تازہ تر ین

ری پبلکن جب بھی اقتدار میں آئے تو کیا ہوا ….نامور صحافی ،اخبار نویس ضیا شاہد کاچینل ۵کے پروگرام میں دبنگ تجزیہ

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا کہ ٹرمپ کی صدارتی الیکشن میں فتح سے پاکستانیوں کو جو ہلیری کو پسند کرتے تھے مایوسی ہوئی۔ امریکہ کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی ایک ہی پارٹی نے لگاتار 3 بار حکومت بنائی ہے۔ پاکستان میں شخصیات کی ووٹ دیئے جاتے ہیں جبکہ امریکہ میں پارٹی کی ووٹ ملتے ہیں۔ امریکی گورے کالوں کو پسند نہیں کرتے اور انہیں دہشتگرد اور جرائم پیشہ سمجھتے ہیں۔ اوبامہ کو بھی امریکی گورے لوگ پسند نہیں کرتے تھے اب انہیں موقع ملا تو ری پبلکن پارٹی امیدوار کو فتح یاب کرا دیا۔ دنیا میں اس وقت انتہا پسندی کا دور چل رہا ہے۔ بھارت میں جتنے نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں ان کی تو گنتی بھی نہیں ہو سکتی۔ ری پبلکن پارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے وہاں فوجی سوچ غالب ہو جاتی ہے اور سیاستدان پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اسی پارٹی کے دور میں جھوٹے الزامات لگا کر افغانستان اور عراق کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہزاروں افراد کو قتل کر دیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں مسلمان ممالک کا تو پہلے ہی بیڑا غرق ہے۔ امریکہ اب عالم اسلام کی باقی بچ جانے والی تین طاقتوں پاکستان، ترکی اور سعودی عرب کو بھی نشانہ بنائے گا۔ اس کی پوری کوشش ہو گی کہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے وجود کو ہی ختم کر دے۔ جب بھی ری پبلکن برسراقتدار آئے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں ہوئیں اب بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں امریکہ چڑھائی ضرور کرے گا۔ سینئر صحافی نے کہا کہ امریکی حکمران پارٹیوں سے بڑا منافق دنیا میں نہیں ہے باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں اور کالے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ساری دنیا میں مرد و عورت کی تفریق نہ برتنے کا ڈنڈھورا پیٹتے ہیں اور خود ایک خاتون کو ملک کی صدر نہیں دیکھ سکتے۔ ٹرمپ ایک ذہین اور چالاک آدمی ہے جس نے امریکی عوام کے خوف کو کیش کرایا۔ صدر اوباما بھی کوئی نمایاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ ان کا دوسرا دور تو بالکل ہی ناکام دور تھا کانگریس نے انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیا۔ اوباما اگر بہتر کام کر جاتے تو ہلیری کیلئے جیتنا آسان ہو جاتا۔ امریکی مجموعی طور پر میٹرک پاس قوم ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ان میں ایک فیصد بھی نہیں ہیں۔ شاید اس لئے ٹرمپ جیسا شخص انہیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔ ٹرمپ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے کتنے ہی الزامات سامنے آئے پھر بھی ان کی جیت ہوئی اس سے امریکیوں کی اخلاقیات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکی گورے نے کالے کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ آنے والے دور میں دنیا میں دو واضح بلاک بنتے نظر آ رہے ہیں عام طور پر روس کو امریکہ کے خلاف بلاک میں تصور کیا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے اور روس بھی امریکی گروپ میں ہی دکھائی دے گا۔ انتخابی کمپین میں تو تڑیاں وغیرہ لگائی جا سکتی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت میں آ کر اپنے انہی خیالات کو بروئے کار نہیں لایا جا سکتا۔ ٹرمپ ہو یا کوئی بھی انتہا پسند حکمران ہو اسے ملکی نظام اور عالمی دباﺅ رویے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نیا امریکی صدر اگر اپنی پالیسیوں پر چلنے میں کامیاب رہا تو یہ دنیا کی بڑی بدقسمتی ہو گی اور ہر طرف تباہی نظر آئے گی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ کوئی بھی حکمران اپنے ملک کی 35 فیصد آبادی کی ایک دم کیسے نکال سکتا ہے۔ پاکستان تمام تر تحفظات کے باوجود آج تک افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیج سکا۔ پوری دنیا میں تمام سیاسی قوتیں تیزی سے انتہا پسندی کی جانب جا رہی ہیں۔ شاید انسان خود ہی تیزی سے قیامت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود انتہا پسند گروپوں اور سیاسی جماعتوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں لیکن وہ لبرل ازم اور ترقی پسند کے خلاف ایک نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی حکومت ہے لیکن سیاسی بھی اگلے الیکشن کا انتظار کرنے کے بجائے سڑکوں پر سرپھٹول جاری ہے حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا ہے یہ بھی اس انتہا پسندی کی ہی ایک شکل ہے جو اس وقت دنیا میں سرگرم عمل ہے۔ سینئر صحافی نے سندھ میں گورنر کی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عشرت العباد ایک مشکوک کردار کے آدمی تھے۔ وہ آج کے دور کی ”ماتا ہری“ تھے۔ ان کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ جس نائن زیرو سے انہیں دھمکیاں ملتی تھیں انہی رہنماﺅں کو بیٹی کی شادی پر بھی بلاتے تھے۔ ایک مشکوک کردار کا حامل شخص کراچی میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کرتا تھا۔ صولت مرزا اور کءمتحدہ رہنماﺅں نے ان پر خوفناک الزامات لگائے کہ گورنر سندھ قاتلوں کا سرپرست انہیں جائے پناہ فراہم کرتا تھا اور کئی قسم کے مذموم جرائم میں ملوث تھا۔ واشنگٹن سے خبریں کے بیورو چیف فقیر حسین نقوی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں کالے گورے کا معاملہ شروع ہو گیا جو ہلیری کی ہار کا باعث بنا۔ گورے نے اس چیز کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ ہلیری نے اچھا مقابلہ کیا ہے۔ امریکہ میں پالیسی پیناٹا گون، نیشنل سکیورٹی اور فارن آفس بناتا ہے ساﺅتھ ایشیا کیلئے یہی ادارے پالیسی بناتے ہیں اورجو بھی صدر آتا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے۔ ری پبلکن کو بھارت نواز بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ امریکہ میں جتنے بھی بھارتی کام کرتے ہیں ان کے کنٹریکٹ پورے ہونے کے بعد واپس بھیج دیں گے جس پر بھارت بڑا پریشان بھی تھا۔ پہلے سو دن میں پتہ چلے گا کہ نئے امریکی صدر کن پالیسیوں پر چلتے ہیں۔ معروف تجزیہ کار شمع جونیجو نے کہا کہ ٹرمپ کی فتح پر پوری دنیا میں سوچنے سمجھنے والا طبقہ شاک میں ہے۔ مجھے پہلے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ ٹرمپ ہی جیتے گا۔ امریکہ میں بھی وہی نسل پرستی کی لہر چل پڑی ہے جو برطانیہ میں تھی وہ ووٹر بھی ٹرمپ کو ووٹ دینے پہنچ گئے جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں دیا تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں دوڑ لگی ہے کہ دنیا کی سب سے بیوقوف قوم کو کون سی ہے۔ امریکہ میں اب امیگریشن کی سخت پالیسیاں ہوں گی پاکستانیوں کیلئے اس سے بھی زیادہ سختیاں ہوں گی جہالت صرف ترقی پذیر ممالک میں نہیں ہوتی ان ممالک میں بھی جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں بہت جہالت ہے۔ امریکہ کا نچلا طبقہ اور مڈل کلاس عورت کو ووٹ دینے کے حق میں نہیں ہے جبکہ امریکہ پوری دنیا میں مساوات اور بڑے بڑے دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ ٹرمپ کا جیتنا ایک المیہ ہے۔ ٹرمپ کا خواتین کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ مردانگی شو کیا گیا۔ اب پھر اگلے امریکی صدر کے لئے خاتون امیدوار کو لایا جا رہا ہے اور مشعل اوباما کیلئے موومنٹ شروع ہو گئی ہے۔نمائندہ لندن خبریں وجاہت علی خان نے کہا کہ برطانیہ اور امریکی میڈیا ٹرمپ کی جیت پر شاک میں ہے۔ گارڈین اخبار لکھتا ہے کہ ”امریکی عوام نے کھائی کی جانب قدم بڑھا دیا“ جرمنی کے اخبارات بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز نے اسے سانحہ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کا جیتنا دنیا میں ایک بڑی ہلچل ہے کہ ایسا انتہا پسند شخص امریکی صدر بنے گا تو طاقت کا توازن کدھر جائے گا۔ برطانیہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ لبرل پارٹی خلاف توقع ہار گئی تھی۔ ٹرمپ کو تو کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا وہ ایک ارب پتی تاجر ہے۔ سیاست میں کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتا جبکہ ہلیری تو آزمودہ سیاستدان ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ میں پر اقدار کی جانب بڑھا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں قدامت پسند قوت نے امیگریشن کے بہت سے قوانین بدل دیئے ہیں اس طرح ری پبلکن بھی ایسا ہی کرتے نظر آتی ہے۔ بھارت میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اسی طرح کے حالات سے گلوبل ویلیج کے تصور پر زد پڑے گی۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہلیری کلنٹن نے بھی ٹوٹل ووٹ کے نصف لئے ہیں جبکہ ٹرمپ الیکٹرول ووٹ سے جیتے ہیں۔ پاکستان میں اکثریت کی رائے ٹرمپ کے حق میں نہیں تھی امریکی پاکستانیوں کا جھکاﺅ بھی ہلیری کی جانب تھا لیکن ٹرمپ خلاف توقع جیت چکے ہیں۔ پاکستان کو ٹرمپ پسند ہیں یا نہیں انہی کے ساتھ چلنا ہو گا یہ تو سفارتکاری اور ڈپلومیسی پر اب منحصر ہو کر کسی طرح منفی اثرات کو کم کرتے ہیں اور معاملات بہتری کے ساتھ نمٹاتے ہیں۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کام کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے فارن سکیورٹی تو پروفیشنل اور اہل آدمی ہیں لیکن لیڈر شپ تو حکومت نے مہیا کرنی ہے۔ سرل المیڈا کی خبر کے کیس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکومت کس طرح سے چل رہی ہے۔ اس خبر کے باعث پاکستان مخالف ملکوں کو فائدہ پہنچا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain