Tag Archives: zia-shahid

ختم نبوت بل کی منظوری قوم کی کامیابی بڑی سازش ناکام بنادی :سراج الحق

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جمہوری نظام میں احتجاج کرنا عوام کا حق ہوتا ہے۔ حکومت اسلام آباد کے مظاہرین سے مذاکرات کیوں نہیںکرتی۔ امریکہ کون ہوتا ہے ہمارے قوانین میں مداخلت کرنے والا۔ حکومت ذمہ داران کو سامنے لانے سے کیوں جھجک رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے چینل ۵ کے پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ختم نبوت بل کی منظوری پر ہم سب خوش ہیں یہ قوم کی کامیابی ہے۔ ایک بڑی سازش کو ناکام کیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ تبدیلی کرنے والے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔ یقینا یہ کوئی جن بھوت تو نہیں ہیں۔ وہ کوئی اہم اشخاص ہوں گے، اسلام آباد میں ہوں گے اور صاحب حیثیت ہوں گے۔ انہیںسامنےکیوں نہیں لایا جا رہا۔ وزیرقانون صاحب نے تو وضاحت کی کہ میں تو مسلمان ہوں، میرا عقیدہ درست ہے۔ لیکن وزیر قانون کی ذمہ داریہے کہ قوم کوبتائیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں۔ خبر یہ آئی ہے کہ امریکہ نے کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی جائے۔ وہ کون ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں دخل اندازی کرتا ہے۔ یقینا بااثر لوگوں نے اسے لپیٹ کر چھپا کر ایک منظم طریقے سے پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں۔ یہ کوئی نقطہ کا مسئلہ تو ہے نہیں باقاعدہ لکھا گیا پڑھا گیا ہو گا۔ آخر ذمہدار کون ہے۔ جمہوری نظام میں احتجاج کرنا۔ دھرنا دینا عوام کا اخلاقی حق ہوتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اسلام آباد کے دھرنے والوں، مذاکرات کرے۔ ان کے تحفظات دور کرے اور معاملہ حل کروائے۔ نمائندہ چینل ۵ اسلام آباد ضمیر حسین ضمیر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں لبیک یا رسول اللہ کو دھرنا دیے ہوئے تقریباً گیارہ دن ہو چکے جس کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حکومت نے نے دھرنے والوں کے 12 نقاط مان بھی لئے ہیں اور ختم نبوت کے بل کو اصل حالت میں بحال بھی کر دیا ہے۔ اس کے باوجود وہ دھرنا دئے بیٹھے ہیں۔ اب اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کے لوگ ہائیکورٹ کے احکامات لےکر یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اور تازہ دم دستے پہنچ چکے ہیں۔ حکومت نے انہیں رات دس بجے کا وقت دےرکھا ہے کہ اس سے پہلے جگہ خالی کر دیں۔ احسن اقبال اور سعد رفیق دھرنے کے شرکاءسے رابطہ کر چکے ہیں اور مذاکرات کے دوران طے پایا ہے کہ ذمہ داران کو سامنے لایا جائے گا۔ مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے دھرنا چائنہ چوک سے اٹھا کر فیض آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو انہوں نے ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا تھا۔ اسلام آباد انتظامیہ اب مکمل طور پر تیار دکھائی دیتی ہے۔ لگتا ہے دس بجے کے بعد کوئی کارروائی کی جائے گی اور دھرنے کے شرکاءکو منتشر کر دیا جائے گا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر خبریں ملتان، میاں عبدالغفار نے کہا ہے این ایچ اے کے معاوضہ جات کا ایشو بہت بڑا ہے۔ یہ اپنی پتی طے کر کے لوگوں کو معاوضہ جات دلواتے ہیں۔ غریب اور ان پڑھ کتانوں کو یہ مختلف طریقوں سے اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ جن کے ساتھ ڈیل ہو جائے ان کی بنجر زمین کو باغ قرار دے دیئے ہیں اور جو ڈیل نہ کرے اس کے باغ کو بھی بنجر زمین بنا دیتے ہیں۔ ملتان، رشید آباد میں جب پُل بنایا گیا تو لوگوں سے اطراف کے مکانات لئے گئے تھے۔ کاغذات میں 64 فٹ جگہ دکھا کر 32 فٹ کے پیسے دیئے گئے ہیں اور آدھے 32 فٹ کے پیسے این ایچ اے کے اہلکاروں نے خود رکھے۔شجاع آباد روڈ کے ناظم کی دو بیویاں ہی ان کے اخراجات بھی ایسے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے گھپلے کئے ہوئے ہیں۔ زمین کے مشترکہ کھاتوں کے چکروں میں کروڑوں روپے کھائے گئے ہیں۔ یہ پانامہ سے بڑے کیسز ہیں۔ مشرف دور میں بننے والے نیب ادارے نے صرف اور صرف سیاسی کارروائیاں کی ہیں یہ کوئی احتساب کا ادارہ نہیںہے۔ مشرف دور میںلودھراں کے پٹواری کو پکڑا تھا۔ لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی چیئرمین این ایچ اے ذمہ دار ہوتا ہے شیڈولڈ کام کروانے کا لیکن ان کے تمام کام نان شیڈولڈ ہوتے ہیں۔ اعظم ہوتی نے پنڈی سے پشاور تک موٹر وے بنوائی۔ وہ اسے کروڑ دے کر صوابی لے گئے این ایچ اے ایک سیاسی ادارہ ہے۔ تمام اہلکار سیاسی طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے اہلکار دس فیصد کمیشن پر کام کرتے ہیں۔ ٹول پلازے اکثر غیر قانونی کام کر رہے ہیں۔ کار کا ریٹ 30 روپے ہے۔ کم از کم 35 اور زیادہ سے زیادہ 65 کلو میٹر پر ٹال پلازہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی ٹال پلازہ بنا لیتے ہیں اور علاقائی لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر جانے دیتے ہیں۔ لیگل ٹول پلازہ سے ایسے جا نہیں سکتے۔ نمائندہ خبریں لاہور رازش لیاقت پوری نے کہا ہے کہ این ایچ اے نے ایک منصوبہ 2001ءمیں شروع کیا جو بہاول پور سے کوٹ افضل تک اسے سیکشن 4 اور سیکشن 5 کہا جاتا ہے۔ یہ 2004ءمیں ختم ہوا۔ جس کے دوران ہزاروں ایکڑ زمین خالی کروائی گئی اور وعدہ کیا کہ معاوضہ جات ادا کئے جائیں گے۔ لیکن این ایچ اے کی کرپشن کی وجہ سے معاوضہ جات کی ادائیگی ممکن نہ ہو سکی کچھ لوگوں نے 30 سے 40 فیصد رشوت دے کر اپنے معاوضہ جات کلیئر کروا لئے لیکن 70 فیصد لوگوں کو ابھی تک ادائیگیاں نہیںہوئیں۔ تیرہ سال گزر جانے کے باوجود لوگ ان کے دفتروں کے دھکے کھا رہے ہیں۔ این ایچ اے کے اہلکار کرپٹ ہیں لوگوں کے کمیشن مانگتے ہیں۔ متاثرین زیادہ ہونے کی وجہ سے انہیں وقت اٹھانی پڑی۔ ایشو بڑھ گیا تو این ایچ اے والوں نے ریونیو رحیم یار خان (بہاولپور) کے سپرد ہر معاملہ کر دیا۔ اب وہ دوبارہ اسیس منٹ کروا رہے ہیں۔ کمشنر بہاولپور نے حکم دیا ہے کہ متاثرین کا کیس دوبارہ کھولا جائے۔ ایک خاتون اسمہ ظفر نے کیس بہاولپور ہائیکورٹ میں درج کروایا۔ جسٹس امیر حسین بھٹی نے این ایچ اے کے چیئرمین اشرف تارڑ کی بہت سرزنش کی اور 5 منٹ کے لئے ان کا منہ دیوار کی طرف کرنے کی سزابھی دی۔ ان جج صاحبان کی وجہ سے اس خاتون کو معاوصہ مل گیا۔ ملک شاہد صاحب نے ضیا شاہد سے درخواست کی کہ ہمارا ایشو اٹھائیں انہیں امید تھی کہ اس فورم سے ہمارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

دھند سے حادثے ،ہلاکتیں ،نیشنل ہائی وے اور وزیر موصلات کی کارکردگی صفر :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ میاں نوامشریف اب تک پارٹی در ہیں۔ تمام پارٹی کے ارکان نے ان کے پاس جانا ہے شاہد خاقان عباسی بھی پارٹی کے رکن ہیں۔ اعتراضات کرنے والوں کے چند اعتراض قابل فہم ہیں وہ یہ کہ اسلام کا پنجاب ہاﺅس استعمال کرنا۔ وہاں پروٹوکول لینا نوازشریف کا حق نہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب ان کے مقرر کردہ وزیراعظم موجود ہیں۔ میاں صاحب جس پر ہاتھ رکھیں وہی وزیراعظم ہے۔ وہی وزیراعلیٰ ہو گا جسے وہ کہیںگے۔ لہٰذا وہ بادشاہ ہی۔ شاہی خاندان ہی اسی طرح ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے، اپنی مرضی کے مطابق کر سکتا ہے۔ میں نے ایک خط وزیراعظم کو لکھا ہے کاپی وزیر مواصلات کو بھی بھیجوں گا۔ تیسری کاپی نیشنل ہائی وے کمیشن کو بھی ہے۔ میں بہاولپور تک سڑک پر گیا راستے میں چھ گاڑیاں الٹی ہوئی یا فٹ پاتھ پر چڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے یہ باتیں وزیراعظم کو لکھی ہیں۔ ایسے ایسے ملک ہیں جہاں چھ چھ دن بارشیں، فوگ، برف باری رہتی ہے۔ لیکن ان ملکوں میں بجلی نہیں جاتی۔ ساہیوال سے لاہور تک مجھے 7 گھنٹے لگ گئے۔ ہر بڑے شہر سے پہلے دو، دو ٹول ٹیکس لئے جاتے ہیں۔ لاہور سے ملتان تک کوئی ”ایرو“ یا ”یو ٹرن“ لکھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ بندے دھڑا دھڑ مرے جا رہے ہیں اور مولوی عبدالقیوم صاحب، ارب پتی جن کا جنوبی پنجاب سے تعلق ہے۔ وہ کس چیز کا وزیر مواصلات ہے۔ اسے اتنا نہیں پتا کہ این ایچ اے وفاق کے انڈر میں آتا ہے وہ کیا کام کر رہا ہے۔ کسی اور ملک میں اگر ہلاکتیں ہوتیں تو وہ وزیراعظم اور وزیر موصوف پر قتل کا کیس کر دیتے۔ ہائی وے تو ہماری خونی سڑک ہے۔ کوئی سائن بورڈ کوئی ٹرن، کوئی علامت نہیں کہ کس طرح چلیں۔ میں سیاست کی بات ہی نہیں کرتا۔ خدا کرے نوازشریف شہباز شریف ہمیشہ قائم رہیں کم از کم ایشوز تو حل کریں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درست فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں آپ بار بار مجھ سے کیا پوچھتے ہیں؟ پاکستان میں دو شاہی خاندان اقتدار میں ہیں ان کی باریاں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں جمہوریت تو نظر نہیں آتی۔ لہٰذا جمہوریت پر کیا بات کی جائے! ہمارے محکمے کام نہیں کرتے۔ پیسے بٹورتے ہیں۔ کروڑوں روپے وصول کر کے این ایچ اے والے سو رہے ہیں۔ انہیں کوئی حادثہ نظر ہی نہیں آتا۔ ٹول ٹیکس وصول کرنا یاد ہے۔ کوئی اشارے یاد نہیں۔ لاہور میں دس فٹ کے فاصلے پر پانی موجود تھا۔ 1960ءمیں انڈس واٹر ٹرسٹی ہوا لاہور میں دریائے راوی بہتا تھا۔ ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر ہم نے بھارت کا حق مان لیا۔ چناب جہلم اور سندھ پر انہوں نے ہمارا حق مان لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی معاہدہ کہتا ہے کہ ہم نے دریا نہیں بیچے۔ دریاﺅں کے زرعی پانی کا مسئلہ تھا۔ لیکن تین اور چیزیں تھیں جن کے لئے دریاﺅں کا پانی استعمال ہونا تھا۔ جو اس معاہدے میں درج ہیں۔ بھارت نے ایک شق شامل کروائی کہ جہلم اور چناب اور سندھ جو پاکستان کے حصے میں آئے ان میں بھی جہاں جہاں وہ بھارت سے گزرتے ہیں۔ وہ اس کا پانی زراعت کے لئے استعمال کرتا ہے۔ بھارت نے معاہدے میں یقین دہانی کرائی ہے اور وہ بھی کرتا ہے ہمارے نااہل لوگ دستخط کر دیتے ہیں معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے حقوق کس طرح منواتے ہیں۔ تمام سیاسی پارٹی کے رہنماﺅں سے کل بھی درخواست کی کہ پانی کے مسئلے پر ایک ہو جائیں اس میں سیاست نہ کریں۔ بھارت معاہدے کی رو سے راوی ستلج اور بیاس کا پانی بھی نہیں روک سکتا۔ جس میں آبی حیات، زراعت اور پین کے مقاصد کا پانی شامل ہے۔ راوی میں اب گٹروں کا پانی ڈالا جا رہا ہے۔ بھارت نے ستلج اور راوی کا مکمل پانی روک رکھا ہے۔ جس کا اسے اختیار نہیں ہے۔ دریا بہتا ہے تو زمین کے نیچے سطح اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے۔ جو پانی دس فٹ پر تھا۔ اب 650 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ واسا کے ٹیوب ویل جو اب لگ رہے ہیں انہیں 1300 فٹ نیچے جا کر پانی ملا ہے۔ پانی کی ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے۔ ہمیں بوتلوں کے پانی پر لگا دیا ہے۔ ستلج دوسرے نمبر پر بڑا دریا تھا۔ اس کا پانی بھی رک جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پورا چولستان بنجر پڑا ہے۔ جبکہ بھارت راجستھان کو آخر تک سیراب کر رہا ہے۔ 15 سے 20 فیصد ہی پانی آتا رہے تو آبی حیات اور پینے کا پانی ملتا رہے۔ 2020ءکے بعد پانی کی قلت کی وجہ سے قحط زدہ علاقے بن جائیں گے۔ تمام سیاستدان خاموش بیٹھے ہیں۔ ایوب خان اور اس کے رفقاءکار نے ہمارا مستقبل برباد کر دیا۔ یہ پانی کا معاہدہ کر کے۔ ایک اور خطرناک بات یہ کہ اس معاہدے کے مطابق بھارت کے چار گندے نالے یہاں آئیں گے اور ہم نے انہیں ”مین ٹین“ کرنا ہے۔ وہ ہمارا سارا صاف پانی لے گیا۔ 20 فیصد بھی نہیں چھوڑ رہا اور اپنا گندا پانی ہماری طرف بھیج رہا ہے۔ چنیوٹ کے قریب ایک گاﺅں ہے۔ جہاں گندے پانی کا نالہ جو بھارت سے آتا ہے۔ اس میں ایک بھینس گر کر مر گئی۔ اس گندے نالے میں بھارت اپنا صنعتی فضلا ڈالتا ہے اور پاکستان بھی اس میں ڈالتا ہے۔ بھینس کو بچانے کیلئے ایک خاندان کے پانچ بندے باری باری اس گندے پانی میں اترتے رہے اور مرتے رہے۔ ہمارے سیاستدان مال کمانے اور دوسرے ملکوں میں بھیجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ قانون کے مطابق یہ صنعت کے ساتھ ”ٹریٹ منٹ“پلانٹ لگنا ضروری ہے۔ انڈس واٹر ٹریسٹی میں لکھا ہوا ہے کہ بھارت کی جانب سے آنے والے آلودہ اور گندے پانی کو ہم روکیں گے نہیں بلکہ اسے محفوظ کریں گے۔ ہم اس کے پابند ہیں۔ یہ معاہدہ قابل قبول ہے؟ ہم نے ملتان میں کسان مشاورت کے نام سے ایک میٹنگ بلائی اس میں یوسف رضا گیلانی آبی وسائل کے وفاقی وزیر جاوید علی شاہ صاحب بھی موجود تھے۔ اکثر لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ آبی وسائل کی وزارت بھی موجود ہے۔ ممتاز بھٹو نے کسی نہ کسی پارٹی میں تو جانا ہی تھا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کان سے پکڑ کر نکال دیا تھا۔ آصف زرداری قریب تک نہیں آتے۔ انہوں نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے دیگر قوم پرست جماعت بنا رکھی ہے۔ وہ کبھی جیتی نہیں۔ وہ پہلے ن لیگ میں گئے اب انہوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر آہستہ آہستہ ن لیگ کو چھوڑتے رہے کیونکہ وہ آصف زرداری کو ساتھ ملا رہے تھے۔ اب ممتاز بھٹو کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں لہٰذا وہ اس میں آ گئے۔ ماہرقانون، ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ جسٹس کھوسہ پہلے ہی بہت کچھ لکھ چکے ہیں وہ انہیں مافیا قرار دے چکے ہیں کہہ چکے ہیں کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالیہ فیصلے ہیں لہٰذا انہوں نے اب درست کہا کہ وہ کس طرح اس معاملے کو سنیں۔ سیاستدانوں کی کرپشن اور مسائل کی وجہ سے حکومت نام کی چیز نظر نہیں ااتی۔ انہیں اپنے جھگڑے نظر ااتے ہیں۔ عوام کے مسائل دکھائی نہیں دیتے۔ شاہی کام ایسے ہی ہوتے ہیں جس میں کام کی بجائے اپنی شان و شوکت کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ سڑکیں ٹھیک کرنا۔ ایشوز حل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا مقصد نہیں۔

 

بھارتی آبی دہشتگردی ،انڈس واٹر ٹریٹی وہ ستلج ،بیاس اور راوی کے 100فیصد پانی کا مالک نہیں :ضیا شاہد

لاہور (رپورٹنگ ٹیم) بھارت ستلج، بیاس اور راوی کا پانی سوفیصد بند نہیں کرسکتا، سندھ طاس کا معاہد ہ 1960 میں ہوا تھا،یہ تاثر غلط ہے کہ ہم نے دریا بیچ دیئے، ہم نے تو دریاﺅں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا،سندھ ،جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج،راوی اور بیاس کا زرعی پانی انڈیا کے پاس چلا گیا،مگر بھارت ستلج ،راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے دریاﺅں کو مار رہا ہے ہم بھارت کی آبی دہشت گردی پر چپ نہیں بیٹھیں گے ان خیالات کا اظہار معروف دانشور صحافی و چیف ایگزیکٹیو خبریں گروپ ضیاشاہد نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں بطور مہمان خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا انڈیا تویہ بھی زیادتی کر رہا ہے کہ ہمارے حصے میں آنے والے دریاﺅں پر بھی زراعت کے لئے ڈیم بنا رہا ہے، لیکن ہمارے کسی نئے ڈیم کے خلاف مہم چلاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا بھی کرتا ہے کہ پاکستان کو پانی کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ڈیم نہیں بناتا اور پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کرتا ہے انہوں نے کہایہ انٹرنیشنل لا ءہے کہ دریاوں میں تھوڑا تھوڑا پانی چھوڑا جاتا ہے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کی وجہ سے پینے کا پانے بہت نیچے چلا جاتا ہے اورآبی حیات اور ماحولیات کی بھی تباہی ہوجاتی ہے،ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے، راوی اور بیاس میں پانی مکمل بند ہے، پاکستان بننے سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ستلج ویلی پروجیکٹ کے تحت چولستان میں کچھ نہریں بنائیں، مگر ستلج کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ نہریں بھی تباہ ہوگئی ہیں اور بہاولپور،رحیم یار خان اور بہاولنگر اور پاکپتن،ساہیوال اور لودھراں متاثر ہوئے ہیں، نواب آف بہاولپور نے کہا تھا، چولستان اور ریاست کے باقی اضلاع پاکستان کی فوڈ باسکٹ ہوگی مگر پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے، بیکانیر ریاست اور بہاولپور کے درمیان بھی پانی لینے کا معاہدہ ہوا۔ انڈیا نے ستلج بند کیا تو ساری نہروں کا رخ راجھستان کی طرف موڑ کر اسے سرسبز شاداب بنا دیا گیا جبکہ ہماراچولستان ٹوٹل بنجر ہوچکا ہے ۔محکمہ صحت کی رپورٹ ہے کہ بہاولنگر میں گردے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے اب کرنا کیا ہے؟جبکہ راوی تو سیوریج کا دریا بن چکا ہے،جس کا ایک گھونٹ بھی منہ کو نہیں لگایا جاسکتا۔ انہوں نے کہا 1970ءکے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق بھی کوئی ملک دریاﺅں کو مکمل بند نہیں کرسکتا ،اس لیے بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ کم از کم بیس فیصد پانی ان دریاﺅں میں چھوڑے، ضیاشاہد نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ پر جانے سے قبل ایک ملاقات میں کہا تھا کہ معاہدے صرف کاغذ کا ٹکڑا ہوتے ہیں جنہیں کسی وقت بھی پھاڑا جاسکتا ہے لیکن ہمیں سندھ طاس معاہدے کوپھاڑنا تو نہیں چاہیئے مگر انڈیا پر اتنا عوامی پریشر ڈالا جائے کہ وہ ان دریاﺅں میں پانی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے،تقریب کی نظامت کے فرائض سکرٹری شاہد رشید نے ادا کیے، تقریب میں شرکاءکی کثیر تعداد موجود تھی جن میں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز کے طلباءوطالبات بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی میں واضح طور پر درج ہے کہ بھارت جہلم چناب اور سندھ جن بھارتی علاقوں سے گزرتا ہے وہاں اسے پینے کےلئے پانی، ماحولیات کےلئے پانی اور آبی حیات کے لئے پانی لینے اور استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جب اپنے لئے اسی معاہدے کے تحت یہ تینوں قسم کا پانی جائز قرار دیتا ہے جو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاﺅں سے لیا جا رہا ہے تو ہمارے غیر زرعی استعمال کےلئے ستلج بیاس اور راوی سے ماحولیات، آبی حیات اور پینے کا پانی کیوں بند کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1970 کے انٹرنیشنل واٹر معاہدے کے تحت دریا کے زیریں حصے میں خواہ وہ کسی ملک کے حصے میں ہو 100فیصد پانی بند نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کاشتکاروں اور شہریوں سے اپیل کی کہ جو سہولت جہلم ستلج اور بیراج سے حاصل کر رہا ہے وہی سہولت بیاس اور راوی میں پانی چھوڑ کر پاکستانیوں کو دی جائے۔ انہوں نے کہا یہ بات بھی غلط ہے کہ ہم نے دو دریا بھارت کے ہاتھ بیچ دئیے تھے۔ سندھ طاس معاہدہ میں صاف درج ہے کہ یہ دریاﺅں کا معاہدہ نہیں جنہیں پورا کسی ایک ملک کے سپرد کیا جا سکے بلکہ زرعی صاف پانی کا معاہدہ ہے چنانچہ بھارت راوی اور ستلج کا جو حصہ ہمارے ملک میں سے گزرتا ہے اس میں آبی حیات ماحولیات اور پینے کےلئے پانی چھوڑنے پر مجبور ہے اور ہم انٹرنیشنل کنونشن کے بتائے ہوئے قوانین کے تحت عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں جو اب پوری دنیا کے ہر ملک میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ضیاشاہد نے کہا کہ 100فیصد پانی کی بندش سے ستلج اور راوی سے ری چارجنگ ختم ہو گئی ہے اور پانی بہت نیچے چلا گیا ہے۔ ریاست بہاولپور کے تین اضلاع میں پانی 100 فٹ سے زیادہ گہرے پانی میں بھی سنکھیا کی آمد شروع ہو گئی ہے جس سے جگر گردے کے امراض اور یرقان اور کینسر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ اس صورتحال کو بھارت کی آبی جارحیت نہ کہا جائے بلکہ یہ آبی دہشتگردی ہے۔ جو ہمیں پینے کا پانی، درختوں، سبزے اور آبی حیات سے محروم کر رہی ہے۔ پاکستانی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے دائر کریں۔

چیئرمین نیب ،چیف جسٹس سپریم کورٹ ،شوکت عزیز ،میاں منشاء،ہاشوانی پر مقدمہ چلائیں :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس آنے کے بعد ایکشن تو ہوا لیکن سلیم سیف اللہ خاندان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کی 20 یا 22 آف شور کمپنیاں تھیں۔ میں نے سلیم سیف اللہ کو فون کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بری محنت سے صنعتیں لگائیں تھیں اور تمام ٹیکس ادا کئے ہیں ہم ٹیکس چور نہیں نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کیا۔ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی عیر قانونی کام نہیں۔ ان کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے تاہم نیب کو انہیںبھی طلب کرنا چاہئے۔ شوکت عزیز پر پہلا الزام یہ تھا کہ پرویز مشرف نے انہیں ”سٹی بینک نیویارک“ سے طلب کیا تھا۔ شوکت عزیز نے قبول کیا کہ وہ پہلے بھی پاکستان آتے رہے۔ اور نوازشریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے ان سے مشاورت بھی کی۔ جب انہیں وزیرخزانہ مقرر کیا گیا تو اس وقت بھی ان پر کچھ الزامات لگے۔ ان میں سے ایک الزام یہ تھا کہ جب وہ وزیراعظم بنے انہوں نے اسٹیل ملز کو بھیجنے کی کوشش کی تھی۔ الزام یہ تھا کہ یہ اپنی مرضی کے بندے کو، یعنی فرنٹ مین کے ذریعے اسے بیچنا چاہتے تھے۔ شاید کسی انڈین پارٹی کے ہاتھوں فروخت کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اس کی فروخت روک دی گئی۔ پیراڈائس لیکس میں ان کا نام آنے سے ثابت ہوا تو ان پر الزام درست تھے۔ یہاں سے جانے کے بعد وہ اسے غائب ہوئے جیسے ”گدھے کے سر سے سینگ“ بعد میں پتا چلا کہ وہ بھارت کے لئے بہت سے کاروبار کو لندن میں دیکھ رہےہیں۔ ان کے خلاف الزامات ہیں تو ادارے انہیںپاکستان لے کر آئیں۔ شوکت عزیز بھی چھپنے کی بجائے خود کو احتساب عدالت میں پیش کر کے کلیئر کرا لیں الیکشن لڑتے وقت شوکت عزیز نے اپنے اثاثے نہیں دکھائے تھے۔ میاں منشا کا نام بھی پیراڈائز لیکس میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میری فیملی باہر مقیم ہے۔ اس لئے وہ پاکستانی قانون کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ وہ ایک امیر ترین آدمی ہیں ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ ایم سی بی بینک میاں نوازشریف نے انہیں اونے پونے دیا تھا۔ وہ پاکستان کے امیر ترین انسان ہیں۔ وہ بھی خود کو کلیئر کروائیں۔ ان کے خلاف اداروں نے الیکشن لیا تو نوازشریف نے انہیں روک دیا تھا۔ اس وقت نیب چیئرمین جاوید اقبال کا امتحان ہے کہ وہ پیراڈائز لیکس میں آنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ اس میں بہت بڑے بڑے لوگوں کے نام آئے ہیں برطانیہ کی ملکہ اردن کی ملکہ اور سعودی شہزادوں کے نام بھی آ گئے ہیں۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کام اب بڑھ گیا ہے۔ اس لیکس کے بعد اب انہیںچیلنج سمجھ کر کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ ملکہ برطانیہ اور سعودی فرماروا۔ قطری شہزادہ بھی اس میں شامل ہیں۔ قطری شہزادہ بھی اپنے ملک سے پیسہ باہر لے گئے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ میڈونا کو ان لوگوں میں شامل کرنا درست نہیں اس نے تو ناچ گانا کر کے لوگوں کی جیب سے پیسے حاصل کئے۔ اس کے مقابلے میں وزیراعظم، وزیرخزانہ، وزیر خارجہ، ملکہ، شہزادے، ٹرمپ کے 11 ساتھی وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اپنے مفاد کے لئے آگے لاتے ہیں اور امانت دار بناتے ہیں امریکہ میں کانگریس اہلکار وزیر نہیں بن سکتے۔ صدر اپنی مرضی سے شفاف اور دیانت دار لوگوں کو آگے لاتا ہے۔ ٹرمپ کے 11 ساتھیوں کے نام اس میں آئے ہیں۔ یہ ٹرمپ کے لئے سوالیہ نشان ہے۔ سعودی عرب کا ہم سب احترام کرتے ہیں۔ ان کے اداروں کا احترام کرتے ہی میری فیملی 20 سال مدینہ منورہ میں رہی۔ وہاں ایک عام شرتہ کسی کو پکڑے تو اسے کوئی چھڑوا نہیں سکتا۔ افسوس ہوا یہ سن کر کہ وہاں کے شہزادوں اور بادشاہ کے بچوں اور رشتہ داروں کے نام بھی اس لیکس میں آ گئے ہیں۔ سعودی عرب میں مقامات مقدسہ ہیں۔ وہاں کے امام کا بھی ہم بہت احترام کرتے ہیں اگر وہ امام یہاں آ جائیں تو ہم خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ان کے پیچھے نماز پڑھیں دنیا کے بڑے بڑے کاروبار ان شہزادوں کے ہاتھ میں ہیں۔ پراپرٹی ہو چاول کی درآمد ہو۔ یا کوئی اور بڑا کاروبار پوری دنیا میں سعودی شہزادوں کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کے بہت احترام ہیں۔ ٹرمپ آیا تو سعودی فرماروا اسے چھوڑ کر نماز پڑھتے چلے گئے۔ ہم انہیں اس احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پیراڈائز لیکس کے ایک کروڑ دستاویزات ہیں۔ جو باقاعدہ دستخط شدہ ہیں۔ اس میں نام آنے کے بعد کوئی کسی طرح جھوٹ بول سکے گا کہ یہ اس کا اثاثہ نہیں ہے۔ اب آپ کہتے رہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ ہمیں انتظار کر لینا چاہئے کہ عدالت میاں نوازشریف کے بارے فیصلے دیدے۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو سر آنکھوں پر اگر عدالت انہیں قصور سمجھ کر سزا دیتی ہے تو ہم کہیں گے کہ انہیں زیادہ سزا دیں کیونکہ ہم نے انہیں اہل سمجھ کر چنا تھا۔ ہم خوش تھے کہ سعودی فرماروا نے جن کو پکڑا ہے۔ وہ سیاسی اختلاف نہیں بلکہ شہنشاہی اختلاف ہے۔ جس کی ٹوٹی کسنی تھی۔ اور اسے مروڑنا تھا اسے پکڑا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ عام بات ہےکہ سیاسی مقاصد کیلئے ان لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ اگر ان مقاصد کے لئے نہیں بھی پکڑا گیا تو ہم واہ واہ کر رہے تھے کہ سعودی فرما روا نے کمال بیان دیا ہے کہ جو بھی غلط کرے گا میں اس کو پکڑوں گا۔ ان کے اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ فارن میڈیا ضرور مزید کھوج نکال لے گا کہ سعودی شہزادے طلال ولید کا اصل قصہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی، امریکہ میں وسیع کاروبار انہی شہمادے کا ہے اصل دلکشی مال کی ہوتی ہے۔ امریکی خاتون صدر کی بیٹی ہو یا ملکہ یا کوئی اور شہزادی وہ بھی مال پر مرتی ہے۔ گجرات کے ایک فراڈیے کے بہت قصے مشہور ہوئے۔ اس کے بہت بڑے بڑے کاروبار تھے جہاز بھی کھرے تھے اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ یہاں آئے تو نعیم بخاری کا گھر صاف ہو گیا۔ وہ بُری شکل کا آدمی تھا۔ لیکن عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ روپیہ سب کچھ چھپا لیتا ہے۔ میںحیران ہوں جس طرح خواجہ آصف نے روپ بدلا ہے۔ ان کے بیانات فوج کے لئے بہت سخت آتے رہے۔ امریکہ گئے تو کہتے ہیں ہم آپ کے حکم پر جہاں کہیں گے بمباری کریں گے۔ حافظ سعید کا مدرسہ ہو یا منصورہ ہو۔ جہاں امریکہ بہادر رہے گا ہم حکم مانیں گے اور وہاں بمباری کریں گے۔ یہ قمر جاوید باجوہ کی میزبانی ہے یا خدا نے ان کے دل میں کئی چمک ڈال دی کہ وہ بالکل ہی بدل گئے بلکہ الٹ ہو گئے۔ معلوم نہیں اب انہیں کہنا چاہئے ”کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے“ لیکن پھر بھی ہم ان کی تعریف کرتے ہیں کہ شاید ملکی مفاد کی وجہ سے۔ انہوں نے امریکہ بہادر کو تھوڑی تھوڑی آنکھ دکھانا شروع کر دی ہے۔ خواجہ صاحب کے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ”نو ڈو مور“ امریکہ انڈیا کو منع کرنے کہ اس کا اثررسوخ افغانستان میں کیوں بڑھ رہا ہے۔ ہم اسے قبول نہیں کرتے چودھری برادران حلیم طبع کے انسان ہیں۔ کبھی ان کی طبیعت میں اکڑ اور غصہ دکھائی نہیں دیا۔ وہ عدالت میں پیش ہو گئے۔ وہ اپنے سوالات کا جواب دیں گے۔ عدالت جتنے سوال پوچھے انہیں جواب دے دینا چاہئے۔ ان کے والد ظہورالٰہی نے کبھی عدالت میں مات نہیں کھائی۔ وہ ہمیشہ عدالت سے جیت گئے۔ اسی طرح چوہدری برادران عدالت کے 75 چھوڑ 150 سال بھی ہوں تو اس کا جواب ضرور رہی۔

 

خبریں کی سلور جوبلی پر صدر پاکستان کا چیف ایڈیٹر ضیا شاہد ، ایڈیٹر امتنان شاہد کو خط، ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی قابل تقلید ہے

صدرمملکت ممنون حسین نے چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد اور ایڈیٹر امتنان شاہد کے نام خط لکھا ہے کہ ضیا شاہد نے ایک عام صحافی کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن دنوں ہی میں ملک گیر شہرت حاصل کر لی،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی شبانہ روز محنت نے خبریں کو ایک منفرد اخبار بنا دیا جسے ہر شخص پڑھتا اور اس کی خبر پر یقینا کرتا ہے،،ضیا شاہد اور امتنان شاہد کی کارکردگی کسی بھی صورت ،،مولانا محمد علی جوہر ،،مولانا ظفر علی خان اور ان جیسے دیگر بڑے صحافیوں سے کم نہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی خبریں اخبار ان کا ادارہ ایسے ہی صحافتی میدان میں ترقی کی منازل طے کرتا رہے گا۔

مریم نواز شکنجے میں آ سکتی ہیں تو فریال تالپور پر ہما کا سایہ کیوں: ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) 24 چینل کے پروگرام ڈاکٹر دانش میں معروف صحافی ضیا شاہد، مجیب الرحمان شامی، شاہین صہبائی، سابق بریگیڈیئر امجد ملک کے اس فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جمعرات کے دن قومی اسمبلی نواز شریف کو نااہلی کے باوجود منظور کردہ ترمیم کے حق میں رائے دی یا خلاف۔ امجد ملک کا دعویٰ تھا کہ گزشتہ دنوں ہونے والی ترمیم کو ختم کر دیا جائے گا اور نواز شریف پارٹی صدر نہیں رہیں گے۔ جبکہ ضیا شاہد نے کہا کہ پاکستان کے لوگ نواز شریف کے علاوہ باقی لوگوں کا بھی کڑا احتساب چاہتے ہیں۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے علاوہ علیم خان شکنجے میں آ چکے ہیں عام لوگ پوچھے ہیں کہ کراچی میں یکے بعد دیگر بننے والی رپورٹوں کے باوجود فریال تالپور اور زرداری کے گھر رشوت کا پیسہ ہو اور لے جانے والے سہولت کار جب اعتراف کر چکے ہیں کہ نقد رقم بلاول ہاﺅس بھجواتے رہے تو انہیں کیوں نہیں پکڑا جاتا نواز شریف کی بیٹی مریم نواز شکنجہ میں آ سکتی ہیں تو فریال تالپور پر ہما کا سایہ کیوں ہے۔ شاہد بھائی نے کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی اسے بہتر بنانا چاہیے البتہ کڑا احتساب ضروری ہے جبکہ مجیب الرحمان شامی نے کہا اصل احتساب صرف عوام کرتے ہیں بینظیر کو سزا، جیل میں رکھا گیا، نواز شریف جلا وطن رہے مگر دونوں واپس تو مختلف حکومتوں میں عوام نے پھر حکومت دے دی۔