تازہ تر ین

حکومتی تیاریاں دھری کی دھری ,اپوزیشن ہاتھ کر گئی

اسلام آباد(نیوز رپورٹر)وزیر قانون زاہد حامد نے کہا ہے کہ حکومت نے کمشنز آف انکوائری بل 2016ءکے تحت کمشنز کے اختیارات کو سعت دی ہے‘ کمیشن کو عالمی ٹیم کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بل پر اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان میں پیش شدہ کمشنز آف انکوائری بل 2016ءپر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ یہ 1956ءکا ایکٹ ہے حالانکہ یہ بالکل اس سے مختلف اور بہتر حالت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1956ءکے ایکٹ کا دائرہ کار محدود تھا۔حکومت نے بل کے تحت کمشنز کے اختیارات کو وسعت دی ہے۔ کمیشن کو انٹرنیشنل ٹیم کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ اس قانون کے تحت کمیشن انتہائی مضبوط ہوگا۔ یہ صرف پانامہ پیپرز کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع قانون ہے جو آئندہ بھی ہر طرح کے معاملات کے لئے نافذ العمل ہوگا۔ اس بل کی شق وار منظوری حاصل کی جائے۔ سپیکر نے بل کو زیر غور لانے کی تحریک پر رائے شماری کرائی۔ تحریک کی منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی شق وار منظوری کا عمل شروع کیا۔ بل کی قوں میں ایس اے اقبال قادری نے ترامیم پیش کی جن کی وفاقی وزیر زاہد حامد نے مخالفت کی اس طرح ترامیم مسترد کردی گئیں۔ حکومتی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان انکوائری کمیشن بل 2016ءپر رائے شماری نہ ہوسکی جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے واک آﺅٹ کرتے ہوئے کورم کی نشاندہی کردی‘ جس پر اجلاس (آج) منگل کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔قبل ازیں حکومتی کی جانب سے بل کی منظوری کےلئے مکمل تیاریاں کی گئی تھیں اور حکومت کی تیاریاں بھرپور تھیں لیکن عین وقت پر کورم کی نشاندہی کر کے اپوزیشن نے حکومت کی یہ کوشش ناکام بنادی ۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان کمشنز آف انکوائری بل 2016ءمنظور کیا جائے۔ تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے سید نوید قمر نے کہا کہ ہم نے پہلی خواندگی پر بتایا تھا کہ ہم کیوں اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے واک آﺅٹ کیا۔ قانون اچھا ہے یا برا ارکان کو موقع دیا جانا چاہیے تھا کہ وہ بل پر بات کریں۔ یہ بل سینٹ سے بھی منظور نہیں ہوگا بہتر ہوتا کہ حکومت سینٹ کے بل کو ساتھ ملا کر بل تیار کرتی۔ ایس اے اقبال قادری نے بھی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اس بل کو منظور کرنے کا ایوان کو اختیار ہی نہیں ہے۔ شیر اکبر خان نے بھی بل کی مخالفت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ نے جو ہدایات دی تھیں بل میں اس خط کا ذکر نہیں ہے۔ یہ بل سپریم کورٹ کی کارروائی پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ بل منظور نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ کون سے قانون ‘ کس وقت کس ایشو کے حوالے سے ہے یہ بات بھی اہم ہوتی ہے۔ عوام میں اس بل کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ مختلف واقعات پر ملک میں بنائے گئے کمشنز کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ موجودہ حالات میں اس بل کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ یہ بل مخصوص عزائم کے تحت لایا گیا ہے۔ ہم احتجاجاً سڑکوں پر آئیں گے۔ نواب محمد یوسف تالپور نے کہا کہ حکومت کو اس طرح کی قانون سازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ صاحبزادہ محمد یعقوب نے کہا کہ پوری قوم کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک بل منظور نہ کیا جائے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ تقاریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بل پڑھا ہی نہیں گیا۔ اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات میں بھی اپوزیشن سنجیدہ نہیں تھی۔ ایوان سے وزیراعظم کے خطاب کے بعد 22 اپریل کو سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا کہ 1956ءکے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے کمیشن مقرر کریں۔ کمیشن الگ ہوتا ہے جبکہ ٹی او آرز الگ ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے 16 مئی کو جواب آیا کہ 1956ءکے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کا سکوپ محدود ہوگا۔ اس کے بعد ہم نے بل کا مسودہ تیار کیا اور اپوزیشن کے سامنے بھی رکھا۔ ہم نے کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کیا۔ کمیشن غیر ملکی اتھارٹیز کی مدد حاصل کر سکے گا۔ ہم نے کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت بھی لازمی قرار دے دی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز میں شامل ہی نہیں ہے۔ اپوزیشن مذاکرات کو کامیاب ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی نیت سڑکوں پر آنے کی تھی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ان کی نیت ہی ٹھیک نہیں تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہر صورت ہم نے یہ بل ہر صورت تیار کرنا تھا۔ محمد ایاز سومرو نے کہا کہ وزیر قانون نے لفظوں کی جادوگری کی ہے میں نے بل تین سال پہلے پیش کیا تھا فاضل رکن نے میرے بل کو کلب کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ میرا بل تھا کہ سپریم کورٹ اگر کسی معاملے کا از خود نوٹس لیتی ہے تو اس پر اپیل کا حق ہونا چاہیے۔ میرے اور انکے بل میں دن اور رات کا فرق ہے۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ آئینی ترمیم اور ایکٹ یکجا نہیں ہو سکتے۔ ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ شائع ہونے کے حوالے سے بل میں کوئی شق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک اور پبلش میں بڑا فرق ہے۔ اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ ہم اس کے خلاف واک آﺅٹ کریں گے جس کے ساتھ ہی وہ واک آﺅٹ کرگئے اور پیپلز پارٹی کی رکن شگفتہ جمانی نے کورم کی نشاندہی کردی۔ کورم گنتی نہ کرنے پر پورا نہ نکلا جس پر گھنٹیاں بجائی گئیں تاہم پھر بھی کورم پورا نہ ہو سکا اور قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) منگل کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) بل 2016ءقومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ پیر کو وزیر قانون زاہد حامد نے پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) بل 2016ءپیش کیا۔ اپوزیشن کی طرف سے شدید مخالفت اور احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2016ءکی 27 دسمبر 2016ءسے مزید 120 دن کی توسیع کی قرارداد کی منظوری دیدی ہے ۔اس حوالے سے اپوزیشن کا واک آﺅٹ بھی کوئی اثر نہ دکھا سکا۔رشید گوڈیل نے سپیکر کو یاد رشید گوڈیل نے سپیکر کو یاد دلایا کہ 2008 سے 2013 ءتک جب یہ لوگ آرڈینننس لاتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر مخالفت کرتے تھے۔ آج خود آرڈیننس لارہے ہیں اور توسیع بھی دے رہے ہیں ہم اس پر واک آﺅٹ کرتے ہیں جس پر وہ واک آوئٹ کر گئے۔ جس پر سپیکر نے زاہد حامدکو کہا کہ آپ اس کا جواب دیں۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے قرارداد پیش کی کہ ” قومی اسمبلی انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2016ءکی 27 دسمبر 2016ءسے مزید 120 دن کی توسیع کرتی ہے“ اپوزیشن نے قرارداد کی مخالفت کی۔ سید نوید قمر نے کہا کہ یہ آرڈیننس آئین سے متصادم ہے اس معاملے پر قائم ذیلی کمیٹی نے رپورٹ مکمل طور پر تبدیل کردی ہے۔ حکومت کو یہ ابہام دور کرنا چاہیے۔ ہم اس آرڈیننس کی توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔ فنانس کمیتی میں ایف بی آر اور سیکٹری فنانس بل کی مخالفت کر رہے تھے اور کمیٹی نے پاکس کر دیا۔رشید گوڈیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے آرڈیننس لانا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ملک بھر میں جائیدادوں کی قدر کا تعین کرنا صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ آئین کے تحت ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔ محض چار دنوں میں کیسے 21 شہروں کا تخمینہ لگا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کیوں ہے کہ 21 شہروں میں ایف بی آر جائیداد کا تخمینہ لگائے اور باقی میں ڈی سی اوز کریں۔ یہ آئینی طور پر ایف بی آر کا اختیار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح حکومت کی آمدن کم ہوگی ۔سرمایہ دبئی جارہا ہے۔ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ نے کہا کہ صوبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے جو اختیارات دیئے گئے ہیں انہیں چھینا جارہا ہے یہ اچھی بات نہیں ہے۔یہ صوبائی معاملہ ہے اور حکومت کیوں پارلیمنٹ کے اختیارات میں کمی کرنا چاہتی ہے۔ یہ حکومت کےلے شرم کی بات ہے۔ پیپلز پارتی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اگر کوئی ہنگامی حالت ہو تو الگ بات بھی تھی مگر ایسے حالات نہیں کہ توسیع کی جائے۔ ہم اس تجدید کی مخالفت کرتے ہیں۔آپ پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے آرڈیننس جاری کر رہے ہیں۔یہ آرڈیننس نہیں مغلیہ دور کا شاہی فرمان لگتا ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی میں اس طرح کے آرڈیننس کو لانا ایوان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ نواب محمد یوسف تالپور نے بھی اس قرارداد کی سخت مخالفت کی۔ آفتاب احمد خان شیرپاﺅ نے کہا کہ اتنی اہم قانون سازی ایجنڈے پر ہے اس میں عجلت سے کام نہ لیا جائے۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ ارکان نے جو نکات اٹھائے ہیں ان پر پہلے بھی سیر حاصل بات ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی میں بھی فریقین کو طلب کرکے سنا گیا۔ ارکان کی رائے کا خیال رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جائیدادوں کی رجسٹریوں میں اصل رقم 75 فیصد تک چھپائی جارہی ہے۔ ہم کالے دھن کی ٹرانزیکشنز کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ 120 دنوں کی توسیع کے اندر اندر ہی بل کی صورت میں منظور کرایا جائے گا۔ آئندہ چند دنوں میں بل کو حتمی شکل دے دی جائے گی سابقہ حکومتوں کے مقابلہ میں آرڈیننسوں کے ذریعے قانون سازی میں ہماری حکومت بتدریج کمی لارہی ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے کہا کہ ہم نے ایک ذیلی کمیٹی قائم کی جس میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کو شامل کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے یہ خود شامل نہیں ہوئے۔ ذیلی کمیٹی چار ارکان پر مشتمل تھی اس میں تین گھنٹے تک بحث ہوئی۔ ہم نے تمام فریقین سے مشورہ کیا۔ کمیٹی کی رپورٹ کو سراہا جارہا ہے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ ذیلی کمیٹی کی تشکیل کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ یہ کام اتفاق رائے سے ہونا چاہیے تھا۔ میں نے تجویز کیا تھا کہ یہ رپورٹ ذیلی کمیٹی کو واپس بھجوائی جائے۔ مگر اس پر عمل نہیں ہوا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ رپورٹ اتفاق رائے پر مبنی تھی۔ رشید گوڈیل نے کہا کہ میں ذیلی کمیٹی کا حصہ تھا۔ پورے پاکستان کے150 لوگ آئے تھے‘ جن میں پراپرٹی ڈیلر بھی موجود تھے۔ ہم نے انہیں سنا‘ ہم چاہتے ہیں کہ ٹرانزیکشنز بہتر ہو جائیں۔ میرا اعتراض یہ تھا کہ 21 شہروں کی 4 دن میں جائیدادوں کی قدر کا تعین نہیں ہو سکتا۔ ہر شہر کے مختلف علاقوں میں جائیدادوں کی قدر مختلف ہوتی ہے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ ایک شناختی کارڈ پر صرف ایک ٹرانزیکشن کی جازت ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ ان کی تجویز پر ذیلی کمیٹی قائم کی گئی۔ ہم 7 کھرب روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ مالی جرم کے مترادف ہوگا۔ جماعت اسلامی کی صاحبزادہ طارق اللہ ، نواب یوسف تالپور نے بھی اس کی مخالفت کی ۔اس پر پہلے پیپلز پارتی احتجاجا واک آﺅ ٹ کر گئی۔اس موقع پر ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل نے سپیکر کو یاد دلایا کہ 2008 سے 2013 ءتک جب یہ لوگ آرڈینننس لاتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ بیٹھ کر مخالفت کرتے تھے۔ آج خود آرڈیننس لارہے ہیں اور توسیع بھی دے رہے ہیں ہم اس پر واک آﺅٹ کرتے ہیں جس پر وہ واک آوئٹ کر گئے۔ جس پر سپیکر نے زاہد حامدکو کہا کہ آپ اس کا جواب دیں۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے کہا کہ ہم کالے دھن کے سدباب کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں کہ ہم کالے دھن کو سفید کرنے کی اجازت یا کوئی ایمنسٹی سکیم لانا چاہتے ہیں۔ 120 دنوں سے قبل اس بل کو منظور کر ا لیں گے۔ سپیکر نے قرارداد پر رائے شماری کرائی۔ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے قرارداد کی منظوری دیدی۔ اپوزیشن جماعتوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں توسیع پر قومی اسمبلی سے علامتی واک آﺅٹ کیا۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سید نوید قمر نے کہا کہ ہم آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی اور توسیع دونوں کے خلاف ہیں۔ احتجاجاً ہم ایوان سے واک آﺅٹ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کرگئے۔ سپیکر نے وزیر قانون کو ہدایت کی کہ آئندہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ قراردادوں کے ذریعے آرڈیننسوں کی توسیع کی نوبت نہ آئے۔ رشید گوڈیل نے کہا کہ ہم بھی آرڈیننسوں کے خلاف ایوان سے واک آﺅٹ کریں گے اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے ارکان ایوان سے واک آﺅٹ کرگئے۔ جس پر سپیکر کی ہدایت پر بعد ازاں برجیس طاہر اپوزیشن کو منا کر لے آئے ۔سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ برائے 2015-16ءقومی اسمبلی میں پیش کردی گئی۔ پیر کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا محمد افضل خان نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے سٹیٹ بنک کی سالانہ رپورٹ برائے 2015-16ءایوان میں پیش کی۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2016ءپر کمیٹی کی رپورٹ پیش کردی گئی۔ پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2016ءپر ایوان کی اجازت سے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔
قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ تین نئی ایئرلائنوں کو لائسنس جاری کردیئے گئے ‘ نیواسلام آباد ایئرپورٹ 14 اگست 2017ءسے آپریشنل ہو جائےگا ¾پمز میں مریضوں کو ان کے ٹیسٹ کی رپورٹ ای میل کے ذریعے بھجوانے کا آغاز کر رہے ہیں‘ نئی ایمرجنسی بھی جلد کام شروع کردے گی ¾ پانچ سالوں کے دوران کسی مسافر یا مال بردار ٹرین کی نجکاری نہیں کی گئی۔پیر کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ پی آئی اے کو اپریل 2016ءمیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا ہے۔ 2015ءکی پہلی سہ ماہی میں ادارے نے دو ارب 83 کروڑ کا منافع حاصل کیا۔ شگفتہ جمانی کے سوال کے جواب میں شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی ایئر لائن کو ملکی روٹ پر تجارتی پرواز چلانے کی اجازت نہیں۔ حکومت نے پہلے وٹ لیز پر جہاز لئے، وہ واپس کردیئے، اب ڈرائی لیز پر جہاز لئے ہیں تاکہ اپنے پائلٹ اس کو چلا سکیں۔ 15 ہزار ملازمین میں صرف پانچ غیر ملکی پی آئی اے میں کام کر رہے ہیں۔ شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ چودہ اگست 2017ءکو نئے اسلام آباد ایئرپورٹ کو فنکشنل کردیا جائے گا۔ تین نئی ایئرلائنوں کو لائسنس جاری کردیئے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ وہ جلد اپنی پروازیں شروع کریں گے۔ وزیر انچارج عملہ ڈویژن شیخ آفتاب نے بتایا کہ پیر بخش جمالی کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں وفاقی سیکرٹری گریڈ 22 کے طور پر ترقی دی گئی ہے‘ وہ اس وقت وفاقی محتسب سیکرٹریٹ اسلام آباد کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ءکے آئین کے تحت وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا کوٹہ تین فیصد تھا جسے موجودہ حکومت نے بڑھا کر چھ فیصد کردیا ہے۔ وفاقی اداروں میں سربراہ کے طور پر چھ افسران بلوچستان کے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر قربان علی ڈی جی نیشنل ویٹرنری لیبارٹری اسلام آباد‘ ڈاکٹر سید کمال الدین ڈائریکٹر نیشنل ایجوکیشن ایسسمنٹ سسٹم‘ مقصودالنبی ایڈیشنل جنرل منیجر ٹریفک پاکستان ریلویز ہیڈ کوارٹر لاہور‘ جسٹس (ر) میاں شاکر اللہ جان چیئرمین این آئی آر سی‘ محمد رزاق سنجرانی ایم ڈی سینڈک میٹلز لمیٹڈ اور دوستان خان جمالدینی چیئرمین شامل ہیں۔وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ 2015-16ءکے لئے پمز کے لئے 3652 ملین‘ ایف جی پی سی کے لئے 1939 ملین‘ این آئی آر ایم کے لئے 258 ملین اور ایف جی ایچ کے لئے 190 ملین روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت کیڈ کے پاس پرائیویٹ ہسپتالوں کی علاج کی فیس اور اخراجات چیک کرنے کے کوئی اختیارات نہیں ہیں۔ وزیر کیڈ نے بتایا کہ فی الوقت پمز میں میڈیکل ٹاور کی تعمیر کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے ¾ پمز کی سٹیٹ آف دی آرٹ ایمرجنسی جلد کام شروع کردے گی۔ ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے ٹیسٹ رپورٹس مریضوں کو بھجوانے کا آغاز جلد کر رہے ہیں۔ عائشہ سید کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 1984ءمیں پمز بنا۔ 500 مریض او پی ڈی میں آتے تھے۔ آج دس ہزار روزانہ آتے ہیں۔ یہی حال پولی کلینک کا ہے۔ ہم نے اس میں تبدیلی لائی ہے۔ نئی ایمرجنسی ‘ نیا پتھالوجی‘ نئی او پی ڈی بنا رہے ہیں۔ جب تک مزید سہولیات نہیں آئیں گی آئیڈیل حالات نہیں ہو سکتے۔ ہسپتالوں کی تعمیر کے پہلے نئے مرحلہ کا آغاز جلد کریں گے۔ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے میں ہونے والی بدعنوانی کی تحقیقات کےلئے ایک عدالتی کمیشن 2012ءمیں بنایا تھا۔ عدالتی کمیشن نے اپنی سفارشات بھیج دی ہیں جن پر درج ذیل انکوائری کرائی گئی ہے۔ 39 انکوائریاں تھیں‘ 27 پر رپورٹ موصول ہوئی ہے بارہ کی رپورٹس موخر کی گئیں۔ صفا گولڈ مال اور گرینڈ ہوٹلز سابق دور میں شروع ہوئے۔ڈاکٹر طارق فضل نے بتایا کہ پمز ہسپتال میں مخصوص مدت کے لئے ایک پراجیکٹ کے لئے بھرتیاں کی گئی ہیں۔ یہی یہاں بھی ہوا ہے۔ ان کو تنخواہ نہیں دی۔ ہم نے سمری وزیراعظم کو ارسال کی ہے۔ یہ وزیراعظم کی صوابدید پر ہے کہ ان کو وہ اریگولر کرتے ہیں یا ان کو توسیع دیتے ہیں۔ میرے نوٹس میں جونہی آیا میں نے اس پر فوری نوٹس لیا ہے۔ سپیکر نے کہا کہ 18 ماہ سے ان ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی اس لئے ان کے معاملہ پر فوری کارروائی کی جائے۔پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلوے دیوان عاشق حسین بخاری نے بتایا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران کسی مسافر‘ مال بردار ٹرین کی نجکاری نہیں کی گئی تاہم سات ٹرینیں اور کارگو ایکسپریس سرکاری نجکاری شراکت داری کے تحت چلائی گئی ہیں۔ شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ کابینہ ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق تعمیر وطن پروگرام کے تحت ضلع بونیر میں ڈسپنسریوں کے قیام کی کسی تجویز پر غور نہیں کیا گیا۔ وفاقی حکومت ڈسپنسریاں نہیں بناتی یہ صوبائی سبجیکٹ ہے۔ سپیکر نے کہا کہ مجھے لکھ کر دیں میں اس کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے ایجنڈے پر رکھواﺅں گا اور آپ بھی جاکر وہاں شریک ہوں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے غیر مسلموں کے نام پر شراب کے گھناﺅنے دھندے کی روک تھام کیلئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئینی ترمیمی بِل جمع کرا دیا ہے۔ پیر کو پارلیمنٹ ہاو¿س کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شراب نوشی کسی بھی معاشرے کی تباہی کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ہر مذہب میں شراب نوشی کی ممانعت ہے، سندھ ہائی کورٹ کا صوبے بھر سے شراب خانے فوری بند کرنے کے احکامات جاری کرنا خوش آئند اقدام ہے، سپریم کورٹ نے بھی نظرثانی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ احکامات سے شراب نوشی کی اجازت دینے کا تاثر نہ لیا جائے۔ ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی جو ملک بھر میں بسنے والے ہندوﺅں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں، نے 1973ءکے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کی شق نمبر 37 ملک میں معاشرتی انصاف کی فراہمی اور سماجی برائیوں کا خاتمہ یقینی بنانے پر زور دیتی ہے، ذیلی شق (h) 37 کے مطابق الکوحل کا استعمال ماسوائے میڈیکل ادویات اور غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے ممنوع ہے۔ ڈاکٹر رمیش ونکوانی نے ہندو دھرم سمیت دیگر مذاہب کی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے علماءکرام، پنڈت، پادری اور روحانی پیشواءحضرات کا شراب نوشی کی ممانعت پر اتفاق ہے اور وہ مذہب کے نام پر شراب کے کاروبار کی اجازت دینے کو توہین مذہب اقدام سمجھتے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ انہیں پاکستان میں بسنے والے کسی ایک مذہب کا بتایا جائے جو مذہبی تہوار پر شراب نوشی کی اجازت دیتا ہو۔ ڈاکٹر رمیش کے مطابق سال کے تمام دن شراب خانوں کا کھلا رہنا آئین کی شق نمبر (h)37 کے متصادم ہے۔ انہوں نے سعودی عرب، ایران، بنگلہ دیش، کویت، سوڈان سمیت دیگر اسلامی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں شراب نوشی پر سختی سے پابندی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، بحرین، مصر، وسط ایشیائی ریاستوں میں شراب خانے تو موجود ہیں لیکن غیر مسلموں کے نام پر نہیں ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رمیش نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق سندھ بھر میں لگ بھگ 161 شراب خانے فعال ہیں۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain