لاہور (ویب ڈیسک) برمی لڑکی فاطمہ کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔ برمی فوجیوں کی درندگی اور ان کی ہوس کا شکار ہونے کے بعد وہ نہ جانے کس برمی فوجی کے بچے کی ماں بنی تھی کیونکہ اس جیسی بے بس اور لاچار مسلمان لڑکیاں ہر ماہ کسی نہ کسی برمی فوجی کے بچے کی مائیں بن رہی تھیں۔ فاطمہ کو جب ا پنے تئیں انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے بازیاب کرایا تو اس وقت تک اس کیمپ میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ سو بن بیاہی کم سن مائیں، نوے بچوں کو جنم دے چکی تھیں، ان بچوں کو بدھ بھکشو گود میں لئے اپنی مذہبی تعلیمات دے رہے تھے۔ فاطمہ رہائی کے بعد تھائی لینڈ پہنچا دی گئی لیکن اس کی اذیتوں کا سفر ختم نہیں ہوا۔ اس کو جسم فروشی کے ا ڈے پر پہنچا دیا گیا۔ فاطمہ کی اس کہانی کا مقصد پوری دنیا کے ضمیر کو بیدار کرنا ہے کہ وہ دیکھے روہنگیا مسلمانوں کی بیٹیوں کے ساتھ میانمار کی سرزمین پر کتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ امی نے مجھے رات کو ہی کہہ دیا تھا کہ نماز فجر کے بعد تم اپنی چھوٹی بہن کو مدرسہ چھوڑنے چلی جانا کیونکہ صبح انہیں نرسنگ ہوم جانا تھا۔ امی بہت خوش بھی تھیں اور غمزدہ بھی۔ انہیں امید تھی کہ آج ان کے ہاں جو بچہ ہونے والا ہے وہ بیٹا ہو گا۔ نرس نے انہیں آج صبح کا وقت دے رکھا تھا کہ وہ مسجد سے آگے نرسنگ ہوم میں آ جائیں تاکہ ان کی ڈلیوری کا بندوبست کر دیا جائے کیونکہ امی کے ہاں اولاد نارمل نہیں ہوتی تھی۔ انہیں دمہ بھی تھا اس لئے نرس اپنے سٹاف کے ساتھ ان کا خاص خیال رکھتی تھی۔ امی کو غم اس بات کا تھا کہ پچھلے چھ مہینے میں اب ہمارے ٹاﺅن میں بھی برمی فوجی غارت گری کرنے آتے تھے۔ ان کے ساتھ بھکشو (بدھ مت والے) بھی ہوتے تھے جو جس مسلمان کے گھر کی نشاندہی کرتے تو ان گھروں کے مردوں اور عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانک کر لے جایا جاتا تھا۔ یہ لوگ پھر کبھی واپس نہیں آتے تھے۔ ان کا کیا جرم ہوتا تھا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا کیا بنتا رہا، اس وقت تو صرف قیاس آرائیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہو گا۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ اگر کوئی مسلمان یہ جاننے کی کوشش کرتا تو اس کے گھر والوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔ ابا میاں اس بات پر کڑھتے تھے کہ پرامن اور پڑھے لکھے مسلمانوں کو راتوں رات غائب کر دیا جاتا ہے اور کوئی اس کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ وہ اس کے لئے آواز بننا چاہتے تھے۔ دور کے علاقوں اور ساحلی دیہاتوں میں برمی فوجیوں اور بدھیوں نے مسلمانوں کا جو خون بہا کر ان کے گھروں کو جلایا تھا اس کی خبریں ہم تک پہنچ گئی تھیں اور یہ ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ مسلمانوں کے کسی گاﺅں میں گھس جاتے اور مردوں کا قتل عام کرتے، گھر جلاتے اور کم سن نوجوانوں لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے۔ اسی وجہ سے ہمارے قصبہ میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود قدرے خاموش تھے۔ مسجد یا گھروں میں برمی فوج اور بدھیوں کے ظلم پر تبصرے ہو رہے تھے، قصبہ میں جن لوگوں کے پاس موبائل تھے ان پر بھی ان کو کچھ خبریں مل جاتی تھیں، انٹرنیٹ تو محدود تھا البتہ جتنا بھی وسیلہ تھا خبر کسی نہ کسی صورت ہم سب تک پہنچ ہی جاتی۔ ان حالات میں انی کا ڈرنا انجانے خوف کا باعث بن گیا تھا کیونکہ ظلم کی یہ دستک ہمارے گھروں تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ہمارے قصبہ میں الحمد للہ پانچوں وقت کی نماز میں اجتماع دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ سارے مسلمانوں میں اتفاق تھا۔ صرف تین گھر بدھیوں کے تھے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت اچھے تھے لیکن نفرت کی آگ ایسی جلی تھی کہ ایک دن معلوم ہوا وہ تینوں گھر خالی ہوگئے ہیں اور وہ نہ جانے کیوں قصبہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں حالانکہ ہمارے قصبہ میں مذہب یا کسی اور وجہ سے ا یک بھی دنگا فساد نہیں ہوا تھا۔ جس دن سے ان بدھیوں نے قصبہ چھوڑا، اس سے چند روز بعد ہی برمی فوج گاڑیوں میں پہنچ گئی اور سب سے پہلے امام مسجد عبدالباری کو اور ان کے گھر والوں اٹھا لے گئی اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ امی کا ڈر اور خوف بجا تھا لیکن میں نے کبھی اس بات کا خوف اپنے ذہن پر سوار نہیں کیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ سال تھی اور یوں مجھے بالغ ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ ابا مدرسہ میں ٹیچر تھے اور نہایت متقی ا ور پرہیز گار۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے دادا نے رنگوں میں قرآن حفظ کیا تھا اور اسلام کی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ ان دنوں جنگ عظیم جاری تھی۔ دادا ہجرت کر کے اس گاﺅں میں آ گئے انہوں نے ہی مسجد تعمیر کی اور مدرسہ بھی بنایا جہاں بچے بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق تعلیم دی جاتی۔ ابا فخر سے بتاتے تھے کہ ان کے دادا کے ہاتھ پر کئی ہندوﺅں بدھیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور وہ بھی اسی گاﺅں میں آباد ہو گئے جو بعد میں ایک بڑا قصبہ بن گیا تھا۔ ا لحمدللہ میرے دادا نے اسلام کی خدمت کا جو پودا لگایا تھا وہ تناور ہوا اور اردگرد کے کئی دیہاتوں تک اس کی چھاﺅں پھیل گئی تھی۔ ابا میاں نے جدید تعلیم کے بعد اسی مدرسہ میں انگریزی پڑھانی شروع کی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے بچپن سے ہی انگریزی پڑھانے لگے۔ روشن خیال بھی تھے کہا کرتے تھے کہ مسلمان لڑکیوں کو دین اور دنیا کا علم پڑھا چاہیے۔ وہ مجھے بھی پڑھا لکھا کر ٹیچر بنانا چاہتے تھے تاکہ میں اسلامی تعلیمات کا پرچار کر سکوں۔ جس جن کی میں بات کر رہی ہوں اس دن ابا میاں امی کو لیکر نرسنگ ہوم چلے گئے یہ ہمارے گھر سے بہت دور نہیں تھا لیکن تنگ راستوں کی وجہ سے آنے جانے میں کافی وقت لگ جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جمعہ کا وقت ہوا تو ابا میاں مسجد میں جمعہ پڑھنے چلے گئے، نرس نے بتا دیا تھا کہ ڈلیوری پانچ بجے کے قریب ہو گی، اس نے امی کو ڈرپ لگا رکھی تھی میں آپ کو یہ بتا دوں کہ ہمارے قصبہ میں برمی حکومت کے حکم سے اذان سپیکر پر دینے کی سخت پابندی ہے، خطبہ بھی صرف واجبی ہے۔ علما کسی قسم کا تبلیغی واعظ نہیں کر سکتے۔ کئی دہائیوں سے برمی حکومت ایسے احکامات جاری کرتی آ رہی ہے اس لئے مسلمان دل پر جبر کرتے ہوئے کبھی اس بات کا مطالبہ نہیں کرتے کیونکہ انہیں برمی حکومت کی جانب سے کسی نیکی اور نرمی کی توقع نہیں۔ میں بہن کو مدرسہ چھوڑ کر گھر واپس آ چکی تھی اور نہانے کے لئے باتھ روم میں چلی گئی کیونکہ مجھے مخصوص ایام کے بعد آج غسل کر کے نماز پڑھنی تھی۔ اچانک مجھے احساس ہوا کوئی ہمارا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا رہا ہے۔ میں نے جلدی سے غسل مکمل کرنا چاہا اچانک باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی، ڈر گئی اور ابھی میں سنبھلنے نہ پائی تھی کہ مجھے کمرے میں بھاری بوٹوں کی آواز سنائی دی اور ساتھ ہی دو گولیاں بھی کسی نے چلا دیں۔ کوئی غصہ سے چیخ کر میرے ابا میاں کو آوازیں دے رہا تھا میں غسل خانے میں ہی ایک جانب کپڑے پہننے کی کوشش میں دبک گئی کہ اچانک غسل خانے کا دروازہ کھلا اور ایک برمی فوجی بندوق کی نال سیدھی کئے مجھ کو کسی بھوکے درندے کی طرح دیکھنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں سے اپنا سینہ ڈھانپنے کی کوشش کی لیکن اس نے بندوق کی نالی سے ان کپڑوں کو جھٹک کر یوں پیچھے پھینکا کہ بندوق کی گرم نالی سے میرے بدن کو شدید جھٹکا لگا۔ فوجی میرے حالت دیکھ کر چیخا اور قہقہے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پکارنے لگا ”دیکھو یہ کتیا کتنی خوبصورت ہے“ اس کی بات سن کر میں سہم گئی۔ اس کی آنکھوں میں ہوس تھی۔ اس نے بندوق کی نالی میرے سینے پر رکھی تو میں یکدم ہڑ بڑا اٹھی۔ مجھے ابا میاں کی بات یاد آ گئی کہ مسلمان بیٹیاں بہادر اور غیرت مند ہوتی ہیں ان کی حیا ہی ان کا سب کچھ ہوتی ہے۔ مجھے موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ میرا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ میں نے دل میں اللہ کو یاد کیا، کلمہ شہادت پڑھ لیا اور سوچا کہ اسطرح نہیں مرونگی، اس سے بہتر ہے لڑ کر شہید ہوجاو¿ں، میں اس فوجی کے مقابلہ میں بہت کمزور تھی لیکن غیرت مند مسلمان بیٹیاں ایسے آوارہ اور شیطان کتوں سے ڈرا نہیں کرتیں، میں کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ میں جو سرڈھانپ کر مدرسہ جایاکرتی تھی اور دوپٹہ کبھی سینے سے نہیں سرکا تھا مگر آج ایک بے شرم اور ظالم فوجی مجھے بے لباس دیکھ رہاتھا، میں نے بندوق کی نالی کو پرے جھٹکا اور یکدم چیخ کر اس فوجی پر پل پڑی، اس وقت اسے یقین نہیں تھا کہ میں اس پر حملہ بھی کرسکتی ہوں، بس مجھے اتنا یاد ہے کہ جونہی وہ جھٹکا کھا کر گرا میں نے غسل خانے میں رکھا کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھایا اور اسکے سر پر اتنے زور سے مارا کہ وہ حرامی دوبارہ اٹھ نہ سکا لیکن اسی لمحہ غسل خانے سے باہر کھڑے فوجی نے بندوق کا دستہ میرے سر پر دے مارا اور میرا سر گھومنے لگا، اس نے مجھے اسی حالت میں گھسیٹ کر باہر نکالا اور بھاری بوٹوں سے میرے جسم کو ٹھوکریں مارنے لگا، اس دوران ایک دوسرا فوجی بولا، ” اسکو ابھی نہ مارو،حرامزادی کو زندہ رکھو اور کیمپ میں لے جاو¿، یہ بھی ہمارے بچے جنم دیگی، دوسری مسلمان لڑکیوں کی طرح ، ہم نے اسکی نسل ختم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور وہ ہم نے پورا کرنا ہے “ ، میں ٹھوکریں کھاکر بیہوش ہوگئی تھی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ میں ابھی تک بے لباس ہوں اور میری جیسی درجن بھر لڑکیاں اور بھی ہیں جن کے جسموں پر کوئی برائے نام لباس ہے ، ان کے چہروں اور بدن پر بھی زخم تھے، کوئی کراہ رہی تھی ،کوئی خاموش تھی لیکن سب اپنے اپنے زخم سہلا رہی تھیں، ان میں سے کئی لڑکیاں حاملہ تھیں، ان کے جسموں پر ہماری طرح رستے زخم نہیں تھے لیکن انکی حالت بتا رہی تھی کہ وہ تشدد کا شکار رہی ہیں، مجھے جب ہوش آیا اور میں نے پانی مانگا تو میری آواز سن کر ایک برمی فوجی آیا اور بولا ، پانی پینا ہے ، میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنا ننگا سینہ چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بے بس نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تو اس نے قہقہ لگایا اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی عورت کی ایسی توہین نہیں ہوئی ہوگی لیکن ہم روہنگیائی مسلمان عورتیں اس کرب اور ذلت سے روزانہ گزرتی ہیں، اس خنزیر کی اولاد نے کھڑے کھڑے مجھ پر پیشاب کردیا اور کہا ، لو پی لو، الفاظ ساتھ نہیں دیتے کہ میں دنیا کی ذلیل ترین فوج کے کرتوتوں کا ذکر کروں، اس نے مجھ پر پیشاب کرنے کے بعد میری عزت کا دامن تار تار کردیا ، میں بہت چیخی ، مزاحمت کی، مدد کیلئے لڑکیوں کو پکارا، مگر وہ تو سب گونگی بہری اندھی بت کی طرح تھیں، وہ کربھی کیا سکتی تھیں کیونکہ یہ سب انکے ساتھ بھی ہوچکاتھا، میں اس رات بہت روئی، میرا بدن اور میری روح زخموں سے چور تھی، اس بے رحم درندے کے بعد نہ جانے کتنے اور درندوں نے مجھ ناتواں کو جھنجھوڑا تھا، کوئی حساب نہیں، نہ دنوں کا نہ مہینوں کا، نہ موسموں کا ، سردیوں کے موس میں انہوں نے ہم سب کو بھاری چادریں دیدی تھیں، جس سے ہم نے اپنے بدنوں کو ڈھانپ لیا، اس تمام عرصہ میں میری بڑی تمنا رہی کہ مجھے کپڑوں کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے جس سے پورا بدن ڈھانپ کر نماز پڑھ سکوں، لیکن میری تمنا پوری نہ ہوسکی کیونکہ نہ کپڑے ملے نہ ہی پاکیزگی کا موقع، ہر دن مجھے پلیدی میں ہی گزارنا پڑتا تھا، نو مہینے بعد میں بھی ایک کمزور سے لڑکے کی ماں بن گئی، اس روز ایک بدھ دایہ عورت آئی تھی، وہ پہلے بھی ان لڑکیوں کی ڈلیوری کیلئے آتی تھی جو بچے کو جنم دینے والی ہوتی، میرے اندر اتنی نقاہت تھی کہ اپنے بچے کو دودھ بھی نہ پلاسکی، اور میرا بچہ بھوک سے دم توڑ گیا، لیکن میں پھر بھی زندہ رہی، لیکن میرا دماغ ماو¿ف ہوگیا، دایہ کے کہنے پر فوجیوں نے ہماری بہتر غذا کا بندوبست کردیاتھا اور یہ پہلی بار اس وقت ہوا جب ایک بدھ نے آکر انہیں کہا کہ اسطرح تو ہمارے یہ بچے مر جائیں گے، ان کو کھانے کو کچھ دو، اس واقعہ کے شاید تین ماہ بعد انسانی حقوق کی ایک ٹیم ادھر آئی ، فوج اور بدھ مت رہنماو¿ں کیساتھ مذاکرات کے بعد اس نے ہمیں اس شرط پر وہاں سے نکالا کہ ہم سب عورتیں ان بچوں کو بدھ عورتوں کے سپرد کردیں، کچھ لڑکیاں تو اس پر بضد ہوگئیں جنہیں مجبوراً وہیں چھوڑنا پڑا ، اس تنظیم نے ہمیں میانمر سے نکالا اور تھائی لینڈ لے آئی، یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو تنظیم ہمیں برمی فوجیوں سے آزاد کراکے لائی تھی دارصل وہ ہماری قیمت چکا کر لائی تھی، چند ماہ بعد ان لڑکیوں کو اچھا کھانا پینا دیکر صحت مند بنایاگیا اور پھر انہیں جسم فروشی کی تربیت دیکر اڈوں پر بٹھا دیاگیا، بچے کی پیدائش اور موت کے بعد مجھے ذہنی صدمہ سے نکلنے میں کچھ وقت لگا لیکن اس دوران میں پھر ایک ماہ کے حمل سے ہوگئی، لیکن جب تھائی لینڈ لائی گئی تو میرا اسقاط گرادیاگیا، جب ہوش سے سنبھلنے لگی تو ایک صحافی کی مدد سے یہ معلوم کرایا کہ اس روز ہمارے قصبہ میں کیا ہوا تھا، معلوم ہوا کہ برمی فوجیوں نے مدرسہ اور مسجد کو آگ لگادی تھی جس سے مدرسہ کے سارے بچے اور نمازی آگ میں جھلس کر شہید ہوگئے تھے، میں سوچتی ہوں کہ برمی فوجیوں کے ہاتھ میں جدیدترین اسلحہ دیکر ان میں نفرت یونہی پروان چڑھائی جاتی رہی تو کیا میانمر کی سر زمین پر کوئی مسلمان بچے گا؟ ، آج مسلمان بیٹیاں لٹ پھٹ رہی ہیں ، بن بیاہی مائیں بنائی جارہی ہیں اور جسم فروشی کے اڈوں پر پہنچائی جارہی ہیں، تو کیا آنے والے وقت میں دوسرے مذاہب کے لوگ برمی فوجیوں سے بچ پائیں گے۔
