لاہور (خصوصی رپورٹ) سپریم کورٹ سے نااہلی کیس میں نظرثانی کی اپیل خارج ہونے کے بعد شریف خاندان نے احتساب عدالتوں میں پیش ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے حکمت عملی بنالی۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جائے گا اور ان کی طرف سے وکیل پیش ہوکر ان کے پاکستان سے باہر ہونے کے حوالے سے کہہ کر وقت نکالنے کی کوشش کرے گا اور اس میں ساتھ یہ کہا جائے گا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکتے۔ ان کے علاج کے لئے ان کے ساتھ بیرون ملک ہیں۔ نوازشریف اور مریم نواز کی پیشی کے حوالے سے بھی اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ ان کو بھی پیش ہونا چاہئے یا نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پر دو تجاویز رکھی گئی ہیں۔ ایک تجویز کہ اگر مریم نواز پیش ہوتی ہیں تو ان کے ساتھ وکلاءکی بھاری تعداد‘ مسلم لیگی اہم رہنما اور متحرک پارٹی کارکن بھی ساتھ جائیں گے اور دوسری اس تجویز پر بھی غور کیا جارہا ہے کہ پہلی پیشیوں پر صرف وکلاءکو بھیجا جائے یا پھر مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں مریم نواز اور نوازشریف نے اپنے وکلاءسے قانونی رائے بھی مانگی کہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں تو پھر کیا پوزیشن ہوگی۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق نیب میں پیش ہونے کے حوالے سے اسحاق ڈار اور شریف خاندان دونوں میں اختلاف بھی ہے۔ اسحاق ڈار عدالتوں میں پیش ہوکر اس کیس کو لمبا کرنے کی تجویز دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف شریف خاندان اسحاق ڈار کو واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ جو فیصلہ ہم کریں گے اس پر ہی آپ کو عمل کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق پہلی پیشی پر پیش نہ ہونے کے بعد مریم نواز اور اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوسکتے ہیں اور پولیس کی بجائے دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کے احکامات بھی جاری ہوسکتے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک وفاقی وزیر اور ان کے قانونی مشیروں نے شریف خاندان کو یہ واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ ہم اب عدالتوں کے پراسیکیوٹر کو اپروچ کرلیں گے یا ان سے کوئی مدد لے لیں گے تو یہ موجودہ حالات میں ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ذرائع کے مطابق شریف خاندان احتساب عدالتوں کے حوالے سے پیش ہونے یا نہ ہونے کیلئے فیصلہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں کرلیں گے اور اس سے پہلے ان کے وکلاءمیڈیا کو بھی اس حوالے سے بتائیں گے۔
