Tag Archives: zia-shahid

بھارتی آبی جارحیت کیخلاف للکار ، یورپی یونین نے ضیا شاہد اور محمد علی درانی کو بلا لیا

ملتان(رپورٹ: مہدی شاہ، طارق اسماعیل، تصاویر: خالد اسماعیل) ستلج راوی بیاس کا سارا پانی بند کیوں؟ پاکستان کو خشک اور بنجر کرنے کی گھناﺅنی بھارتی سازش اور بھارت کی آبی دہشت گردی کے حوالے سے ستلج پل کے ساتھ دریا کے اندر روزنامہ خبریں کے زیراہتمام عوامی اکٹھ ہوا۔ عوامی اکٹھ میں چیف ایڈیٹر ”خبریں“ جناب ضیاشاہد نے خصوصی طور پر شرکت کی اور بھارت کی آبی دہشت گردی پر بھارت اور غلط معاہدہ کرنے والوں کو للکارا۔ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر، سابق سنیٹر محمد علی درانی، دانشور، کالم نگار اور تجزیہ نگار مکرم خان، اجمل ملک، جام حضور بخش سمیت دیگر نے خطاب کیا۔ پانی کی بندش اور بھارت کی آبی دہشت گردی کے حوالے سے ہونے والے عوامی اکٹھ سے خطاب کرتے ہوئے سابق سنیٹر محمدعلی درانی نے کہا کہ جناب ضیاشاہد نے اپنے صحافتی کیریئر کی گولڈن جوبلی پر ستلج، راوی، بیاس کو ریت میں تبدیل کرنے کے جرم کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ جناب ضیاشاہد کی طرف سے بھارت کی آبی دہشت گردی اور خطے کے 3کروڑ سے زائد عوام کو پیاس سے مارنے کی سازش کو بے نقاب کئے جانے پر انہیں برطانیہ اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی طرف سے دعوت نامے ملے ہیں اور وہاں جا کر بھارت کی آبی دہشت گردی بارے بریفنگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی آبی دہشت گردی پر بڑے بڑے سیاستدان اور ذمہ دار کیوں خاموش ہیں؟ بہاولنگر کے ایک سپوت نے خطے کے مظلوم عوام کی آواز بن کر دنیا کو باور کرایا ہے کہ ستلج راوی کے واسی، وادی ستلج کو ہاکڑہ نہیںبننے دیں گے۔ انہوںنے کہا کہ حکومت پاکستان اپنی ذمہ داری سمجھے اور سندھ طاس معاہدے سے ملنے والی رقم سے دریائے ستلج میںپانی کے بہاﺅ کو برقرار رکھنے کے لئے تریموں سے تریموںاسلام لنک نکالے۔ انہوںنے کہا کہ مودی نے پاکستان کا پانی روک کر ثابت کیا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک نہیںبلکہ ایک مذہبی جنونی ملک ہے اور پاکستان کے عوام کو پیاس سے مارنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو خطے کے عوام کے حقوق کے لئے جھکنا اور اقوام متحدہ کو بھارت کو آبی ماحولیاتی دہشت گرد ڈیکلیئر کرنا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ بھارت نے جس طریقے سے آبی دہشت گردی کی ہوئی ہے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عالمی عدالتوں سمیت کوئی بھی اس کی اجازت نہیںدیتا۔ انہوں نے جناب ضیاشاہد کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پانی کے حصول کی کاوش اور تحریک کسی سیاست کی غرض سے نہیں چلا رہے بلکہ خطے کی مٹی اور واسیوں سے محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر بھرپور احتجاج کرے کہ بھارت پاکستان کے دریاﺅں کا پانی روک کر عوام کی جانوں سے کھیلنے سے باز رہے۔ ممبر صوبائی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میںجماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اختر نے عوامی اکٹھ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات اور دوستی نبھانے کے لئے ملک اور قوم کے حقوق کا سودا کیا ہے اور دشمنوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بھارت سے اپنے حصے کے پانی کے حصول کے لئے جو تحریک جناب ضیاشاہد نے شروع کی ہے اس کے مثبت اور دور رس نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں تریموں سے نہر نکالنے کا جو منصوبہ تھا اس پر فوری عمل کیا جائے اور حکومت پانی کے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے ، کیونکہ ہم ستلج سے ہیں اور ستلج ہم سے ہے۔ انہوںنے جناب ضیاشاہد کو پانی کے حصول کے لئے شروع کی گئی تحریک پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ ڈاکٹروسیم اختر نے کہا کہ جناب ضیاشاہد کی پانی کے حصول کی کاوشوں سے بھارت کی آبی دہشت گردی اور ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں کے حوالے سے شعور وآگہی پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہمیں پینے، آبی حیات، جنگلی حیات اور ماحالیات کے لئے بھی پانی دےدے تو اس سے زیرزمین پانی کی سطح بھی بہتر ہوگی۔ زراعت کو بھی اس سے فائدہ پہنچے گا۔انہوں نے کہا کہ زیرزمین پانی کا لیول بہتر ہونے سے پینے کے پانی میں آرسینک جیسے مضرصحت ذرات اور مادے بھی کم ہوجائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ آبی معاہدے کے مطابق بھی ستلج میں 32فیصد پانی آنا ضروری ہے لیکن بھارت پانی پر قبضہ کرکے ہماری زرعی زمینوں کو بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ انہوںنے کہاکہ 2018ءکے الیکشن میں بھی ہمیں ایسے فیصلے کرنا ہونگے جو ہمارے حقوق کی بات کریں اور پانی کے حصول کے لئے تحریک میں شامل ہو کر پانی حاصل کرنے کویقینی بنائیں۔ معروف دانشور، تجزیہ نگار اور کالم نگار مکرم خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ضیاشاہد کی طرف سے بھارت سے پانی کے حصول کے لئے شروع کی جانے والی تحریک کی گونج اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ چکی ہے۔ انہوںنے کہا کہ جناب ضیاشاہد نے دریائے ستلج کے پاکستان میں داخل ہونے سے لیکر بہاولپور تک کے علاقوں کا دورہ کیا اورعلاقے میںپانی کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ستلج واسی جناب ضیاشاہد کی تحریک میں بھرپور حصہ لیں اور اپنے حصے کے پانی کے حصول کے لئے آواز بنیں اور اپنا حصہ ڈالیں۔ ضلع کونسل لودھراں کے چیئرمین میاں راجن سلطان پیرزادہ نے کہا کہ ہمیں ستلج، راوی اور بیاس کے لئے جنگلی حیات، آبی حیات، جنگلات اور پینے کے مقاصد کے لئے پانی کے حصول کے لئے عالمی عدالتوں میں بھرپور طریقے سے کیس لڑنا چاہےے۔انہوں نے کہاکہ بھارت، ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پرقبضے کے بعد چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر قبضے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو بنیا ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا ہے اور ہمیں جناب ضیاشاہد کی کاوشوں سے دریاﺅں کی بحالی کرانی ہے۔ انہوںنے کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک کو مکمل بنجر بنانے کی ٹھان لی ہے اور ہم اپنے پانی کے حصول کے لئے بھارت سے ہر فورم پر دوٹوک بات کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ سب ملکر بھارت کی آبی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کریں اوردنیا بھارت پر دباﺅ ڈالے تاکہ بھارت مجبور ہو کر ہمارے حصے کا پانی ستلج سمیت دریاﺅں میں چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ عوامی تحریک بحالی صوبہ بہاولپور (رجسٹرڈ) کے مرکزی صدر محمد اجمل ملک نے عوامی اکٹھ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جناب ضیاشاہد نے بہاولپور صوبہ کی بحالی اور ستلج کے پانی کے حصول کے لئے آواز بلند کرکے مایوس اور مظلوم عوام میں امید کی کرن پیدا کی ہے۔ انہوںنے کہا کہ ستلج کے پانی کے حصول سے بہاولپور کے زیرزمین پانی کی سطح بہترہونے سے یہاں زندگی دوبارہ مسکرائے گی اور اس مسکراہٹ اور خوشی کے پیچھے جناب ضیاشاہد کی کاوشیں یاد رکھی جائیں گی۔ تحریک صوبہ بہاولپور کے مرکزی چیئرمین جام حضور بخش لاڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ستلج ہماری اور آنے والی نسلوں کی زندگی ہے اور اس کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جناب ضیاشاہد نے علاقے کی زمینوں کے لٹے ہوئے سہاگ کا دکھ بانٹا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہم سب کو اس تحریک میں ساتھ چلنا ہوگا۔ انہوںنے کہا کہ بھارت کو سرتسلیم ختم کرنا پڑے گا اور عوام کو چاہےے کہ وہ جناب ضیاشاہد کا بھرپور ساتھ دیں۔ تقریب میں ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر محمد افضل، دانشور ملک حبیب اللہ بھٹہ، بہاولپور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدرملک اعجاز ناظم، مرکزی انجمن تاجران کے صدر حافظ محمد یونس، نواب آف بہاولپور نواب صادق محمدخان عباسی کے پوتے میاں محمد یوسف عباسی اور ملک غلام مصطفےٰ چنڑ سمیت شرکاءنے بھی گفتگو کی۔ روزنامہ خبریں کے زیراہتمام ہونے والے عوامی اکٹھ میں حافظ آباد سے حسنین اکبر اور محمد اسلم باہو (بابا گروپ) نے بھی شرکت کی اور مخصوص منفرد لباس میں وارث شاہ کی تخلیق ہیر پڑھی۔ پس منظر میں دھیمے میوزک کی دھنوں کے ساتھ وارث شاہ کی ہیر نے ستلج کے بیٹ میںسماں باندھ دیا۔ شرکاءنے ”بابا گروپ“ کو سراہا۔حسنین اکبر اور محمد اسلم باہو نے اس موقع پر کہا کہ وہ جناب ضیاشاہد کی محبت میں حافظ آباد سے بہاولپور آئے ہیں۔ تقریب کے بعد شرکاءبابا گروپ کے ساتھ تصاویر بنواتے رہے۔ روزنامہ خبریں کے زیراہتمام بھارت کی آبی دہشت گردی کے خلاف دریائے ستلج میں ہونے والے عوامی اکٹھ میں دریا کے بیٹ سے ریت کے ذرات اڑتے رہے۔ رپورٹنگ ٹیم کے کاغذوں پر بھی ریت کے ذرات پڑتے رہے۔دریا میںجس جگہ پانی رواں ہونا چاہےے تھا وہاں سے ریت اڑ اڑ کر شرکاءپرپڑتی رہی۔ عوامی اکٹھ کے شرکاءدریا کے اندر چلے گئے اور ریت کے ڈھیر پر خشک دریا میں تصاویر بناتے رہے۔ شرکاءنے تقریب کو ایک یادگار تقریب قرار دیا۔
عوامی اکٹھ

 

کشن گنگا پر عالمی عدالت کے فیصلہ سے بھارت ہمارا سارا پانی نہیں روک سکتا

لاہور (سیاسی رپورٹر) ”خبریں“ کے چیف ایڈیٹر ضیاشاہد اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے گزشتہ روز پاکستان کمشنر برائے انڈس واٹرز مرزا آصف بیگ سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور بھارت اور پاکستان کے مابین انڈس واٹر ٹریٹی 1960کے مختلف آرٹیکلز پر تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے پانی پر معاہدے کے باوجود اس امر کا جائزہ لیا کہ کیا ہم بھارت کو ماحولیات کے نام پر ستلج اور راوی میں کچھ پانی چھوڑنے کے لئے مجبور کر سکتے ہیں اور اگر وہ نہ مانے تو پہلے کی طرح عالمی عدالت میں جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر عالمی آبی قوانین کے ماہر راس مسعود بھی موجود تھے۔ کمشنر مرزا آصف بیگ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ درست نہیں کہ ہم بھارت سے دو مرتبہ مقدمہ ہار گئے تھے بلکہ کشن گنگا جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہتے ہیں کے حوالے سے پاکستان مقدمہ جیت گیا تھا اور عالمی عدالت نے بھارت کو ہدایت کی تھی کہ وہ ماحولیات کے لیے دریا میں پانی کو پاکستانی آزاد کشمیر میں آنے دے کیونکہ وہ سارا پانی بند نہیں کرسکتا۔ کمشنر مرزا آصف بیگ نے کہا کہ عالمی عدالت میں جانے کے لیے بھرپور تیاری کرنا پڑتی ہے ہم نے بعض اہم امور کے سلسلے میں تجاویز دی ہیں جس پر مینی پی سی ون تیار کر کے بھیج دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی کے باوجود اس معاہدے کے تحت بھارت سے مزید پانی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لئے عالمی سطح کے مسلمہ ماہرین سے تحریری رائے لینا پڑتی ہے اور عالمی عدالت صرف بین الاقوامی اور مستند ماہرین کی آرا کو مانتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ محض افواہ تھی کہ سابق کمشنر جماعت علی شاہ بھارتی مفادات کی حمایت کر رہے تھے اس لئے ان کو الگ کیا گیا۔ مرزا آصف بیگ نے کہا کہ میں اس عرصے کے دوران آبی انجینئر کی حیثیت سے سندھ طاس کمیشن کا ایڈوائزر رہا ہوں اور میں نے سارے معاملات کو قریب سے دیکھا ہے۔ متعدد سوالوں کے جواب میں آصف بیگ نے کہا کہ جماعت علی شاہ کی عمر ساٹھ برس ہو گئی تھی اور قواعد کے مطابق انہیں ریٹائر ہونا تھا یا اگر حکومت چاہتی تو انہیں مدت ملازمت میں توسیع دے سکتی تھی شاید اس وقت کچھ مفاد پرست لوگوں نے جو نہیں چاہتے تھے کہ جماعت علی شاہ کو توسیع ملے ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ وہ بھارتی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے حالانکہ میرے خیال میں اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں تھی موجودہ کمشنر نے کہا کہ کشن گنگا (پاکستانی آزاد کشمیر کے علاقہ میں اس کا نام دریائے نیلم ہے) کے سلسلے میں پاکستان کی طرف سے عالمی عدالت میں ہمیں کامیابی ملی تھی اور عدالت نے بھارت سے کہا تھا کہ پاکستان کا یہ مطالبہ درست ہے کہ ماحولیات کے لیے دریا میں پانی چھوڑنا ضروری ہے اور بھارت سارے کا سارا پانی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس نقطے کی بنیاد پر اور اس فیصلے کی روشنی میں ستلج اور راوی کے لیے بھی ہمیں کیس تیار کرنا چاہیے اور بھارت سے ماحولیات کے نام پر پانی طلب کرنا چاہیے کہ وہ ان دریاﺅں کا پانی مکمل طور پر پاکستانی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے نہیں روک سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں مرزا آصف بیگ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ 1970کے بعد جو انٹرنیشنل واٹر کنونشن ہوا اور اس کے فیصلے پوری دنیا میں لاگو ہوئے ان کی روشنی میں ہمارا بھارت کے سامنے کچھ کیس بنتا ہے ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ لوگوں نے اشارہ کیا ہے کہ بھارت گنڈا سنگھ والا قصور میں دریائے ستلج میں صاف پانی مکمل طور پر بند کرکے اپنی طرف سے ایک سائیڈ سے سیوریج کا پانی دریائے ستلج میں ڈال رہا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمیں اس سلسلے میں بین الاقوامی اور مسلمہ آبی ماہرین سے مستند رائے لیکر ہماری ماحولیات کو پراگندہ کرنے اور دریائے ستلج میں سیوریج کا پانی بڑی مقدار میں شامل کرنے سے انسانی صحت کےلئے جو خطرات پیدا ہو رہے ہیں ان پر اپنا کیس تیار کرنا چاہیے کیونکہ آج کی دنیا 1960کی نسبت ماحولیات اور عوام کی صحت کے لئے مضر سیوریج کے پانیوں کی تازہ اور صاف پانی میں ملاوٹ کا سختی سے نوٹس لے رہی ہے۔ مرزا آصف بیگ نے کہا کہ ہمارے دریاﺅں میں مضر صحت صنعتی فضلے کو بغیر صفائی کے ڈال دیا جاتا ہے جس سے انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کی صحت کا معیار بری طرح تباہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے دلدوز لہجے میں کہا کہ جب ماحولیات کے محکمے والوں سے بات کرتے ہیں تو اکثر اوقات ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمارے صنعتی اداروں اور فیکٹریوں کے مالکان اس قدر بااثر ہیں کہ وہ سرکاری افسروں ا ور اہلکاروں کو دھمکاتے ہیں کہ ان کے صنعتی فضلے کے بارے میں شکایت اٹھائی تو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور انہیں اپنی زبان بند رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ مرزا آصف بیگ کے علاوہ عالمی آبی قوانین کے ماہر راس مسعود نے بھی اس مسئلے کے متعدد پہلوﺅں پر روشنی ڈالی۔ اس موقع پر خبریں ٹیم کے رازش لیاقت پوری بھی موجود تھے۔

 

حدیبیہ کیس ،صرف میڈیا پر پابندی ،سیاستدانوں پر کیوں نہیں جوروزانہ عدالتوں کی ایسی تیسی پھیرتے ہیں:ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ طاہر القادری صاحب کے ساتھ اکٹھے ہونے والے تمام افراد کا مقصد ایک ہے۔ تمام سیاستدانوں کا مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے وزیراعظم کو نااہل کروا دینے کے باوجود وہ پارٹی کے صدر اور ان کے چھوٹے بھائی پنجاب میں وزیراعلیٰ موجود ہیں۔ لہٰذا عملا تو اقتدار میاں نوازشریف کے پاس ہی رہا۔ اب یہ تمام سیاستدان مشترکہ کاوش کے ذریعے انہیں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو طاہر القادری کی صورت میں ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے جس کے پیروکار دھرنے سے جاتے بھی نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے طاہر القادری کو استعمال کرنا چاہتی ہیں تا کہ حکومت کو نیچا دکھا سکیں۔ طاہر القادری بھی ان افراد کو استعمال کرنا چاہتے ہیں تا کہ اپنے شہداءکے خون کے بدلے کے طور پر حکومت کو گرا سکیں۔ اس مرتبہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ عمران خان، آصف زرداری کے خلاف دھواں دھار تقاریر کر رہے ہیں۔ آصف زرداری عمران خان کے خلاف ہیں۔ یوں اگر ڈاکٹر صاحب دھرنا دیتے ہیں تو ایک دن آصف زرداری کے ساتھ اور ایک دن عمران کے ساتھ دھرنا دینا ہو گا۔ جو ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مصطفی کی مثال ایک یوسف بے کارواں جیسی ہے۔ انہوں نے فوج پر الزام لگایا کہ ہمیں ایم کیو ایم سے ملوایا۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عمران خان کے والد اکرام اللہ خاں نیازی کی کرپشن کے بارے کچھ زیادہ معلوم نہیں کسی دن قمرزمان کائرہ سے اس بارے معلومات لیں گے۔ ضیاءالحق اور خود بھٹو کے دور میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی دونوں پارٹیاں اکٹھی بیٹھتی رہی ہیں۔ بریلوی مسلک کے لوگ مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں اور دیو بند کے پیروکار مفتی محمود کی قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے۔ جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے۔ یہ بات طے ہے کہ جہاں مصطفی کمال ہوں گے وہاں فاروق ستار نہیں ہوں گے۔ مصطفی کمال کو خیال آیا کہ طاہر القادری سے مل کر وہ مین اسٹریم میں آ سکتے ہیں اس لئے وہ یہاں آ گئے۔ بابر غوری کے لئے ایم کیو ایم کو چھوڑ کر مصطفی کمال کے ساتھ ملنا مشکل ہو گا۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز پر تبصرہ نہ کرنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے۔ صحافت کا بھی یہی اصول ہے کہ معاملہ عدالت میں ہو تو اس پر بات نہیں کرنی چاہئے پہلے تو جج صاحبان فوراً ایکشن لے لیتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ایسا ہونا بند ہو گیا۔ اور لوگ خوب خوب اپنی رائے ساتھ ساتھ دیتے رہتے ہیں۔ نوازشریف صاحب کو عدالت نے اس وقت بحال کر دیا جب انہیں صدر نے 58/2B استعمال کرتے ہوئے گھر بھیج دیا تھا۔ محترمہ بینظیر کو فارغ کیا گیا تو عدالت نے انہیں بحال نہیں کیا بلخ شیر مزاری اس وقت نگران وزیراعظم بنے تھے۔ بینظیر بھٹو نے عدالت کے بارے لفظ استعمال کیا کہ ان پر ”چمک کا اثر“ ہے۔ چمک سے مراد”پیسہ“ ہے۔ یوسف رضا گیلانی وہ واحد شخص ہے۔ جس نے نااہلی کے بعد عدالت پر ایک لفظ تک نہیں کہا اور خاموشی سے گھر چلا گیا۔ نوازشریف صاحب جب سے نااہل ہوئے ہیں ان کی بیٹی، داماد اور سارے رشتہ داروں نے کابینہ کے تمام ارکان نے عدالت کو وہ بے نقد سنائی ہیں۔ کھلم کھلا جج کو فیصلوں کو عدالتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے آج میڈیا پر تو قدغن تو لگا دی ہے۔ لیکن یہ پابندی سیاستدانوں پر کیوں نہیں لگائی۔ حدیبیہ کوئی متبرک کاغذ ہیں جن کے بارے بات نہیں کی جا سکتی؟ قانون دان ہی اس بارے میں اچھی رائے دے سکتے ہیں۔ سی پی این ای کے اجلاس میں ہم ملکی اہم اشخاص کو لے کر ان سے بات کرنے ہی اویس لغاری کے بجلی کے معاملے میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہ پہلے مشرف دور میں آئی ٹی کے وزیر بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کل ہمیں بتایا کہ اوور بلنگ کرنے پر ایکسین کو تین سال سزا سنائی جائے گی۔ قومی اسمبلی نے تو بل پاس کر لیا تھا۔ لیکن سینٹ میں اسے مسترد کر دیا گیا ہے لگتا ہے کہ میٹر ریڈرز حضرات سے لے کر ایکسین حضرات کے نمائندے وہاں تک پہنچ گئے اور بل کو منظور ہونے سے روک دیا ہے۔ تحریک انصاف کے نعیم الحق نے کہا ہے کہ طاہر القادری کے دھرنوں عوامل کو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ پی ٹی آئی ان کے ساتھ اس وقت شریک ہو جس وقت اس میں زرداری صاحب نہ ہوں۔ دھرنا ایک نہیں بلکہ کئی ہوں گے۔ طاہر القادری کا ایک ایجنڈا ہے۔ وہ ماڈل ٹاﺅن سانحہ ہے ہم ملکی دیگر مسائل کے ساتھ نکلے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ زرداری کو ساتھ ملانے کے لئے اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔ عمران خان زرداری کی کرپشن کے پیچھے کھڑے نہیں ہوں گے۔ لیکن جمہوریت بچانے کے لئے انہیں ساتھ ملایا جا سکتا۔ تحریک انصاف کے عمران سمیت بارہ لیڈران اور 200 کارکنوں کے خلاف ججز صاحبان نے فیصلہ لکھا ہے۔ مینجمنٹ میں لکھا ہے کہ صرف امتیازی سلوک روانہ رکھنے کا وجہ سے آج کی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے۔ آج مشاورت کی ہے کہ اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ جانا چاہئے کہ نہیں۔ ماہر قانون جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر بات چیت کرنے سے ذرا پرہیز ہی کرنا چاہئے۔ سیاستدانوں کی طرف آنے والے کئی بیانات ”توہین“ کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالتوں میں آج کل رواداری کا ایک تاثر پایا جاتا ہے جو کہ اچھا عمل ہے۔ حدیبیہ کیس کی بڑی زیادہ اہمیت ہے۔ نیب کورٹ میں معاملات میاں صاحب کے خلاف چل رہے ہیں۔ غلط روش پر چلنے والے دیگر سیاستدانوں پر بھی کیسز چلیں گے۔ ان تمام کیسز میں سب سے اہم حدیبیہ کیس ہے۔ میڈیا کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ بھی اس پر بات نہ کرے۔ ہمارے جج صاحبان نے ابھی اس پر مشاہدہ دیا ہے۔ لگتا ہے مزید فیصلہ بھی آئے گا۔

 

بیت المقدس کو اسرائیلی صدر مقام تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے پر دنیا بھر میں احتجاج:ضیا شاہد

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے ملاقات کے دوران مجھے کہا تھا کہ ہم اب قانونی جنگ لیں گے سڑکوں پر نہیں آئے گے۔ لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے شک کا اظہار کیا ہے کہ رپورٹ میں سے کچھ حصوں کو نکال دیا گیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیورو کریسی کی طرف سے ملنے والی یہ کاپی مکمل نہیں ہے۔ جب انہیں عدالت سے کاپی ملے گی تو شاید وہ مطمئن ہوں گے۔ اس لئے وہ اپنا پریشر بڑھا رہے ہیں۔ اخبارات کی لیڈ سٹوری کے مطابق پنجاب حکومت اتنی بھی معصوم نہیں۔ وکلاءکی آرا کے مطابق پی اے ٹی کی کوشش ہو گی کہ وہ پنجاب حکومت کے کردار کو لے کر ضرور عدالت میں سوال اٹھائے۔ رانا ثناءاللہ کا کہنا بھی درست ہے کہ رپورٹ میں کسی جگہ پر شہباز شریف کا رول متعین نہیں کیا گیا، نہ ہی ان کے بارے شکایت کی گئی ہے۔ میڈیا نمائندگان، سفیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی چاہیں گے کہ مصدقہ نقول انہیں مل جائیں اور دیکھیں کہ پنجاب حکومت کا نام کیوں استعمال کیا جا رہا ہے ایک بات تو ثابت ہے کہ رکاوٹیں ہٹانے کا حکم رانا ثناءاللہ کی جانب سے آیا تھا۔ اس کے بعد گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ اس پر ساری بحث کا دارومدار ہے۔ پولیس افسران موجودہ حکومت کے خلاف بیان دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جب تک کہ وہ ریٹائر نہ ہو جائیں یا انہیں عدالت بلا کر نہ پوچھے۔ رانا ثناءاللہ قبول کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کے سیکرٹریٹ میں ہونے والی میٹنگ کے دوران انہوں نے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا۔ دوسری جانب شہباز شریف کہتے ہیں کہ آپریشن ہوتا رہا اور مجھے علم ہی نہیں ہوا۔ ماہر قانون دان خالد رانجھا سے پوچھتے ہیں کہ کیا توقیر شاہ جو کہ دوسرے ملک میں سفیر مقرر ہیں ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی انہیں وزیراعلیٰ نے حکم دیا تھا کہ ایکشن کیا جائے؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاملات نچلی عدالتوں سے شروع ہوں گے یا ہائیکورٹ سے اسے شروع کیا جائے گا۔ اگر کسی کو تسلی نہ ہو تو براہ راست سپریم کورٹ اس معاملے کو اپنے ذمہ لے لے۔ قانون کے مطابق ایک ایس ایچ او بھی وزیراعلیٰ سے تفتیش کر سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کی اصطلاح اس طرح سے متعارف ہوئی کہ پولیس کے دو بندے اور دوسری ایجنسیوں کے دو بندے۔ سمجھا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی اچھا پرفارم کر سکتی ہے۔ لیکن نوازشریف صاحب کے کیس میں جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی تھی کہ اتنے بڑے کیس میں ہمیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ نامعلوم طاہر القادری اب کیا ڈیمانڈ کریں گے۔ لیکن اس بات میں جان ہے کہ سپریم کورٹ سو موٹو ایکشن لے لے۔ بڑا مشکل لگتا ہے کہ صوبے کا وزیر قانون تو کم از کم اس معاملے میں ملوث دکھائی دیتا ہے ایسی صورت میں جے آئی ٹی کی تشکیل آسان کام نہیں ہو گا۔ جسٹس خلیل الرحمن کی ایک اور رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نجفی رپورٹ بالکل ناقص ہے اس میں غلطیاں ہی غلطیاں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو پنجاب حکومت نے ہی کہا تھا۔ ان کے صاحبزادے پنجاب حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں۔ دوسری رپورٹ ساتھ ہی جاری کرنے کا کیا مقصد تھا؟ جو پچھلی کی نفی کرتی ہو؟ جسٹس (ر) خلیل الرحمن تو کافی عرصہ سے ریٹائر ہو چکے ہیں؟ کیا ان سے پہلے کہا گیا تھا کہ رپورٹ کے بارے دوسری رپورٹ تیار کریں۔ اسرائیل کا مقصد تل ابیب سے اپنے دارالحکومت کو بیت المقدس شفٹ کرنے کا یہ ہے کہ وہ کافی فاصلے پر تھا وہ اپنا کنٹرول موثر بنانے کے لئے ایسا کرنا چاہتے ہیں دوسرے نمبر پر یہ کہ مسلمان اپنے قبلہ اول پر حملہ کرنے سے پہلے بہت سوچیں گے۔ سارے مسلمان ممالک بھی اس لئے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ امید یہ تھی کہ امریکہ بھی اس کی مخالفت کرے گا۔ مگر اس نے اس کو تسلیم کر لیا ہے جس پر دنیا بھر میں شدید احتجاج ہو گا۔ رانا ثناءایک بہادر راجپوت ”رانا“ ہیں۔ ان کی مونچھوں کا اسٹائل بتاتا ہے کہ وہ کسی سے ڈرتے ورتے نہیں ہیں۔ شاید وہ یہ سلسلہ اسی طرح چلاتے رہیں۔انہیں سکون نصیب نہیں میں نے حافظ سعید سے ملاقات کے دوران انہیں اپنی تینوں کتابیں پیش کی ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ نظر بندی کے دور میں مجھے ایک کتاب ملی ہے۔ ”امی جان“ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے شروع سے آخر تک کتاب ایک ہی سیٹنگ میں ختم کی۔ انہوں نے مجھ سے پانی کے مسئلے کے بارے پوچھا۔ میں نے انہیں سندھ طاس معاہدے کے بارے وضاحت کی جو 1960ءمیں ہوا۔ اس کی رو سے بھارت نے جن دریاﺅں کا پانی مکمل طور پر روک رکھا ہے۔ وہ اس کا مجاز نہیں ہے۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا کہ میں اور میرے ساتھ آپ کی بات کو ”انڈوز“ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ ماہر قانون دان، خالد رانجھا نے کہا ہے کہ پی اے ٹی اگر چاہتے تو آسانی سے مصدقہ کاپی حاصل کر سکتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ شائع شدہ رپورٹ میں سے کوئی چیز نکالی گئی ہو گی۔ رپورٹ سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ پنجاب حکومت نے طاہر القادری کے بندوں کو ”پھینٹی“ لگانے کا حکم دیا۔ ہو سکتا ہے پولیس نے تجاوز کیا ہو لیکن اسے پنجاب حکومت کی جانب سے حکم دیا گیا۔ گواہیاں اگر جھوٹی ہوں تو ملزم کے گلے پڑ جاتی ہیں۔ اس بات کے شواہد رپورٹ میں کہیں نہیں مل رہے کہ وزیراعلیٰ نے انہیں روکنے کا حکم دیا ہو۔ اس بات کے شواہد بھی موجود نہیں کہ چیف منسٹر کے سیکرٹری نے پولیس کو روکنے کا حکم دیا ہو۔ شرم کی بات ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد کمیشن کی رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس معاملے کا حل یہ ہے کہ سپریم کورٹ ماڈل ٹاﺅن پر جے آئی ٹی بنا دے اور اس کی تفتیش ان کے سپرد کر دے اور وہ وقت کے ساتھ تعین کرے کہ کون کون اس سانحہ میں ملزم ہے۔ معاملے کا سادہ حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایک ایسی جے آئی ٹی بنائے جس پر فریقین کو اعتماد ہو۔ ماہر قانون دان جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ نجفی رپورٹ کے جج صاحب ابھی حیات ہیں۔ اگر رپورٹ میں سے کچھ اجزاءنکالے گئے ہیں تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ عدالت سے جانا ایک آسان بات ہے کہ جناب یہ وہ رپورٹ نہیں ہے جو جج صاحب نے لکھی تھی۔ اس میں سے کچھ اجزاءخارج کئے گئے ہیں۔ جج صاحب سے مصدقہ نقل حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک ہائی لیول کے جج نے وقوع کو ”ایگزامن“ کیا۔ جس میں شہباز شریف صاحب نے حلف نامہ کی جمع کروایا۔ جس وقت یہ معاملات عدالت میں کھلیں گے۔ تو دونوں جانب کو سمن کیا جا سکے گا۔ فیصلہ تو نہیں ہے لیکن ایک اہم رپورٹ ہے۔ ماہرقانون دان اکرم شیخ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر 2014ءمیں دو ایف آئی آر درج ہوئیں۔ تفتیش کے دوران جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی مقرر کر دی گئی اس کے بعد حکومت پنجاب نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ جوڈیشل ٹربیونل بنا دیا جائے تا کہ واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔ بھٹو دور میں شکیل الرحمن صاحب کا ایک کمیشن بنا تھا۔ وہ کمیشن بھی سیکشن (3) کے تحت بنایا گیا تھا۔ اس میں احمد رضا قصوری صاحب مدعی تھے۔ ان پر جرح کی اجازت طلب کی گئی۔ کورٹ نے قبول کیا کہ اس قسم کی رپورٹوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ نہ یہ تنازع طے کرتی ہیں نہ ان کی جوڈیشل پروسیڈنگ کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے باقر نجفی صاحب کی رپورٹ ایک رپورٹ ہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے اس طرح جسٹس (ر) خلیل الرحمن صاحب نے جو رپورٹ دی ہے۔ وہ ان کی اپنی رائے ہے ان کی رائے بھی قابل احترام ہے۔ باقر نجفی کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اگر یہ رپورٹ کہہ بھی دیتی کہ فریقین یوں کریں! یوں کریں! تب بھی فریقین اس کے پابند نہیں تھے۔ اسے ”نان بائنڈنگ رپورٹ“ کہہ سکتے ہیں۔ خلیل الرحمن کی رپورٹ میں ایک منتق ہے۔ ایک سوچ ہے اور ملکی قانون کی تاریخ کے عین مطابق ہے۔ نجفی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے اس نے کسی کو مجرم یا ملزم ثابت نہیں کیا۔ یہ واقعات بیان کرتی ہے اور پنجاب تک پہنچ جاتی ہے۔ میرا نوازشریف صاحب سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فیس دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو میں اس سے فیس کی ڈیمانڈ نہیں کرتا۔

