تازہ تر ین

لندن فلیٹ کہاں سے خریدے ؟انرونی کہانی سامنے آگئی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے پاناما کیس میں سماعت 17نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے،ہم بار بار کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں ہے ،ہم صرف لندن میں خریدے گئے فلیٹس پر فوکس کریں گے ۔

سماعت کے آغاز پر درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کی گزشتہ سماعت کا حکم پڑھا۔ طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ آف شور کمپنیوں کے مالک تمام ارکان پارلیمنٹ کے خلاف تحقیقات کی جائے، یہ بہت اہم کیس ہے ، مقدمہ تیزرفتاری سے چلانے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا لگتا ہے آپ درخواست گزار نہیں نواز شریف کے وکیل ہیں، آپ کے جواب سے لگتا ہے کہ آپ مقدمے کا فیصلہ نہیں چاہتے، یہ ہمارا کام ہے ، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے، اگر 800 افراد کی تحقیقات شروع کی تو 20 سال لگ جائیں گے، پاناما لیکس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں شاید الگ سے سیل کھولنا پڑے، ایک درخواست میں 1947 سے احتساب کی استدعا کی گئی ہے، 700 صفحات ایک طرف سے جب کہ دوسری جانب سے 1600 صفحات جمع کرائے گئے ہیں۔ ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ حسن اور حسین نواز پاکستان میں مقیم نہیں، مریم نواز کی جانب سے دستاویزات جمع کروا دی ہیں، وہ اپنے موکلین کی ایک دستاویز کے علاوہ تمام دستاویزات جمع کرارہے ہیں۔ اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ پاکستان سے کوئی پیسہ باہر نہیں گیا ، میاں شریف کے70کی دہائی میں صنعتی 6 یونٹ تھے، جن میں سے 5 یونٹ قومیالیے گئے ، گلف اسٹیل دبئی کے امیر راشد المکتوم کی مدد سے لگائی گئی، 1980 میں پہلے 75 فیصد پھر 25 فیصد حصص بیچے گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواستوں پرچیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم5رکنی لارجر بینچ سماعت کی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 6سو سے زائد صفحات کی دستاویزات جمع کرائیں جن کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں ، درخواست گزار نے سچ کو خود ہی دفن کردیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 700صفحات ایک طرف سے 1600دوسری طرف سے جمع کرائے گئے ، ہم کوئی کمپیوٹر تو نہیں ایک منٹ میں صفحات کو اسکین کرلیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ چیئرمین نیب خود ساختہ جلاوطنی میں چین چلے گئے ہیں، ہم کیا کریں؟ نعیم بخاری نے جو کاغذات جمع کرائے ان کی ضرورت نہیں تھی، اخبارات کے تراشے کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔

وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں کی دستاویزات جمع کرارہاہوں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل جمع کرادیتے ہم دیکھ تو لیتے، حامد خان نےکہا کہ انہوں نےدستاویزات پہلے جمع کرانی تھی نا ۔

اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ نے اخباری تراشے جمع کرادیے ہیں، اخباری تراشے الف لیلی کی کہانیاں ہیں،الف لیلی کی کہانیوں پر ہمارا وقت کیوں ضائع کیا؟ کیا کسی اخبار کی خبر پر کسی کو پھانسی ہو سکتی ہے؟ اخبار میں خبر آجائے کہ اللہ دتہ نے اللہ رکھا کو قتل کردیا ہے تو پھانسی دیدیں گے؟ اخبار ایک دن خبر ہوتا ہے اگلے روز اس میں پکوڑے فروخت ہوتے ہیں۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ پہلے آپ نے 4 فلیٹس کا کہا اب 1982ء سے لے کر اب تک کی دستاویزات جمع کرادیں،ان دستاویزات کا کوئی سر ہے نہ پیر، سارا مواد ریکارڈ پر ہے، اس کو کمیشن تسلیم نہیں کرتا تو کہیں گے سارا ریکارڈ نہیں دیکھا ، اگر سارے ریکارڈ کا جائزہ لیا تو 6 ماہ میں بھی رپورٹ نہیں آئے گی، وہ دستاویزات دیں، جن سے معاملات کو آگے بڑھایا جا سکے، اخباری خبر کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔

حامدخان نے کہا کہ جو دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں انہیں دیکھنے کے لیے 48گھنٹے کا وقت دیا جائے ۔اکرم شیخ نے کہا کہ مریم نواز شریف کا اضافی بیان جمع کرارہاہوں ۔ قطر کے شہزادے حماد بن جاسم کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی جائے جو صرف عدالت کے ملاحظے کے لیے ہے ۔

عدالت نے کہا کہ آپ جس شخصیت کا نام لے رہے تو کیا بطور گواہ بلوانے پر وہ پیش ہوںگے؟ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ شیخ صاحب کیا آپ کو اس دستاویز کی حساسیت کا پتہ ہے ؟ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غیر ملکی سربراہ نے آپ کو تحفہ دیا ہے۔

اکرم شیخ نے کہا کہ میاں شریف کے 70کی دہائی میں 6یونٹ تھے، ان میں سے 5یونٹ قومیا لیے گئے ۔ گلف اسٹیل دبئی کے امیر کی مدد سے لگائی گئی ، یہ دستاویزات عدالت میں پیش کردی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کے برعکس ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے بچوں کا وکیل ہوں وزیر اعظم کا نہیں ، وزیر اعظم کا جواب سلمان اسلم بٹ دیںگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری کوشش تھی اتنا مواد آئے کہ 2،3روز میں جائزہ لیکر خود فیصلہ کریں ، ہمارا تاثردرست ثابت نہیں ہوا، بہت زیادہ دستاویزات آگئیں کہ اصل اور نقل کا پتہ ہی نہ چل سکے، اس طرح تو اس کیس کا فیصلہ 6ماہ بھی ممکن نہیں ہے۔کیس کی سماعت 17نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain