میں بطور پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر بالکل حیران یا پریشان نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو تھوڑے مارجن سے نہیں بلکہ بڑے مارجن سے شکست دی ہے۔ تقریباً ایک سال قبل جب دونوں امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تھی تو میں نے عالمی ذرائع ابلاغ سے معلومات حاصل کیں اور امریکہ میں میرے ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی یہی میرا ذاتی مشاہدہ بھی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑی سمجھداری کے ساتھ اپنی انتخابی مہم شروع کی ہے اور انہوں نے امریکہ کی سفید فام آبادی کو فوکس کیا اور وہی ان کا ہدف رہے۔ جن لوگوں نے امریکہ دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکی گوروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے ان کو صرف دو وقت کی روٹی، صحت کی سہولیات اور تعلیم چاہیے ان کا اپنی صحت کی سہولیات سے مطلب ہوتا ہے یا انہیں اپنی نوکریوں کی فکر ہوتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کی یہی خاص بات رہی کہ انہوں نے اسی آبادی کو فوکس کیا، ہیلری کلنٹن کی شکست کی دوسری سب سے بڑی وجہ جو سامنے آئی وہ ان کا خاتون ہونا تھا، ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک بہت بڑا فیکٹر ہے جس نے ہیلری کے ہارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکی ذہنی طور پر کسی خاتون کو بطور صدر دیکھنے کیلئے اپنے آپ کو تیار ہی نہیں کر پائے، اگر آپ پولنگ کے اعدادو شمار پر نظر دوڑائیں تو اس میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ نقل مکانی کرکے آٓنے والے امریکیوں جن کی کل تعداد امریکی آبادی کا 35 فیصد ہے جس میں سے 19 فیصد ایشیائی ہیں جبکہ اس 19فیصد میں سے 4 فیصد صرف پاکستانی نژاد امریکن ہیں، ہم یہ بھی بڑی خوشی سے کہتے ہیں کہ ہیلری پاکستان کی بڑی دوست ہیں اور پاکستان آتی جاتی بھی رہی ہیں اور پاکستانی مسائل سے بہت اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ ٹرمپ کے مقابلے میں پاکستان سے بڑا اچھا سلوک کرینگی، یہ پاکستانیوں کی غلط فہمی تھی، ہے اور رہے گی، ان کی سوچ میں پاکستانی سٹیبلشمنٹ ہمیشہ اس وقت سہولت میں ہوتی ہے جس وقت امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کا صدر ہوتا ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ تمام پاکستانی نژاد امریکیوں نے یہ سوچا شاید ڈیموکریٹ ان کے لیے بہتر ثابت ہوں اور انہوں نے یہی سوچ پر ہیلری کو ووٹ دیا لیکن اگر ہم الیکشن کے نتائج پر نظر ڈالتے ہیں تو کاسٹ کیے گے ووٹوں میں سے کالے امریکیوں میں سے 90 فیصد نے ٹرمپ کوووٹ دیا اور صرف10فیصد ووٹ ہیلری کے حصے میں آئے۔ امریکی بطور قوم بری طرح ایکسپوز ہوئے ہیں وہ ابھی تک اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار نہیں کر پائے کہ وہ کسی خاتون کو بطور صدر قبول کریں۔ امریکی پوری دنیا میں این جی اوز کے ذریعے یا اپنی تعلیمات اور تبلیغ کے لیے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرد اور خاتون میں برابری ہونی چاہیے، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں لیکن اس الیکشن کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکی قوم خواتین کوحقوق دینے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ ان کی برابری کے دعوے ایک ڈھکونسلہ ہیں امریکی صرف این جی اوز کو پیسے دیکر انسانی حقوق کی آوازیں اٹھا کر یا ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین کو اپنے مطلب کے لیے استعمال ضرور کرتے ہیں۔ ملالہ پر حملہ ہوا جو ایک بری بات ہے، اللہ تعالی نے ان کی جان بچائی اور بطور پاکستانی خوشی ہے کہ وہ صحت یاب ہوئیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ امریکی اپنے مطلب کے لیے استعمال بھی ضرور کرتے ہیں۔ اگر امریکی اتنے ہی سنجیدہ ہوتے تو بطور قوم اور سٹیبلشمنٹ ہیلری کو صدر بنانے میں ان کے مددگار ضرور ثابت ہوتے جو کہ نہیں ہوا۔ ڈیڑھ سال سے جب لوگ ڈونلڈ ٹرمپ پر نسل پرستی کا الزام لگا رہے تھے تو سب سے بڑی بات یہی ہے کہ انہوں نے امریکیوں میں موجود ڈر کو ایڈریس کیا اور ٹارگٹ بنایا۔ امریکی ایک ڈرپوک سی قوم ہے جو زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے اور جو بھی اس بات کو پن پوائنٹ کرے گا تو وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے، ٹرمپ نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا اور اپنی پوری انتخابی مہم میں امریکی عوام میں موجود اسی خوف کو ہلکی سے آگ لگانے کی کوشش کی۔ شروع میں سب سمجھتے رہے کہ وہ ان کا منفی پوائنٹ ہے لیکن آخر کار یہی ان کا مثبت پوائنٹ ثابت ہوا۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے کسی سرکاری دفتر میں کام نہیں کیا وہ واشنگٹن میں بھی مشیر نہیں رہے وہ ایک عام آدمی کے طور پر سامنے آئے لیکن ان کے مقابلے میں ایک کہنہ مشق سیاستدان تھی جو دو دفعہ وزیر خارجہ رہ چکی تھیں، نتیجہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ امریکی عوام نے جہاں ایک خاتون کو ووٹ نہیں کیا وہیں انہوں نے روایتی سیاست کو بھی مسترد کیا ہے۔ امریکی عوام ایک ایسے شخص کو اقتدار میں لائے ہیں جو بظاہر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے رنگ میں بیٹھ کر لوگوں سے کشتیاں بھی کرتا ہے، وہ لوگوں کی حجامت بھی بناتا ہے اوراپنے چہرے پر رنگ ڈال کر ٹی وی پروگرامز میں بھی آتا ہے اور وہ جو کہہ رہا ہے اسے صحیح سمجھتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے اسے ووٹ کیا ہے چاہے اس سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، ٹرمپ کی آٓئندہ پالیسیوں کے حوالے سے میری ذاتی رائے ہے کہ اگلے دو سے اڑھائی سال کے اندر دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ایک بڑی جنگ ہوگی، جس میں براہ راست امریکہ کی مداخلت ہوگی۔ جنگ جنوبی چین میں سمندری حدود کے تنازع پر بھی ہوسکتی ہے اور کوریا اورشمالی کوریا کی جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان کے ساتھ پرابلمز بھی ہو سکتی ہیں پاکستان کے مقابلے میں ٹرمپ کی طرف سے بھارت کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ پھر ترکی یا شام کے اندر داعش کا معاملہ جنگ کا باعث بن سکتا ہے اگر ہم یہ سب ملا کر دیکھیں تو ٹرمپ کے ہوتے ہوئے دنیا پر ایک بڑا سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کے اپنی پالیسیوں پر یوٹرن لینے کے امکان یا خود ٹرمپ کی طرف سے کوئی پالیسیاں بنانے کے حوالے سے میں یہ نہیں سمجھتا کہ ایسا ہوگا، امریکہ کی 70فیصد پالیسیاں سٹیبلشمنٹ، پینٹاگون اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بناتا ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جب بھی ری پبلکن اقتدار میں آئے چاہے وہ بش سینئر کا دور ہو یا بش جونیئر کا ان کے دورِ اقتدار میں جنگیں ہوئیں، عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر جنگ ہوئی، افغانستان میں نائن الیون کے نام پر جنگ مسلط کی گئی، جب کچھ نہ نکلا تو امریکی سٹیبلشمنٹ نے بڑی خوبصورتی سے کہہ دیا کہ ہمیں تو پتہ نہیں تھا ہمارے ایک صدر صاحب آئے تھے جو بڑے بے وقوف تھے انہوں نے 70سے80 ہزار افراد قتل کیے جس کے بعد کچھ نہ نکلا، چلیں اب کمیٹی بنا دیں تو انہوں نے کمیٹی بنا دی جس کی انکوائری تاحال چل رہی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں جب بھی ایسے صدور آتے ہیں جن کا کوئی بیک گراﺅنڈ نہیں ہوتا تو سٹیبلشمنٹ ان کو اپنے فیصلوں کے لیے استعمال کرتی ہے امریکی سٹیبلشمنٹ اور قومی سلامتی کے ادارے بھی بالکل اسی طرح سوچتے ہیں جس طرح باقی دنیا کے ادارے اپنے اپنے قومی مفاد کے لیے سوچتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے نئے یو پوائنٹ پر جب کوئی ملک، معاشرہ ، ادارہ یا شخص بہت طاقتور ہوتا ہے تو اسے اپنی امیج کی کوئی فکر نہیں ہوتی وہ صرف اپنا مفاد دیکھتا ہے کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے وہ بھارت کو صرف اس لیے سپورٹ کرتا ہے کیونکہ بھارت ان کے بہت سے مسائل حل کرتا ہے۔ آپ دونوں ممالک کے معاشی تعلقات پر نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صرف کمپیوٹر انڈسٹری یا انٹرنیٹ، سافٹ ویئر کی تجارت دیکھ لیں تو اس کا حجم پاکستان جیسے کئی ملکوں کی معیشت سے بھی زیادہ ہوگا، انٹرنیٹ اور سافٹ ویئر کی تجارت کے ساتھ ان کا فوکس ہے کہ چائنہ کے مقابلے میں کمپیوٹر کی ہائیکنگ کو کیسے روکنا ہے یہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اگلے دو سالوں کے اندر پاکستان، چائنہ، روس ایک طرف کھڑے ہونگے جبکہ ان کے ساتھ ترکی اور تین چار خلیجی ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آپ کو بھارت امریکہ، افغانستان اور بنگلہ دیش کھڑے نظر آئینگے انہیں بھی تین چار عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، جو کہ شیعہ سنی وکٹ پر کھیلیں گے لہٰذا یہ کہہ دینا کہ صرف پاکستان کے لیے یا باقی دُنیا کے لیے یہ پیغام دیا ہے we dont care، امریکی عوام اور سٹیبلشمنٹ کو کوئی پروا نہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی اور کیا کہتی ہے کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہیں، ان کی جیب میں پیسے ہیں، ان کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس لیے انہوں نے صرف اپنے لوگوں کے بارے میں سوچا ہے ان کو باقی دنیا کی سوچ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