تازہ تر ین

الطاف نے پاکستان کو گالیاں دیں،کاروائی کیوں نہیں کی؟

لاہور (خبریں رپورٹر) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے فوج اور ملکی سالمیت کے خلاف بیانات دینے پر ایم کیو ایم کے سابق سربراہ الطاف حسین کے میڈیا بیانات پر پابندی کے اپنے حکم امتناحی میں 7 دسمبر تک توسیع کر دی اور کمرہ عدالت میں موجود سیکرٹری داخلہ پاکستان کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر عدالت کو واقعہ بتایا جائے کہ الطاف حسین کے خلاف کیا ایکشن لیا جا رہا ہے عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ الطاف حسین کے خلاف کارروائی کی تجاویز بنا کر حکومت پاکستان کو دیں۔ اگر حکومت نے ایکشن لینے کی بجائے سیاسی مداخلت کی تو عدالت اس کو روکے گی کیونکہ معاملہ سیاسی بنیادوں پر حل نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے قرار دیا کہ بادی النظر میں الطاف حسین نے ملک اور سالمیت کے خلاف بیانات دے کر فوجداری جرم کیا حالانکہ ہم نے پاکستان قربانیوں سے حاصل کیا۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا سیاسی حل نہیں ہونا چاہئے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں حکومت پاکستان نے طے کرنا ہے کہ الطاف حسین کے خلاف کیا کارروائی ہونا چاہئے۔ عمل درآمد کرنا برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالتی حکم پر سیکرٹری داخلہ پاکستان پیش ہوئے اور بتایا کہ الطاف حسین کے بیانات سیاسی ایشو ہیں۔ جس کو حل کرنے وزیر داخلہ برطانیہ گئے ہیں۔ انہوں نے وہاں کے ہوم سیکرٹری وعیرہ سے مثبت ملاقات کی ہیں امید ہے ان کے واپس آنے پر مثبت ردعمل ہو گا۔ عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ الطاف حسین نے ملکی سالمیت کے خلاف بیانات دے کر ”کریمنل ایکٹ“ کیا یہ بارڈر کی لڑائی نہیں ہے کہ اس کا سیاسی حل نکالا جائے۔ قبل ازیں سیکرٹری داخلہ پاکستان نے سادہ کاغذوں پر مشتمل تحریری بیان عدالت میں جمع کروایا جس کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے واپس کر دیا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے قرار دیا کہ بادی النظر میں الطاف حسین نے بیانات دے کر پاکستان میں جرم کیا اور حیرت ہے کہ حکومت پاکستان ایکشن لینے کی بجائے سارا معاملہ برطانوی حکومت پر چھوڑ رہی ہے۔ عدالت اس کی اجازت نہیں دے گی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سیکرٹری داخلہ کی بے بسی پر ریمارکس دیئے کہ ہم یہاں حکومت پاکستان سے مذاق کرنے نہیں بیٹھے اور اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں گے اور اس معاملہ پر سیاسی مداخلت نہیں ہونے دیں گے۔ سیکرٹری داخلہ پاکستان کا موقف تھا کہ وہ اکیلے معاملہ کا حل نہیں نکال سکتے جس نے تجویز بنا کر حکومت پاکستان کو دینا ہے اور حکومت نے سیاسی بنیادوں پر معاملہ کا حل نکالنا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے قرار دیا کہ بادی النظر میں الطاف حسین نے پاکستان کو گالیاں دیں پاکستان کے خلاف باتیں کیں۔ جن پر کسی قسم کی کمپرومائز نہیں ہو سکتا ضرو رت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان خود کارروائی کرے اور برطانوی حکومت سے عمل درآمد کرنے کا کہے، سیکرٹری داخلہ پاکستان کا موقف تھا کہ اگر میں نے الطاف حسین کے خلاف خود کارروائی کرنا ہوتی تو پہلے روز ایسا کر لیتا لیکن اکیلے کچھ کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ آپ نے خدا تعالیٰ کو جوابدہ ہونا ہے اور ہم نے فرمودات قائداعظم پر عمل درآمد کر کے پاکستان کو خوشحال بنانا ہے۔ عدالت کا کہنا تھاکہ قائداعظم کو اپنی ذاتی جیب سے جرابیں خریدنا پڑیں کیونکہ اُس وقت کے سیکرٹری فنانس نے اعتراض لگا دیا تھا کہ سرکاری خرچ پر جرابیں نہیں خریدی جا سکتیں۔ سیکرٹری داخلہ نے جامع تحریری جواب داخل کرنے اور حکومت کی پالیسی کی بابت ٹائم مانگا۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain