لاہور (شوبزڈیسک)ملک کے نامور شاعر اسلم کولسری گزشتہ روز انتقال کر گئے ۔ ان کی وفات کی خبر ادبی دنیا کا بڑا سانحہ قرار دی جا رہی ہے ۔ وہ اردو سائنس بورڈ میں بڑے عہدہ پر بھی فائز رہے۔جس طرح فیض اور ناصر کاظمی نے عام ڈگر سے ہٹ کر ایک نئی راہ اپنائی۔ اسی قبیلے کے اہم رکن اسلم کولسری بھی تھے جن کے فن اور عمدہ شاعری کی مثالیں دی جاتی رہیں۔ان کے بہت سے شعر زبان زد خاص وعام ہیں جن میں
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
قابل ذکر ہے۔اسلم کولسری اوکاڑہ کے نواحی گاو¿ں کولسر کے رہنے والے تھے پھر جب یہاں فوجی چھاو¿نی بنی تو ان کا گاو¿ں اس میں ضم ہو گیا، مگر یہ گاو¿ں ان میں اور ان کی شاعری میں جوں کا توں موجود ہے۔ انہوں نے اردو اور پنجابی دو نوں زبانوں میں شاعری کی ہے۔ شاعری کی تمام مروجہ اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اب تک ان کی شاعری کے دس مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مجھے اسلم کولسری کیو ں پسند ہیں۔ ندرت خیال، منفرد استعارے، سادگی و سلاست یہ وہ خیالات ہیں جو ذہن میں کولسری کی شاعری پڑھنے کے فوراََ بعد آتے ہیں۔ کولسری کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت اس کا سادہ ہونا ہے۔صاف و سادہ زبان ، عام فہم شاعری، اپنی مٹی اور اپنے گاو¿ں سے محبت کولسری کی پہچان ہے۔
بانو قدسیہ ان کیلئے لکھتی ہیں:اسلم کولسری لوگوں سے کٹا ہوا، ہاتھ ملتا ، بجھا ہوا روہانسا شاعر ہے۔ وہ دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ جانے والاتعریف اور شہرت کا آرزو مند ہو کر بھی گم نامی کے سہارے جینے کا خواب دیکھتا ہے۔ “