سانحہ ماڈل ٹاﺅن شہباز شریف نہ سہی سیکرٹری توقیر شاہ کا کیا رول تھا :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن سانحہ کی رپورٹ سامنے آ گئی ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے اچھا اقدام ہے گزشتہ رات میری ملاقات طاہر القادری سے ہوئی تھی ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب حکومت نے رپورٹ شائع نہ کی تو ہم اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیں گے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو کال بھی دے دی تھی۔ اچھا ہے معاملات عدالتوں میں اور مذاکرات میں حل ہونے چاہئیں۔ سڑکوں پر جنگ لڑنا درست نہیں ہے۔ رانا ثناءاللہ نے رپورٹ پر پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اس پر شہباز شریف صاحب کا نام موجود نہیںہے۔ یہ بات درست ہے کہ میاں شہباز شریف کا نام اس میں موجود نہیں ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ رانا ثناءاللہ کو حکم ملا تھا۔ جو توقیر شاہ کی طرف سے آیا تھا۔ جو سی، ایم کے پرسانل سیکرٹری تھے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیکرٹری نے سی ایم کی اجازت سے یہ حکم دیا ہو گا۔ اب بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا سیکرٹری تو سی ایم، اتنے نازک معاملے پر وزیر قانون کو ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ اگر شہباز شریف صاحب کا موقف درست سمجھا جائے تو کیا سیکرٹری اتنے ”ہتھ چھٹ“ تھے کہ انہوں نے سی ایم سے پوچھے بغیر ہی احکامات جاری کر دیئے۔ رانا ثنا نے چیف سیکرٹری کے کمرے میں صلاح مشورے میں حصہ لیا تھا۔ انہیں محسوس ہوا تھا کہ سکیورٹی مسائل کی وجوہات کی بنا پر طاہر القادری کے گھر کے اردگرد موجود رکاوٹیں مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ رانا ثناءنے یہ بات قبول کی ہے کہ انہوں نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ توقیر شاہ صاحب بیرون ملک ہیں اور انہیں سفیر مقرر کیا جا چکا ہے اگر انہیں عدالت نے بلایا تو وہ ضرور آئیں گے۔ طاہر القادری 40 سال سے میرے پڑوسی ہیں۔ اب بھی ان کے گھر کے باہر پہرہ دار موجود ہیں جو چیک کر کے کسی کو اندر جانے دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ طاہر القادری کے کارکنوں نے ہمارے دفتر کا گھیراﺅ کیا تھا۔ انسان کا کسی سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ طاہر القادری نے مجھے بتایا کہ اب وہ قانونی جنگ لڑیں گے۔ طاہر القادری کا کہنا ہے کہ رانا ثنا اس کے اہل نہیں ہیں کہ جس پر چاہیں چڑھائی کر دیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں 100 لوگوں کو گولیاں لگیں اور 14 افراد جاں بحق ہوئے۔ قادری صاحب کے اس موقف میں وزن تو لگتا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ہو نہیں سکتا۔ پولیس نے طاہر القادری کے گھر کا گھیراﺅ 9 بجے یا اس سے کچھ پہلے کیا۔ شہباز شریف کا گھر زیادہ فاصلے پر نہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ دس، گیارہ بجے تک پتا چل جانا چاہئے تھا۔ شہباز شریف کا قول ہے کہ انہیں ٹی وی کے ذریعے معاملے کا لیٹ پتا چلا۔ لاہور کے واقعہ کا کوئی تعلق میاں محمد نوازشریف سے نہیں بنتا۔ بعض ٹی وی چینل کا کہنا یہ ہے کہ رپورٹ میں سے کافی مفاد نکال دیا گیا ہے اگر طاہر القادری اور ان کے ساتھی بھی یہی شکایت کرتے ہیں۔ قانونی طور پر ان کی تسلی کس طرح ممکن ہے اس کا مشورہ ماہر قانون ایس ایم ظفر ہی ہمیں دے سکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے کارکن پارٹی قیادت سے ناراض بھی ہیں اور مایوس بھی۔ پارٹی حکمت عملی اب ایسی لگتی ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر بلاول بھٹو کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ پارٹی کی جانب سے اب تسلسل کے ساتھ رابطہ مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد میں میں نے ان کی تیاریاں دیکھیں، حاجی نواز کھوکھر صاحب میرے ہوٹل میں آئے۔ دو ڈھائی گھنٹے ہم نے بات چیت کی، ان کے بھائی تاجی کھوکھر کا ڈیرہ بہت بڑا ہے۔ انہوں نے جیل میں مجھ سے کہا کہ جب تک چودھری نثار موجود ہیں میری ضمانت نہیں ہو گی ایسا ہی ہوا چودھری نثار فارغ ہوئے ویسے ہی ان کی ضمانت ہو گئی۔ وہ جانوروں کے شوقین ہیں۔ انہوں نے اپنے بڑے گھر میں ایک چڑیا گھر بنا رکھا ہے جہاں شہر ریچھ اور سانپ وغیرہ موجود ہیں۔ پی پی پی بلاول کی لاﺅنچنگ کر رہی ہے۔ آصف زرداری بلاول کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں بلاول میں میچور نہیں آ گئی ہے۔ تقریر بھی اچھی کرنے لگے ہیں۔ آصف زرداری ایک ذہین انسان ہیں۔ امید ہے وہ بلاول کی سیاسی قربانی نہیں دیں گے اور نوازشریف سے مفاہمت نہیںکریں گے۔ اور بلاول کو آزادانہ کھیلنے دیں گے۔ سنیٹر حمد اللہ نے چیئرمین سینٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر سینٹ میں ختم نبوت کے حوالے سے کوئی ترمیم آئی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا۔ اس پر ہر گز ہرگز نظرثانی کی گنجائش نہیںہے۔ اس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو خوش کرنے کے لئے کیا مذہبی معاملات کو چھیڑا جا رہا ہے؟ ترامیم کی کوشش ابھی بھی جاری ہیں؟ ماہر قانون دان ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ ماڈل ٹاﺅن کی رپورٹ منظر عام پر آنا بہت اچھا ہے۔ اب شفافیت کا دور شروع ہو گا۔ اور عوام میں موجود ابہام اب ختم ہو جائے گا۔ یہ ملک اور جمہوریت دونوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ رپورٹ میں بڑے لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں۔ الزام ایک دوسرے کو بچانے کے لئے پولیس پر لگائے گئے ہیں، سوال یہ بنتا ہے کہ اگر اس رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا تو حکومت نے اسے چھپانے کی کوشش کیوں کی۔ اسے تو اگلے دن ہی شائع ہو جانا چاہئے تھا۔ اگرچہ اس رپورٹ میں بڑے بڑے لوگوں کے نام نہیں ہیں پھر بھی رپورٹ میں کسی جانب کو اشارہ کیا گیا ہو گا کہ کوتاہی کس جانب سے ہوئی رپورٹ میں جج صاحبان کے دستخط موجود ہوں گے۔ اگر کسی کا بیان اس رپورٹ کے خلاف آتا ہےتو ججز صاحبان ضرور اس کی تردید کریں گے۔ میںنے تمام حقائق دیکھ کر ہی اس کا نتیجہ اخذ کرتا ہوں۔ جے یو آئی (ف) کے سنیٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ سینٹ کی ہیومن کمیٹی میں یہ مباحثہ جاری تھا۔ میں سمجھا کہ یہ پچھلے معاملے کو اس کی اہمیت کی بنیاد پر زیربحث لائے ہیں۔ توہین رسالت میں ترمیم کس کی چاہت ہے؟ حلف نامے کی تبدیلی پر ملک میں کس قدر انتشار برپاہوا۔ پورا ملک حکومت کے خلاف امڈ آیا۔ اس کے باوجود ہیومن کمیٹی میں یہ ترمیم زیر بحث ہے۔ بحیثیت ایک سنیٹر، سیاستدان اور مسلمان کے میری ذمہ داری بنتی ہے کہ چیئرمین سینٹ کو آگاہ کروں کہ یہ ابھی تک زیر بحث کیوں ہے۔ توہین رسالت کیکوئیبھیتبدیلی یا ترمیم قابل قبول نہیں ہے کیا یہ سزائے موت کو عمر قید بنانا چاہتے ہیں، ملکی اساس، قانونی تقاضے اور اپنے فرائض سمجھتے ہوئے میں نے ایک خط چیئرمین کو بھجوایا ہے کہ آپ اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے اسے روکیں۔ 13،14 نومبر کے اخبارات میں ایک بہت بڑی خبر فرنٹ پر چھپی ہے کہ جنیوا میں ایک کنونشن ہو رہا ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ پاکستان توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کرے۔ کیونکہ یہ انسانی حقوق کی پامالی میں آتا ہے۔

 

”پشاور “دہشتگردی میں فوج سے بھی پہلے پولیس فورس کی دلیرانہ کاروائی قابل تحسین :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیاشاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی و تجزیہ کار ضیاشاہد نے کہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف بادشاہ ہیں وہ جو چاہیں عدالتوں کے بارے کہہ سکتے ہیں کسی اور کی کیا مجال کہ اس انداز میں عدالت کے بارے بیان دے سکے۔ اگر یہی معاملہ چلتا رہا تو بڑھتے بڑھتے چھوٹی عدالتوں تک چلا جائے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم ہونے کے بارے میں تمام علاقوں سے رپورٹ طلب کی ہے کل ضرور حقائق سامنے لائیں گے۔اویس لغاری صاحب نے اپنے والد کے نظریات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ن لیگ میں شامل ہو گئے۔اویس لغاری بھی اس وقت عاقل بالغ تھے جب ان کے والد نے میاں نواز شریف کی حکومت پر کرپشن کا الزام لگا کر فارغ کیا۔ یہ پرویز مشرف دور میں بھی وزیر رہے۔ یہی پرویز مشرف کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ اب ان کو ساری خوبیاں مسلم لیگ ن میں دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست نرالی ہے، شاعر مشرق نے جو خواب دیکھا اس کو قائداعظم نے عملی صورت میں پیش کیا۔ علامہ اقبال نے جرمنی میں جا کر فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے اپنے کلام میں کہاجمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میںبندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے یہ جمہوریت ”فیوڈل کلڈ“ کی جمہوریت ہے سندھ میں تمام وڈیرے حکومت میں ہیں۔ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے لوئر مڈل کلاس کے حنیف رامے اور ممتاز کاہلوں وغیرہ کو ٹکٹ دیے تھے۔ جبکہ سندھ میں تمام وڈیروں کو ٹکٹ دیے۔ کے پی کے میں پولیس کو سارے ملک میں ناموری ملی ہے۔ جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر اور فوج سے پہلے ہی بڑی ہمت اور جرا¿ت کا مظاہرہ کیا اور پشاور میں دہشتگردوں کے حملے پر قابو پایا۔ پرویز خٹک اور عمران خان کا مو¿قف ہے کہ کے پی کے میں پولیس کو غیرسیاسی کر دیا گیا ہے اور وہ اب کام کرتی ہے۔ دہشتگردوں کو قابو کرنے پر ہم کے پی کے کی پولیس کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین کے آنے اور جانے کی وجہ سے پولیس کو کے پی کے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ افغان مہاجرین کے اکثر رشتہ دار اس جانب رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ پرویز خٹک صاحب آپ فرمائیے کہ جس سارے دہشتگرد افغانستان سے آتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پاک فوج نے بھی کوشش کی آپ کے علم میں ہے کہ کچھ پابندیاں لگائی جانی چاہئیں۔ اسفند یار ولی سے اچکزئی تک سب نے یہ کہا کہ کے پی کے پٹھانوں کا ملک ہے اور افغانستان سے آنے والے مہاجر نہیں ہیں۔ یہ ان کا وطن ہے۔ انہیں مہاجر نہ کہیں۔ سیاست میں خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جواب نہیں ہے۔ تحریک انصاف پر عائشہ گلا لئی ایک ایم پی اے صاحب اور خود جاوید ہاشمی نے بہت الزام لگائے۔پرویز خٹک صاحب کو صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ضرور جواب دینا چاہیے تھا۔ خاموشی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ الزام لگانے والوں سے 50 فیصد متفق ہیں۔ سیاستدانوں کے ٹاپ آرڈر میں کوئی بھی ایک دوسرے کا مخالف نہیں ہوتا۔ سب ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ نواز شریف شہباز شریف کے قریبی چہیتے پرویز ملک کے بھائی جاوید اکرم ان کی بیگم معروف صنعتکار ہیں۔ اشرف مارتھ کے داماد ہمارے دوست محسن نقوی صاحب ہیں ”سٹی 42“ والے۔ وہ ساری عمر ایوان صدر میں بیٹھے رہے۔ آصف علی زرداری کے ساتھ، انہیں یہ طور طریقے آتے ہیں۔ وہ ا یک ذہین آدمی ہیں۔ لاہور میں ہونے والی شادی کے فنگشن میں ن لیگ کی ساری لیڈرشپ موجود تھی۔ اس لئے میں تو اپنے ہم وطنوں کو یہی کہوں گا کہ آپس میں نہ لڑا کرو یہ سب ایک ہیں۔ یہ پیسے والے، اقتدار والے سب ایک ہی طبقہ ہے۔ تمام سیاستدان شادی بیاہ کے فنگشن پر ایک ہوتے ہیں لہٰذا ان لیڈروں کے بیانات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ سب اندر سے ایک ہیں۔ میں اور امتنان اسلام آباد گئے تھے وہاں بہت سے اہم اشخاص سے ملاقات رہی میںنے آئی ایس آئی کے جنرل غفور سے کہا جناب اتنی جلدی کیا تھی دھرنے کے لوگوں کو چھڑانے کی۔ اس لئے کہ (3) بندوں کے گھروں پر توحملے ہوگئے تھے۔ 21 استعفے ہو گئے تھے۔ جن میں 16 استعفے تو سیالوی صاحب کے پاس تھے۔ چھ دن انتظار کر لیتے تو مسلم لیگ ن تو آدھی فارغ ہو گئی تھی۔ مریم اورنگزیب سے چائے پی ا ور ان سے گپ شپ لگائی۔ وہ بہت پریشان تھیں، ہماری مذہبی قیادت میں اس قسم کی گالم گلوچ پہلے کبھی سامنے نہیں آئی تھی۔ جو اس دھرنے کے قائدین نے ماں بہن کی گالیوں کو جس طرح ”معرب“ کیا یعنی عربی کے طرز پر گالی دینا۔ جس طرح انہوں نے کرکٹ کو حرام قرار دیا۔ایک نیا مذہب سامنے آیا ہے جس میں نماز پڑھنا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا حرمت رسول پر ڈنڈے لیکر سڑکوں پر نکلنا ضروری ہے۔ آج طاہرالقادری سے بھی ملاقات ہوئی ہے۔ میرا کام یہی رہا ہے کہ سینئرز سے ملاقاتیں کروں اور سونگھنے کی کوشش کروں۔
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
پچاس سالوں میں میںنے جتنا جھوٹ جتنی منافقت، جتنی چال بازی جتنی مکاری ہماری سیاست میں دیکھی، اتنی کہیں اورنہیں۔ بدقسمتی سے ہم جھوٹ بولتے ہیں، کھاتے ہیں پیتے ہیں، پہنتے ہیںاوڑھتے ہیں۔ صبح سے شام تک جھوٹ ہی جھوٹ کا سہارا لتے ہیں۔ ہم لوگوں کی باتوں پر کس طرح درست مشاہدہ نکال سکتے ہیں۔ عموماً 50 فیصد سے زیادہ تو ان کی باتوں میںجھوٹ ہوتا ہے۔ عدلیہ کو قدرت نے کمال صبر بخشا ہے۔ اسے صبر ایوب کہا جاتا ہے انہیں کچھ کہہ لیں وہ کچھ نہیں کہتے۔ ججوں میں برداشت کی انتہا ہو چکی ہے۔ ججوں کے صبر و تحمل کا مظاہرہ شروع کر رکھا ہے اچھی بات ہے۔ لیکن ڈریں اس وقت سے کہ اگر درجہ سوئم کے مجسٹریٹ تک یہ صبر آ گیا تو کیا بنے گا۔ لوگ کرسیاں اٹھا کر نچلے درجے کے مجسٹریٹ کے سر میں مارا کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی کہہ چکے کہ نوازشریف میرا لیڈر ہے۔ وہ کہتے ہیں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد میں نوازشریف میری بات نہیں سنتے۔ وہ مجھے وقت نہیں دیتے۔ لیکن اب وہ نواز شریف سے مل چکے۔ جاوید ہاشمی اور خواجہ سعد رفیق کے بارے کہانی چھپی تھی کہ دونوں تحریک انصاف میں جا رہے ہیں سعد رفیق نے انہیں تو دھکا دے دیا لیکن خود وہیں رہے۔ جاوید ہاشمی کو تحریک انصاف میں بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کا ایک ہی حلقہ انتخاب تھا۔ میں نے شاہ محمود قریشی کو کہا کہ جاوید ہاشمی زیادہ دیر تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ یہ پی ٹی آئی میں اندر سے جاسوسی کیلئے وہاں گئے تھے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کی کمر میں اس وقت خنجر گھونپا جب انہوں نے نعرہ لگایا کہ میں ”مارشل لا“ کے خلاف اور عمران خان آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر مارشل لا لگوانا چاہتا ہے۔ جاوید ہاشمی کو جنرل ضیاءالحق نے وہاں سے اٹھایا جو اس وقت ایم پی اے بھی نہیں تھے اور فیڈرل حکومت میں وزیر بنا دیا جہاں یہ کافی عرصہ رہے۔ یہ ضیاءالحق کے انتہائی حد تک خوشامدی تھے۔ اچانک انہیں لگا کہ مارشل لا بُری چیز ہے۔ انہوں نے علم جمہوریت اٹھا لیا۔ مجھے تو ان میں ”باغی“ کا کوئی خاصہ دکھائی نہیں دیا۔ حالانکہ ان کی کتاب بار بار پڑھی۔ یہ صحت کے وزیر تھے اور تمام وزیروں کو ”ویاگرا“ تقسیم کیا کرتے تھے اس لئے سب ان سے بہت خوش تھے۔ ملتان کے بڑے ہوٹل میں اس وقت دو دو فلور فارما سوٹیکل کے نمائندوں سے بک ہوا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ کیونکہ صحت کا وزیر ادویات کا قیمتیں بڑھایا کرتا تھا۔ چنانچہ موصوف نے وہاں یہ کام احسن طریقہ سے کیا۔ ان کی کینٹ میں گھر ہے جس کی ڈیمانڈ 98 کروڑ کر رہے ہیں۔ ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا تھا کہ میرا گھر لیز پر ہے۔ یونس حبیب کا اعترافی بیان موجود ہے کہ اس نے جاوید ہاشمی کو 4 کروڑ روپے دیئے اس دور میں اچانک انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈروں کی پریس کانفرنس کی ریکارڈنگ موجود ہے جس میں انہوں نے جاوید ہاشمی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر وہاں ٹکٹیں بانٹی ہیں۔ وزیراعلیٰ کے پی کے، پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پشاور میں دہشتگردوں کا حملہ ہوا ہے جس میں پولیس نے بڑی دلیری اور بہادری دکھائی جس نے آرمڈ فورسز کے آنے سے پہلے ہی ان پر قابو پا لیا۔ یہ تمام کوشش ہم پچھلے چار سال سے کر رہے ہیں۔ پولیس اب غیر سیاسی ہو چکی ہے۔ اب وہ اپنی مرضی سے درست کام کرتی ہے۔ میں تو بڑے زمانے سے صوبوں کو کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو بااختیار کر دیں۔ افغان مہاجرین کا مسئلہ بہت پرانا ہے۔ ہم شروع سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بارڈر محفوظ نہیں ہیں۔ یہ بارڈر بالکل کھلا ہوا تھا لوگ آزادی سے اِدھر اُدھر آتے جاتے تھے۔ اب وہاں فیسنگ کی جا چکی ہے۔ آرمی نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ جس سے حالات بہت بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جنگ معاملات کا حل نہیں ہے۔ ہم کلیئر ہیں کہ ہماری جانب کوئی دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود نہیں دہشت گردی سے ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے ہم ان کی کیونکر مدد کریں گے یہ بات عالمی طور پر بھی اٹھانی چاہئے۔ ہم تودہشت گردوں کے خلاف ہیں۔ ہمارے خلاف کوئی کرپشن کے ثبوت لے کر آئے ہم وضاحت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ لوگ غلط الزام لگاتے ہیں۔ ہم تو اوپن ہیں۔ یہاں احتساب کے ادارے ہی اینٹی کرپشن ہے۔ ماضی کے حکمران خود چوریاں کرتے رہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے جیسا ہے اس لئے وہ ہم پر بھی الزام لگاتے ہیں۔ الزام لگانے والوں کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں اور اٹھ کر الزام لگا دیتے ہیں۔

 

قادیانیوں کا پاکستان میں اقلیت کی بجائے مسلمان کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا منصوبہ :ضیا شاہد

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد“ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے مصحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ میں نے لندن اور بیلجیم میں اپنے دوستوں سے پوچھا اور دوسرے ملکوں سے بھی دوستوں سے پوچھا کہا جاتا ہے کہ قادیانی حضرات کی لیز کردہ ربوہ کی زمین کی مدت 2030 میں ختم ہونے والی ہے۔ یہ خبر گرم ہے پنجاب حکومت نے کسی مقام پر ان کے لئے جگہ مختص کر دی ہے یہ پیسے دے دیں گے اور وہاں سے سلسلہ شروع کر دیں گے اگر ان کو ربوہ سے جاری رکھنے کی اجازت نہ ملی تو بحرحال اس کا لیز 2030ءمیں ختم ہو گا۔ مراکش کے بارے کہا جاتا ہے کہ ایک لبرل ملک ہے۔ اسرائیل نے فارمولا بنایا کہ دھڑا دھڑ پیسے دو، زمینیں خریدو اور بعد میں وہ چوڑے ہو گئے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ اگر معلومات غلط ہیں تو احسن اقبال، رانا ثناءاللہ اور دیگر صاحبان اس کی تردید کر دیں میں مان لوں گا۔ معلومات یہ ہے کہ مراکش میں ایک علاقے میں بنی بنائی زمین، مکانات بلکہ ”ڈویلپ“ علاقہ قادیانی حضرات خرید رہے ہیں۔ نقد اور زیادہ پیسے دے کر خرید رہے ہیں۔ وہی فارمولا ہے جس کے تحت ”طل ابیب“ کو خریدا گیا تھا۔ قادیانی وہاں بسنا چاہتے ہیں۔ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ پاکستانی کچھ سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ 2018ءکے الیکشن میں ان سیاسی پارٹیوں کی مدد کریں گی قادیانی اقلیت ہے لیکن ان کاکوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوتا۔ ملک بشیر الدین اور ان کے بھائی قادیانی سیٹ پر ایک مرتبہ الیکشن لڑے تھے۔ وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے۔ اس کا اخبار جو ربوہ سے چھپتا تھا۔ اس میں تردید کیگئی کہ قادیانیو ںکی جماعت نے انہیں کھرا نہیں کیا۔ وہ اپنے طور پر کھڑے ہوئے۔ قادیانیوں کیکوشش تھی۔ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں کو اور کچھ سیاستدانوں کو پیش کش کی کہ آپ ہماری مدد کریں کہ ہم پر (غیر مسلم) کا یہ لیبل ختم کیا جائے۔ بقول ان کے وہ مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلمان شہری کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی بات پر میں یقین نہیں رکھتا۔ معاف کیجئے جو کچھ اسمبلی میں ہوا۔ وہ درست نہیں تھا۔ میری تحقیق کے مطابق جو کچھ میں نے لندن سے نیو یارک سے معلومات حاصل کیں، اسی تحقیق کی وجہ سے یہ ساری معلومات میرے پاس آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ ترمیم پاس ہو جاتی اور اس کی مخالفت سامنے آتی تو یہی دعویٰ درست ثابت ہو جاتا۔ اگر غلط ہے تو اس کی تردید کر دیں۔ میں قبول کر لوں گا۔ راناثناءاللہ نے ہمارے پروگرام میں کہا کہ تردید کی کہ میں نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان اور قادیانیوں میں فرق نہیں، ہمارا کام سچ کی تلاش ہے۔ میں نے تسلیم کیا کہ احسن اقبال کی فیملی پس منظر رکھتی ہے نواز شریف صاحب شہباز شریف صاحب ان کے والد محترم میاں شریف کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ دینی طور پر بہت سختی کرتے تھے۔ اپنے بچوں پر کہ صوم و صلوٰة کی پابندی کریں۔ وہ خود صبح کی نماز کے بعد اتفاق مسجد میں درس قرآن کے بعد دوپہر کے کھانے تک مسجد میں قیام کرتے تھے۔ شریف فیملی اور بالخصوص نواز شریف اور شہباز شریف خود دینی نظریات کے پکے حامی ہیں وہ کس طرح اس معاملے میں پھنس گئے۔ آپ تحقیق کریں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری ان سیاستدانوں کے ساتھ ڈیل ہوئی تھی۔ اس سے بڑی خبر یہ ہے کہ انہوں نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم 2018ءکے الیکشن میں شریک نہیں ہونگے۔ لیکن جو جماعتیں ہماری مدد کریں گی ہم مالی طور پر ان کی پوری مدد کریں گے۔ انہیں ووٹ بھی دیں گے۔ حکومتی پارٹی اس بات کی تحقیق کروائے کہ ساری دنیا میں یہ معاملہ اس وقت عام ہو چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں ایسا کیوں ممکن ہوا۔ انوشہ رحمن، لاءگریجویٹ ہے اور اس کی فیملی بھی مذہبی بیک گراﺅنڈ رکھتی ہے۔ میں نے سنا انوشہ رحمن کو ایک ڈرافٹ موصول ہوا۔ کہ قادیانیوں کو کلیئر کریں۔ وہ مسلمان ہیں۔ انہیں اقلیت میںنہ ٹھونسا جائے۔ انہیں اوپن الیکشن میں حصہ لینے دیا جائے۔ پارٹی ٹکٹ پر یا آراد حیثیت سے الیکشن لڑنے دیا جائے۔ یہ ڈرافٹ انوشہ رحمن کے سپرد ہوا۔ لیکن یہ کیسے ہوا کہ شریف فیملی، احسن اقبال، زاہد حامد جو دینی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ اس میں آگئے۔ شازیہ مری کا انٹرویو چھپا ہے کہ میں پارلیمانی کمیٹی کی ممبر تھی۔ وہ کہتی ہیںکہ زاہد حامد نے کہا یہ پوائنٹ چھوڑیں اس پر بات ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا اس کے منٹ موجود ہیں ہمیں اس کی ریکارڈنگ دیکھ کر بتایا جائے۔ مسلم لیگ ن کے نظام الدین سیالوی نے کہا ہے کہ پارٹی کے لیڈران دونوں صورتحال میں ذمہ دار ہیں، اگر ان سے پوچھا نہیں گیا تو بھی ذمہ داری اور اگر پوچھ کر ایسا کیا گیاتو بھی وہ ذمہ دار ہیں۔ جو اشخاص اس میں ملوث ہیں انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم دھرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم نے کسی بھی در پردہ سازش کا حصہ نہ بننے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ ہمارا ایک پوائنٹ ایجنڈا ہے۔ وہ ہے ناموس رسالت کے حوالے سے جو بھی ذمہ دار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔ یہ خالصتاً ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں سیاست کا ایشو ہی نہیں ہے۔ یہ ایشو اب پرانا ہو گیا۔ وزیرقانون پنجاب کی طرف سے بھی بیانات آتے رہے۔ بلکہ ہر سال کوئی نیا بیان سامنے آ جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم کافی تشویش کا شکار رہتے ہیں جس سے ہم اپنی لیڈرشپ کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ لیکن شاید وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ وہ واپس جانا ہی نہیں چاہتے۔ کچھ نہ کچھ ہمیں کرنا تھا۔ وہ کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اسمبلی میں اس پر ڈیبیٹ ہوئی کہ قادیانیوں کو سکول دئیے گئے ہیں۔ میرے دادا نے 1992ءمیں بیان دیا تھا کہ قادیانیوں کو کسی بھی اہم عہدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بھی اسی مو¿قف پر ہیں۔ وہ غیرمسلم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قادیاتی کو کسی ادارے کا ہید نہیں ہونا چاہیے۔ میں پچھلے نو دس سال سے پارٹی سے جڑا ہوا ہوں۔ جو بھی اس عرصہ میں متنازعہ چیز سامنے آئی ہے اس کے پیچھے رانا ثناءاللہ کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

 

بھارت راوی ستلج میں فضلہ پھینکنے لگا ،زہریلاپانی اموات کا سبب ،معروف صحافی ضیا شاہد کے تہلکہ خیز انکشافات

نارووال(نمائندگان خبریں) کسانوں کو ایوارڈز دیئے،کسان ٹائم پروگرام شروع کیا،اب بھی” خبریں“سب سے زیادہ کسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، تین دریا?ں کی مکمل بندش سے کسان طبقہ مسائل کا شکار ہوا، بھارت ستلج ،راوی مار رہا ہے،ان خیالات کا اظہارچیف ایڈیٹر” خبریں“ضیاشاہد نے نارووا ل زیلدار حویلی میں” کسانوں کے مسائل اور ستلج راوی کا ساراپانی بند“تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،ضیاشاہدنے کہا کہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے کہا کہ پاکستان میں2025میںپانی کی شدید کمی ہوجائے گی،میں نے کالا باغ ڈیم کے لیئے ہائیکورٹ میں درخواست دی ،آٹھ سال تک میری درخواست ہی نہ سنی ،سپریم کورٹ میں بھی افتخار چوہدری جو انصاف کی بات کرتے تھے انہوں نے بھی ہماری رٹ نہ سنی۔سندھ کا پانی کبھی بہت زیادہ کبھی بہت کم ہوتا ہے کبھی ہم سیلاب میں ڈوبتے ہیں تو کبھی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیںلیکن اس کی بھی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،قومی اسمبلی میں کسی ایک نے بھی بات نہیں کی ،انڈس واٹر ٹریٹی کا اردو ترجہ کروا رہا ہوں ،تاکہ اسے سارے پاکستانی پڑھ سکیں ،پاکستان میں ہزاروں وکلائ موجود ہیں لیکن کسی نے بھی یہ معاہدہ پڑھنے کی کوشش نہیں کی ،یہ عام لوگ بات کرتے ہیں کہ ہم تو عالمی سطح پر کیس ہار چکے ہیں لیکن اس کی وجہ ہماری سستی تھی ہم نے کیس بھی اسوقت فائل کیا جب انڈیا بیراج بنا چکا تھا ،مجھے سیاست کی ضرورت نہیں ،آپ تیار ہوجائیں اور ضروری وسائل جمع کریں تاکہ اندرون اور بیرون ملک عدالتوں میں اپنامقدمہ لڑ سکیں،انہوں نے کہا کہ بھارت نے معاہدہ کے تحت تو ہمارے تین مکمل دریا بند کر دیئے مگر اس کے چار گندے نالوں کو ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے،کہاں گئے آبی انجیئنرز،کہاں گئے ایم این ایز ،ایم پی ایز کہ ہمارے لوگ مر رہے ہیں یہ بولتے بھی نہیں 1970کے واٹر کنونشن میں یہ باتیں طے ہیں کہ کوئی ملک کسی ملک کے دریا کا کوئی پانی نہیں روک سکتا ،لیکن بھارت یہ بات بھی نہیں مانتا ،یہ ارکان لاعلم ہیں اس لیئے وہ بولتے ہی نہیں ، جنوبی پنجاب اور سندھ کا وڈیرہ دریاوں کے سوکھنے پرپانڈ ایریاز پر قبضے کرچکا ہے ،مثال کے طور پر وہاڑی میںساڑھے تین سو ایکٹر زمین اکبر علی بھٹی نے لیز پر لے رکھی تھی،وہ اب تہمینہ دولتانہ کے خاندان کے پاس ہے ،ستلج ،راوی کی زمینیںکس کو ملی ہیں یہ بھی ایک بڑا ایشو ہے ،یہ زمینیں ایم این ایز،اور وڈیروں نے لے لی ہیں ،یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ،مقامی کاشت کار کو تو زمین لیز پر ملتی ہی نہیں،اب سیاستدانوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے،کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ کسانوں کو اہمیت دینے کے لیے میں نے ہی کسان میڈل رکھوائے ،شوکت عزیز ،پرویزمشرف ،چوہدری شجاعت اور یوسف رضاگیلانی کے ہاتھوں کسانوں کو ایوارڈز دلوائے،اب زراعت صوبوں کی طرف چلی گئی ہے جس سے مسائل جنم لے چکے ہیں،انہوں نے عوام سے کہا کہ ابارکان اسمبلی کے پاس بھتیجے یا بھانجے کی نوکری کے لیے نہ جایا کریں ،قومی ایشوز پر بات کیا کریں اور سیاست دانوںکو مجبور کریں کہ وہ قومی ایشوز پر بات کریں۔

 

دھرنا ختم کرنا ہوگا رونہ یہ جمہوریت کی بساط لپیٹ دے گا:رحمن ملک

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ملکی حالات انتشار کے متحمل نہیں۔ حکومت اور علمائے کرام کو مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ دو کچھ لو کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس دھرنے کو پرامن طور پر ختم کریں، دشمن ہر طرف سے تاک لگا کر بیٹھا ہے۔ اگر یہ دھرنا ختم نہ کیا گیا تو پھیلے گا جس سے ملکی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ جمہوریت کی بساط بھی لپیٹ دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل ۵ کے پروگرام میں معروف تجزیہ کار، کہنہ مشق صحافی ضیا شاہد کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ دھرنا دینا، احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ لیکن قانون ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ دھرنے وغیرہ کے ذریعے عوام کی زندگی کو خراب کریں۔ میں نے اسٹینڈنگ کمیٹی میں ا س معاملہ پر ایکشن لیا اور آئی جی، کمشنر اور پولیس سے مکمل بریفنگ لی۔ اس وقت اسٹیٹ منسٹر صاحب بھی موجود تھے۔ اسٹیٹ منسٹری کے مطابق چار، پانچ سو افراد نے وہاں جا کر فاتحہ خوانی کرنے کی استدعا کی تھی لیکن وہاں جا کر انہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے آگے حکومت کی پلاننگ چلنی تھی لیکن انہوں نے متبادل پلان نہیںرکھا اور حکومت انہیں ڈیل کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ پی پی پی دور میں لاکھوں کے دھرنے آئے لیکن عام آدمی متاثر نہ ہوا۔ اس وقت ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ ہائیکورٹ نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دےرکھا ہے۔ یہاں بھی حکومت فیل ہو چکی اور عدالتی احکامات پرعمل نہیں کروا سکی۔ آج سپریم کورٹ بھی درمیان میں آ گئی ہے۔ اور سو موٹو لے لیا ہے۔ معاملہ آسانی سے حل ہو سکتا ہے ”کچھ دو کچھ لو“ پر معاملات حل کر لئے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہیں کیا۔ حکومت پارلیمنٹ علماءکو اس پر اعتماد میں لے کر چلتی تو اچھا ہوتا۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آئین کی شق میں ترمیم کرنے والے ذمہ دار کو سامنے لایا جائے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا قانون قوموں کو بدلتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق کی رپورٹ کو پبلک کر دیا جائے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے سو موٹو کے بعد معاملہ اگلے چند دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈر ہے یہ دھرنا تحریک بن کر پورے پاکستان میں نہ پھیل جائے۔ اگر راجہ ظفر الحق کی رپورٹ پبلک کر دی جاتی ہے تو ذمہ داری ایک سے زیادہ افراد پر آ جاتی ہے۔ زاہد حامد صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری نہیں تھی اس لئے وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ حکومت انہیں سامنے لے آئے۔ غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ملکی صورتحال کے پیش نظر حکومت کو کچھ دو کچھ لو کے تحت کام کرنا چاہئے۔ اس وقت ملکی حالات خراب ہیں بھارت اربوں روپے لگا کر مشرق میں اور بلوچستان میں بالخصوص ہمارے حالات خراب کرنے کے درپہ ہو چکا ہے حالات بہت نازک ہیں۔ بھارتمشرقی پاکستان والے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تمام فریقین کو مل کر بیٹھنا چاہئے اس مسئلے کو حل کرنا چاہئے۔ یہ اسلام یا پاکستان کی خدمت نہیں ہے۔ ان حالات سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے۔ یہ ریاست کا امتحان ہے۔ سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستانی اور سابق وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کون ہوتا ہے جو ہمیں ”ڈکٹیٹ“ کرے۔ وہ کون ہوتا ہے کہ ہمیں بتائے کہ قوانین کیسے بنائے جائیں۔ ہم کیا ان کو کہتے ہی ںکہ اپنا قانون تبدیل کر دیں۔ ٹرمپ کے ایک وزیر کا قول ہے کہ ”اسلام ایک کینسر ہے دنیا کیلئے“ اس کرسچین مشیر کو بائبل کا چیپٹر پڑھنا چاہئے جس میں ہمارے نبی کی آمد کاتذکرہ ہے۔ اگر وہ بائبل پر حلف لینے کے بعد اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ تو آپ کا مائنڈ سیٹ پاکستان اور اسلام کے متعلق کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ نے القاعدہ بنایا۔ آپ نے ان کو دہشت گرد قرار دیا۔ آپ نے داعش بنائی۔ یہ خود چیزیں بناتے ہیں انہیں طاقتوربناتے ہیں پھر وہ انہیں ڈستے ہیں۔ پھر ہماری قوم اور اسلامی برادری کوڈستے ہیں۔ آپ امریکہ میں بیٹھ کر ایک ایس ایچ او کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ تو پاکستانی قوم اسے ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ ختم نبوت کا قانون بہت پہلے بن چکا حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ اس وقت جب کہ مودی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا کہ پاکستان کے خلاف لابنگ کرے۔ سی پیک پر خود ڈونلڈ ٹرمپ کہتا ہے۔ ”ون روڈ ون بیلٹ“ قابل قبول نہیں ہے۔ یہ ساری چیزیں انہیں کرنے سے باز رہنا چاہئے انہیں اس کا حق حاصل ہی نہیں ہے۔ انسانی ناطے اور کسی بھی انٹرنیشنل قانون کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے پاکستان میں موجودہ تناﺅ کا فائدہ کوئی دشمن اٹھا سکتا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے علماءکرام کو قانون بنانے والے اشخاص کو پوری طرح آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔ اور سوچنا چاہئے کہ ہمارا دشمن چاروں جانب سے نقب لگائے بیٹھا ہے۔ اگر ہم نے رسہ کشی کا خاتمہ نہ کیا تو ہم بہت لیٹ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پکنے والی اس کھچڑی کے بانی پاکستان میں موجود ہیں یادیو جیسے اور بھی عناصر یہاں موجود ہیں۔ یادیو پر آے والے مودی کے پیغامات اور افغانستان میں اس کا کردار دیکھنا چاہئے کس طرح اس نے ٹرائیکا بنا لیا ہے۔ امریکہ کو ساتھ ملا کر اس نے دھمکیدی کہ بلوچستان کےر استے پاکستان کو سبق سکھائیں گے اس نے بلوچستان سے بھاگے ہوئے افراد سےبات چیت کیاس کا متن بھی جاری کر دیا۔ تھوڑے عرصہ بعد ان کے وزیردفاع نے بیانات دے کر ہم پاکستان کوسبق سکھائیں گے۔ ان ہی دنوں یادیو بھی پکڑا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی خبریں ہیں ڈاکٹر اللہ نذر کس کے کہنے پر کام کر رہا ہے؟ وہاں کون پیسے تقسیم کر رہا ہے۔ وہاں کی سٹوڈنٹ فیڈریشن کو کون آگے لا رہا ہے؟چاہ بہار سے انٹیلی جنس ہو رہی ہے قندھار سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح بچانا ہے۔ اس کی حفاظت کس طرح کرنی ہے؟ پاکستان کونقصان پہنچانے والے عناصر سے ہم نے خود کو بچانا ہے۔آپ کی وساطت سے میں پرزور اپیل کروں گا۔ حکومت اور دھرنے والے دونوں سے۔ ان لوگوں سے بھی جو مصالحت کروانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس دھرنے کو ختم کریں ورنہ یہ دھرنا جمہوریت کو لپیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی نے جب اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی دن سے وہ چالیں چل رہا ہے۔ اس نے ہماری حکومت کو چکما دیا اور ایسے ظاہر کیا کہ وہ نواز شریف کے دوست ہیں۔ ہو سکتا ہے دوستی ہو بھی۔ لیکن جس انداز سے اس نے پاکستان کے ساتھ چال چلی۔ اپنے ”ہوم فرنٹ“ پر ا ور ”فارن فرنٹ“ پر بھی۔ مودی کا امریکہ میں داخلہ ممنوع تھا۔ اس نے چالاکی سے اپنا نام وہاں سے مٹوایا اور پہلی مرتبہ اوباما سے ملا اور وہاں جا کر یہ باور کروایا کہ پاکستان دہشتگردی کرواتا ہے۔ پاکستان صحیح ملک نہیں ہے اور جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کروا رہا ہے۔ وہ لوگ پہلے ہی پاکستان کے خلاف بغض رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس کے نظریات کو فوراً قبول کیا۔ دوسری جانب دیکھیں ہمارے وزیر خارجہ جب وہاں گئے تو فارن آفس نے انہیں درست بریفنگ نہیں دی۔ کیونکہ حافظ سعید کے بارے کہا جا رہا تھا کہ وہ امریکہ گئے۔ حالانکہ وہ کبھی امریکہ نہیں گئے۔ میں انڈیا سے ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ تم جھوٹے ہو۔ تم نے کبھی درست شواہد انٹرنیشنل کورٹ میں پیش نہیں کیے۔ میں نے بھارت کو بہت سے خطوط لکھے۔ اس کے وزیراعظم کو بھی اور اس وقت کے وزیر خارجہ کو بھی۔ بھارت نے پروگرام بنایا جس کے تحت بہت پیسے اکٹھے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی اداروں سے ٹکراﺅ کی صورتحال جاری رہی تو جمہوریت کا جہاز ڈوب جائے گا۔ جس سمت میں یہ جا رہے ہیں وہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کیس کا فیصلہ عدالت نے دینا ہے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر حدیبیہ پیپر کیس اور حدیبیہ انجینئرنگ کیس کے چالان جو ایف آئی اے نے دئیے تھے اس وقت میں اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس کی سرپرستی میں نے کی۔ میری کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ میں بیورو کریٹ تھا۔ اپی ڈیوٹی پوری کی میرے خیال میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق جو بعد میں نیب کو بجھوا دی گئی تھیں۔ نواز شریف کی جائیداد جو بیرون ملک ظاہر ہوئی ہے اور دیگر لوگوں کے نام جو سامنے آئے ہیں کافی حد تک ان لوگوں کا تعلق ان سے نکل آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ پیپر کیس سے نکلنے کےلئے شہباز شریف کو بہت محنت کرنی پڑے گی کیونکہ ان کا نام اس میں ہے۔ میں سب کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اس وقت میں نے سب کے نام دئیے تھے۔ میں نے جے آئی ٹی کو تمام حقائق بیان کر دئیے تھے۔ میں نے انہیں طریقہ کار بھی بتایا کہ جس کے تحت اسے ”ری اوپن“ کیا جاسکتا تھا۔ وہ سمجھے کہ شاید میں ان کی فیور کر رہا ہوں۔ میں نے جو خط لکھا تھا۔ سپریم کورٹ کے سامنے جے آئی ٹی کا وہی خط ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا وہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ کورٹ کی کارروائی شروع ہوئی تو سب سے معاملات میرے درست ثابت ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا کوئی بلوچ لیڈر ہو وہ انڈیا کے حکم کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ میں نے براہمداغ سے بات کی۔ ہمارا تاجکستان میں ملنا طے ہوا انہوں نے کہا میں نیو دہلی جا رہا ہوں۔ نیا سال منا کر آپ کو تاجکستان ملوں گا۔ جب وہ واپس آیا تو میرے ذرائع نے بتایا کہ وہ کہتے ہیں انڈین کے مطابق اگر تم رحمن ملک سے ملے تو وہ مروا دے گا۔ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا بھارت پر انحصار کرتے ہیں۔ اور بھارت ان کی کتنی فنڈنگ کر رہا ہے۔ 500 ملین ڈالر، مودی حکومت نے را کو دیا ہے جو اس نے بلوچستان میں گڑ بڑ کےلئے استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر مالک نے اچھی کوشش کی حکومت کو ان کی بات ماننی چاہیے تھی۔ بھارت چاہے گا کہ صوبائیت کو ہوا ملے۔ پنجابی کو مارنا، بلوچی کو پکڑنا، سندھی کو قتل کرنا بھارت کا مین ایجنڈا ہے یہی کام اس نے مشرق پاکستان میں کروایا تھا۔ میڈیا اور دیگر لوگوں سے میری درخواست ہے کہ اسے روکیں کیونکہ بھارت یہی چاہتا ہے۔ دشمن ہمیشہ کمزور حصہ ٹارگٹ کرتا ہے۔ ایجنسیوں کو اور بہتر طریقہ سے کام کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ بلوچستان میں معاملے پر ”سوموٹو“ لے چکا ہے۔ بھارت بلوچستان میں ہر وہ کام کرے گا جس کے ذریعے وہ ہمارے یہاں سکیورٹی معاملات کو ہوا دے سکے۔