لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) چینل ۵ کے تجزیوں اور تبصروں پر مشتمل پروگرام ”ضیا شاہد کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی اور تجزیہ کار ضیا شاہد نے کہا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس میں آرمی چیف کیلئے پہلی بار اتنی شاندار الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے تو یہ عام معمول کی کارروائی ہوتی تھی۔ پاکستان اور بھارت میں صلح صفائی ہونی چاہئے ہمارے حکمران مختلف ادوار میں اس پر پیش رفت بھی کرتے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ بھارت سے تعلقات ٹھیک ہوں اور یہ دفاع کی بجائے ترقی پر لگایا جائے۔ ایک طبقہ فکر ایسا بھی ہے جس نے اسلامی فوج کے اعلان پر بغلیں بجائیں ان کا کہنا تھا کہ پچیس تیس فیصد فوجی افسر و جوان ڈیپوٹیشن پر باہر جائیں گے تواس سے ان کے مالی معاملات بہتر ہوں گے۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سوچتا ہے کہ جب تک بھارت کے ساتھ ہمارے بنیادی مسائل کشمیر، پانی وغیرہ حل نہیں ہوتے کوئی تعلق بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک میڈیا چینل نے تو آگے بڑھ کر ”امن کی آشا“ کے نام سے پروگرام شروع کر دیا تھا۔ سینئر صحافی نے کہہا کہ آرمی چیف نے بڑا زور دار بیان دیا ہے آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا کہ صرف بیان ہی ہے یا واقعی اس پر عمل بھی ہو گا۔ کروڑوں پاکستانیو ںکے جذبات ہیں کہ کیا ہم صرف مار کھانے کیلئے رہ گئے ہیں کہ یہ دوسرے تیسرے دن ہمارے بیگناہ شہریوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہم صرف احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی حالات کا سخت نوٹس لیا ہے۔ سینئر صحافی نے کہا کہ جنرل (ر) عبدالقیوم محب وطن اور زمینی آرمی میں یقینی طور پر انہوں نے وفد کے ہمراہ برطانیہ میں پاکستان کی اچھی کمپئن کی ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سے جتنے بھی وفود باہر جاتے ہیں ان کی کارکردگی صفر ہوتی ہے ویسے تو بڑی بڑی مارتے ہیں کہ ہم نے یہ کیا یہ کیا لیکن جب پوچھا جائے کہ انہوں نے جواب میں کیا کہا تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں دعا گو ہوں کہ اگلے دو تین دن میں بھارت کی واقعی سبق سکھیا جائے جو مسلسل شرارتیں کر رہا ہے۔ صدر آزاد کشمیر جو سابق سفارتکار میں نے ایک ملاقات میں کہا کہ شملہ معاہدہ ہماری راہ میں ہر گز رکاوٹ نہیں ہے۔ ہم آج بھی سلامتی کونسل جا سکتے ہیں اور انہیں ہماری بات سننا پرے گی کیونکہ شملہ معاہدہ سے قبل ہی سلامتی کونسل کشمیر میں رائے شماری کے حق میں قراردادیں پاس کر چکی تھی۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ اگلے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات اور کچھ فنڈز دیئے جائیں گے ساتھ ہی ووٹروں کو الیکشن بوتھ تک لانے کی ذمہ داری بھی سونپی جائے گی۔ ہمارے ارکان اسمبلی اختیارات کسی صورت بلدیاتی نمائندوں کو نہیں دینا چاہتے۔ آمریت کے دور میں اازادی صحافت ممکن نہیں ہوتی یہ صرف جمہوریت کے دور میں ممکن ہے اس لئے آزادی صحافت یا آزادی اظہار پر یقین رکھنے والا کبھی جمہوریت کا مخالف نہیں ہو سکتا۔ ہمارے یہاں کی جمہوریت صرف الیکشن کرانے اور حکومت میں آنے کا ذریعہ ہے۔ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں۔ یہ سب سیاسی رہنما آپس میں ایک ہیں ان میں آئی اختلاف نہیں ہے مراعات کیلئے سب ہاتھ کھڑا کر دیتے ہیں۔ سینئر صحافی نے کہا کہ پرانی عدلیہ پر داغ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ پنجاب اور سندھ میں تفریق رکھتی ہیں۔ عدالتوں میں ”چمک“ کام کرتی ہے۔ آج کی عدلیہ کو ان باتوں کا خاص طور پر زمین میں رکھنا ہو گا۔ سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی نے دو وزیراعظم گیلانی اور پرویز اشرف کو گھر بھیج دیا۔ حالیہ دنوں میں ایسا ہوتا ذرا مشکل نظر ااتا ہے عام عوام کا خیال ہے کہ حکمران خاندان کے خلاف کسی عدالت نے فیصلہ نہیں دینا۔ ضیا شاہد نے کہا کہ بلاول بھٹو کو سکیورٹی ضرور دی جانی چاہئے لیکن میرے خیال میں وہ نوجوان اور معصوم ہیں حکومت میں رہے نہ کرپشن کا کوئی الزام ہے تو کوئی ان کا مخالف کیوں ہو گا۔ عوام آصف زرداری و دیگر رہنماﺅں سے تو اختلاف رکھتے ہیں لیکن بلاول سے ابھی انہیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی پاکستان اور اسلام دشمن ہے بلکہ انسان دشمن اور ایک بھیڑیا ہے لیکن اگر اس نے اپنے وطن کیلئے کوئی بہتر کام کیا ہے تو اس کا کریڈٹ تو اس کو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو یہ صورتحال ہے کہ کوئی اہم فیصلہ ہو تو صرف نوازشریف اور اسحاق ڈار کو پتہ ہونا چاہئے پیشگوئی کرتا ہوں کہ اگر یہاں ایسی صورتحال ہوتی تو بیس پچیس روز قبل ہی سب کو پتہ چل چکا ہوتا اور لوگ اپنے نوٹوں کا بندوبست کر چکے ہوتے ہماری ملک سے محبت اور ڈسپلن کی پابندی ”بگ زیرو“ ہے۔ مودی نے اگر اپنے ملک اور معاشرے کیلئے اچھا اقدام اٹھایا ہے تو ہمیں بھی غیرت کھانی چاہئے اور حکومت سے کسی انقلابی اقدام اٹھانے کا مطالبہ کرنا چاہئے لیکن اس سے قبل حکمرانوں سے وعدہ لینا چاہئے کہ آپ کے چمچے کڑچھے اسے لیک نہیں کر دیں گے۔ معاشی امور کے ماہر خالد رسول نے کہا کہ بھارت نے کرنسی تبدیلی کا جو انقلابی اقدام اٹھایا اسے بہت حد تک رازداری میں رکھنے میں کامیاب رہا جس کا کریڈٹ مودی حکومت کو جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی سکیمیں صرف اسی وجہ سے ناکام ہو گئیں کہ وقت سے پہلے ہی خبریں باہر لیک ہوئیں اور لوگوں نے اپنا بندوبست کر لیا جس سے اسکیم کا مقصد ہی فوت ہو گیا۔ بھارت میں کرنسی تبدیلی سکیم کو ابھی کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ جس انداز سے سکیم لاﺅنج کی گئی وقت بہت کم دیا گیا۔ بھارت میں نچلا طبقہ کسان اور مزدور کی زندگی عذاب میں ہے۔ بھارت کی ساری سیاسی جماعتیں بھی حکومتی اقدام کے خلاف پھٹ پڑی ہیں اور راجیہ سبھا میں ہنگامہ ہوا ہے۔