All posts by Daily Khabrain

منتخب مئیر کراچی وسیم اخترکے گھر خوشیاں….

کراچی  (ویب ڈیسک) متحدہ کے مرکزی رہنماءوسیم اختر جو منتخب مئیر کراچی بھی ہیں ، کی عدالت نے ضمانت منظور کر کے رہا کر نے کا حکم جاری کر دیا۔یادرہے کہ وسیم اختر کی اس سے قبل 37مقدمات میں ضمانت منظور ہو چکی تھی ۔آخری 38ویں مقدمے میں بھی ضمانت منظور ہوگئی ہے۔

پاکستان میں واٹس ایپ صارفین کیلئے سب سے بڑی خبر ….اہم ترین سہولت مفت میسر

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)پاکستان میں واٹس ایپ صارفین کیلئے بڑی خوشخبری ۔اب یہ صارفین واٹس ایپ پر ویڈیو کالنگ کی سہولت بھی حاصل کر سکیں گے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان میں یہ سہولت موجود نہیں تھی۔

بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو پھر کھلی دھمکی ….فوجوں کو اہم حکم جاری

اسلام آباد (ویب ڈیسک) انڈین آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ کاایل او سی پر چوکیوں کا دورہ ،اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز دشمن کیخلاف چوکس رہے ۔جارحانہ انداز اپنا نا ہونگے۔جبکہ انہوں نے پاکستان کیجانب سے سیز فائر کی خلاف ورزیوں پر بھر پور جواب دینے پر اپنی فوج کی بھی تعریف بھی کی ۔

نا اہلی کا خطرہ ….اہم ترین انکشاف سے ہلچل مچ گئی

اسلام آباد (ویب ڈیسک)سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ایڈووکیٹ اکرم شیخ ایک ہاری ہوا کیس لڑرہے ہیں۔ قطری شہزادے کے ثبوت وزیر اعظم کے کیس کو کمزور کر دیں گے۔کیو نکہ شہزادے کا اپنا نام پانامہ لیکس میں ہے ۔اس سے بہتر تھا کہ وزیر اعظم مجھے وکیل کر لیتے ۔سرمایہ کا ری کے وقت شہزادے کی عمر مخص 2سال تھی ۔اس قسم کے ثبوتوں سے وزیر اعظم کیس کو کمزور کر رہے ہیں ۔جن کی وجہ سے ان کی نا اہلی کا خدشہ بھی ہے۔

” عمران قائداعظم اوربھٹوکی طرح عوامی نعرے دیں“ نامور لکھاری ضیا شاہد کا دبنگ کالم

میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اس حق کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں کہ اسے آزادی¿ اظہار کا مکمل موقع ملنا چاہئے‘ میں جلسے‘ جلوسوں‘ مظاہروں اور دھرنوں کو جمہوریت کا حُسن تصور کرتا ہوں لیکن ان عقل کے اندھوں کو خراج تحسین پیش نہیں کر سکتا جنہوں نے عمران خان کو یہ مشورہ دیا اوریہ راستہ دکھایا کہ اسلام آباد مظاہرے کا نام ”اسلام آباد بند کرو‘ اور حکومت کے کام روک دو“ پہلے ہی سے اعلان کرنا ضروری ہے۔ اس اعلان نے حکومت بالخصوص پنجاب کو یہ آئینی اور قانونی جواز مہیا کر دیا کہ آپ سرکاری کاموں میں مداخلت‘ عوام کی نقل و حرکت میں رکاوٹ اور بری بھلی جیسی بھی ہے ایک منتخب حکومت کو زبردستی کام سے روکنے کی بزور قوت کوشش کریں‘ اب یہ عقل کے اندھے ان بحثوں میں مصروف ہیں کہ پنجاب سے دس لاکھ افراد اسلام آباد کیوں نہ پہنچ سکے حالانکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں پنجاب حکومت کے بقول ایک ”غیرآئینی اور غیرقانونی“ ”لاک اپ“ میں شرکت کیلئے جانے والوں کی گرفتاری جائز ہے‘ عمران کے مشیروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا لاک اپ کا پیشگی اعلان ضروری تھا۔ حکومت جہاں بھی کہتی تھی‘ وہ اسلام آباد کے پریڈ گراﺅنڈ میں بھی دس لاکھ افراد جمع کر لیتے تو قدرتی طور پر شہر خود ہی ”لاک اپ“ ہو جاتا‘ مجھے یقین ہے کہ عمران کے قریبی مشیروں میں ن لیگی حکومت کے کچھ خیرخواہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اتنے بڑے مظاہرے کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دلوا دیا۔ میرے دوست عمران کو سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا چاہئے اور اپنے حامیوں کو سیاسی طور پر حامی ہی سمجھنا چاہئے خودکش بمبار سمجھ کر ناممکن کام ان کے سپرد نہیں کرنے چاہئیں۔
اسلام آباد پر پہلے حملے میں غیرمحتاط گفتگو کے نتیجے میں جاوید ہاشمی کو اندر سے ”تارپیڈو“ مارنے کا موقع دیا گیا‘ اگلے دو گھنٹے میں امپائر انگلی اٹھانے والا ہے‘ جیسے بیان دے کر ایک زبردست سیاسی عمل کو بلاوجہ مشکوک بنانے والے کون تھے‘ تعجب ہے کہ عمران جیسا ذہین لیڈر بھی خود احتسابی کیلئے ایک بھی نشست کا اہتمام نہیں کرتا اور اس کے نابالغ مشیر ہر بار اسے کسی نئے گڑھے میں گرا دیتے ہیں۔ سیاست ایک ہنرمندی کا نام ہے‘ یہ کھیل ذہانت کا تقاضا کرتا ہے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کاغذ پر لکھ کر اس کے سامنے یہ تحریر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم یہ عمل کریں گے تو ردعمل کیا ہو گا اوراس ردعمل سے بچنے کیلئے ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی‘ پاکستان میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو 2016ءمیں بھی مارشل لاءکے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں اور اس بار بار آزمائے ہوئے فارمولے پر دوبارہ عمل کرتے ہیں کہ اسلام آباد کا گھیراﺅ کر لو‘ حکومتی کام ختم کردو‘ وفاق سے کسی صوبے کو لڑا دو تاکہ عزیز ہم وطنو والی تقریر کے لئے قانونی اور اخلاقی جواز مہیا ہوسکے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی خوبیوں ‘ خامیوں کے باوجود بڑی ذہانت سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی پُرزور حامی ہے تاکہ پاک فوج کی ضرورت کم ہو اور دوسری طرف ترکی میں مارشل لاءکے سامنے ڈٹ جانے والے عوامی مظاہروں کو اپنے پاکستانی حامیوں کے لئے رول ماڈل قرار دیتی ہے۔کیا یہ ضروری ہے کہ فوج میں پھر سے کوئی مہم جُو سامنے آئے۔ تفصیل میں جائے بغیر میں ایک پرانا دلچسپ واقعہ قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔ عمران کو بھی چاہئے کہ اسے غور سے پڑھے یا پڑھوا کے سن لے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ میرے بہت پرانے اور قابل احترام دوست ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان “ بھٹو صاحب کے شدید مخالف شمار کئے جاتے تھے۔ ان کا منشور جس کا ٹائٹل نیلا تھا کی آخری نظرثانی بھی میں نے کی اور ان کی جماعت میں شامل نہ ہونے کے باوجود ایک ذاتی دوست کی حیثیت سے بعض دلچسپ مشورے بھی دیئے منشور کمیٹی کا بنایا ہوا مسودہ کئی ماہ پرانا تھا اور اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ بینک اور انشورنس کمپنیاں نیشنلائز کردیئے جائیں گے۔ یہ منشور میں نے ہی اپنے پرنٹنگ پریس میں 50 ہزار کی تعداد میں شائع کیا (جس کا بل تحریک استقلال نے ادا کیا) البتہ میرے مشورے پر مطالبات میں سے بہت مطالبے حذف کر دیئے گئے کہ بھٹو صاحب پہلے ہی سے ان کا اعلان کرچکے تھے۔ اصغر صاحب کا خیال تھا کہ تحریک استقلال کے لئے ہفت روزہ شائع کیا جائے‘ جسکا نام استقلال تجویز ہوا، ایک پرانے سابق مسلم لیگی سینئر کارکن ابو سعید انور اس کے ایڈیٹر مقرر کئے گئے۔ ڈیکلریشن حاصل کیا گیا جو ابو سعید انور کے نام تھا۔ مشیر پیش امام ایئر مارشل اصغرخان‘ بیگم عابدہ حسین (والدہ کی خواہش پر) اے بی اعوان (سابق سیکرٹری داخلہ) شیر بازمزاری اور بعض دوسرے لوگ ہفت روزہ استقلال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان تھے اور ان سب نے مالی طور پر حصہ ڈالنے کا وعدہ کیا۔ اس ہفت روزہ کو میرے پریس میں چھپوانے کا فیصلہ کیا گیا (عابدہ حسین کی والدہ نے عین وقت پر انکار کر دیا کہ میری بیٹی کو بھٹو صاحب نے پنجاب اسمبلی کے لیے خاتون ممبر بنانے کا اعلان کر دیا ہے اس لئے معذرت)۔ ایک دن اصغرصاحب چائے پر میرے گھر تشریف لائے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں صحافت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کروں‘ میں نے معذرت کی اور اپنے اس خیال کو دہرایا کہ اخبار نویس کو سیاسی طور پر کسی جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہئے البتہ وہ ہمدرد یا ناقد ہوسکتا ہے۔ تاہم صحافی کے لئے آزاد حیثیت میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے مذاق میں کہا ”ضیاصاحب آپ بھٹو سے ڈرتے ہو“ میں نے کہا جناب میں ہرگز نہیں ڈرتا بلکہ میں تو ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرتا ہوں البتہ غریبوں اور محروموں کے لئے ان سیاسی وعدوں کا معترف ہوں‘ اصغر خان نے کہا بھٹوکی حکومت جانے والی ہے۔ میں نے کہا ابھی تو اسے اقتدار میںآئے دو سال گزرے ہیں اور ان کے تین سال باقی ہیں۔ اصغرخان نے کہا کہ دیکھو ان ملکوں میں تبدیلی ضروری نہیں کہ الیکشن کے ذریعے آئے۔ میرے کریدنے پر وہ بولے حکمران کی شدت سے مخالفت کرو وہ شمال کہے تو تم جنوب کہو‘ وہ مشرق کی طرف جائے تو تم مغرب کا رخ کرو‘ تم اس کی ہر غلطی پر لوگوں میں تحریک چلاﺅ حتیٰ کہ یہ بات عام ہو جائے کہ اگر بھٹو نہیں تو اصغر خان ‘ میں نے کہا لیکن الیکشن سے پہلے آپ حکومت میں کیسے آئیں گے اور الیکشن میں کامیابی تو لازمی ہے‘ وہ بولے دیکھو میں آپ کو بتاﺅں کہ حکومت میں تبدیلی کیسے ہوتی ہے۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں سیدھی کرلیں اور جو انگلی سب سے اوپر تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج کا حکمران بھٹو ہے‘ پھر اس سے چھوٹی انگلی کو اٹھاتے ہوئے بولے یہ آج کا سب سے بڑا اپوزیشن لیڈر ہے‘ اصغر خان میں نے کہا ’پھر؟ وہ بولے حکومت کا چلنا ناممکن بنا دو‘ پھر یوں ہوگا کہ کوئی انقلاب آئے گا اور سب سے اوپر جو انگلی تھی اسے موڑتے ہوئے بولے حکمران نیچے آجائے گا اور جس انگلی کو انہوں نے اپنی قرار دیا تھا اس پر دوسرا ہاتھ رکھتے ہوئے بولے‘ یہ آپ ہو‘ آپ حکمران بن جاﺅ گئے‘ مجھے بحث کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ میں نے کہا جناب آپ کی تھیوری پاکستان کے حالات پر تو صادق آتی ہے یہاں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جو طاقت حکمران کو اٹھا کر پھینک دے گی وہ خود کیوں نہ حکمران بنے گی‘ آپ کو گھر سے اٹھا کر اسلام آباد کیوں پہنچائے گی؟ اس پر ہم تین چار دوست جو موقع پر موجود تھے ہنسنے لگے، باقی عمران خود سمجھدار ہے۔ حکومت میں پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ الیکشن کمیشن کی تطہیر، نئی مردم شماری‘ نئی حلقہ بندیاں‘ مو¿ثر انتخابی اصلاحات‘ پارٹی کی تنظیمِ نو‘ الیکشن تک پہنچنے سے پہلے ایک متبادل سیاسی نظام وضع کرنا اور اس کا اعلان کرنا‘ ڈیفنس لاہور اور ڈیفنس کراچی کے علاوہ بھی عمران کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہیں لیکن کیا عمران کے مشیروں نے کبھی سوچا کہ پاکستان کے مجبور اور محروم کسانوں کیلئے اُس نے کیا کیا اور حکومت میں آ کر کیا کرے گا، نوجوانوں کے روزگار اور وسائل میں اُنکا حق کیسے دلایا جائے گا، مزدوروں کے بارے میں تو خیر عمران کی پارٹی ویسے ہی خاموش ہے۔
(جاری ہے)

” برطانیہ الطاف سمیت ہر پاکستانی سیاسی بھگوڑے کو پناہ ، تحفظ دیتا ہے “ نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام میں گفتگو

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) خبریں گروپ کے چیف ایڈیٹر، سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اگر اخباری تراشوں کو قابل اعتماد نہیں سمجھتی تو پھر پانامہ پیپر کی خبر پر تحقیقات کیوں کر رہی ہے۔ وہ بین الاقوامی اخبار کی خبر ہے اسے بھی جھوٹا سمجھا جانا چاہئے۔ چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے انہو ں نے کہا کہ اخبار کی خبر سچی بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹی بھی۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کو چاہئے پانامہ پر جو اخباری تراشے انہیں ملے ہیں ان کی کریڈٹ لائن دیکھیں اور پھر اس کے ذرائع کا معلوم کریں پھر فیصلہ کریں کہ یہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ اگر اخبار کی ہر خبر جھوٹی ہوتی ہے تو پھر سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کی خبر کو درست کیوں سمجھا جاتا ہے۔ اگر اخبار میں چھپی ہر خبر جھوٹی ہے تو پھر پانامہ کی خبر بھی جھوٹی ہے کیونکہ وہ بھی بین الاقوامی اخبار کی خبر ہے۔ عدالت ٹیپ کے ریکارڈ کو بھی نہیں مانتی لیکن ہونا تو ایسے چاہئے کہ ٹیپ ریکارڈنگ سنیں اور پھر اس کے مزید شواہد بھی موجود ہیں تو اس ریکارڈنگ کو قابل تسلیم سمجھنا چاہئے۔ ہر ریکارڈنگ یا ہر چھپی ہوئی خبر کو بنا شواہد دیکھے مستر کر دینا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی اپنے الزامات پر صرف اخباری تراشے پیش کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ انہیں عدالت میں الزامات ثابت کرنے چاہئیں۔ تحریک انصاف کا پہلا مقدمہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ دنیا بھر میں پانامکہ کو تسلیم کیا گیا دو ممالک کے وزرائے اعظم مستعفی ہو گئے تو پھر پاکستان میں اس پر انکوائری کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ صرف پاکستان اور بھارت دو ممالک ہیں جہاں پانامہ کو تسلیم کرنے کے بجائے الٹا کمیشن اور انکوائری کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو قطر کے شہزادے نے خط لکھا ہے، ابھی اور بہت سے خط آئیں گے۔ کیونکہ نوازشریف 8 سال سعودی عرب میں گزار کر آئے ہیں۔ کیا پتہ اگلا خط سعودی شہزادے کا آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ پیسے کہاں سے آئے اور کس نے بھجوائے۔ البتہ دونوں فریقین کو پورا حق حاصل ہے کہ جو بھی شواہد ہیں وہ عدالت میں جمع کروائیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے حکمرانوں کو باہر جا کر پاکستان کی سیاست کو آڑے ہاتھوں نہیں لینا چاہئے۔ نواز دور میں بے نظیر نے امریکہ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ پاکستان کی امداد بند کر دیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی سیاست کو بارڈرز کے اندر تک ہی محدود رکھنا چاہئے۔ چودھری نثار 2 ہزار مرتبہ بھی لندن کا دورہ کر لیں انہیں برطانوی حکومت سے کچھ نہیں ملنے والا۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ برطانیہ نے براہمداغ بگٹی، بانی متحدہ، حربیار مری، خان آف قلات باغیوں اور ہر دور میں پاکستانی حکومت کے بگوڑوں کو کیوں پناہ دے رکھی ہے۔ جو بھی پاکستان کے خلاف بولتا ہے برطانیہ اسے صرف پناہ ہی نہیں بلکہ وظیفہ بھی دیتا ہے۔ بانی متحدہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی اور اسے منی لانڈرنگ کے سارے پیسے واپس مل جائیں گے۔ عمران فاروق قتل کیس کی ویڈیو بھی جاری ہو جائے تو اسے بھی جعلی ثابت کر دیا جائے گا۔ جیسے اداکارہ میرا کی بھی ایک جعلی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی۔ بانی متحدہ کو کبھی نہیں پکڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد ہمارے بے و قوف حکمرانوں نے سکاٹ لینڈ بارڈر پر بھروسہ کیا، اس کی تحقیقاتی رپورٹ کا کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کو حکومت اور سٹیبلشمنٹ کے فیصلے کے بعد کلین چٹ ملی کہ بانی متحدہ کے پاکستان مخالف بیان سے الگ ہو جاﺅ اور اپنی پارٹی بنا لو۔ لیکن فاروق ستار کی سیاسی کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوں گی جب تک نوازشریف اور پرویز مشرف کے درمیان صلح نہ ہو جائے۔ ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا۔ الزام پانامہ پیپر نے لگائے ہیں۔ جس پر وزیراعظم کے خلاف پٹیشن دائر کی، اس کے علاوہ بھی نوازشریف کے خلاف کئی پٹیشنز دائر ہیں۔ 7 ماہ میں وزیراعظم نے پانامہ معاملے پر جواب نہیں دیا۔ انہوں نے ملک کے آئین و قانون اور اپنے حلف کی نفی کی ہے، جواب کیوں نہیں دیتے۔ ہمارے پاس جتنے شواہد تھے وہ سپریم کورٹ میں جمع کروا دیئے۔ اب شریف خاندان اپنے جواب جمع کروائے اور اپنے ہی بیانات میں تضادات کی وضاحت کرے۔ میڈیا ٹرائل کی اب ضرورت نہیں عدالتی ٹرائل شروع ہو چکا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کا بائیکاٹ ترکی کے خلاف نہیں بلکہ وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ہے۔ جو خود پر لگے الزامات کا 7 ماہ سے جواب نہیں دے رہے۔ وزیراعظم کو نااہل سمجھتے ہیں اس وجہ سے قومی اسمبلی نہیں جائیں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر عدالت عظمیٰ حتمی فیصلہ کر لے کہ پانامہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے تو کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے۔ عدالت کیلئے کوئی ایسی پیچیدگی نہیں کہ فیصلے میں تاخیر ہو۔ اگر وہ کمیشن بنانا چاہی تو بنا دے لیکن پھر اسے 25 دنوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا پابند کرے۔ چور طبقہ، قرضے معاف کرانے والے، پانامہ اور لندن لیکس میں ملوث افراد کا ٹولہ کبھی نہیں چاہے گا کہ کمیشن بنے۔ وہ حساب کتاب کے نام سے ڈرتے ہیں۔

جے ایف 17-طیاروں کی گھن گرج ,بھاری آرٹلری ہتھیار میدان میں آگئے

خیر پور ( ویب ڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بہاولپور کے قریب خیر پور ٹامیوالی میں ہونے والی ’رعد البرق‘ فوجی مشقوں کا معائنہ کیا۔اس موقع پر چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف جنرل راشد محمود اور بحریہ اور پاک فضائیہ کے چیف بھی موجود تھے۔مشقوں میں الخالد ٹینکس اور لڑاکا طیاروں نے کامیابی سے اہداف کو نشانہ بنایا ۔یہ مشقیں پاکستان کی بری اور فضائی افواج نے مشترکہ طور پر انجام دیں جس کے دوران بھرپور دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف کو ان مشقوں کے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی۔

ٹرمپ کی سابق اہلیہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے تیار ۔۔۔ اہم مطالبہ کر دیا

واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سابقہ اہلیہ ایوانا ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی خواہشمند ہیں کہ انہیں جمہوریہ چیک میں امریک کا سفیر مقرر کیا جائے جو ایوانا کا آبائی وطن بھی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے 67سالہ ایوانا نے بتایا کہ وہ امریکہ کے نومنتخب صدر اور اپنے سابق شوہر سے چیک ریاست میں سفیر بنائے جانے کا مطالبہ کریں گی۔ انہوں نے ٹرمپ کے دس سالہ بیٹے بیرن کے ساتھ گہری ہمدردی کا بھی اظہار کیا جو وہائٹ ہاﺅس میں اپنی والدہ نئی خاتون اول اور ٹرمپ کی تیسری اہلیہ ملانیا کے ساتھ رہیں گے۔ ایوانا نے باور کرایا کہ وہ ملانیا کے نئے مقام سے کسی طور پر حاسد نہیں ہیں۔

عرس میں 3 روز باقی ….

لاہور (خصوصی رپورٹ) حضرت داتا گنج بخش کا973 واں سالانہ عرس مبارک 19 تا 21 نومبر کو داتا دربار میں ہوگا۔ جس میں دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین حاضرین دیں گے۔ سکیورٹی، صفائی، ٹریفک پارکنگ اور زائرین کے لیے بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ عرس مبارک کی استقبالیہ تقریبات کا آغاز آج سے ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار سیکرٹری اوقاف نوازش علی اور ڈائریکٹر جنرل اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے لاہور پریس کلب میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے عرس کے جملہ انتظامات کے سلسلے میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