تازہ تر ین

”گاندھی کے چیلے “تاریخ کا اہم باب

کرنل (ر)سکندر بلوچ /ضرب سکندری
یہ مجھے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت بھی ہندوں سے زیادہ کچھ مسلمان لیڈروں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی۔کچھ نے تو یہاں آنا تک بھی قبول نہ کیا۔پھر کچھ ایسے بھی تھے جو رہتے تو پاکستان میں ہیں۔اسی سر زمین کا رزق کھاتے ہیں لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں :” شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے“۔منافقت کی انتہا ہے کہ یہی لوگ اور انکی اولادیں اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔کسی کارکردگی کے بغیر جھنڈے والی کاروں کے مزے لیتے ہیں۔اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھتے ہیں۔ دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ آج عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے فرماتے کہ پاکستان ہمارے بزرگوں نے بنایا۔کاش ہمارے ہاتھ ایسے لوگوں کے گریبانوں تک پہنچ سکتے۔کاش عوام کی یاداشت اتنی کمزور نہ ہوتی۔
پاکستان کی مخالفت کرنے والے ویسے تو بہت سے لوگ تھے لیکن ایک اہم ایسی فیملی چار سدہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی رہائشی خان عبدالغفار خان کی فیملی بھی تھی جنہیں مقامی لوگ ”باچا خان “ کے نام سے پکارتے ہیں۔پاکستان میں انہیں عموماً” سرحدی گاندھی“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ خان عبدالغفار خان اور ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے پاکستان کی مخالفت میں اسوقت جو کوششیں کیں وہ کوششیں رکی نہیں بلکہ آج تک جاری ہیں۔انکی بہترین تفصیل جناب ضیاشاہدنے حال ہی میں شائع ہونیوالی اپنی کتاب ” گاندھی کے چیلے“ میں دی ہے۔ میری نظر میں یہ کتاب تاریخ پاکستان کا حصہ ہے اور جناب ضیاشاہدنے تاریخ پاکستان کا یہ باب محفوظ کر کے ایک سچے اور محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔میں اپنی طرف سے اور اپنے قارئین کی طرف سے محترم مصنف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کتاب پڑھنے میں دلچسپ اور حقائق سے بھر پور ہے۔تمام حقائق کے مستند حوالے دئیے گئے ہیں تو یوں یہ ایک” ریفرنس بک“ کی حیثیت رکھتی ہے جو میرے خیال میں ہر پاکستانی کو ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ اس خاندان کے لوگ نہ صرف پاکستان کی مخالفت کرتے رہے ہیں بلکہ پاکستان کو دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔ پاکستان کے مفادات کو زک پہنچاتے ہیں اور بعض اوقات تو پاکستان کی نفرت میں انتہا تک چلے جاتے ہیں۔ڈیورنڈ لائن کو وہاں سے اٹھا کر اٹک تک لانے کی باتیں کرتے ہیں۔کالا باغ ڈیم جو کہ پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے مستقبل کے لئے بہت ضروری ہے کو بمبوں سے اڑانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ایسے چہرے محبِ وطن پاکستانیوں کو ضرور دیکھنے چاہیں جو ضیاشاہد نے بہت مدلل انداز میں بے نقاب کئے ہیں۔
معزز قارئین! باچا خان فیملی صوبہ خیبر پختونخواہ کی ایک مشہور،دولت مند اور با اثر فیملی ہے۔یہ فیملی تقسیمِ ہند سے پہلے سے سیاست میں تھی۔ باچا خان اور انکے بھائی ڈاکٹر خان صاحب انگریزوں کے پٹھو تو تھے ہی لیکن سیاست کےلئے کانگریس کے ساتھ منسلک تھے۔ انگریزوں نے تابعداری،وفاداری اور خدمات کے عوض انہیں جائیدادیں عطا کیں جس سے یہ بڑے خان بن گئے۔ انگریزوں سے خصوصی تعلقات کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ڈاکٹر خان صاحب کی زوجہ انگریز تھیں اور آخر تک عیسائی رہیں۔اس حیثیت میں انکی دوستی اسوقت کے صوبہ سرحد کے انگریز گورنر کی بیوی سے تھی۔ اس دوستی کی بنا پر انگریز گورنر نے ڈاکٹر خان صاحب کو صوبے کی وزارتِ اعلیٰ سے نوازا۔ انگریز بیوی اور کانگریسی ہندو لیڈروں سے دوستی کی وجہ سے محترمہ کو ساری عمر دہلی دربار سے وظیفہ ملتا رہا۔ خان صاحب اس حد تک لبرل تھے کہ ان کی بیٹی نے ایک سکھ نوجوان سے شادی کی اور بیٹے نے پارسی لڑکی سے اور یہ شادیاں والدین کی رضامندی سے ہوئیں جبکہ کہنے کو تو وہ مسلمان تھے۔
مجھے صوبہ خیبر پختونخوامیں کم و بیش 15سال سروس کا موقعہ ملا۔ میری میٹرک سے ایم اے تک تعلیم بھی پشاور میں ہوئی۔پٹھانوں کی ”ہارٹ لینڈ“ وزیرستان میں بھی خدمت کا موقعہ ملا۔طویل قیام کی وجہ سے مجھے صوبہ خیبرپختونخوا بہت پسند ہے۔ اتنے طویل قیام کے دوران میرے مشاہدے اور ذاتی ”انٹرایکشن“ کے مطابق میں نے پٹھانوں کو پکے مسلمان،غیرت مند لوگ،اچھے دوست اور صاف دل کے لوگ پایا۔مجھے کبھی کسی دوست یا واقف کار سے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی۔ میرے یونیورسٹی کے دور میں وہاں پٹھانوں کے علاوہ پنجابی،گلگتی اور آزاد کشمیر کے طالبعلم بھی زیر تعلیم تھے۔ہماری کلاس میں قبائلی لڑکے بھی تھے۔ان میں الٹرا ماڈرن اور ٹھیٹھ قبائلی پس منظر رکھنے والے لڑکے اور لڑکیاں بھی تھیں۔عیسائی،احمدی،اہل تشیع اور اہل سنت جماعت سے تعلق رکھنے والے طلباءبھی تھے۔ان میں اردو بولنے والے،پشتو بولنے والے اور پنجابی بولنے والے لڑکے لڑکیاں بھی موجود تھے لیکن آپس میں ایک فیملی اور بہن بھائیوں والا ماحول تھا۔لسانی،مذہبی یا صوبائی تعصب کا شائبہ تک نہ تھا۔پشاور ایک پر امن اور بین الصوبائی شہر تھا۔ کبھی کسی نے اردو بولنے والے،پنجابی بولنے والے یا گلگتی بولنے والے پر کسی قسم کا اعتراض نہ کیا۔ پٹھان خصوصاً ان پڑھ پٹھان بڑے سادہ اور کھلے دل کے لوگ ہیں۔ انکی سادگی کا ایک واقعہ اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔1972میں میں ” جنوبی وزیرستان سکاﺅٹس“ میں ایجوکیشن آفیسر تعینات تھا۔ہمارے کچھ جوانوں کی ترقی تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے رک گئی۔اس خیال سے کہ یہ تعلیم پر بھر پور توجہ دیں میں نے انہیں آگے ایک پوسٹ پر بھیج دیا جہاں فراغت زیادہ ہوتی تھی اور ساتھ انہیں ایک انسٹرکٹر بھی دے دیا جو انہیں سارا دن پڑھاتا تھا۔ دو ماہ بعد ہمیں پیغام ملا کہ جوان تعلیمی طور پر تیار ہو چکے ہیں لہٰذا انکا ٹیسٹ لیا جائے۔دو دنوں بعد کمانڈنگ آفیسر اور میں دونوں وہاں گئے۔کمانڈنگ آفیسر بھی پٹھان تھا۔اس نے جاتے ہی جوانوں سے پوچھا جو کہ سب کے سب قبائلی پٹھان تھے: ”حالاکا کتنا پڑھا ہے؟ “ایک جوان نے جوش سے جواب دیا۔“ ” سر ہم نے بوت پڑھا ہے“۔کمانڈنگ آفیسر نے پھر پوچھا ”حالاکا کیا پڑھا ہے؟“۔پھر اسی جوان نے جواب دیا : ”سر ہم نے پڑھا ہے کہ ب کا نقطہ نیچے ہوتا ہے پہلے ہم اوپر لگاتا تھا“۔ہم دونوں ہنس پڑے۔کمانڈنگ آفیسر نے کہا :” ان کے لئے یہ بہت تعلیم ہے انہیں پاس کردو“ تو یوں انہیں ترقی مل گئی۔
