تازہ تر ین

صدر نے خطاب میں کسی جماعت کیخلاف کوئی بات نہیں کی ، پھر ن لیگ کا بائیکاٹ کیوں ، معروف صحافی ضیا شاہد کی چینل ۵ کے پروگرام ” ضیا شاہد کے ساتھ “ میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں و تبصروں پرمشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی و تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی بڑی متوازن شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ن لیگ اور جے یو آئی کی طرف سے بائیکاٹ کرنا افسوسناک رویہ ہے۔ حیرت ہے کہ صدر پاکستان نے اگر کرپشن روکنے کے حوالے سے بات کی تو ن لیگ کو بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ انہوں نے کسی سیاسی پارٹی یا شخصیت کا نام تک نہیں لیا۔ ایک زمانے میں اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان بڑی لے دے ہوتی تھی۔ ن لیگ کی رہنما تہمینہ دولتانہ چوڑیاں اتار کر پھینکتی تھیں میں انہیں اس طرح کے حربے استعمال کرنے سے منع بھی کیاکرتا تھا۔ ہماری اسمبلیوں کے اندر بھی اٹھنے بیٹھے، تنقید کرنے کا بھی اخلاقیات وہ کم از کم طے ہونی چاہئے۔ میری شہباز شریف صاحب سے درخواست ہو گی کہ وہ براہ کرم خیال رکھیں۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ کے ماتھے پر اپوزیشن لکھا ہے اس لئے آپ ہر بات پر شور مچانا ہے۔ ہمیں آہستہ آہستہ سنجیدگی کی طرف جانا چاہئے۔ مخالفت اور بات اور تنقید ایک اور بات ہے۔ لیکن ناشائستگی اور بات ہے اور اداروں کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھنا اور بات ہے۔ اس طرح حکومتی پارٹی کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ایوان کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے۔ جب اوپر طوفان بدتمیزی ہوتا ہے تو پھر لاہور بلدیہ میں ہوتا ہے پھر لاہور ضلع کونسل اور ملتان ضلع کونسل میں بھی ہوتا ہے۔
ضیا شاہد نے برطانیہ سے احتساب کے ڈکلیریشن پر دستخط کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی طرف اشارتاً توجہ دلاتا چلوں کہ محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی تدفین کا معاملہ تھا تو وہ ان کا جسد خاکی یہاں آیا۔ جناب نوازشریف ان کی صاحبزادی ان کے داماد کو بھی موقع دیا گیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ان 3 دنوں میں کوئی ایک بھی خبر نہیں دیکھی ہو گی کہ جس میں حکومت وقت ہے اس کی طرف سے کوئی نامناسب رویہ اختیار کیا گیا ہو اور نہ ہی کوئی دیکھا ہو گا کہ جس خاندان پر دکھ اور تکلیف ابتلا کا دور آیا اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے ان کی طرف سے بھی کوئی ری ایکشن سامنے نہیں آیا۔ بڑی خوش اسلوبی سے سارے معاملات انجام پائے۔ اور آج وہ میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی اور کیپٹن صفدر دوبارہ جیل پہنچ گئے۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ جس طرح اتفاقاً برطانیہ کے پاکستان میں پاکستان میں ہی پیدا ہونے والے ساجد جاوید جو وہاں وزیرداخلہ ہیں وہ آئے اور انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔ ابھی قانون بننے میں کچھ وقت لگے گا لیکن ایک مسئلہ تو حل ہوا ایک مسئلہ پر بات تو آگے بڑھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں عمران خان کو آپ نے اتنی مرتبہ دیکھا ہو گا کہ مرکز میں جس پارٹی کی حکومت ہے وہ جب اس صوبے میں جاتی ہے جہاں اس کی پارٹی کی حکومت نہ ہو تو پھر کس قسم کی درفطنیاں سامنے ااتی ہیں لیکن اچنے اچھے طریقے سے عمران خان صاحب نے بھی کل جا کر گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ سے بھی طویل ملاقاتیں کی ہیں۔ اور آج انہوں نے کہا کہ ہم بھرپور مدد کریں گے صوبہ سندھ کے مسائل حل کرنے میں مرکز، وفاقی حکومت بھرپور مدد کرے گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا طرز عمل ہے۔ آپس میں لڑائی سے عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے۔
ضیا شاہد نے وجاہت علی خاں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کے وزیرداخلہ پاکستان آئے اتفاق سے وہ پاکستان میں پیدا ہونے والے برطانوی ہیں اس لئے ہمیں اور بھی خوشی ہے۔ خواہش ہے کہ پاکستان اس سے بھی زیادہ جس ملک میں بھی جائیں وہ اپنی محنت اور جمہوری ادارے میں پھلیں پھولیں اور وہاں ان کو اس طرح عزت اور مقام ملے۔ جس طرح آج معاہدے کی بات ہوئی اس میں کتنا وقت لگے گا باقاعدہ اس قانون کو مچور ہونے میں۔ آپ کے خیال مہینہ، دو مہینے، تین مہینے، یہ جو کہا جاتا تھا کہ ہمارے ہاں تو معاہدہ ہی کوئی نہیں ہے اس کے علاوہ بھی برطانوی وزیرداخلہ نے جو کچھ بھی کہا یہاں لاہور میں اس کو جتنا سراہا گیا اس سے لگتا ہے ہمارے آئندہ برطانیہ سے تعلقات جو ہیں بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں۔
لندن سے وجاہت علی خان نے کہا کہ معاہدے کے ہونے میں سو سال تو لگ سکتے ہیں اس معاہدے پر بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ معاہدہ نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے او ریہ ہم جگ ہنسائی کا خود سامان پیدا کر رہے ہیں۔ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو آئے روز برطانیہ ایسی ایسی ڈیمانڈز پاکستان سے کرے گا کہ ہم ان کو کبھی بھی پوری نہیں کر سکتے۔ سب سے پہلی بات وہ کرے گا کہ آپ اپنے ملک کا نظام ٹھیک کریں۔ اپنے اداروں کو ٹھیک کریں قانون کو ٹھیک کریں پولیس کو ٹھیک کریں دہشتگردی پر وہ بات کریں گے کہ آپ اس کی صورتحال بہتر کریں اور اگر کوئی پیسہ آپ کے ملک سے منی لانڈرنگ کر کے برطانیہ میں لے آتا ہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہم اس کو واپس کر دیں ہمارے تو ملک میں پیسہ آ رہا ہے وہ یہ کہیں گے۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ اگر پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان آ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے آپ کے اپنے ادارے ٹھیک نہیں ہیں۔ آپ ان کو بند کریں۔ میرے خیال میں تو یہ جگ ہنسائی کا معاملہ ہے اور ساجد جاوید نے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ ہم خوش ہوں کہ ہمارے جو ملزم برطانیہ میں بیٹھے ہیں ان کو برطانیہ پکڑ کر پاکستان کے حوالے کر دے گا۔ یہ کبھی بھی ایسا نہیں کریں گے۔
ضیا شاہد نے کہا کہ ایک ابتدا تو ہوئی ہے آگے چل کر کیا نتائج نکلتے ہیں وجاہت علی خان کی برطانیہ میں سٹرکچر کے حوالے سے زیادہ معلومات ہیں۔ وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ نوازشریف کی پیرول پر رہائی کی مدت ختم ہونے اور نوازشریف کی طرف سے مزید رعایت لینے سے انکار کے سوال پر ضیا شاہد نے کہا کہ کس کا سٹینڈ کیا ہے کس کا موقف کیا ہے مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ جو ہم چاہتے ہیں ساری دنیا اس طرح سے تبدیل ہو جائے۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر میرے اور آپ کے درمیان حکومت اور شہری کے درمیان، ایک جماعت اور دوسری جماعت کے درمیان اختلاف ہے تو سب سے پہلے کوشش کی جاتی ہے کہ جو اختلافی پوائنٹ ہے اس پر کہتے ہیں کہ ہم نے حمایت نہیں کرنی تو پہلے اس نیوٹرلرز کر لیں اس کو کہ بجائے اس کے ہر وقت لڑائی رہے ایک دوسرے کے ساتھ رکھنے کی بجائے آپ راستہ تلاش کریں کون سا ایسا راستہ ہے کہ 10 پوائنٹس میں سے ان دوہرا اتفاق ہو سکتا ہے دو پر اتفاق ہو جائے پر 5 جن پر اتفاق نہیں ہوتا اس میں کوئی ایسا طریقہ تلاش کیا جائے کہ ان میں سے دو یا تین میں درمیانی راستہ نکلے۔ یعنی بہت زیادہ مخالفت ختم کرکے اس کو کم کیا جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا میں اختلافات کے باوجود دنیا چلتی ہے اس میں مخالف بھی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر بات کرتے ہیں اس لئے میں یہ سمجھتا ہو ںکہ ایک مہذب دنیا جو ہے چلانے کے لئے بہرحال مخالفت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے اس مخالفت کے اندر سے راستے تلاش کرناپڑتے ہیں۔اگر نواز شریف کو ضرورت ہوتی اور وہ خواہش ظاہر کرتے تو انہیں پیرول پر اور وقت مل جاتا اور میں سب سے زیادہ شور مچانے والا بندہ ہوتا کہ پیرول کی مدت مزید بڑھانے کی درخواست کو منظو ر کیا جائے ، اور حکومت مان جاتی۔
پروگرام اینکر کی جانب سے سوال پر کہ وزیراعظم ہاوس کی گاڑیوں کی نیلامی کے بعد غیر ملکی وفود کے لیے گاڑیاں کیا کرائے پر لی جائیں گی؟ ضیاشاہد نے کہاکہ یہ بڑا ٹیکنیکل سا مسئلہ ہے ، اس بارے میں میں رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اگر ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں اور معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں تو میں یقین دلاوں کہ ایک نہیں ہزار راستے نکل آتے ہیں۔ اگر من حرامی حجتاں ڈھیریعنی اگر نیت میں ہی بدمعاشی ہے توبڑے بہانے مل جاتے ہیں۔ عمران خان سے اگلے دو ہفتوں میں ملاقات کا سوچا تھا اور ایڈیٹر خبریں گروپ امتنان شاہد کو پیغام بھی دی دیدیا تھا ، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کب جانا چاہتے ہیں ۔میں نے ان سے کہا تھا کہ پہلے دو تین ماہ گزر جائیں ، عمران خان کو اپنا کام آرام سے کرنے دیں۔اگلے دو ہفتوں میں میرا ملاقات کا پروگرام ہے اور مجھے ان سے دو چار منٹ کی ملاقات نہیں کرنی ، میں نے ان سے وقت مانگا ہوا ہے ، میرے ذہن میں چیزیں ہیں میں ان سے ڈسکس کروں گا۔ مجھے یہ بالکل دعویٰ نہیں کہ وہ میری بات مان جاتے ہیں لیکن میری بات سن ضرور لیتے ہیں۔ وہ ایسے آدمی نہیں ہیں کہ نہ پر انکی سوئی اٹک جائے۔ جو بات معقول طریقے سے کی جائے انکی سمجھ میں آجائے تو وہ بات مان جاتے ہیں۔ گیس کی قیمتیں بڑھاکر غریب عوام پر بوجھ ڈالنے کے حوالے سے اسد عمر سے ایک دو روز میں بات کروں گا۔ عمران خان پر ساری عمر ایک ہی نزلہ گرتا تھا کہ ایک شادی کر رہے ہیں یا دوسری شادی ہونے والی ہے۔ میراخیال ہے کہ اب تو انکا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے اسلئے میرا نہیں خیال کہ انہیں پیسوں کی ضرورت ہو۔ گورنر ہاوسز اور وزیراعظم ہاوسز میں یونیورسٹیاں بنا نا اور عوام کے لیے کھولنا بڑی اچھی بات ہے ۔ گاڑیوں کی نیلامی ، اخراجات کم کرنا، خود چھوٹے گھر میں رہنا فضول خرچیاں ختم کرنا اچھی بات ہے لیکن بجا طور پر سمجھتا ہوں کہ سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ ان سے سوال کرتے ہیں کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیوں کیا۔ جواب دیں۔ گورنر ہاوس کی دیوار گرا کر لوہے کا جنگلا لگانے کی تجویز کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہاکہ دیوار گرانے اور جنگلا لگانے پر اتنا ہی اور خرچ ہو جائے گا میں اس بات سے متفق ہوں۔ جنگلے بنانے کا دورپچھلی حکومت کیساتھ گزر گیا۔ اتفاق لمیٹڈ والے سریا بناتے بھی نہیں تھے اورلوگوںنے سکینڈل پھیلانے کے لیے میٹرو بننے پر کہنا شروع کر دیا کہ جنگلا بس شروع ہو گئی۔ شہباز شریف اپنا لوہا بیچنے کے لیے جنگلا بس بنا رہے ہیں۔ جو بالکل فضول بات تھی۔ اب جنگلے کا لفظ گزر گیا کوئی نیا لفظ تنقید کے لیے تلاش کیا جائے۔
