تازہ تر ین

70 سال نظر انداز …. اب اس کے بغیر پاکستان نامکمل

لاہور ( ویب ڈیسک ) وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ 70 سال کے دوران بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا اگر ایسا نہ کہا جائے تو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف بات ہو گی، بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ گذشتہ 70 سال کے دوران بلوچستان کی جائز شکایات دور کرنا وفاق کی ذمہ داری تھی۔ گذشتہ این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب نے سالانہ 11 ارب روپے بلوچستان کو دیئے۔ 2009-10ءمیں چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت اور وفاقی حکومت نے مل کر این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا۔ 10 سال تک ملک پر حکمرانی کرنے والا آمر پرویز مشرف این ایف سی ایوارڈ نہ دے سکا۔ ہم نے پنجاب پر بڑے بھائی کے حوالے سے لگنے والے الزامات کو عملی اقدامات سے ختم کرنا ہے۔ اگر گوادر کے رہنے والوں پر سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو پھر وہاں باہر سے آ کر کون کام کر سکے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے کوئٹہ کے لئے 42 کلومیٹر پر محیط میٹرو بس منصوبہ کو سی پیک میں شامل کروا دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور میں گوادر کے طلباءکے وفد سے خطاب میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر بلوچستان کے بچوں سے مل کر خوشی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ بہن بھائی محب وطن ہیں پاکستان کی تشکیل میں بلوچستان کے قبائلی سرداروں نے پاکستان میں شمولیت کے لئے اپنا پورا کردار ادا کیا۔ بلوچ رہنما¶ں نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 70 سال کے دوران بلوچ عوام کو وفاق کے ساتھ کچھ جائز شکایات پیدا ہوئیں اور کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اصل مسائل پر توجہ نہیں دینگے تو ہماری گفتگو نشستاً گفتاً اور برخاستاً جیسی ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 70 سال میں بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا اگر ایسا نہ کہا جائے تو یہ تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف بات ہو گی۔ بلوچستان بہت بڑا صوبہ ہے اور ہر جگہ سڑکیں بنانا، پانی پہنچانا، زندگی کی بنیادی سہولتیں پہنچانا ایک چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا اہم صوبہ ہے جس طرح پاکستان کے پی اور مہران کی وادیوں کے بغیر نامکمل ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ بلوچستان کی جائز شکایات دور کرنا گذشتہ 70 سالوں میں وفاق کی ذمہ داری تھی اور رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سالوں میں بلوچستان کے مالی اور سیاسی مسائل کو ایک حد تک حل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا آخری این ایف سی ایوارڈ 2009-10ءمیں ہوا چاروں صوبوں کی سیاسی قیادت اور وفاقی حکومت نے مل کر تاریخی این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا۔ اگر صوبوں اور وفاق کی سیاسی قیادت ایک صفحہ پر نہ آتی اور آگے بڑھ کر اپنا حصہ نہ ڈالتے تو این ایف سی ایوارڈ کا حصول نامکمن تھا۔ اس سے قبل ایک فوجی آمر جو 10سال رہا اس کا نام جنرل مشرف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ پاکستان فرسٹ وہ اپنے زمانہ میں این ایف سی ایوارڈ نہ دے سکے اور پھر ڈنڈے کے حکم کے تحت ایک حکم دے گئے اور یہ کہانی کا اختتام تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت نے مل کر این ایف سی ایوارڈ حاصل کیا۔ اس ایوارڈ میں بلوچستان کو سب سے زیادہ فنڈز مہیا کئے گئے۔ 2009-10ءکے این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کے فنڈز 100 فیصد بڑھ گئے، اس ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لئے پنجاب نے کلیدی کردار ادا کیا اور ہم نے اپنے حصہ کا سالانہ 11 ارب روپے بلوچستان کو دیئے تاکہ بلوچستان کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے۔ پنجاب نے پانچ سال کے دوران بلوچستان کو اپنے حصہ کا 55 ارب روپے دیا اگر کسی اور صوبہ نے اس میں حصہ نہیں ڈالا تو ہمیں اس کا کوئی گلہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کو ہمیشہ بڑا بھائی کہہ کر طعنہ زنی ہوتی رہی۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے، وسائل لے گیا، یہ ہو گیا وہ ہو گیا، ہمیں اب آگے بڑھنا ہے۔ آگے ہم تبھی بڑھ سکتے ہیں کہ چاروں صوبے چار بھائی ہیں۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان ہیں۔ یہ ایک کنبہ ہے اور وفاق کنبے کا سربراہ ہے۔ اگر روٹی ایک ہے تو سب کو مل کر کھانا ہو گی۔ اگر روٹیاں چار، چھ، آٹھ ہوں گی تو سب کے حصہ ایک ڈیڑھ روٹی آئے گی۔ اس نظام کے تحت ایک کنبہ، معاشرہ اور ملک جڑے رہتے ہیں۔ سب کو جوڑے رکھنے کا ایک ہی کلیہ ہے۔ میرٹ اور انصاف اس پر ہم چلتے رہیں گے تو پاکستان آگے بڑھنا رہے گا اور دوریاں ختم ہوتی رہیں گی اور آپس میں محبت اور پیار کے رشتے مضبوط ہوتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہر سال اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباءکے پروگرام میں تمام صوبوں سے طلباءکو بلاتے ہیں اور سب کو ایک جیسا انعام دیتے ہیں۔ یورپ میں جن اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباءکو بھیجتے ہیں ان میں تمام صوبوں سے طلباءکو بھجواتے ہیں تاکہ یہ پنجاب نہیں بلکہ پاکستان کا وفد لگے۔ 200 بچے چینی زبان سیکھ رہے ہیں۔ بیجنگ اور لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد کے درمیان زبان ہی پل بن سکتی ہے۔ سی پیک 51 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کا منصوبہ بن چکا ہے۔ اس پر اب عمل ہو رہا ہے۔ اس کے لئے زبان کے ماہرین اور ترجمان چاہیں ہم نے بڑے بھائی پنجاب پر لگنے والے الزامات کو عملی اقدامات کے ساتھ ختم کرنا ہے۔ ہمارے وسائل کی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ ترقی چاروں صوبوں میں ہونی چاہئے۔ چاروں صوبوں میں ترقی کا پہیہ اسی رفتار سے گھومنا چاہئے جس کا پاکستان تقاضا کرتا ہے یا جو پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی خواہش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ میں بلوچستان دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر گوادر کے رہنے والوں پر سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو پھر وہاں باہر سے آ کر کون کام کر سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب گوادر پورٹ اپنے جوبن پر ہو گی تو وہاں کے لوگوں کو نوکریاں ملیں گی اور لوگ کاروبار کریں کوئی دشمن بھی چاہے تو اس عمل کو روک نہیں سکتا۔ سی پیک میں بلوچستان کا شیئر تمام صوبوں میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے۔ گوادر کو فائدہ پہنچے گا تو اس سے پورے پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔ اس پس منظر میں ہمیں پورے پاکستان کی ترقی کی بات کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کوئٹہ میٹرو بس کا 42 کلومیٹر کا منصوبہ سی پیک منصوبہ میں شامل کروا دیا ہے۔ اس ماہ کے آخر پر بیجنگ میں سی پیک کی جی سی سی ہو رہی ہے۔ یہ منصوبہ ہم اس میں اٹھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ لاہور میٹرو لائن منصوبہ 27 کلومیٹر لمبا ہے اور اگر میں کہوں کہ کوئٹہ کی آبادی لاہور سے کہیں کم ہے اور منصوبہ کی لمبائی 42 کلومیٹر ہے تو میں نہیں مانتا۔ اس سے قومیں ترقی نہیں کر سکتیں اور آگے نہیں بڑھ سکتیں یہ قوموں کے آگے بڑھنے کا راستہ نہیں۔ اس سے معاشرے متحد نہیں ہو سکتے۔ اس سے ترقی نہیں ہو سکتی۔ ان کا کہنا تھا ترقی تبھی ہو گی اگر ہم کنبے کی طرح اپنا شمار کریں۔ صوبہ بلوچستان کی ترقی پنجاب کی ترقی ہے۔ سندھ کی ترقی کے پی کے کی ترقی ہے۔ پنجاب کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہے۔ سب کا اس پر حق ہے۔ اس ویژن کے لئے قائداعظم محمد علی جناح نے تحریک چلائی اور لاکھوں لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان پر سب کا مقابلے کی ایک معاشرے کا حق نہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے گنوایا ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ کیوں مشرقی پاکستان دولخت ہوا۔ اس کے اسباب پر روشنی ڈالنی چاہئے۔ ہمیں اس پر رونا دھونا نہیں بنگلہ دیش بن چکا۔ اب ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لئے دن رات محنت کرنی چاہئے اور جو غلطیاں کی تھیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ آج معاشرے میں کتنی انتہاپسندی اور عسکریت پسندی آ گئی ہے۔ بے گناہ لوگوں کو گذشتہ کئی سالوں کے دوران نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اتارا کیا۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی وجوہات کو جاننا ضروری ہے۔ طلباء ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ طلباءنے ملک کو قائد اور اقبال کے ویژن کے مطابق بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک میں انتہاپسندی اور دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ اس کی وجہ 2013ءمیں آپریشن ضرب کا فیصلہ ہے جو سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر کیا سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردی میں کمی آئی۔ اگر ہم نے اسی رفتار اور جڑ کر اس کا مقابلہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم دہشت گردی کو شکست فاش دینگے۔ اس کے لئے ہمت، عزم اور مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain