تازہ تر ین

حیرت ہے سرحد کے دوسری طرف ایرانی علاقے میں تیل نکلتا ہے،بلوچستان سے کیوں نہیں نکل سکتا نامور تجزیہ کار ضیا شاہد کی چینل ۵ کے مقبول پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ جنرل (ر) راحیل شریف کے اتحادی افواج کے سربراہ بننے کے حوالے سے ان کی ریٹائرمنٹ سے ڈیڑھ ماہ قبل سپر لیڈ لگائی تھی، اب سعودی سفیر نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ نیٹو کے مقابلے میں کوئی پینل فورس کھڑی ہو۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے ایک بار اس خبر کی تصدیق کی پھر امریکی دباﺅ پر 3 دن بعد ہی سینٹ میں تردید کر دی، سرتاج عزیز نے بھی کہا کہ ایسی کوئی پیشکش آئی نہ آنے والی ہے۔ اسحاق ڈار نے اب تسلیم کر لیا ہے کہ پیشکش ہوئی تھی اور اب فائنل ہونے جا رہی ہے۔ اخبار نویس کی حیثیت سے پہلے دن سے اس کی خبر تھی البتہ امریکی دباﺅ کی وجہ سے وقتی طور پر اسے روک دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کوشش کر رہا ہے کہ سپر پاور سے کہے کہ یہ کسی کے خلاف نہیں ہے، اس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ فورس شام، ایران یا یمن میں استعمال نہیں ہو گی۔ پنجاب یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں کے درمیان جھگڑے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وہ جمعیت نہیں ہے جس کو میں نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا تھا۔ جمعیت کے لوگ بہت دینی اور پرامن تھے لیکن سارا قصور ان کا بھی نہیں ہے۔ کچھ قصور حکومتی طالب علم تنظیموں کا بھی ہے۔ ماضی کی جمعیت خدمت خلق میں مصروف رہتی تھی، کیمپ لگا کر نئے آنے والے طلبہ کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ جمعیت کو پی ایس ایف، ایم ایس ایف اور این ایس او طلبہ تنظیموں کے ساتھ مقابلے میں کلاشنکوف اٹھانا پڑی، یہ جمعیت کا اصل روپ نہیں ہے۔ ان کا پس منظر دینی و اخلاقی طور پر شائستگی و وقار ہے۔ یونیورسٹی کے بڑے بڑے اساتدہ قبضوں سے لے کر لوٹ مار کرنے تک اور اپنی مرضی کے اساتذہ بھرتی کروانے سے جمعیت کے ڈر سے تھر تھر کانپتے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اردگرد تمام زمین پر اسلامی جمعیت طلبہ کا قبضہ ہوتا تھا۔ جو نام نہاد لیز پر دی جاتی تھی۔ جمعیت کے بائیکاٹ کی وجہ سے ڈاکٹر رفیق احمد اپنے وائس چانسلر شپ کے پورے دور میں دفتر نہیں آ سکتے تھے، وہ گھر میں فائلیں منگوا کر کام کرتے تھے۔ میں خود پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں 3 سال تک پڑھاتا رہا ہوں، میں نے لکھ کر دیا ہوا تھا کہ کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔ جمعیت کو بڑی قریب سے دیکھا ان کے دینی پروگراموں میں شرکت بھی کرتا رہا ہوں۔ خواہش ہے کہ یہ ہر معاملہ میں افہام و تفہیم سے کام لیں، ایم کیو ایم کی طرح ڈنڈے، سوٹے کے استعمال سے گریز کریں۔ ان کے خلاف نہیں ہوں لیکن یہ سن کر دکھ ہوتا ہے کہ پولیس جمعیت کے پیچھے ہے، انہوں نے ہوسٹل میں اسلحہ رکھا ہوا ہے۔ اساتذہ بے بس ہیں اور انتظامیہ ان سے ڈرتی ہے۔ جماعت اسلامی کا کردار مختلف رہا ہے وہ صرف فکری طور پر ان کے پیچھے ہے۔ جمعیت کا اپنے دفاع میں بیان پر تجزیہ کار نے ایک شعر سنایا۔بازیچہ¿ اطفال ہے دنیا میرے آگےہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگےجماعت اسلامی نے یہ وہ نرسری کھول رکھی ہے۔جب اس کے پھول کھلتے ہیں تو نوازشریف کی جھولی میں گرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپر پاورز نے 2 باتوں کا تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کو اس کے معدنی ذخائر سے مستفید نہیں ہونے دینا اور انٹرنیشنل آئل کمپنیز چاہتی ہیں کہ یہاں سے تیل اگر نکل بھی سکتا ہے تو نہ نکلے۔ ایران کے بارڈر پر دوسری طرف تیل نکل رہا ہے، ہماری طرف نہیں نکلتا۔ حیرت کی بات ہے کہ پڑوسی ملک اسی علاقے سے تیل لے رہا ہے جبکہ ہم اس سے محروم ہیں۔ پاکستان صرف معدنی ذخائر اور سیاحت سے خوشحال ہو سکتا ہے۔ معدنی ذخائر کے ہر پروجیکٹ میں انٹرنیشنل آرگنائزیشنز اور فرموں کی پھڈے بازی ہے جبکہ سیاحت کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے۔ 9/11 واقعہ سے قبل بھی امریکہ میں ٹی وی پر اعلانات ہوتے تھے کہ پاکستان نہیں جانا وہ خطرناک علاقہ ہے۔ اس وقت کوئی دہشت گردی نہیں تھی۔ ہمارے ہی علاقے میں نیپال کی 90 فیصد آمدنی سیاحت سے وابستہ ہے، اس کے پاس ماﺅنٹ ایورسٹ ہے تو ہمارے پاس کے ٹو ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے ایئرپورٹ واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے ضیا شاہد نے کہا کہ ایک بار امریکہ کے دورے پر گئے راشد قریشی اور مشرف کے 2 وزیر بھی ساتھ تھے، وہاں سکیورٹی کے چکر میں ہمارے کپڑے تک اتروا لئے گئے تھے۔ افتخار چودھری صاحب پاکستان میں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ اپنی بادشاہت قائم رکھ سکتے ہیں کہ مجھے بلٹ پروف گاڑی چاہئے اور وہ مل بھی جاتی ہے لیکن باہر کوئی نہیں سنتا، سب کو ایک لائن میں کھڑا ہونا پڑتا ہے لہٰذا برداشت کریں اور اس قسم کی حرکتوں سے اپنی مزید درگت نہ بنوائیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم جامعہ اسامہ اعجاز نے کہا ہے کہ طلبہ گروپوں میں تصادم میں ان کی طرف سے پہل نہیں ہوئی۔ انتظامیہ و پولیس کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ 21 مارچ کو یوم پاکستان کی مناسبت سے 7 روزہ ”عزم ہمارا پاکستان“ کمپئن شروع ہونے جا رہی ہے افسوس یونیورسٹی انتظامیہ نے ہماری تحریری درخواست اور ملاقاتوں کا خاص اثر نہیں لیا۔ خیبر پختونخوا یا بلوچستان میں کہیں بھی 21 مارچ کو پختون کلچر ڈے نہیں منایا جاتا۔ ہمارے پروگرام والے دن یہ اچانک کہا سے آ گیا، انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا کہ اس کے پیچھے مقاصد کچھ اور ہیں۔ ہم نے کوئی کیمپ نہیں اکھاڑا، فوٹیج موجود ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 8 سے 10 لوگ ایک طالب علم کو پیٹ رہے ہیں وہ کوئی پختون نہیں ہے۔ دوسرے گروپ نے طالبات اور سمعیہ راحیل قاضی سے بدتمیزی کی جو قابل تشویش بات ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain