تازہ تر ین

پانامہ کا ہنگا مہ دلچسپ مرحلہ میں داخل ….اعلیٰ ترین عدلیہ نے 3اہم سوال پوچھ لیے

پاناما کیس میں عدالت نے 3 سوال اٹھا دیے،وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں، زیر کفالت ہونے کے معاملے کی وضاحت کریں، تقریروں میں سچ کہا گیا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامالیکس کی تحقیقات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی ، جس پر چیف جسٹس نے جماعت اسلامی کے وکیل اسد منظور بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا ہے کہ کمیشن تشکیل دیا جائے، ہم نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں، اگراس نتیجے پر پہنچے کہ کمیشن کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوں گے تو ضرور کمیشن بنائیں گے، نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا، جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا، ادارے قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں ، اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا تو ان کو بند کردیں۔
سپریم کورٹ میں پانامہ کا ہنگامہ دلچسپ لمحہ میں داخل ہو گیا ہے ۔

وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے پاناما کیس میں دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تین سوال اٹھا دیے کہا کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ ثابت آپ نے کرناہے بٹ صاحب۔ آپ ہمیں بتائیں کہ پیسہ کہاں سے آیا اور کیسے منتقل ہوا؟ انکل، گرینڈ سن اور گرینڈ فادر کے ذریعے منتقلی نے ہمیں الجھا رکھا ہے۔بیانات میں تضاد کا بھی الزام ہے۔

پہلا سوال: بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟
دوسرا سوال: زیر کفالت ہونے کے معاملے کی وضاحت کریں؟
تیسرا سوال: تقریروں میں سچ کہا گیا ہے یا نہیں؟

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواستوں میں عائدتمام الزمات کا جواب دوںگا،وزیراعظم کی تقاریر کو تفصیل سے سامنے رکھوں گا۔ مریم نواز پر فائدہ اٹھانے ، زیر کفالت ہوکر گوشواروں میں کمپنیاں ظاہر نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الزامات رقم منتقلی کے بارے میں بھی عائد کئے گئے ہیں۔ ا?پ کے پاس دفاع کے لئے بنیادی طور پر کیاہے؟

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ الزام ہے کہ کمپنیاں اور جائیداد غیر قانونی طریقے سے بنائی گئیں۔

سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس بارے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ جائیداد کی ملکیت کو تسلیم کرنے کے بعد ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ا?پ پر ہے، بار ثبوت پر ایسے لوگوں نے بھی بات کی جن کو قانون کا کچھ علم نہیں۔

سلمان بٹ نے کہا کہ مریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت نہیں تھیں، 1992 میں مریم نواز شادی کے بعد وہ وزیر اعظم کی زیر کفالت نہیں ، کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم صاحبہ کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں زیر کفالت کے خانے میں مریم نواز کا نام درج ہے۔

سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ مریم کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لئے کوئی اور کالم موجود نہیں تھا، وزیر اعظم نے جائیداد کے لئے رقم ادا کی تھی اس لئے خانے میں نام ظاہر کرنا ضروری تھا۔

جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زیر کفالت افراد میں دو بالغ افراد کا ذکر کیا گیا۔

سلمان بٹ نے کہا کہ ان دو افراد میں وزیر اعظم خود اور ان کی اہلیہ ہیں۔

جسٹس کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم خود اپنے زیر کفالت کیسے ہوسکتے ہیں۔

کیس کی سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ دلائل جاری رکھیں گے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ ویلتھ ٹیکس 2011 میں مریم نواز کے اپنے والد کے زیر کفالت ہونے کے ثبوت بتائیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اس کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں، مریم صفدر کو 3 کروڑ 17 لاکھ اور حسین نواز کو 2 کروڑ کے تحفے والد نے دیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شگر مل کی شیئر ہولڈر ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہو سکتا ہے کہ مریم نواز کی آمدن کا ذریعہ چوہدری شگر مل ہو۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میاں شریف خود کاروبار سنبھالتے تھے، ہوسکتا ہےکہ میاں شریف بچوں اور پوتوں کی دیکھ بھال کرتےہوں۔ جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ تمام بیانات کوملا کر پڑھیں کہ پیسہ دبئی سے قطر پھر سعودی عرب اور پھر لندن گیا، جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیئے کہ کوومبر کمپنی کے نام سے بھی ایک آف شور کمپنی ہے، اس کوجو کمپنی فنڈ فراہم کرتی ہے وہ دبئی میں ہے، کوومبر کو یہ رقم دبئی میں کہاں سےآتی ہے وہ سوال وکیل دفاع سے پوچھیں گے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کے گوشواروں کےمطابق مریم نواز2011میں ان کے زیر کفالت تھیں، پہلے نواز شریف نے مریم کو 3 پھر 5کروڑ تحفے میں دیے، پاناما لیکس کی دستاویز ڈاو¿ن لوڈ کی گئی ہیں، جنوری 1999 میں فلیٹس کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں میاں شریف،شہبازشریف، حمزہ شہباز، شمیم اختر، صبیحہ اختر اور مریم نواز شامل تھے، 1999 میں لندن کی ایک عدالت نے فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔ وزیراعظم کے بیانات میں تضادہےاس وجہ سےوہ صادق اورامین نہیں رہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain