لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان کرکٹ بورد نے بھارتی بورڈ کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا ارادہ کرلیا۔پاکستان اور بھارت کے مابین سیاسی کشیدگی کی وجہ سے کرکٹ تعلقات بھی تعطل کا شکار ہیں،بی سی سی آئی نے 2014 میں ’’بگ تھری‘‘ کی حمایت کے بدلے 8 سال میں 6 باہمی سیریز کھیلنے کا وعدہ کیا تھا لیکن دونوں ٹیمیں آئی سی سی ایونٹس کے سوا ایک بار بھی مقابل نہیں ہوئیں، پی سی بی نے نقصان کے ازالے کیلیے آئی سی سی تنازعات کمیٹی سے رجوع کر رکھا ہے، بورڈ باہمی میچز کا انعقاد ممکن نہ ہونے پر زرتلافی چاہتا ہے جب کہ کرکٹ کا اسٹرکچر تبدیل ہونے کے بعد انٹرنیشنل ٹیمیں ان دنوں فیوچر ٹور پروگرام کے تحت اپنے شیڈول ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔بھارتی میڈیا میں کئی روز سے یہ خبریں گردش میں تھیں کہ بی سی سی آئی اپنے مستقبل کے پلان میں پاکستان کے ساتھ میچز سے گریز کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔اس صورتحال میں پی سی بی نے ایف ٹی پی میں پاک بھارت مقابلے شامل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔،پریس ریلیز میں واضح کیا گیاکہ فیوچر ٹور پروگرام کے معاملے میں ہونے والی بات چیت میں پی سی بی نے بھارت کیخلاف باہمی سیریز کے حوالے سے اپنا موقف دہرایا ہے،انٹرنیشنل کرکٹ کے نئے اسٹرکچر پر پاکستان کی رضامندی اس بات سے مشروط ہوگی کہ ایف ٹی پی میں دونوں پڑوسی ملکوں کے میچز بھی شامل کیے جائیں۔پریس ریلیز کے مطابق آئی سی سی کو بھی بتا دیا گیا کہ پہلے سے موجود معاہدے کے تحت بھارت کو دسمبر 2019، اگست 2020اور نومبر، دسمبر 2022میں پاکستان کا دورہ کرنا ہے،دوسری جانب پاکستانی ٹیم کو نومبر، دسمبر2021 میں پڑوسی ملک جانا ہے، ان باہمی سیریز کا کیس آئی سی سی کی تنازعات کمیٹی میں زیر سماعت ہے، اگر فیصلہ پی سی بی کے حق میں ہوا تو فیوچر ٹور پروگرام میں تبدیلی کرنا پڑے گی، نئے ایف ٹی پی میں پی سی بی کا معاہدہ بی سی سی آئی کے خلاف تنازعات کمیٹی کے فیصلے سے مشروط ہو گا۔دوسری جانب گزشتہ روز بی سی سی آئی کی سالانہ جنرل میٹنگ میں جس ایف ٹی پی پر اصولی اتفاق کرلیا گیا اس میں پاکستان کے ساتھ کوئی سیریز شامل نہیں، بھارتی بورڈ نے پرانا موقف ہی دہرایاکہ جب تک حکومت اجازت نہیں دیتی آئی سی سی ایونٹس کے سوا کوئی باہمی میچز نہیں ہوسکتے، بی سی سی آئی کے قائم مقام سیکریٹری امیتابھ چوہدری نے کہاکہ یہ صرف کرکٹ کی بات نہیں کئی دیگر عوامل بھی دیکھنا پڑتے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت نے 2019سے 2023تک مجوزہ ایف ٹی پی میں اپنے نصف سے زائد میچز آسٹریلیا،انگلینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ شیڈول کیے ہیں،بتایا یہ گیا کہ نشریاتی اداروں کے مطالبے پر ایسا ہوا ہے۔امیتابھ چوہدری نے کہا کہ پاک بھارت میچز سے ہونے والی آمدنی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس بارے میں سوچا تب ہی جاسکتا ہے جب مقابلے ممکن ہوسکیں،اگر کوئی کرشمہ ہواور جمود ٹوٹ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو میچز کرانے کیلیے راستے بھی بن جائیں گے۔
دوسری جانب بھارت کیلیے ایشیا کپ کی میزبانی بھی ایک درد سر بنی ہوئی ہے،پاکستان کی وجہ سے انڈر19ایشیا کپ کوالالمپور منتقل کردیا گیا تھا،اب اس ایونٹ کی میزبانی بھی خطرے میں ہے،ایشین کرکٹ کونسل کے18 دسمبر کو ہونے والے سالانہ اجلاس میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہوگا۔
امیتابھ چوہدری نے کہاکہ آئندہ سال ستمبر، اکتوبر میں ایشیا کپ کی میزبانی کیلیے وقت موجود ہے لیکن کوئی فیصلہ اے سی سی میٹنگ میں ہی ہوگا۔یاد رہے کہ پیر کو بھارتی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش میں رہیں کہ بی سی سی آئی نے پاکستان کی وجہ سے ایشیا کپ کی میزبانی سے انکار کر دیا جب کہ بورڈ نے اپنے اس فیصلے سے ایشین کرکٹ کونسل کو آگاہ بھی کر دیا ہے۔