تازہ تر ین

نوازشریف، آصف زرداری اور الطاف حسین کی تکون پھر سے بحال ہوگی یا نہیں …. نامور اخبار نویس ، تجزیہ کار کی چینل ۵ لے پروگرام میں گفتگو

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگوکرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ عمران خان نے ملک کی سیاست میں ہلچل ضرور مچا دی ہے۔ اپنی غیر سیاسی یادداشتوں میں عمران خان بارے لکھا ہے کہ ان کا خواب وہی ہے جو ایک عام پاکستانی کا خواب ہے کہ کیا ایک عام پڑھا لکھا نوجوان بھی کسی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی سے اسمبلی میں جا سکتا ہے۔ جمہوریت میں کچھ خاص شرائط ہوتی ہیں جن میں معاشی خود کفالت خاص ہے۔ ہمارے یہاں تو جمہوریت زمینداروں، پیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کی لونڈی ہے۔ ان لوگوں نے جمہوریت کے نام پر اپنے اپنے راجواڑے بنا رکھے ہیں۔ موجودہ نظام کے تحت تو دس بار بھی الیکشن کرا لیں تو یہی لوگ جیت کر آئیں گے۔ عمران خان کو بھی بدقسمتی سے وہی لوگ لینا پڑے ہیں جو الیکشن میں جیت سکتے تھے اور وہ سارے کام بھی کرنا پڑے جو وہ غلط سمجھتے تھے اور ان کے خلاف تقاریر کرتے تھے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ نواز شریف، آصف زرداری اور الطاف حسین کی تثلیث مکمل ہو رہی ہے۔ جلد الطاف حسین کے خلاف قائم ہونے والی فضا بھی ختم کر دی جائے گی، میئر کراچی اور دیگر اسیر بھی ضمانت پر رہا ہو جائیں گے۔ وقت ثابت کرے گا کہ شیخ رشید نے بلاول بھٹو زرداری کو مائنس ون کا جو فارمولا دیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ بلاول اگر پیپلزپارٹی کو واقعی دوبارہ قومی سطح کی پارٹی بنانا چاہتے ہیں تو شیخ رشید کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے والد اور پھوپھی کے اثر سے آزاد ہو جائیں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا چونکہ بلاول کو والد کے ترکہ سے بہت بڑی رقم بھی تو ملنا ہے۔ پنجاب سے بڑی تعداد میں کارکنوں کا اسلام آباد جلسہ میں نہ پہنچنا تحریک انصاف کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ پنجاب کے لوگ عمران خان کی تقریر سننے تو جا سکتے ہیں لیکن مارپیٹ کی سیاست میں شامل نہیں ہو سکتے۔ سینئر لیگی رہنما تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ برگر کلاس ہے۔ مارکٹائی کا وقت آیا تو بھاگ جائیں گے اور اب تک تو یہ بات ٹھیک ہی ثابت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست بھی سمجھ سے باہر ہے۔ عوام نے انہیں منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیجا لیکن یہ سیاست سڑکوں پر کرتے ہیں حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ بہت تھوڑی تعداد میں اپوزیشن نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔ تحریک انصاف کبھی پنجاب اسمبلی یا قومی اسمبلی میں مسائل کو اجاگر کرتے نہیں دیکھا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما اعجاز چودھری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے ماضی میں ریاست کی مار نہیں کھائی تھی وہ عمران خان کی تقریر سننے آتے اور چلے جاتے تھے۔ اس بار 2 نومبر سے ایک ہفتہ قبل ہی گرفتاریاں اور مارپیٹ شروع کر دی گئی، گھروں پر چھاپے شروع ہو گئے۔ ابھی کارکن اتنے میچور نہیں تھے کہ ان حالات میں بھی مردانہ وار باہر نکلتے جس طرح عام جلسوں میں نکلتے تھے۔ یہ حقیقت ہے اور اس سے پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی۔ میں اگر اسلام آباد میں ہوتا تو ہر قیمت پر شیخ رشید کے جلسے میں پہنچتا۔ میں 27 اکتوبر کو پیدل مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا گوجرانوالہ پولیس نے بہت تنگ کیا 4 دن میں جہلم پہنچے وہاں جس گھر میں قیام کیا اسے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا چھتوں کو پھلانگ کر نکلے اور موٹر سائیکل پر دینہ پہنچا۔ پیدل مارچ ایک مقصد کے تحت کیا۔ پاکستان میں 90 فیصد افراد پیدل سفر کرتے ہیں۔ ایک کروڑ 40 لاکھ خواتین کھیت مزدور ہیں جن کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ اشرافیہ ملک کے وسائل پر قابض ہیں۔ تبدیلی کیلئے بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں میں اصل فرق لیڈر شپ کا ہے۔ عمران خان تمام دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے مختلف ہیں وہ کبھی کسی کی سفارش نہیں کرتے کسی حکومتی معاملے میں مداخلت نہیں کرتے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جو معمولی بات نہیں ہے۔ 2014ءکے دھرنے سے بہت کچھ سیکھا۔ قوم کو بتایا کہ ہم سب جماعتو ںکو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ حیلے بہانے کریں تو پھر اکیلے ہی چلنا پڑتا ہے۔ اصل میں بڑے سیاسی رہنما کرپٹ ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ نوازشریف پکڑا گیا تو پھر باری ان کی آئے گی۔ اکیلے اس لئے بھی چلنا پڑتا ہے کہ یہ پارٹی کہتی ہے کہ پہلے 2018ء کے الیکشن میں نشستوں کی بات کرو۔ جماعت اسلامی اور عوامی تحریک ہمارے ساتھ نہ چلتے اپنے طور پر تو اسلام آباد جانے کے لئے نکل سکتے تھے۔ پیپلزپارٹی و دیگر جماعتیں ہمارے ساتھ نہ چلیں لیکن بیجا تنقید تو نہ کریں۔ بلاول بھٹو کو تو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ان کی پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے بھی شریف فیملی کے خلاف پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ ایک دن اور بیان دیا پھر پتہ چلنے کے بعد دوسرے دن دوسرا بیان دے دیا۔ سندھ اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور ہوئی کہ الطاف حسین پر آرٹیکل 6 کا اطلاق کیا جائے۔ نوازشریف اور چودھری نثار کی یہ ذمہ داری تھی کہ اس معاملے کو آگے لے جاتے۔ ضیا شاہد صاحب نے تثلیث والی بات بالکل ٹھیک کی ہے۔ ہم ملک میں حقیقی معنوں میں احتساب چاہتے ہیں ضرورت تو آج سڑکوں پر آنے کی ہے اور بلاول 27 دسمبر کی تاریخ دے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کو چاہئے کہ وہ اعتزاز احسن نے جو بل سینٹ سے منظور کرایا ہے اسے پاس کرانے کیلئے کوشش کریں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی میں الیکشن ریفارمز، اوورسیز معاملات اور الیکٹرانک ووٹنگ پر اہم کام کیا ہے۔ الیکشن کمیشن سے نوازشریف کی جانب سے جمع کرائی گئی کاپی حاصل کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔ شریف فیملی اور لیگی رہنماﺅں کے بیانات بھی عدالت میں پیش کئے جائیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ شریف فیملی کسی صورت بچ نہیں سکتی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain