Tag Archives: zia shahid.jpg

حکومت حافظ سعید کو آج ہی رہا کرے: ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو رتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میر ظفراللہ جمالی صاحب سے میری ٹیلیفونک گفتگو ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ میری کوئی ملاقات شہباز شریف صاحب، شاہد خاقان عباسی یا ریاض حسین پیرزادہ سے نہیں ہوئی۔ میں حیران ہوں کہ میڈیا والے کس طرح خبریں بنا لیتے ہیں۔ ان کے بزرگوں نے نہ صرف تحریک پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا بلکہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے سلسلے میں منعقدہ جرگے میں بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ میر جعفراللہ جمالی نے کوئٹہ اور دیگر ”سیٹلڈ“ علاقوں کو پاکستان کے ساتھ شامل کروانے میں رول ادا کیا۔ میر ظفراللہ جمالی نے مجھے بتایا کہ جب میں بچہ تھا، میرے والد نے خوشی خوشی یہ خبر سنائی کہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ہم کیا کریں۔ انہوں نے کہا تم ”دئیے جلاﺅ“۔ ہم نے دیواروں پر دئیے سجا کر جلائے۔ میرے لئے آج بھی وہی تصور قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج میں دیکھتا ہوں کہ سیاست نے عجیب رخ اختیار کر لیا ہے۔ ہر سیاستدان کسی کو پھنسانے یا بچانے میں لگا ہوا ہے۔ میرا پیغام یہ ہے کہ ”کوئی پاکستان کو بھی بچانے کی کوشش کرے“۔ لوگ پاکستان کو بچانے کےلئے کیوں نہیں نکلتے۔ میاں نواز شریف اگر عدالت میں پیشی کےلئے آ جاتے تو اچھا تھا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ عدالت میں اپنا کیس محنت سے لڑیں اور بھٹو کی طرح اسے سیاسی رنگ نہ دیں۔ مریم نواز ہر دفعہ عدالت میں پیش ہو کر جذباتی بیانات دیتی ہیں۔ اسی طرح کیپٹن(ر) صفدر کہتے ہیں کہ میں اصلی کپتان ہوں اور وہ نقلی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ میںجلسے میں تقریر کر رہا ہوں اور سامنے والوں کو خوش کرنا ہی اصل مقصد ہے۔ اسی طرح عمران خان عدالت پیش ہوگئے۔ ناظرین جانتے ہیں کہ میں نے انہیں چینل کے ذریعے بھی اور خود بنی گالہ جا کر بھی یہی مشورہ دیا کہ عدالت میں پیش ہوں۔ خوشی ہے کہ عمران خان نے میرا اور دوستوں کا مشورہ مانا اور عدالت پیش ہو گئے اور معافی مانگ لی۔ ایک اچھی روایت قائم ہوگئی۔ پرویز مشرف کو زرداری حکومت نے باہر جانے دیا، اس مخلوط حکومت میں اسحاق ڈار وزیرخزانہ تھے۔ دونوں پارٹیاں بھی اقتدار میں شریک تھیں اور آخر میں دونوں نے پریس کانفرنس بھی کی اور گلے بھی ملے۔ حافظ سعید صاحب سے اسی فورم سے گفتگو ہوتی رہی، ہم نے بارہا کہا کہ بھارت کے لگائے گئے الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ لیکن امریکہ نے اس معاملے پر پریشر ڈالا اور کہا کہ حافظ سعید کو پکڑو۔ ہم مانگنے والی قوم ہیں۔ ہمارے اندر خودداری بالکل بھی نہیں۔ بھکاری کبھی خوددار نہیں ہو سکتے۔ ہمارے ہر بجٹ میں غیرملکی قرض کی تفصیل شامل ہوتی ہے اور آنے والے وقت میں قرض لینے کی تجویز بھی شامل ہوتی ہے۔ ”نظریہ پاکستان“ والوں ”خود مختار پاکستان“ پر تقریر کے لئے مجھے دعوت دی لیکن میں نے ان سے معذرت کر لی۔ ہر سیاستدان بالخصوص شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سے درخواست ہے کہ فوراً حافظ سعید کو رہا کریں۔ ان کے خلاف الزامات تو ہیں ہی نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے انہیں بری کردیا تھا۔ امریکہ نے کہا کہ انہیں پکڑو۔ ہم نے پکڑ کر اندر کر دیا۔ اب جب کہ امریکہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ حافظ سعید کے بارے کوئی شکایت نہیں ہے تو انہیں فوری طور پر رہا کر دینا چاہیے۔ اب انکل ”سام“ نے بھی انہیں بے قصور کہہ دیا ہے تو جناب احسن اقبال اور خواجہ آصف صاحب رات کو سونے سے پہلے انہیں رہا کریں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بے قصور کو فوری رہا کریں۔ خواجہ آصف صاحب کی باتوں کا کوئی اعتیار نہیں کرتا۔ ہماری ان سے درخواست ہے کہ پہلے ایک فیصلہ کریں۔ امریکہ کے ساتھ ملکر چلنا ہے یا اسے آنکھیں دکھانی ہیں۔ کبھی آپ امریکہ کو کہتے ہیں حکم کریں ہم وہیں بمباری کریں گے۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم ڈو مور کریں گے۔ کبھی کہتے ہیں ڈومور نہیں کریں گے۔ خدارا ایک جگہ قائم تو رہیں اور اپنے مو¿قف پر ڈٹ جائیں۔ اس وقت ساری قوم ڈٹ جانے کےلئے تیار ہے۔ سارے سیاستدان اسحاق ڈار، خواجہ آصف، احسن اقبال، آصف زرداری، عمران خان، جہانگیر ترین کیوں مل کر اکٹھے نہیں بیٹھ جاتے۔ اتنی دولت اور غیرملکی پراپرٹی رکھ کر کیا کریں گے۔ لندن جیسے ملک میں ایکڑوں میں پھیلی ہوئی پراپرٹی کا کیا کرنا ہے۔ وہاں گھوڑے دوڑانے ہیں۔ وہاں قیام کےلئے ایک یا دو کمروں کا فلیٹ ہی کافی ہے۔ جہانگیر ترین کی میلسی میں زمین حدنگاہ تک پھیلی ہوئی اور لوگ ان کے بارے خوب جانتے ہیں جس طرح انہوں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔ شہباز شریف صاحب کا ایک پاﺅں مسلم لیگ ن میں ہے ایک پاﺅں کہیں اور ہے۔ انہوں نے حبیب جالب کو پڑھا ہوا ہے اور کبھی کبھار جذباتی ہو کر نعرے کے طور پر شعر بھی پڑھ دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ، جو پہلے مصطفیٰ کھر کی بیوی تھی، نے کہا کہ شریف خاندان کو اپنا پیسہ پاکستان میں لے آنا چاہیے۔ یہ تخمینہ لگایا جا چکا ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری، سیاستدانوں اور بیورکریٹ کا جتنا پیسہ بیرون ملک بینکوں میں پڑا ہے۔ اسے واپس لے آئیں۔ بینظیر بھٹو پھنسنے والی تھی۔ مشرف نے این آر او کرنا تھا۔ اس لئے وہاں ایک خط لکھا گیا۔ میں نے پرویز مشرف سے پوچھا جناب آپ ان سے صلح کرنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح؟ میں نے کہا اوپر سے سن کر آیا ہوں۔ سربیا کے بیسمنٹ میں وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے بینظیر کے بارے چٹھی لکھی ہے کہ مقدمہ ”ڈیٹ ان آفس“ کر دیا جائے اس کا مطلب ہے آپ نے ان کے خلاف مقدمہ رکوا دیا ہے۔ انہوں نے کہا مجھے پتا نہیں یہ طے ہے کہ حکومت پاکستان نے بینظیر کے خلاف خود کہہ کر کیس رکوایا تھا۔ ابھی این آر او نہیں ہوا تھا۔ بات چیت چل رہی تھی۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جتنا پیسہ جمع ہے۔ پانامہ میں آنے والے ”سیف اللہ“ اینڈ فیملی کے بارے میں آج تک کسی نے رٹ دائر نہیں کی۔ جن کی سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں۔ سلیم سیف اللہ، کلثوم سیف اللہ کے پاس کونسی دولت کی کانیں ہیں جو یہاں سے نکال نکال کر باہر لے جاتے رہے۔ دبئی میں ہر دوسری بہترین بلڈنگ پاکستانیوں کی ہے۔ ان سب پاکستانیوں کی دولت اگر واپس آ جائے تو ہمارا تمام قرضہ اتر جائے گا۔ تمام قرضے اتر جائیں گے اور اکنامی پٹڑی پر آ جائے گی۔ دیگر حاجی بھی اس میں شامل ہیں چودھری پرویز الٰہی، چودھری شجاعت حسین ان سب کی پراپرٹی باہر موجود ہے۔ تمام سیاستدان اپنا پیسہ واپس تو لائیں بیشک ان کے نام ہی رہے۔ ان کے بینکوں میں ہی رہے لیکن اپنے ملک میں تو لاﺅ۔ ہماری قوم بار بار انہیں ووٹ دیتی ہے۔ شاہ محمود قریشی اور مرید حسین قریشی، سجاد حسین قریشی مرحوم کے صاحبزادگان ہیں۔ دونوں بھائیوں کی آج تلخ بیان بازی سامنے آئی ہے۔ یہ کوئی اچھا اخلاق نہیں ہے۔ دین کے معاملے میں معاوضہ وصول کرنا ”حرام“ ہے۔ مرید حسین قریشی نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نمازیں پڑھائیں، جنازے پڑھائیں۔ لیکن گدی کی وجہ سے عمران خان کےلئے ووٹ نہ مانگیں۔ عمران خان کا مو¿قف ہے کہ کے پی کے میں اس نے پولیس کو غیرسیاسی کر دیا ہے۔ زاہد خان کے الزام لگانے پر انہیں ضرور تردید کرنی چاہیے کہ انہوں نے پولیس کو یہ ٹاسک نہیں دیا کہ حلقہ این اے 4پشاور میں تحریک انصاف کو جتوانے کی ذمہ داری پوری کرے۔ عام طور پر ضمنی الیکشن میں وہی پارٹی جیت جاتی ہے جس کی وہ سیٹ ہوتی ہے۔ لیکن جنرل الیکشن میں تبدیلی آ سکتی ہے۔

 

بھارتی فوج کو مضبوط بنانا پاکستان کیخلاف سازش ہے :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل فائیو کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ خواجہ آصف امریکہ جاتے ہیں تو بیان دیتے ہیں کہ ڈومور کیلئے تیار ہیں جہاں آپ کہیں گے بمباری کرینگے۔ اب یہاں مختلف بیان دے دیا کہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتے سمجھ سے باہر ہے کہ ان کی کون سی بات پر یقین کر لیا جائے۔ خواجہ آصف بڑی اہم ذمہ داری پر تعینات ہیں انہیں ہر دوسرے دن رائے تبدیل نہیں کرنی چاہیے۔ تاکہ ان کی بات سنجیدگی سے لی جائے۔ امریکہ نے بھارت کی فوج کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی دینے کا کہہ دیا ہے۔ ہندو کی گود میں بیٹھ کر جو چاہے تیر چلائے پاکستان اپنی سلامتی اور خودمختاری کی جنگ لڑنا جانتا ہے۔ پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے ہم ایٹمی طاقت میں بہترین میزائل سسٹم رکھتے ہیں دشمنوں سے نمٹنا جانتے ہیں۔ امریکہ خوب جانتا ہے کہ بھارت کی فوج صرف پاکستان کے خلاف استعمال ہو گی کیونکہ اس کا بنگلہ دیش، سری لنکا ودیگر چھوٹے ممالک سے کوئی جھگڑا نہیں۔ چین سے وہ لڑ نہیں سکتا صرف پاکستان ہے جس کو آج تک ہندو بنئے نے دل سے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی یہاں دہشت گردی اور نفرت پھیلانے میں مصروف ہے کوئی شک نہیں کہ بھارتی فوج کو مضبوط بنانے کا مقصد پاکستان پر چڑھائی کو ممکن بنانا ہے۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا گل کھلا رہا تھا سب سامنے آ چکا ہے۔ بچوں سے زیادتی اور فحش تصاویر پر بل کے حوالے سے سینئر صحافی نے کہا کہ طلال چودھری اپنی ساری صلاحیتیں تو مخالفین کو گالیاں دینے پر صرف کر دیتے ہیں۔ اگر وہ سنجیدگی سے کام کر رہے ہوتے تو بل پر مخالفت کی گنجائش نہ تھی وہ کہہ سکتے تھے کہ 73ءپہلے سے موجود میں ایک بل اور منظور کر لیتے ہیں۔ اصل صورتحال بڑی تشویشناک ہے خود سرگودھا، ملتان، رحیم یار میں جو خوفناک واقعات سامنے آئے اور قانون حرکت میں نہ آ سکا تو مزید قانون بنانے میں کیا فرق پڑے گا۔ قصور میں 300 بچوں کا میگا سکینڈل سامنے آیاجن سے زیادتی کی ویڈیو اور تصاویر بنا کر غریب والدین کو برسوں تک بلیک میل کیا گیا۔ قصور میں ایک بچے کے والد سے ملا تو اس کی باتیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آنکھوں میں آنسو لیے شرمندگی سے خود کو قصوروار سمجھتا رہا اس والدنے بتایا کہ کیس کو 8 سال گزر چکے ہیں اپنی محدود آمدنی سے ملزمان کو رقم دیتا ہوں کہ وہ میرے بچے کی ویڈیو عام نہ کریں۔ میرا بیٹا گھر سے باہر نہیں نکلتا ہم بچوں کو سکول تک بھیجنے سے ڈرتے ہیں اس مکروہ کھیل کے پیچھے ایک صوبائی رکن اسمبلی اور اس کا وکیل بھائی تھاجن کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ یہ صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم سب جانور بن چکے ہیں انسانیت نام کی کوئی چیز ہمارے اندر زندہ نہیں رہی۔کراچی میں کرپشن کی داستانیں مشہور ہیں۔ اے پی این ای اور سی پی این ای نے باقاعدہ قراردادوں میں کہا ہے کہ وزارت اطلاعات میں اتنا غبن رہا ہے اتنی کمیشن لی جا رہی ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ رینجرز کے تحت جے آئی ٹی نے جتنے لوگوں کو پکڑا پوچھ گچھ کی تو ہر کسی نے ہمیں کہا کہ اتنا حصہ بلاول ہاﺅس پہنچاتا تھا۔ اگر یہ غلط بیان تھے تو زرداری ان کے خلاف عدالت کیوں نہ گئے۔ آصف زرداری پر الزامات ہیں کہ اتنی شوگر ملز اور زمینوں پر قبضے کیے آج تک تردید کیوں نہ کی۔ کراچی میں صفائی کی صورتحال بھی دگرگوں ہے کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا۔ پاکستان میں تمام صوبوں میں ہی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری ادارے تباہ ہو چکے ہیں کرپشن نے انہیں گھن کی طرح کھا لیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں نہ مارشل لاءاچھا آیا نہ جمہوریت ہی اچھی ملی۔ مشرف دور میں جب تک سیاستدان ساتھ نہ تھے کرپشن قدرے کم رہی جیسے ہی سیاستدان ہم رکاب ہوئے بدترین کرپشن شروع ہو گئی۔ نواز شریف اپنی بیمار بیگم کی عیادت کرنے جائیں گے نہ کہ احتساب عدالتوں میں دھکے کھانے آئیں گے۔ نواز شریف پاکستان نہیں آئے ان کے وکیل بھی پیش نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کا پورا نظام عدل لرز رہا ہے ۔ دیکھنا ہے کہ یہ نظام چلتا ہے ڈوبتا ہے۔ سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کو اچھے انداز میں ہینڈل کیا ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہم تعاون کو تیار ہیں اور یہ بھی باور کرا دیا کہ آپ کی خواہشات یعنی مزید ڈومور نہیں کر سکتے بلکہ ہم اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے ڈومور کرینگے۔ امریکی وزیرخارجہ کابل میں الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے پاکستان آئے تو رویہ مختلف تھا اب دبئی گئے ہیں تو ٹون پھر بدل گئی ہے بھارت کو بڑی بڑی آفرز اس لیے کی جا رہی ہیں کہ امریکہ اسے پارٹنر سمجھتا ہے کسی زمانے میں ہم امریکہ کے پارٹنر تھے آج بھارت ہے حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں صدر بدلنے سے پالیسیاں نہیں بدلتی۔ کلنٹن دور میں امریکہ نے بھارت کو پارٹنر بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ تاکہ اسے صدر بنا کر چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ امریکہ نیڈولم کی طرح گھومتا ہے اس کی پالیسی میں اعتدال نہیں ہے۔ پاکستان کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے چین اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں روس سے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں پاکستان کو اپنے مفادات کے تحت فیصلے کرنا ہونگے۔

 

سعودی حکام نواز شریف سے ناراض ،شاید وہ کوئی مدد نہ کریں :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار صیا شاہد نے کہا ہے کہ سینٹ میں ترمیمی بل کے خلاف منظور ہونے والے بل اور ہائیکورٹ کی طرف سے ہونے والے نوٹس سے لگتا ہے کہ شاید نوازشریف زیادہ دیر تک پارٹی صدر نہ رہ سکیں۔ آصف زرداری مفاہمت کے شہنشاہ ہیں۔ ان کی باتوں پر لوگ زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ بلاول بھٹو نوجوان ہیں اور جذباتی بھی۔ لیکن وہ اپنے والد کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے پی پی پی عملاً آصف زرداری کے پاس ہے۔ سینٹ تقریباً تمام ہی ارکان جن کا تعلق پی پی پی سے ہے وہ پی پی پی (پارلیمنٹیرین) کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے اور پارلیمنٹیرین کے سربراہ آصف زرداری ہیں۔سیاسی پارٹیوں میں زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ اکاﺅنٹ کس کے پاس ہے اور تمام پیسے آصف زرداری کے پاس ہیں۔ بلاول جس ونگ سے تعلق رکھتے ہیں اس کا ایک شخص بھی نہ تو پارلیمنٹ میں ہے نہ سینٹ میں۔ نوازشریف کے خلاف حالات بہت سنجیدہ ہیں لیکن اس کے باوجود شہبازشریف نہ تو ان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں چھوڑتے ہیں۔ بس درمیان میں ہیں۔ شہبازشریف ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو اپنے بیٹے کو بلا کر کہتے ہیں صلح کر لو۔ شہباز شریف اگر نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہے تو انہیں کچھ نہیں ملے گا اگر انہیں چھوڑتے ہیں تو انہیں سب کچھ مل سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں چھوٹا ملزم پکڑا جاتا ہے۔ بڑا ملزم صاف نکل جاتا ہے۔ شرجیل میمن ہوں یا اسحاق ڈار، تاریخ پر تاریخ تو پڑتی رہتی ہے۔ شرجیل میمن کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ چھوٹے ملزم ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک تو ہو گا۔ محمد علی درانی صاحب نے مجھے بتایا کہ سعودی سفیر کے مطابق سعودی خاندان نے اس وقت بہت برا محسوس کیا ہے جب انہوں نے پاکستان سے امداد کا تقاضا کیا انکار کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہو گئے۔ سعودی سفیر نے بتایا کہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ نوازشریف نے نہ فوجی دستے بھیجے نہ جہاز اس کے برعکس نوازشریف نے چھ افراد سے مل کر ہمیں بُرا بھلا کہلوایا۔ اور ایران کے خلاف ہمیں بُرا بھلا کہا۔ سعودی عرب نوازشریف کو مشرف سے چھڑا کر وہاں لے گئے۔ پھر واپس لا کر حکومت دلوائی۔ اس طرح ہر معاملے میں پاکستان کی مدد کی۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی بہت بے عزتی ہوئی ہے۔ خبر یہ ہے کہ نوازشریف سعودی حکومت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک این آر او کروا کر دیں اور مقدمات واپس کروائیں۔ سعودی عرب اس پر راضی نہیں ہے۔ آئینی طور پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں۔ اگر چاہیں تو صوبوں میں گورنر راج بھی لگا سکتے ہیں۔ لیکن حالات ایسے نہیں ہیں بلوچستان میں حالات بہت خراب ہیں۔ جتنا بھی پریشر ہے وہ وہاں کی اسمبلی نے اٹھا رکھا ہے۔ اسمبلی توڑنے کی غلطی کی تو بہت خوفناک ثابت ہو گی۔ بلوچستان میں وزیراعلیٰ، سابق وزیراعلیٰ اور گورنروں سے میری ملاقات ہوئی ہے یہاں حالات بہت خراب ہیں۔ گزشتہ 3 دنوں سے وہاں اخبار تقسیم ہی نہیں ہوا دہشت گردوں نے کہہ رکھا ہے کہ اخبار ہاکر یا وین کو دیکھتے ہی اڑا دیں گے۔ وہاں گورنر راج لگایا گیا تو اس کے نتائج اس سے بھی خطرناک ہوں گے۔ عبدالقادر بلوچ کل وزیراعلیٰ کی دی ہوئی پارٹی میں ہمارے ساتھ شریک تھے۔ انہوں نے جذباتی انداز میں معصوم بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ذکر کیا یعنی مریم نواز کے ساتھ ظلم کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر ٹیبل پر بیٹھے ہوئے بارہ لوگوں میں سے 3 چار لوگوں نے ان کی بات کو بُرے طریقے سے کٹ کر دیا اور کہا جناب آپ یکطرفہ بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا معصوم بچی (مریم نواز) بھی بہت کچھ کر رہی ہے۔ لگتا ہے۔ ن لیگ کا معاملہ اس طرف جا رہا ہے کہ نوازشریف کو پارٹی سے علیحدہ کر دیا جائے۔ ظفر اللہ جمالی پارٹی چھوڑ چکے ہیں، ریاض پیرزادہ کھل کر کہہ چکے کہ شہباز شریف ٹیک اوور کر لیں ان کی موجودگی جو بھی گفتگو ہوئی وہ نوازشریف کے مخالف میں ہی ہو سکتی ہے۔ اگر شہباز شریف نے تھوڑی سی ہمت کی اور پارٹی سنبھال لی تو شریف خاندان کا شخصی پارٹی کے اندر اثرورسوخ قائم رکھ سکے گا۔ اس کے چانسز بھی کم ہیں۔ ظفر اللہ جمالی کے درمیان ہونے سے لگتا ہے کہ غیر شریف خاندان بھی سوچا جا رہا ہے۔ ان کی فیملی پرو پاکستان کہلاتی ہے۔ وہ پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔ ان کے خلاف کوئی سکینڈل بھی سامنے نہیں آیا۔ ایوب دور میں کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ ان کے خلاف الیکشن لرے۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح نے الیکشن لڑا اور مشرقی پاکستان میں کامیاب ہو گئیں۔ لیکن مجموعی طور پر ایوب خان جیت گئے۔ لیکن فاطمہ جناح نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے خوف کو زائل کر دیا۔ عمران نے مجھ سے کہا کہ نااہل ہوا تو پارٹی کے چار، پانچ لوگ پارٹی چلا سکتے ہیں۔ میں نے تحریک بنائی لہٰذا اسے چلاتا رہوں گا۔ اور کرپشن کے خلاف جنگ جاری رکھوں گا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ کہہ رہا ہے میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔ امریکہ تعلقات کے بارے ہمارے سامنے دو ہی راستے تھے۔ پہلا یہ خواجہ آصف نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور کہا کہ ہم ”ڈو مور“ کریں گے۔ دوسرا یہ کہ اپنے ملک سے 5 سے 10 سال تک کے لئے تمام تر عیاشی، تمام ایمپورٹس، تمام فضول خرچیاں، تمام کرپشن کا خاتمہ کر کے۔ چین کی طرف ”آئرن کرٹن“ ڈال کر خود مختاری کی زندگی گزارانا سیکھیں گے۔ ہم نے پہلا راستہ اختیار کیا۔ اب ہم ہر آنے والے وقت اور لمحے میں امریکی آقاﺅں کے سامنے سرخم رکھیں گے۔ امریکی وزیرخارجہ نے اس لئے دھمکی دی ہے کہ اچھا، بُرا کوئی طالبان قبول نہیں۔ اگر آپ نے ساتھ دیا تو ہم مشکیں کس دیں گے۔ ہم نے گمنامی، ذلت، رسوائی، بے عزتی کا راستہ اختیار کیا لہٰذا بازاروں میں امپورٹڈ سامان بھی بکے گا۔ مارکیٹوں میں پھل اور سبزی تک باہر سے آنے لگی ہے۔ اس امپورٹ پر پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ زرمبادلہ باہر جاتا ہے۔ ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاش نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 63/A کو مدنظر رکھتے ہوئے عائشہ گلا لئی کو ریلیف دیا۔ اس معاملے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر ن لیگ کا فاروڈ بلاک بنتا ہے تو کسی بھی رکن کے اوپر انٹرا پارٹی فلور کراسنگ شو نہیں لگے گی۔ لہٰدا آج کا چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ پرویز مشرف نے جب آئین معطل کیا اور نئی ترامیم کیں اس میں چودھویں ترمیم ختم کر کے 63/A بنائی تھی۔ الیکشن کمیشن کے آج کے فیصلے کے بعد تمام پارلیمنٹ آزاد ہے وہ جس کے ساتھ چاہیں چلے جائیں۔ یا پارٹی سربراہ کے خلاف بات بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے اس رکن کی رکنیت ختم نہیں ہو گی۔ ایم کیو ایم کے 9 ارکان کے خلاف بھی فیصلہ آنے والا ہے۔ لہٰذا آج کا فیصلہ بہت اہم ہے۔ مکمل فیصلہ آنے کے بعد پتا چلے گا کہ الیکشن کمیشن نے کون سی لاز کے تحت یہ فیصلہ دیا ہے۔

کسی نے میرے ضلع کےلئے آواز نہیں اٹھائی گونگے بہرے لوگ اسمبلیوں میں گئے: ضیاشاہد

لاہور (رپورٹنگ ٹیم) میزبان ضیاشاہد نے کہا کہ بدقسمتی سے میرے ضلع بہاولنگر سے گزشتہ پچاس برس میں ایک بھی ایم این اے اور ایم پی اے نہیں دیکھا جس نے پہلے صوبائی اور اب وفاقی اسمبلی میں شہر میں یا اپنے علاقے میں پانی کی کمی شکایت کی ہو ۔میں نے پہلے نوائے وقت ،پاکستان اور اب روزنامہ خبریں میں 43برس گزارنے کے بعد بھی کسی مذاکرے،سیمینار یا جلسے میں ایسی کوئی آواز نہیں سنی مگر باہولنگر جہاں میں پڑھتا رہا ہوں وہاں کے عوام داد کے مستحق ہیں جو ایسے گونگے اور بہرے افراد اسمبلیوں میں منتخب کرکے بھیجتے ہیں۔

نواز شریف صاحب! جوشیلے ورکروں کو ٹھنڈا کریں،انار کی نہ پھیلائیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ضیا شاہد کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے درمیان شدید قسم کی محاذ آرائی ہو رہی ہے۔ کبھی کبھار ابھر کر سامنے بھی آ جاتی ہے۔ دعا ہے اداروں میں ٹکراﺅ نہ بڑھے۔ آج عدالت پر چڑھائی ہوئی ہے۔ یہ پیغام ہے کہ سیاسی حامی، اداروں پر چڑھ کر کارروائی متاثر کر سکتے ہیں۔ آج نوازشریف کے حامیوں نے کہا کل پی ٹی آئی اور پرسوں پی پی پی کے کارکن ایسا کریں گے۔ معیشت پر بات کرنا اصل میں حکومت وقت کا کام ہوتا ہے۔ یہ آرمی کا کام نہیں ہے آرمی چیف نے اگر کوئی بات کہہ بھی دی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں۔ احسن اقبال صاحب کے اس ردعمل کی ضرورت نہیں تھی۔ احتساب عدالت کے سامنے ہونے والا واقعہ افسوسناک ہے۔ وکلاءکے روپ میں نہ جانے کون لوگ تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت چیخ چیخ کر فوج کو آوازیں دے رہی ہے کہ جلدی آﺅ کہاں رہ گئے ہو۔ جو بگاڑ سکتے ہو جلدی آ کر بگاڑو۔ دوسری جانب فوجی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوری نظام کو چلتا دیکھنا چاہتے ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عدالت کے لئے لاءاینڈ آرڈر کو قائم رکھے۔ کیس کسی کا بھی ہو۔ سول حکومت کا فرض بنتا ہے کہ عدالت کے اندر اور باہر تمام حالات کو نارمل رکھے۔ جس دن رینجرز کے افسر کی پٹائی کرنے کا پروگرام تھا۔ وہ وہاں نہیں آئے نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یا رینجرز آنے سے انکار کر دے یا حکومت اسے باہر نکال دے کہ جاﺅ بھائی! تمہاری ضرورت نہیں۔ رینجرز آرمی کے انڈر ہوتی ہے۔ ان کی تربیت بھی آرمی جیسیہوتی ہے۔ احتساب عدالت کے باہر آج ایف سی کو بلایا گیا۔ اس کی تربیت تقریباً پولیس جیسی ہوتی ہے۔ اس کا لباس بھی شلوار قمیض ہوتی ہے۔ وہ پولیس کی طرح کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔ احسن اقبال نے اسلام آباد کو دہشت گردوں اور بھوکے بھیڑیوں کے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا ہے۔ جو اسلام آباد کا امن و امان خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سلام آباد حساس علاقہ ہے۔ یہاں تمام ملکوں کی ایمبیسیاں ہیں۔ تقریباً تمام ہی اداروں کے ہیڈ آفسز ہیں۔ ایسے اہم اور نازک مقام پر کیا فوج اور رینجرز کو تعینات کیا جانا چاہئے؟ یا ایف سی اور پولیس جیسے اداروں کو کنٹرول دے کر ناخوش گوار واقعات کا انتظار کیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، میاں شریف کے پاس ایک خطیب کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے شہباز شریف صاحب نے اپنی کمر پر اٹھا کر انہیں مناسک حج ادا کئے۔ ان کی بہت پرانی شناسائی ہے۔ دونوں ایک دوسروں کو اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ آج انہوں نے کہا ہے کہ نوازشریف کے اندر الطاف حسین چھپا ہوا ہے۔ تو یقینا انہوہں نے کہیں محسوس کیا ہو گا۔ اس کا جواب تو نوازشریف ہی دے سکتے ہیں۔ میں نوازشریف سے درخواست کروں گا کہ اپنے مشیروں کو کچھ تہذیب سکھائیں۔ انہیں روکیں اگر نہ روکا تو دوسری پارٹیاں بھی اسی طرح کے کام کر سکتی ہیں۔ ان کے پاس بھی کالے کوٹ ہیں۔ خدارا ملک کو انارکی کی طرف نہ لے کر جائیں اور ڈریں اس دن سے جب اسلام آباد میدان جنگ بن جائے۔ کیپٹن (ر) صفدر اگر فوج کو نہ چھوڑتے تو بہت آگے تک جاتے۔ جس رضوان اختر کو ن لیگ کے حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ بعد میں انہیں چھٹی بھی کروا دی گئی۔ کیپٹن (ر) صفدر صاحب کے ایک زمانے میں ان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اتفاق ہے کہ آج وہ ان کی فیملی کے سامنے آ کھرے ہوئے۔ اسی پر ڈان لیگ کی بنیاد بنی تھی۔ آرمی کے جنرل حتیٰ کہ بریگیڈیئر لیول تک کوئی قادیانی نہیں ہے۔ کیپٹن صفدر صاحب کس کی زبان بول رہے ہیں۔ کنور دلشاد کوئی مولوی نہیں وہ بھی حیران ہیں کہ کیپٹن صاحب ایسی زبان کیوں استعمال کر رہے ہیں۔ ایسی باتیں تو دشمن ممالک کو سوٹ کرتی ہیں۔ جنہوں نے ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے۔ ان کے خلاف ایسی ہرزہ سرائی نہیں کرنی چاہئے۔ مولویوں کو خوش کرنا مقصود ہے تو یہ فورم نہیں ہے۔ احسن اقبال اچھے خاصے پڑھے لکھے انسان ہیں وہ سی پیک پر لگے ہوئے تھے نامعلوم کون ان کے خلاف سازش کر کے انہیں یہاں گھسیٹ لایا ہے۔ انہیں داخلہ کا کوئی تجربہ نہیں۔ چودھری نثار علی خان کو کریڈٹ جاتا ہے جس طرح انہوں نے مشکل ترین حالات میں گقت گزارا جب کراچی میں رینجرز کی تعیناتی میں وسعت کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت صوبائی حکومت اور فوج دکھائی دیتا تھا کہ ٹکواﺅ کی کیفیت بن جائے گی لیکن چودھری نثار نے بہت اچھے طریقے سے معاملات کنٹرول کر لئے، چودھری نثار، احسن اقبال سے کئی گنا اہل انسان تھے۔ جب کسی کے بُرے دن آتے ہیں وہ غلط فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ نوازشریف کی جانب سے اب غلط پر غلط فیصلے ہوتے جا رہے ہیں۔ اب معاملہ قادیانی تک رکنے والا نہیں اب یہ باتیں آئیں گی کہ فوج میں کتنے سنی ہیں کتنے شیعہ ہیں اور کتنے وہابی۔ پھر آئے گا کہ کس صوبے سے کتنے ہیں پھر کوٹہ سسٹم آ جائے گا۔ خدارا فوج کو بخش دیں۔ وہ بہت اہم ککام کر رہی ہے۔ بارڈر کی حفاظت ایک طرف دوسری جانب اندرون ملک آپریشن کا سلسلہ شروع ہے۔ سب سے پہلے میں وزیر قانونن پنجاب رانا ثناءاللہ سے اپنے ادارے کی طرف سے معافی چاہتا ہوں۔ ہوا یوں کہ شام کے اخبار میں ان کے بیان کو دوسرے انداز میں چھاپ دیا گیا، کچھ غلطی ان سے ہوئی کہ انہوں نے کہا وہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں بس ذرا اختلاف ہے۔ ختم نبوت کے مسئلہ پر چھان بین پر معلوم ہوا کہ سرخی چھپی کہ قادیانی مسلمان ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں تھا۔ میں نے معذرت چاہتی۔ پروگرام میں وضاحت کی۔ اخبار میں وضاحت کی۔ خبریں میں کی۔ کیا اخبار میں کی۔ لیکن خود انہوں نے غیر محتاط زبان استعمال کی اس کی کیا ضرورت تھی۔ ہم قادیانی کی مقدس شام کو عبادت کی جگہ کہتے ہیں اسے مسجد نہیں کہتے۔ رانا صاحب کو چاہئے وہ خدارا کوئی وضاحت کر دیں۔ وہ ہر گز قادیانی نہیں ہیں نہ ان کے عقائد ایسے ہیں۔ میں خود ان کی طرف سے معذرت چاہتا ہوں رانا صاحب ”رفع شر“ کے طور پر اسے واپس لے لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میں نے یہ نہیں کہا۔ لاہور میں تھڑا سیاست میں پہلے خوب بحث ہوتی ہے آخر میں یہ فیصلہ آتا ہے کہ سب چور ہیں۔ عمران خان کے لئے بھی مشہور ہو گیا ہے کہ وہ منی ٹریل نہیں دے سکے۔ میں انہیں جانتا ہوں وہ بددیانت تو نہیں ہے۔ لوگ باتیں تو کرتے ہیں۔ ذوالفقار بھٹو اور بینظیر کتو تو لوگ نہیں کہتے تھے لیکن آصف زرداری کے متعلق تو لوگ خوب بولتے ہیں۔ تجزیہ کار مکرم خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں رینجرز کو بڑے ٹیکنیکل انداز میں ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کی جگہ پر ایف سی لائی گئی ہے یہ وزارت داخلہ کے انڈر کام کرتی ہے۔ یہ صرف کے پی کے میں موجود ہے جو انگریزوں کے دور میں بنائی گئی تھی۔ اس میں بھرتی کا معیار اور تربیت کا کوئی خاص معیار ہی نہیں ہے۔ یہ گارڈز کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ رینجرز کو ہٹایا جانا ڈرامے کا پہلا سین تھا۔ آج اس کا دوسرا سین دکھایا گیا۔ ن لگ نے آج ججوں کو ہراساں کر دیا۔ اگلی پیشی پر رینجرز کو بلایا جائے گا۔ حکومت چاہے گی کہ 19 کو بھی رینجرز نہ آ سکے تا کہ میاں فیملی پر فرد جرم عائد نہ کی جا سکے۔ رینجرز کی تربیت اور بھرتی تقریباً فوج کے انداز پر ہوتی ہے۔ آرمی کی طرح ان کو سخت تربیت سے گزارا جاتا ہے۔ ان کے افسران زیادہ سے زیادہ 19 گریڈ تک جاتے ہیں اس کے مقابلے میں ایف سی ایک نیم پولیس کی طرح کا ادارہ ہے۔ ان کی تربیت بھی پولیس کی طرح ہوتی ہے۔ یہ موروثی قسم کی نوکری ہے۔ اب اسے بہتر بنایا جا رہا ہے لیکن ہر گز ہر گز اس کی تربیت فوج یا رینجرز کی طرح نہیں ہوتی۔ یہ ایک قسم کی سکیورٹی فورس ہے۔ عام طور پر یہ گارڈز کے کام کرتی ہے۔ ان کے پاس جدید ہتھیار بھی نہیں ہوتے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بات کی ہے۔ آج ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ بری نہیں تو اچھی بھی نہیں۔ فوج کے ترجمان کی بات انتہائی محتاط ہوتی ہے اور وہ باقاعدہ اجازت لے کر اور بہت احتیاط کے ساتھ بیان دیتے ہیں۔ یقینا ہمارے عسکری اداروں کو معیشت کی زبوں حالی نظر آ رہی ہے وہ اس پرتشویش کا شکار ہے قومی سلامتی اور معیشت دونوں پر انہوں نے بات کی ہے۔

کور کمانڈرز کانفرنس میں ریڈ لائن ڈرا کر لی گئی:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ نوازشریف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی انہی کے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے معاملات اگر اہم اداروں کی بجائے عوامی جلسے، جلوسوں اوار مجموعوں میں ہونے لگے۔ تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی۔


 

عدالت اگر نااہلی کا فیصلہ واپس لے لے اور وہ وزیراعظم بن جائیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ایسی روش کو عدالتی فیصلوں کو نہیں ماننے کا درست نہیں۔ میاں صاحب کو یاد ہو گا۔ ہم نے اپنے مضامین اور اداریوں میں یکطرفہ اور کھلی کچہری میں فیصلے کرنے کی شدید مخالفت کی ہے یا کوئی ایم پی اے اور ایم این اے کے بیان پر فیصلہ دے دینا عقلمندی نہیں۔ دونوں طرف سے موقف سنا جانا چاہئے فائل دیکھے بغیر فیصلے کئے جانے لگے تو دنیا کے کام ٹھپ ہو جائیں گے میاں صاحب کو عدالت پر اعتراض ہے درست ہے۔ نظر ثانی پر اعتراض ہے درست ہے ان کا حق ہے لیکن جناب نوازشریف صاحب انہیں عدالتوں سے نااہلی کی واپسی کا فیصلہ بھی لینا پڑے گا۔ مجمع اکٹھا کرنے سے فیصلے نہیں ہوتے۔ کسی معاشرے کا سسٹم بھی ثالث عدالت اور ادارے کے بغیر چلنا ممکن نہیں۔ ایسا ادارہ جہاں انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔ میاں صاحب کے وکیل صاحبان کے دلائل عدالت میں سنے نہیں جا رہے؟ عدالت ان کی بات بھی سن رہی ہے؟ آپ عدالتوں پر دباﺅ برقرار رکھیں لیکن جمہوریت اسے قبول نہیں کرتی۔ ہر ملک میں تین ادارے، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ موجود ہوتی ہے۔ ان تینوں اداروں کو جمہوریت کے ستون کہا جاتا ہے لیکن حتمی فیصلہ ایک ”کمپیٹنٹ کورٹ“ سے ہی ہونا ہے۔ سڑکوں اور جلسوں میں فیصلے نہیں ہوتے۔ اس سے ملک نہیں چلتے۔ عدالتیں، سیشن کورٹ، ہائیکورٹ اگر کچھ نہیں ہے اور فیصلے تھانوں کے باہر کھلی کچہریوں یا تھڑوں پر ہونے ہی کو عدالتوں کو بند کر دیں۔ نوازشریف کے خلاف پانچویں ریفرنس عدالتوں میں ثابت ہونے ہیں۔ وہ غلط ہیں یا درست، عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔ ملک کے لوگ اندھی لیڈر شپ کے قائل ہیں۔ یہ سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں کہ عدالت کے فیصلے کا انتظار تو کر لو۔ حلقوں میں ووٹ لینے سے فیصلے تبدیل نہیں ہوا کرتے حلف نامے میں غلطی کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ کوئی مائی کا لعل اس میں تبدیلی کر ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے واپسی کا اعلان کر کے اچھا کیا ورنہ اتنی عوام نکلنی تھی کہ ان سے برداشت نہیں ہونا تھا۔ دیکھنا ہو گا یہ شرارت کس نے کی۔ شہباز شریف نے درست کہا تھا کہ ”میاں صاحب آپ کی لیگل ٹیم ٹھیک نہیں ہے“ ہم بھی بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ان کے مشیروں نے انہیں مروایا۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میں نے بہت لوگوں سے رائے لی۔ ریٹائرڈ فوجیوں سے بات کی ہم نہ تو فوج کے حامی ہیں اور نہ ہی سیاستدانوں کے مخالف ہیں۔ نہ ہی جمہوری نظام کے مخالف ہیں۔ میری خواہش جمہوری نظام کے چلتے رہنے پر ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس پر میری پیشنگوئی 90 فیصد درست ثابت ہوئی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ملکی سرحدوں کی صورتحال، لائن آف کنٹرول، افغانستان کے ساتھ معاہدہ۔ ان تمام چیزوں پر اس کانفرنس میں بات ہوئی۔مجھے اپنے وطن سے پیار ہے۔ اس سے بڑی بکواس نہیں کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ ایک پیج پر آ جائیں۔ میری خواہش ہے کہ سول حکومت، فوج، رینجرز اور دفاعی شعبے اور تمام ادارے مل جل کر چلیں۔ کیونکہ اس وقت ملک کو سب سے بڑا خطرہ، امریکی جنرل ڈن فورس نے اوپن یہ کہا ہے کہ پاکستان کی سیکرٹ ایجنسی سو فیصد دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے کیمپ ان کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ ان ڈائریکٹ فوج کو نشانہ بنانا ہے۔ یہ وہی بات ہے جب ایک مرتبہ مشاہد حسین کی وزارت کی دور میں، امریکہ میں اخبارات میں پیڈ اشتہارات چھپوائے گئے تھے۔ اور پیسے کہاں سے دیئے گئے سب کو معلوم ہے۔ امریکی جرنیل، اس ملک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جہاں کے 70 ہزار افراد نے جانوں کے نذرانے دیئے ہیں جہاں فوج نے اپنے 7 ہزار افراد شہید کروائے ہیں۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد سے ان کے جرنیل ہماری فوج، آئی ایس آئی اور دفاعی اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا اصل ٹارگٹ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں تک رسائی ہے۔ اور انہیں بے اثر کرنا ہے۔ کل کور کمانڈر کانفرنس میں امریکن جرنل کے بیان پر گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے الزامات پر گفتگو ہوئی ہے۔ پاکستان کے اثاثوں کی خفیہ نگرانی کو امریکہ نہیں بہت بڑھا دیا ہے بقول ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے۔ سول حکومت کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ احسن اقبال صاحب کل خود ایک کردار بنے ہوئے تھے۔ اگر میجر صاحب اس موقع پر وہاں پہنچ جاتے تو گڑ بڑ ہو جاتی۔ کچھ لوگوں نے تو پروگرام بنایا ہوا تھا کہ ان کے کپڑے پھاڑ دیں گے۔ فوجی کی وردی پھاڑنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فوج کا دستہ اسے چھڑانے آئے۔ ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ ہم ان سے ڈومور کروائیں گے۔ حافظ سعید اور ان کی پارٹی کو خلاف آئین قرار دلوا کر الیکشن کمیشن میں ان کی پارٹی کو درج نہ کر کے امریکی ایجنڈے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ دھرنے کے وقت آرمی کو خط لکھ کر بلوایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ پی ٹی وی، اور سفارتخانوں کے حفاظت کریں۔ فوج اس وقت سے وہاں موجود ہے یہ دستے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ یہ بحث فضول ہے کہ انہیں کس نے بلوایا؟ میری اطلاعات کے مطابق پاکستانی کچھ دوستوں نے، بھارتی اور امریکی لابیوں کو ہائر کیا۔ تا کہ وہ پاکستان کی فوج کے خلاف لابی کریں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔ پاکستان آرمی اگر مارشل لگانا چاہتی ہے یا سول حکومت کو چلنے سے روکنا چاہتی ہے تو دونوں صورتوں میں یہ عمل پاکستان کے خلاف ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں 7 گھنٹے تک کیا اس لابی کے بارے بات نہیں ہوئی ہو گی؟ میری اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں سب سے زیادہ یہی موضوع رہا ہو گا۔میری دونوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے۔ نہ سول انتظامیہ آرمی کے معاملات میں دخل دے۔ نہ آرمی سول انتظامیہ کے معاملات میں دخل دے۔ سیاست دان آج غلط ہیں تو کل اچھے بھی آ سکتے ہیں۔ سول حکومت خدارا، امریکہ کی گیم میں ”آلہ کار“ نہ بنیں شاہد خاقان عباسی صاحب برائے مہربانی وزارت خارجہ، داخلہ اور دیگر اہم لوگوں کو بٹھا کر آرمی کے ساتھ معاملات حل کریں۔ اس کا جزو نہ بنیں۔ آرمی کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ سرخ لائن کا خیال رکھتی ہے کہ کہاں سے شروع ہوئی ہے۔ کہاں تک برداشت کرنا ہے کہاں سے ری ایکشن شروع کرنا ہے۔ یہ امریکہ اور بھارت کی سنگین پالیسی ہے کہ پاکستان آرمی کو ”راگ آرمی“ قرار دلوایا جائے شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال صاحب ملک کر بیٹھ جائیں اور خدارا ملک کو تباہی کے دہانے پر نہ لے جائیں۔ شہبازشریف اور چودھری نثار کو خراج تحسین ہے جنہوں نے ہمیشہ فوج کے ساتھ محاذ آرائی کی مخالفت کی ہے۔عالم دین اور تجزیہ کار مولانا طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ میں ضیا شاہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ خود ختم نبوت کے بڑے داعی اور حامی ہیں۔ ہمارے ساتھ انہوں نے بھی ماریں، ڈنڈے اور قید کی صوبتیں اٹھائی ہیں۔ حکومت نے حلف نامے سے لفظ حلف کو ختم کر دیا اور دسرا صدقِ دل کا لفظ ختم کر دیا اقرار نامہ اور حلف نامہ میں فرق ہے۔ 7C-7B کو ختم کر دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ یہ غلطی نہیں ہے۔ اسپیکر صاحب نے کہا یہ غلطی ہے۔ اسی قسم کی علطی 1980ءمیں ضیاءالحق نے بھی کی تھی۔ ان کے سامنے ہمارے جید علماءکرام ڈٹ گئے اور بالآخر انہیں یہ ترمیم ختم کرنی پڑی۔

وزارت خارجہ کیلئے خواجہ آصف آموزوں نہیں ،احسن اقبال بہتر انتخا ب ہیں :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ آرمی چیف یا خواجہ آصف دونوں میں سے کسی ایک کو معذرت کرنی چاہئے، مک مکا نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ دنیا ڈومور کرے، وزیرخارجہ امریکہ میں اس کے برعکس بیان دے آئے ہیں۔ قومی سلامی اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہو لیکن زمینی حقائق کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ روز جمعہ کی نماز کے وقت تقریباً ہر مسجد میں خطیب حضرات نے خواجہ ااصف کے بیان کو غلط قرار دیا۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے فیصلہ کرنا ہے کہ وزیرخارجہ کا کیا کرنا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے وزیرخارجہ کے منصب پر تقرری کی سلیکشن انتہائی غلط کی۔ اس مقام کے لئے خاص شخصیت کے حامل لوگ چنے جاتے ہیں لیکن اب قحط ورجال کا یہ عالم ہے کہ جو سب سے زیادہ غیر موزوں تھا اس کا انتخاب وزیرخارجہ کے منصب پر کیا گیا۔ خواجہ آصف ھیش میں آنے والے آدمی ہیں۔ پہلے فوج پر تنقید کی جس کی وجہ سے ملٹری و سول حکومت تعلقات خراب ہوئے، ان کو وزارت دفاع بھی شاید فوج کو چڑانے کے لئے دی گئی تھی۔ تقریبات میں فوج کے سینئر افسر خواجہ آصف سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسمبلی میں بھی نازیبا الفاظ کہتے رہے ہیں۔ کبھی کسی کو کہنا ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرنا، شیریں مزاری کو ”ٹریکٹر ٹرالی“ کہا تھا۔ خواجہ آصف کو اپنی زبان پر کنٹرول نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی علمی بیک گراﺅنڈ ہے۔ احسن اقبال بہت مہذب اور پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ خواجہ آصف وزیر داخلہ اچھے بن سکتے تھے کیونکہ مارکٹائی میں ماسٹر ہیں۔ وزیرخارجہ ایسے نہیں ہوتے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی موجودہ وزیرخارجہ سشما سوراج آگرہ میں ان سے ملی تھیں۔ اس وقت وہ وزیراطلاعات تھیں۔ میرے ساتھ چند ایڈیٹر اور بھی موجود تھے ہم نے کشمیر پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ کشمیر پر مذاکرات کر لیں لیکن ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ علاقہ ہمارا ہے آپ اس کو خالی کر دیں۔ زبان کی شیریں لیکن موقف انتہائی سخت رکھتی تھیں۔ اچانک پنجابی بولنا شروع کر دیتی اور ہم سے محبت کا اظہار کرتیں لیکن اندر سے ان کا مزاج کچھ اور ہی ہوتا تھا اس کو ڈپلومیسی کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ صاحبزادہ یعقوب علی خان 7 زبانوں کے ماہر تھے، آغا شاہی کمال کے سفارتی ڈپلومیٹ تھے اور عالمی سطح پر مانے جاتے تھے۔ سر ظفراللہ خان جو بعد میں بین الاقوامی عدالت کے جج بھی بنے۔ خورشید قصوری، آصف احمد علی، میاں ارشد حسین، سردار آصف احمد علی، حنا ربانی کھر، منظور قادر، حمید الحق چودھری یہ سب شائستہ زبان بولتے تھے اور معلومات بھی رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کی سیٹ پر وزیراعظم نے خواجہ آصف کو لا بٹھایا ہے۔ اگر طے کر لیا ہے کہ ملک کا بیڑہ غرق ہی کرنا ہے تو پھر میری طرف سے بے شک خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اوپر شہر ہے نیچے گیدڑ ہیں جو مرضی کریں۔ میں یہ کہوں گا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی ٹیم میں سے وزیرخارجہ کے منصب کے لئے خواجہ آصف کا سب سے برا انتخاب کیا ہے۔ سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں ساری عمر حلقہ سیاست کی ہے۔ ان کا مطالعہ ہے نہ انٹرنیشنل امور کو جانتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کو نااہل کرنا یا نہ کرنا عدالتوں کا معاملہ ہے لیکن حنیف عباسی کیا چیز ہے؟ ایسا شخص جو الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکا پھر بھی شیر کی مہربانی سے راولپنڈی کے تمام ترقیاتی پروجیکٹ ان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔ حنیف عباسی پر ایفی ڈرین کیس چل رہا ہے جو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر بھی تھا۔ اس ملک میں کسی پر الزام کا بعد میں پتہ ہیں نہیں چلتا کہ اس کا کیا بنا۔ حسین حقانی پر میموگیٹ سکینڈل کیس تھا اس کا بھی آج تک کچھ نہیں پتہ چلا۔ حقانی سے میری اچھی بات چیت تھی لیکن بعد میں کبھی ان کو فون نہیں کیا۔ جب انہوں نے اصفہانی کی بیٹی سے تیسری شادی کی۔ شادیاں کرنے میں وہ بہت ماہر تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے ناہید خان کی بہن سے بھی شادی کی تھی ایک اصلی شادی کی جبکہ 3,2 خواتین کو ویسے چکر دیا۔ ایسے شخص کے خلاف میموگیٹ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ گزشتہ روز اخبار میں امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے میں لگی ان کی تصویر چھپی دیکھی۔ وزارت خارجہ کو عقل ہی نہیں کہ اس پر ملک سے غداری کا مقدمہ ہے وہ غدار ہے اس کی اتنے عرصے سے پاکستانی سفارتخانے میں تصویر لگی ہوئی ہے کیا وزارت خارجہ اندھی، گونگی و بہری ہے۔ وزارت خارجہ کے بارے میں مختلف اوقات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ غیر ملکی خواتین سے شادیاں کرنے والوں کو نکال دیا جائے معلوم نہیں اس پر عمل ہوا یا نہیں۔ دشمن طاقتوں نے معلوم نہیں کیسے کیسے لوگ وزارت خارجہ میں بھرتی کروا رکھے ہیں اور ان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ فوج کے اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ معلوم کریں وزارت خارجہ، سفارتخانوں میں کون لوگ ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسین حقانی کے بارے میں آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی سے یقین دہانی کرائی تھی کہ جب عدالت بلائے گی وہ واپس آ جائیں گے۔ یہ دونوں بھی جواب دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اکثر مسلم ممالک میں مسلمان سفیر بھیجتا ہے تا کہ ان سے ذاتی تعلقات اچھے بنائے جائیں اور وہ وہاں مختلف تقریبات میں شامل ہوں۔ تاثر یہ دیتا ہے کہ ہم سیکولر ملک ہیں جبکہ اکثر عرب ممالک بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان تو ہے لیکن اس سے زیادہ مسلمان انڈیا میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے ایشو پر دوسرے ممالک کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکامی کے ذمہ دار ہمارے سفیر ہیں۔ کوئی کشمیر کمیٹی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کسی علم والے شخص کو اس کا سربراہ نہیں بنایا جاتا۔ فضل الرحمن جس کو انگلش ہی نہیں آتی وہ باہر جا کر کہا نمائندگی کرے گا۔ ایک عرصے سے فراڈ کشمیر کمیٹی چلتی آ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر نواز حکومت رہی تو تیاری کی جا رہی ہے کہ اگلے 3,2 ہزار سال تک ایک ہی گروپ کو برسراقتدار رکھیں یا پھر دو گروپ آپس میں باریاں لیتے رہیں۔ فرحت اللہ بابر نے پرپوزل دیا ہے کہ اپنی عدالتیں بنائیں گے جہاں ججوں و جرنیلوں کے خلاف بھی مقدمے چلیں گے۔ اگر فوج پر مقدمے چلائے جائیں گے تو آئندہ وہ کبھی بھی اندرونی معاملات میں اپنی خدمات نہیں دے گی۔ دنیا بھر میں کبھی کسی فوجی آپریشن پر ان کو عدالتوں میں نہیں لایا گیا۔