میں تو چڑیا گھر کے حق میں بھی نہیں ہوں، بارہا تجویز پیش کی ہے کہ جتنی بڑی جگہ پر چڑیا گھر ہے اسے سوزو پارک سے پہلے خالی جگہ لے جایا جائے ۔ اور چڑیا گھر کی جگہ بڑی آسانی سے نیا سیکرٹریٹ تعمیر ہو سکتا ہے۔ پرانا سیکرٹریٹ کرشن نگر کے علاقے میں اتنی بری طرح سے گھر چکا ہے کہ وہاں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔ سیکرٹریٹ کو وہاں سے منتقل کر کے اسکی بلڈنگ کو کمرشل بلڈنگز کے لیے نیلام کر دیا جائے تو بہت پیسے مل سکتے ہیں۔ انہی پیسوں سے موجودہ چڑیا گھر کو شہر سے باہر منتقل کر دیا جائے۔ گورنر ہاوسز کو ختم کرنے پر تنقید کے باوجود اس بات پر قائم ہوں کہ گورنر ہاوسز کر ختم کرنے کا فیصلہ درست اور ایک علامتی فیصلہ ہے کہ بڑے بڑے محل نما گھر وں کو ختم ہونا چاہئے ۔ گورنر دو کنال کے گھر میں کیوں نہیں ٹہر سکتا۔ چوہدری سرور مالدار آدمی ہیں گلاسکو میں انکا بڑا کاروبار ہے ۔ انہوں نے وہاں برس ہا برس محنت کی ہے اگر وہ خود دو سے چار کنال کے گھر میں خوش رہ سکتے ہیں تو گورنر ہاوس کے لیے تین مربع جگہ کی کیا ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نوا زشریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کے لیے غیر سنجیدہ اپیلیں فائل کرنے پر 20 ہزار روپے جرمانہ کے حکم پر ضیا شاہد نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے ان سے کوئی چار پیسے بھی اکٹھے ہوجائیں گے۔ کل میں چیف جسٹس سے ملنے گیا کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ ڈیم کے سلسلے میں جتنی وہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ چیمبر آف کامرس والوں نے بھی انہیں ایک کروڑ کا چیک دیا ہے۔ مگر بڑی کنجوسی سے کام لیا ہے، چیمبر کی جانب سے وزیراعظم اور چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں ایک ایک کروڑ دینا بہت کم پیسے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کل لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر سے ملنے جاﺅں اور انہیں کہتا ہوں کہ کوئی پیسے دیں۔ ایک کروڑ روپے تو میرے جیسا بندہ جمع کرنے لگے توآٹھ دس دوستوں سے میں جمع کر کے دے سکتا ہوں۔
پچھلے دنوں بڑا سکینڈل چلا تھا زراعت کے سیکرٹری کا انگوٹھا precise کمپنیوں پر ہوتا ہے، انہوں نے انگوٹھے کو تھوڑا سا دبایا تو انہوں نے کروڑ ، دو کروڑ روپے نکال دئیے اور انہوںنے کبڈی کے فنکشن کروا دئیے۔ ایسے دو،دو کروڑ preciseفرموں سے لیکر سو کروڑ تک جمع کیے جا سکتے ہیں۔ چیمبر والے اگر اکٹھا ہوکر ایک کروڑ روپے دیتے ہیں تو اس پر علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ ©©سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم، بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے۔ بھاشا ڈیم بنانا ہے جہاں سڑکیں بنانے پر ہی اتنا پیسہ لگ جائے گا۔ اسکے لیے لاہور چیمبر آف کامرس اتنا پیسہ دے رہا ہے تو اس پر میں پیشکش کرتا ہوں کہ وہ کروڑ روپیہ انہیں واپس دے دیا جائے، میں ایک کروڑ روپے اکٹھے کر دیتا ہوں۔ خبریں اور چینل فائیو کا چھوٹا سا ادارہ ایک کروڑ روپے اکٹھے کر کے دے دیں گے۔ لاہور چیمبر آف کامرس نے دونوں گھر ایک ایک کروڑ روپے سے خوش کر دئیے ہیں۔ ان سے اچھی ہماری اداکارہ بابرہ شریف رہیں جنہوں نے دس لاکھ روپے دیدیے۔ انہیں فلمیں ختم کیے ہوئے بیس برس ہو چکے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتیں۔ اداکارہ میرا نے بہت کم پیسے دئیے ہیں انہیں چاہئے کہ پیسے نہ دیں بلکہ آٹھ دس شہروں میں کلاسیکل ڈانس کا مظاہرہ کریں اور ٹکٹس سے آسانی سے ڈیڑھ دو کروڑ روپے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ میں میرا کو تجویز دیتا ہوں۔
نواز شریف کی سزا معطلی کی اپیلوں کے حوالے سے ضیا شاہد نے کہا کہ میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی اپیلوں کے بارے میں بہت حساس ہوں، بہت ڈرتا ہوں اور بہت زیادہ خیال کرتا ہوں۔ میں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔
ضیا شاہد نے پیشکش کی مجھے چینل اور خبریں اخبار سے ایک مہینے کی چھٹی دیدی جائے تو میں بہت سارا پیسہ اکٹھا کر کے دے سکتا ہوں۔

اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain