاسی جماعتوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔NABپر تنقید کرنے سے پہلے دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہNABزیادہ ترانہی کیسوں کو لے کر آگے چل پڑتی ہے جو دراصل انہی دونوں جماعتوں کے دور میں ایک دوسرے کے خلاف بنائے گئے ہوتے ہیں۔
نوازشریف صاحب ہوں‘آصف زرداری صاحب ہوں‘ ہر ایک سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ ہی کردار کشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ امریکی نظام میں کسی بھی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کے بچنے کاامکان ختم ہو جاتاہے جب ان کے خلاف کوئی چیز ثابت ہو جائے لیکن پاکستانی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں بچنے کی ضرورت سے زیادہ گنجائش ہے اوراگر کوئی شخصیت کسی بھی قسم کی کارروائی کی زد میں آجاتی ہے تو غالباً امکان بن جاتاہے کہ نظام تو غالباً ثابت نہ کرسکا لیکن طاقت اور اثرورسوخ استعمال ہو گیا۔
(کالم نگارمعروف صحافی‘اینکرپرسن ہیں)
٭……٭……٭
بیت المقدس،عالم اسلام اور اقوام متحدہ
سراج الحق
رمضان کریم کی بابرکت اور ایک ہزار مہینوں سے افضل رات لیلۃ القدر میں جب پوری دنیا کے مسلمان عبادت و ریاضت میں مصروف تھے۔فلسطین کے ہزاروں مسلمان بھی بیت القدس میں اپنے رب کے حضور سربسجود تھے کہ اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور گولہ باری اور فائرنگ سے عبادت میں مصروف سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا۔مسجد کا صحن لاشوں اور زخمیوں سے بھر گیا اور فرش فلسطینیوں کے پاکیزہ خون سے لہو رنگ ہو گیا۔ اسرائیل نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غزہ کو کھنڈر اور ملبے کا ڈھیر بنادیا۔دنیا میں میڈیا کی آزادی کے بڑے بڑے دعویدار وں کے سامنے غزہ میں کئی منزلہ عمارت کو میزائلوں سے تباہ کردیا گیا جس میں مختلف ملکوں کے درجنوں ٹی وی چینلز کے دفاتر تھے مگر مجال ہے اس اندھی گونگی اور بہری اقوام متحدہ پر کہ ایک بھی لفظ مذمت کا بولا ہو۔اسرائیل نے گیارہ روزہ جنگ میں ساڑھے تین سو نہتے فلسطینیوں کو میزائلوں کی بارش کرکے شہید کردیا،جن میں سو سے زائدمعصوم بچے اور چالیس خواتین بھی شامل ہیں جبکہ ہزاروں زخمی اور ڈیڑھ لاکھ بے گھر ہیں۔ امریکہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف چار بار مذمتی قرارداد کو روکا اور مسلسل اسرائیل کی سرپرستی کرتا رہا۔ امریکہ نے محض اپنا اسلحہ بیچنے کیلئے جگہ جگہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔یواین او نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کی،سلامتی کونسل میں سات کفن چوروں کا ٹولہ بیٹھا ہے۔یواین او کا کردار مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متعصبانہ رہا ہے۔فلسطین اور کشمیر کے مسائل ابھی تک صرف اس لئے حل نہیں ہوسکے کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اسلامی ملک کے حصے بخرے کرنے ہوں تو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسے مسائل خود ہی پیدا کئے جاتے ہیں اور پھر گھنٹوں میں حل ہوجاتے ہیں۔عالم اسلام کے کمزور حکمران عالمی استعمار کی غلامی پر راضی ہیں۔یہ یہودیوں یا ہندوؤں کو نہیں بلکہ اپنے ہی عوام کو ڈراتے رہتے ہیں۔
بیت المقدس وہ مسجد ہے جس میں امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے حضرت آدم ؑ سے لیکر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء کی امامت کی اور وہیں سے آپ ﷺمعراج شریف پر تشریف لے گئے۔بعثت کے بعد آپ ﷺ ڈیڑھ سال تک مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے اسی لئے اسے مسلمانوں کے قبلہ اول کی حیثیت حاصل ہے۔
مسئلہ کشمیر کی طرح مسئلہ فلسطین بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے جس نے پہلی عالمی جنگ کے بعد 1918 سے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر سرزمین فلسطین پر بسانا شروع کیا اور اس کو یہودیوں کیلئے ”قومی گھر“قرار دیا۔1948میں اسرائیل کو باقاعدہ ایک ملک کی حیثیت دیکر عالم اسلام کے عین سینے میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ اسرائیل ایک فاشسٹ اور ناجائز ریاست ہے جس کی پون صدی سے امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی استعماری قوتیں سرپرستی کررہی ہیں۔ 636ء میں عرب فاتحین نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیراسے فتح کر لیا یہودی یہاں ہمیشہ اقلیت میں رہے۔یہودیوں نے اپنی سازشوں سے کبھی اس خطہ کو امن نصیب نہیں ہونے دیا،صلیبی جنگوں میں عیسائیوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا،1189ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔
1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے اس علاقے سے 1948ء میں اپنی افواج واپس بلالیں اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ عالم اسلام نے ظلم و جبرکے اس فیصلے کومسترد کر دیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے اسرائیل پر حملہ کر دیا،مگر اپنوں کی بے وفائی اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے اسے ختم کرنے میں ناکام رہے۔ 1949ء میں اسرائیل نے عربوں کے ساتھ الگ الگ صلح کے معاہدے کیے اس کے بعد اردن نے غرب اردن کے علاقے پر قبضہ کر لیا جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی اپنی تحویل میں لے لی۔ 1967میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کرکے نہ صرف نہر سوئیزپر قبضہ کرلیا بلکہ غزہ فلسطین کے ایک لاکھ آٹھ ہزار مربع میل پر قبضہ کرلیا۔
عالم اسلام اب اس حقیقت کو تسلیم کرلے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل قراردادوں اور امریکہ سمیت عالمی استعماری قوتوں کی لونڈی یو این او سے اپنے مسائل کے حل کی بھیک کب تک مانگتے رہیں گے۔ساٹھ سے زیادہ مسلم ممالک جن کے پاس چالیس لاکھ سے زیادہ منظم افواج ہیں، پاکستان ایٹمی قوت بھی ہے مگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کی پر کاہ کے برابر وقعت نہیں، پونے دو ارب مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی اس لئے نہیں دی جارہی کہ ان کیلئے کوئی ٹھوس آواز اٹھانے کیلئے تیار نہیں۔ امت کے مسائل کے حل کیلئے اگر عالم اسلام کے حکمران متحد نہ ہوئے تو پھر وہ وقت دور نہیں جب بزدل حکمرانوں سے نجات کیلئے دنیا بھر کے مسلمان متحد ہوجائیں گے۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ عالم اسلام فلسطین،کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے مشترکہ طور پر ٹھوس قدم اٹھائیں اور غلامی کی زنجیروں کو ہمیشہ کیلئے کاٹ پھینکیں۔پاکستان ترکی،انڈونیشیا،ایران، ملائشیا اور سعودی عرب سلامتی کونسل میں نمائندگی کیلئے متحد ہوجائیں اور جنرل اسمبلی میں دو ٹوک موقف اختیار کریں کہ اگر مسلمانوں کو سلامتی کونسل میں نمائندگی نہ دی گئی تو وہ عالم اسلام کی الگ مسلم اقوام متحدہ بنالیں گے۔قبلہ اول کی حفاظت کیلئے مسلم ممالک اپنی فوج بھیجیں۔جن مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے وہ فوری طور پر اعلان لاتعلقی کریں۔ فلسطین کے تحفظ اور بحالی کیلئے عالم اسلام مشترکہ فنڈ قائم کرے۔عالم اسلام کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنا ہونگے۔پاکستان کے لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے عالم اسلام کے ہر مسئلے پر اپنی ذمہ داری پوری کی۔
(امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں)
٭……٭……٭
معیشت کی بہتری اورگردشی قرضے
ڈاکٹر شاہد رشیدبٹ
ایک جانب حکومت کی جانب سے معیشت میں بہتری کے دعوے ہیں تو دوسری جانب زمینی صورتحال حکومت کے دعوؤں کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہو ئی نظر نہیں آتی ہے۔عوام مسلسل مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں اور روز مرہ استعمال کی اشیا ء سمیت ہر چیز کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔بڑھتی ہو ئی مہنگائی کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہو ئی بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتیں ہیں۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی میں اپنے گزشتہ کالمز میں با رہا نشان دہی کرتا آیا ہوں،کہ پاکستان کی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن ملک کی معیشت کے لیے زیر قاتل ہے جس پر جلد از جلد قابو پایا جانا ضروری ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی برآمدات 25.3ارب ڈالر جبکہ ترسیلات زر 29.4ارب ڈالر رہیں تھیں،جبکہ حکومت کو 1.5ارب ڈار روشن ڈیجیٹل اکا ؤنٹ کی مدد میں بھی حاصل ہو ئے اور کل ملا کر یہ رقم 56ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔
پاکستان کی کی درآمدات کل ملا کر اس سے کم رہیں جس کے نتیجے میں ہم نے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کچھ عرصے کے لیے منفی سے نکل کر مثبت ہو تے ہوئے بھی دیکھا لیکن اب ایک بار پھر پاکستان کا کرنٹ اکا ؤنٹ خسارہ 2ارب ڈا لر کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔اس سال حکومت نے برآمدات کا تخمینہ 30ارب ڈالر لگایا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کی نسبت 5ارب ڈالرسے زائد ہے،جبکہ ترسیلات زر 31ارب ڈالر رہنے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے،جبکہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کی مدمیں بھی حاصل ہو نے والی رقم کا تخمینہ 2.5ارب امریکی ڈالر ہے۔اس طرح زرمبادلہ کی مدد میں پاکستان کی رواں مالی سال کل آمدنی کا تخمینہ 64ارب ڈالرز کے قریب ہے۔کچھ پڑھنے والوں کے ذہن میں یہ بات یقینا گردش کررہی ہوں گی جب ملک کی برآمدات بڑھ رہی ہیں،ترسیلات زر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور روشن ڈیجیٹل اکا ونٹ سے بھی حکومت کو زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے تو پھر آخر کیوں ڈالر کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہے اور روپے پر اتنا دباؤ کیوں آرہا ہے،جس کے باعث کہ پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔اس بات کا آسان جواب یہی ہے کہ جس رفتار سے پاکستان کی برآمدات اور ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ رفتار کے ساتھ پاکستان کی درآمدات بڑھ رہی ہے گزشتہ ماہ پاکستان کی برآمدات تقریبا ً ایک ماہ کے عرصے کے دوران 2.3ارب ڈالر رہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات 5ارب ڈالر سے زیادہ تھیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ ایک بار پھر دباؤ میں ہے،پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔اندازے کے مطابق اس سال درآمدات کا حجم 70ارب ڈالر کے قریب رہنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی درآمدات اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں جو کہ یقینا حکومت اور عوام کے لیے بھی فکر کا باعث ہے۔روز بروز بڑھتی ہو ئی مہنگائی عوام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے،اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر اکتوبر میں بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافے کی خبریں عوام کی بے چینی میں مزید اضافہ کررہی ہیں۔حکومت کو اس حوالے سے بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
صرف بہتر اشاریوں کی باتیں کرنے سے عوام کو ریلیف نہیں ملے گا اس کے لیے حکومت کوعملی طور ہر سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔اگر معیشت میں تیزی ہے تو اس کافائدہ عوام کو ملنا چاہیے ورنہ ایسے معاشی استحکام کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے سیاسی طور پر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔یہاں پر میں ایک اور موضوع پر بات کرنا چاہوں گا،وہ یہ ہے پاکستان کا توانائی کا شعبہ جس نے گزشتہ کئی برس سے پاکستان کی معیشت کو یر غمال بنا رکھا ہو ا ہے،اور بڑھتے ہوئے گردشی قرض اور دوسری طرف بڑھتی ہو ئی توانائی کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ پاکستان کی صنعتوں کا بھی برا حال کر دیا ہے،حکومت نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران برآمدی صنعت کے لیے تو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا ہے اور اس حوالے سے ان صنعتوں کو خصوصی سبسڈی بھی دی جا رہی ہے لیکن دیگر شعبے ابھی بھی توانائی کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اس معاملے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں موجودہ دور میں کی گئی ہیں لیکن ان کوششوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا ہے۔
حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ ازسر نو معاہدے کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور کچھ آئی پی پیز کے ساتھ حکومت کے نئے معاہدے بھی ہوئے ہیں لیکن مجموعی طورپر پاکستان کے سرکلر ڈیٹ اور توانا ئی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہیں آسکی ہے۔اس سلسلے میں حالیہ دنوں کے دوران ہی ایک نئی پیشرفت سامنے آئی ہے جو کہ حوصلہ افزا ہے اور اس حوالے سے امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ نئی پیشرفت توانائی کے شعبے کی بہتری کے لیے اہم ثابت ہو گی۔
مشترکہ مفادات قونصل نے توانائی کی خریداری کے حوالے سے 2005ء سے زیر التوا آئی جی سی ای پی ماڈل کی منظوری دے دی ہے۔اس معاہدے کے دو بنیادی نکات ہیں ایک تو یہ کہ حکومت بجلی گھروں سے ضرورت کے مطابق یعنی کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کی بنیاد پر بجلی خرید سکے گی اور دوسرا یہ کہ اوپن بڈنگ کے ذریعے حکومت سب سے کم بولی لگانے والے بجلی گھر سے بجلی خرید سکے گی،ایک تو اس معاہدے سے توانائی کے شعبے میں مقابلہ بڑھے گا اور مسابقت کو فروغ ملے گا حکومت کی جان کیپسیٹی ادائیگوں سے چھوٹ جائے گی اور بجلی کم قیمت پر حاصل کی جاسکے گی جس کے باعث نہ صرف گردی قرض میں خاطر خواہ کمی آنے کا امکان ہے بلکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔توانا ئی کا شعبہ ملکی معیشت کے لیے ایک اندھا کنواں بن چکا ہے اور اس شعبے میں وسیع پیمانے پر فوری اصلاحات کی ضرورت موجود ہے،یہ آمر خوش آئند ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔اللہ کرے کہ توانائی شعبے سمیت تمام دیگر شعبوں میں آنے والے دنوں میں نمایاں بہتری آئے جس سے ملکی معیشت بھی مضبوط ہو اور عوام کو بھی ریلیف مل سکے۔
(سابق صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس ہیں)
٭……٭……٭