جناب باچا خان کا تعلق خالص پٹھان فیملی سے ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں پٹھانوں والی عادات مفقود تھیں مثلاً پٹھان بہت زیادہ مہمان نواز ہوتے ہیں بلکہ مہمان نوازی انکے خون میں شامل ہے لیکن باچا خان اور ان کے بھا ئی ڈاکٹر خان صاحب علاقے کے بڑے جاگیردار، با اثر لوگ اور سب سے زیادہ ایک سیاسی خاندان ہونے کے باوجود اپنے مہمانوں کو چائے تک پیش کرنا گوارا نہیں کرتے تھے اور انکی کنجوسی کا ذکر مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اپنی شہرت یافتہ کتاب میں کیا ہے۔پٹھان تعصب پسند نہیں ہوتے لیکن باچا خان کے بیٹے جناب ولی خان صاحب پنجاب کے سخت خلاف تھے اور پنجابیوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ”مہاجر“ قرار دیتے تھے۔پٹھان پکے مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن باچا خان اور انکے بھائی ڈاکٹر خان صاحب عقیدے کے لحاظ سے باقی پٹھانوں سے مختلف تھے۔مثلاً ڈاکٹر خان صاحب کی زوجہ ایک عیسائی خاتون تھی جو آخر تک مسلمان نہ ہوئی۔ خان صاحب کی اولاد نے غیر مسلموں میں شادی کی جو کوئی پٹھان برداشت نہیں کرتا۔جناب باچا خان صاحب اپنے بزرگوں کے ہندو اور بدھ مت ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔گاندھی کی خدمت کرنا اور بیماری کے باوجود انکے پاﺅں دھونا،انکے ساتھ مل کر پرارتھنا کرنا، ہندو عقائد پر عمل کر کے سکون محسوس کرنا،اپنی ولایت پلٹ بیٹی کو آشرم میں رکھنا،گاندھی کی پیروی میں اپنے علاقے میں آشرم تعمیر کرنا کسی صورت بھی مسلمانوں والی خصوصیات نہیں ہو سکتیں۔باچا خان کو گاندھی سے بچھڑنے کا بھی بڑا دکھ تھا۔ ان سے پاکستان پر حملہ کرنے کا وعدہ بھی لیا۔گاندھی کی پیروی میں اپنے ماتھے پر تلک تک لگوالیا۔اس خاندان کی ہندوستان کے لئے محبت اور ہندوستان سے تعلق شاید آج تک قائم ہے۔اس کے باوجود اس خاندان کو جو عزت پاکستان میں ملی ہے اس کا یہ متحدہ ہندوستان میں سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔یہاں عوام نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ اقتدار کے مزے لوٹے اور لوٹ رہے ہیںان کی خواہش کے مطابق صوبے کا نام تبدیل ہوا۔جناب باچا خان اور ولی خان کے نام پر یونیورسٹیاں بنیں۔ پشاور ایئر پورٹ کا نام تبدیل ہو کر باچا خان ایئر پورٹ رکھا گیا اور کسی پنجابی،سندھی یا بلوچ نے مخالفت نہیں کی۔اتنی عزت تو آج تک تحریک پاکستان کے کسی کارکن کو بھی نہیں ملی۔اس کے باوجود بھی یہ خاندان پاکستان سے خفا ہے۔پنجاب سے نفرت کرتا ہے اور پاکستانی معیشت کےلئے اہم ترین تعمیر (کالا باغ ڈیم) کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔ان کی تمام تر مخالفت کے باوجود جو کچھ انہیں پاکستان نے دیا ہے انہیں تو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہئیے۔ایک اچھا پٹھان کبھی بھی اپنے محسنوں سے عدم وفا کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آخر میں ایک دفعہ پھر جناب ضیاشاہد کا شکریہ کہ انہوں نے تاریخ پاکستان کا اتنا اہم باب محفوظ کر کے حب الوطنی کا فریضہ ادا کیا ہے۔
(کالم نگارکئی کتابوں کے مصنف ہیں)
٭….٭….٭


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain