Tag Archives: NAYA AKHBAR

لاہور میں ڈی آئی جی شارق جمال کی اچانک پر اسرار موت

لاہور (خبریں ڈیجیٹل ) لاہور میں ڈی آئی جی شارق جمال کی اچانک پر اسرار موت ہوگئی۔

ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی شارق جمال لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں واقع گھرمیں رات گئے مردہ پائے گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لاش کو  پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، موت کے وقت  شارق جمال گھر میں اکیلے تھے۔

ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی شارق جمال نے اپنے 2 ملازمین کو کام سے گھر سے باہر بھیجا تھا، جیسے ہی ملازم گھر واپس آئے تو ڈی آئی جی کو مردہ پایا جس کے بعد پولیس کو اطلاع کی گئی۔

ذرائع کا کہناہے کہ  ڈی آئی جی شارق جمال کے اہل خانہ دوسرے گھر میں موجود تھے۔

پولیس کی جانب سے واقعہ کی مزید تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

شارق جمال ڈی آئی جی ٹریفک اور ڈی آئی جی ریلویز بھی رہے جبکہ ان دنوں وہ او ایس ڈی کے عہدے پر فائز تھے۔

فوج نے اقتدار سنبھال لیا ،سرکاری عمارتوں پر قبضہ بارے زمبابوے سے تازہ ترین خبر

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) زمبابوے کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا، سرکاری ٹی وی سمیت اہم عمارتیں فورسز سڑکوں پر ٹیکسی اور ٹرک موجود ہیں۔ سیاسی کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب منگل کے روز ہرارے میں بکتر بند گاڑیوں نے پوزیشن سنبھال لی تاہم اس کی وجہ ظاہر نہیں کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق زمبابوے کے ریاستی خبر رساں ادارے زیڈ بی سی کے صدر دفتر پر فوجیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی میں یہ ایک نیا موڑ ہے۔دارالحکومت ہرارے میں دھماکوں کی بھی اطلاعات ہیں تاہم ان کی وجہ واضح نہیں ہے۔اس سے قبل زمبابوے کے جنوبی افریقہ میں سفیر نے اس خبر کی تردید کی تھی کہ ملک میں فوجی بغاوت ہوگئی ہے۔زمبابوے میں برسرِاقتدار جماعت نے حال ہی میں ملک کے فوجی سربراہ پر بغاوت آمیز رویے کا الزام لگایا تھا جب انھوں نے ملکی سیاست میں فوجی مداخلت کی تنبیہ کی تھی۔جنرل کونسٹاٹینو چیونگا نے ملک کے صدر رابرٹ مگابے کے خلاف چیلیج اس وقت کیا ہے جب صدر نے ملک کے نائب صدر کو عہدے سے فارغ کر دیا تھا۔جنرل چیونگا کا کہنا تھا کہ فوج صدر مگابے کی جماعت میں برطرفیوں کو روکنے کے لیے تیار ہے۔سیاسی کشیدگی میں اس وقت بھی اضافہ دیکھا گیا جب منگل کے روز ہرارے میں بکتر بند گاڑیوں نے پوزیشن سنبھال لی ۔روئٹرز کا کہنا ہے کہ زیڈ بی سی کے عملے کو فوجیوں نے دھکے دیے اور ادارے کا صدر دفتر سنبھال لیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجیوں نے عملے سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور فوجی وہاں صرف ادارے کی حفاظت کے لیے آئے تھے۔امریکی دفترِ خارجہ نے ملک میں تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز سہ کہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات پرامن انداز میں حل کریں ۔

 

بڑی خبر آنے میں صر ف48گھنٹے باقی ،کاﺅنٹ ڈاﺅن شروع ،اہم ترین سیاستدانوں میں کھلبلی

اسلام آباد(خصوصی رپورٹ ) چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس میاں ثاقب نثار نے نیب کی اپیل پر شریف برادران کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت کے لیے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کریں گے، دیگر ارکان میں جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 13 نومبر کو پہلی سماعت کرے گا۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپرز مل کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔یہ درخواست قومی احتساب بیورو نے لاہور ہائی کورٹ کے سنہ 2014 کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کےلئے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے ،بینچ میں جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو بھی شامل کیا گیا۔تین رکنی بینچ کیس کی پہلی سماعت 13نومبر کو کرے گا جس کے لئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے نیب پراسکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردیا،اگلے ہفتے کےلئے سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں بھی یہ کیس شامل کر لیا گیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پہلے نیب کی درخواست کی سماعت کرے گا اور پھر حدیبیہ پیپرز مل کے ریفرینس کو دوبارہ کھولنے یا نہ کھولنے کے بارے میں احکامات جاری کرے گا۔واضح رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے شریف برادران کےخلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس خارج کردیا تھا،جس کے بعد پاناما پیپر کیس کے دوران سپریم کورٹ کے فل بنچ کی آبزرویشن پر نیب نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کے اس پانچ رکنی بینچ کی سربراہی بھی کی تھی جس نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست پر اسی پانچ رکنی بینچ کے فیصلے پر سابق وزیر اعظم نے چند روز پہلے کہا تھا کہ ججز بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔لاہور ہائی کورٹ نے اس ریفرنس کو تین سال پہلے ختم کرنے کا حکم دیا تھا اور اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نیب کے حکام نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی تھی۔حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں نواز شریف کے علاوہ، وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان بھی قابل ذکر ہے جس میں انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ شریف بردران کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔سابق وزیر اعظم کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت کے دوران اس وقت کے نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے اور اس مقدمے کو دوبارہ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔اس پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ان کی نظر میں نیب وفات پا گیا ہے تاہم انھی درخواستوں کے سماعت کے آخری روز نیب کے حکام نے حدیبیہ پیپرز مل کے مقدمے کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں عندیہ دیا تھا۔حدیبیہ ملز ریفرینس دائر کرنے کی منظوری مارچ 2000 میں نیب کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے دی تھی۔اگرچہ ابتدائی ریفرینس میں نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم جب نیب کے اگلے سربراہ خالد مقبول نے حتمی ریفرینس کی منظوری دی تو ملزمان میں نواز شریف کے علاوہ ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل تھے۔یہ ریفرنس ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انھوں نے جعلی اکاو¿نٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دباو¿ میں آ کر دیا تھا۔اکتوبر 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے خلاف کرپشن کے 3 ریفرنسز دائر کیے تھے جن میں سے ایک حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی تھا۔ 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حدیبیہ پیپرز ملزکیس میں نیب کی تحقیقات کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعد احتساب عدالت نے اس ریفرنس کو خارج کردیا تھا۔ تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے پاناما کیس کی سماعت کے دوران حدیبیہ ریفرنس کا معاملہ دوبارہ سامنے آگیا۔

کرپشن کیخلاف سعودی عرب کی تاریخ کا سب سے بڑا کریک ڈاﺅن ، بڑے بڑے بُر ج الٹ گئے

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف تاریخی کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزام میں 11 شہزادے، چار وزراءاور درجنوں سابق وزراءکو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار افراد میں نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ مطعب بن عبداللہ، وزیر معیشت عادل فقیہہ اور کھرب پتی شہزاد ولید بن طلال بھی شامل ہیں۔ عرب میڈیا کے مطابق ان تین شہزادوں پر اسلحہ کی غیرقانونی تجارت، منی لانڈرنگ اور مالی خورد برد کا الزام ہے۔ مشتبہ شخصیات کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لئے نجی پروازیں گراؤنڈ کر دی گئی ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اینٹی کرپشن کمیٹی بنا کر ملک میں مبینہ کرپشن کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اینٹی کرپشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کے ساتھ ہی انتہائی اہم شخصیات کی گرفتاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ الزامات کی نوعیت کا اعلان نہیں کیا گیا مگر برطرف کی گئی شخصیات میں نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ مطعب بن عبداللہ بھی شامل ہیں۔ سابق بادشاہ عبداللہ کے بیٹے کی جگہ شہزادہ خالد ریاف کو نیشنل گارڈ کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ وزیر معیشت عادل فقیہہ کو بھی برطرف کر کے التویجری کو قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔ معمرا لتویجری وزیر معیشت کے نائب اور حالیہ مالیاتی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار کے حامل تھے۔ سعودی بحریہ کے کمانڈر عبداللہ السلطان کو بھی عہدے سے ہٹا کر وائس ایڈمرل فات الفافلی کا ایڈمرل کی حیثیت سے تقرر کر دیا گیا ہے۔ گرفتار کئے گئے دیگر شہزادوں میں کھرب پتی شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہیں جبکہ مشتبہ شخصیات کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لئے نجی پروازوں کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق شاہی خاندان کے گرفتار تین افراد میں سے ایک شہزادے کو اسلحہ کی غیرقانونی تجارت کرنے، دوسرے کو منی لانڈرنگ اور تیسرے شہزادے کو جعلی ٹینڈر اور مالی خوردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن سے پہلے سعودی عرب میں ستمبر کے دوران بھی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی تھیں جن میں علماءسمیت درجنوں شخصیات کو حراست میں لے لیا گیا تھا جبکہ سعودی بادشاہ نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں کمیٹی بنا دی ہے جو ملزموں کی نشاندہی اور جرائم کی تحقیقات کرے گی۔ جدہ میں سیلاب اور برڈ وائرس سے سینکڑوں اموات کی تحقیقات کا باب پھر سے کھول دیا گیا ہے۔ شاہی فرمان کے مطابق کرپشن کو جڑ سے نہ اکھاڑا گیا اور کرپٹ عناصر کا احتساب نہ ہوا مادر وطن نہیں رہے گا۔ اینٹی کرپشن کمیٹی کو ملزمان کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے جبکہ ملزموں کے اثاثے منجمد اور ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ شاہی فرمان کے مطابق کمیٹی بعض افراد کی جانب سے ذاتی مفادات کو فوقیت دینے اور عوامی فنڈ چوری کرنے کے سبب بنائی گئی۔ 2009ءمیں جدہ سیلاب اور 2012ءمیں وائرس سے اموات کے معاملہ کی دوبارہ تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ 2009ءمیںجدہ میں آئے سیلاب سے 120 افراد ہلاک اور سینکڑوں گھروں کو نقصان پہنچا تھا۔ 2014ءمیں اس حوالے سے عدالتی فیصلہ میں 45 افراد کو طاقت کے غلط استعمال اور رشوت خوری میں ملوث پایا گیا تھا جبکہ 2014ءمیں وائرس کے سبب سعودی عرب میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے اور وزیر صحت کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑ گیا تھا جبکہ امریکی میڈیا کے مطابق سعودی علماءنے بیان جاری کیا ہے جس میں کرپشن کے خلاف جنگ کو مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے لڑنا جس قدر اہم ہے اتنا ہی کرپشن کے خلاف جنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی اور اس کی معاونت کے خلاف نئے قوانین کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی اور اس کی فنڈنگ کرنے والوں کو سزائے موت بھی دی جا سکے گی۔ سعودی عرب کے بادشاہ اور ولی عہد کو بدنام یا ان کی توہین کرنے والے شخص کو پانچ سے 10 سال سزائے قید ہو گی جبکہ اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد کے ساتھ دہشت گرد حملہ کرنے والے کو 10 سے 30 سال قید سزا سنائی جا سکے گی۔ اسلحہ اور ٹیلی کمیونی کیشن آلات کے ذریعے دہشت گردی کی تربیت لینے والوں کو 20 سے 30 سال قید کی سزا دی جا سکے گی جبکہ اکیڈمک سماجی یا میڈیا کے ذریعے اپنے اسٹیٹس کو غلط استعمال کرنے والے کو 15 سال جیل میں گزارنا ہونگے۔