تازہ تر ین

” عمران قائداعظم اوربھٹوکی طرح عوامی نعرے دیں“ نامور لکھاری ضیا شاہد کا دبنگ کالم

میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اس حق کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں کہ اسے آزادی¿ اظہار کا مکمل موقع ملنا چاہئے‘ میں جلسے‘ جلوسوں‘ مظاہروں اور دھرنوں کو جمہوریت کا حُسن تصور کرتا ہوں لیکن ان عقل کے اندھوں کو خراج تحسین پیش نہیں کر سکتا جنہوں نے عمران خان کو یہ مشورہ دیا اوریہ راستہ دکھایا کہ اسلام آباد مظاہرے کا نام ”اسلام آباد بند کرو‘ اور حکومت کے کام روک دو“ پہلے ہی سے اعلان کرنا ضروری ہے۔ اس اعلان نے حکومت بالخصوص پنجاب کو یہ آئینی اور قانونی جواز مہیا کر دیا کہ آپ سرکاری کاموں میں مداخلت‘ عوام کی نقل و حرکت میں رکاوٹ اور بری بھلی جیسی بھی ہے ایک منتخب حکومت کو زبردستی کام سے روکنے کی بزور قوت کوشش کریں‘ اب یہ عقل کے اندھے ان بحثوں میں مصروف ہیں کہ پنجاب سے دس لاکھ افراد اسلام آباد کیوں نہ پہنچ سکے حالانکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں پنجاب حکومت کے بقول ایک ”غیرآئینی اور غیرقانونی“ ”لاک اپ“ میں شرکت کیلئے جانے والوں کی گرفتاری جائز ہے‘ عمران کے مشیروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا لاک اپ کا پیشگی اعلان ضروری تھا۔ حکومت جہاں بھی کہتی تھی‘ وہ اسلام آباد کے پریڈ گراﺅنڈ میں بھی دس لاکھ افراد جمع کر لیتے تو قدرتی طور پر شہر خود ہی ”لاک اپ“ ہو جاتا‘ مجھے یقین ہے کہ عمران کے قریبی مشیروں میں ن لیگی حکومت کے کچھ خیرخواہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اتنے بڑے مظاہرے کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دلوا دیا۔ میرے دوست عمران کو سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا چاہئے اور اپنے حامیوں کو سیاسی طور پر حامی ہی سمجھنا چاہئے خودکش بمبار سمجھ کر ناممکن کام ان کے سپرد نہیں کرنے چاہئیں۔
اسلام آباد پر پہلے حملے میں غیرمحتاط گفتگو کے نتیجے میں جاوید ہاشمی کو اندر سے ”تارپیڈو“ مارنے کا موقع دیا گیا‘ اگلے دو گھنٹے میں امپائر انگلی اٹھانے والا ہے‘ جیسے بیان دے کر ایک زبردست سیاسی عمل کو بلاوجہ مشکوک بنانے والے کون تھے‘ تعجب ہے کہ عمران جیسا ذہین لیڈر بھی خود احتسابی کیلئے ایک بھی نشست کا اہتمام نہیں کرتا اور اس کے نابالغ مشیر ہر بار اسے کسی نئے گڑھے میں گرا دیتے ہیں۔ سیاست ایک ہنرمندی کا نام ہے‘ یہ کھیل ذہانت کا تقاضا کرتا ہے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کاغذ پر لکھ کر اس کے سامنے یہ تحریر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم یہ عمل کریں گے تو ردعمل کیا ہو گا اوراس ردعمل سے بچنے کیلئے ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی‘ پاکستان میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو 2016ءمیں بھی مارشل لاءکے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں اور اس بار بار آزمائے ہوئے فارمولے پر دوبارہ عمل کرتے ہیں کہ اسلام آباد کا گھیراﺅ کر لو‘ حکومتی کام ختم کردو‘ وفاق سے کسی صوبے کو لڑا دو تاکہ عزیز ہم وطنو والی تقریر کے لئے قانونی اور اخلاقی جواز مہیا ہوسکے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی خوبیوں ‘ خامیوں کے باوجود بڑی ذہانت سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی پُرزور حامی ہے تاکہ پاک فوج کی ضرورت کم ہو اور دوسری طرف ترکی میں مارشل لاءکے سامنے ڈٹ جانے والے عوامی مظاہروں کو اپنے پاکستانی حامیوں کے لئے رول ماڈل قرار دیتی ہے۔کیا یہ ضروری ہے کہ فوج میں پھر سے کوئی مہم جُو سامنے آئے۔ تفصیل میں جائے بغیر میں ایک پرانا دلچسپ واقعہ قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔ عمران کو بھی چاہئے کہ اسے غور سے پڑھے یا پڑھوا کے سن لے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ میرے بہت پرانے اور قابل احترام دوست ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان “ بھٹو صاحب کے شدید مخالف شمار کئے جاتے تھے۔ ان کا منشور جس کا ٹائٹل نیلا تھا کی آخری نظرثانی بھی میں نے کی اور ان کی جماعت میں شامل نہ ہونے کے باوجود ایک ذاتی دوست کی حیثیت سے بعض دلچسپ مشورے بھی دیئے منشور کمیٹی کا بنایا ہوا مسودہ کئی ماہ پرانا تھا اور اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ بینک اور انشورنس کمپنیاں نیشنلائز کردیئے جائیں گے۔ یہ منشور میں نے ہی اپنے پرنٹنگ پریس میں 50 ہزار کی تعداد میں شائع کیا (جس کا بل تحریک استقلال نے ادا کیا) البتہ میرے مشورے پر مطالبات میں سے بہت مطالبے حذف کر دیئے گئے کہ بھٹو صاحب پہلے ہی سے ان کا اعلان کرچکے تھے۔ اصغر صاحب کا خیال تھا کہ تحریک استقلال کے لئے ہفت روزہ شائع کیا جائے‘ جسکا نام استقلال تجویز ہوا، ایک پرانے سابق مسلم لیگی سینئر کارکن ابو سعید انور اس کے ایڈیٹر مقرر کئے گئے۔ ڈیکلریشن حاصل کیا گیا جو ابو سعید انور کے نام تھا۔ مشیر پیش امام ایئر مارشل اصغرخان‘ بیگم عابدہ حسین (والدہ کی خواہش پر) اے بی اعوان (سابق سیکرٹری داخلہ) شیر بازمزاری اور بعض دوسرے لوگ ہفت روزہ استقلال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان تھے اور ان سب نے مالی طور پر حصہ ڈالنے کا وعدہ کیا۔ اس ہفت روزہ کو میرے پریس میں چھپوانے کا فیصلہ کیا گیا (عابدہ حسین کی والدہ نے عین وقت پر انکار کر دیا کہ میری بیٹی کو بھٹو صاحب نے پنجاب اسمبلی کے لیے خاتون ممبر بنانے کا اعلان کر دیا ہے اس لئے معذرت)۔ ایک دن اصغرصاحب چائے پر میرے گھر تشریف لائے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں صحافت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کروں‘ میں نے معذرت کی اور اپنے اس خیال کو دہرایا کہ اخبار نویس کو سیاسی طور پر کسی جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہئے البتہ وہ ہمدرد یا ناقد ہوسکتا ہے۔ تاہم صحافی کے لئے آزاد حیثیت میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے مذاق میں کہا ”ضیاصاحب آپ بھٹو سے ڈرتے ہو“ میں نے کہا جناب میں ہرگز نہیں ڈرتا بلکہ میں تو ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرتا ہوں البتہ غریبوں اور محروموں کے لئے ان سیاسی وعدوں کا معترف ہوں‘ اصغر خان نے کہا بھٹوکی حکومت جانے والی ہے۔ میں نے کہا ابھی تو اسے اقتدار میںآئے دو سال گزرے ہیں اور ان کے تین سال باقی ہیں۔ اصغرخان نے کہا کہ دیکھو ان ملکوں میں تبدیلی ضروری نہیں کہ الیکشن کے ذریعے آئے۔ میرے کریدنے پر وہ بولے حکمران کی شدت سے مخالفت کرو وہ شمال کہے تو تم جنوب کہو‘ وہ مشرق کی طرف جائے تو تم مغرب کا رخ کرو‘ تم اس کی ہر غلطی پر لوگوں میں تحریک چلاﺅ حتیٰ کہ یہ بات عام ہو جائے کہ اگر بھٹو نہیں تو اصغر خان ‘ میں نے کہا لیکن الیکشن سے پہلے آپ حکومت میں کیسے آئیں گے اور الیکشن میں کامیابی تو لازمی ہے‘ وہ بولے دیکھو میں آپ کو بتاﺅں کہ حکومت میں تبدیلی کیسے ہوتی ہے۔ میں ہمہ تن گوش ہوگیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں سیدھی کرلیں اور جو انگلی سب سے اوپر تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج کا حکمران بھٹو ہے‘ پھر اس سے چھوٹی انگلی کو اٹھاتے ہوئے بولے یہ آج کا سب سے بڑا اپوزیشن لیڈر ہے‘ اصغر خان میں نے کہا ’پھر؟ وہ بولے حکومت کا چلنا ناممکن بنا دو‘ پھر یوں ہوگا کہ کوئی انقلاب آئے گا اور سب سے اوپر جو انگلی تھی اسے موڑتے ہوئے بولے حکمران نیچے آجائے گا اور جس انگلی کو انہوں نے اپنی قرار دیا تھا اس پر دوسرا ہاتھ رکھتے ہوئے بولے‘ یہ آپ ہو‘ آپ حکمران بن جاﺅ گئے‘ مجھے بحث کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ میں نے کہا جناب آپ کی تھیوری پاکستان کے حالات پر تو صادق آتی ہے یہاں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جو طاقت حکمران کو اٹھا کر پھینک دے گی وہ خود کیوں نہ حکمران بنے گی‘ آپ کو گھر سے اٹھا کر اسلام آباد کیوں پہنچائے گی؟ اس پر ہم تین چار دوست جو موقع پر موجود تھے ہنسنے لگے، باقی عمران خود سمجھدار ہے۔ حکومت میں پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ الیکشن کمیشن کی تطہیر، نئی مردم شماری‘ نئی حلقہ بندیاں‘ مو¿ثر انتخابی اصلاحات‘ پارٹی کی تنظیمِ نو‘ الیکشن تک پہنچنے سے پہلے ایک متبادل سیاسی نظام وضع کرنا اور اس کا اعلان کرنا‘ ڈیفنس لاہور اور ڈیفنس کراچی کے علاوہ بھی عمران کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہیں لیکن کیا عمران کے مشیروں نے کبھی سوچا کہ پاکستان کے مجبور اور محروم کسانوں کیلئے اُس نے کیا کیا اور حکومت میں آ کر کیا کرے گا، نوجوانوں کے روزگار اور وسائل میں اُنکا حق کیسے دلایا جائے گا، مزدوروں کے بارے میں تو خیر عمران کی پارٹی ویسے ہی خاموش ہے۔
(جاری ہے)


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain