تازہ تر ین

مہاتما گاندھی کی بڑی غلطی, بھارت کے مرکزی وزیر کا مودی سے بڑا مطالبہ

لاہور (ضیا شاہد سے) بھارت نے 1971ءکی طرح پاکستان کے مشرقی بازو میں مرکزی حکومت اسلام آباد کے خلاف ناراض اور مایوس بنگالیوں کو عرصہ دراز تک روپے پیسے، ہتھیار اور نقد امداد دینے کے بعد بالآخر اپنی فوجیں ڈھاکہ میں داخل کر دی تھیں اور یوں پاکستان کا ایک بازو ہم سے چھن گیا تھا اور بنگلہ دیش کے نام سے مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کی شکل میں آزاد ریاست بنا لی تھی لیکن اس جنگ کی تباہ کاریوں کے علاوہ جب سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا ہے اور میزائل ٹیکنالوجی میں بھارت کی ایٹمی طاقت سے بھی کہیں زیادہ موثر دفاعی طاقت کا مالک بن چکا ہے مگر بھارت نے اکھنڈ بھارت کے نظریئے پر عمل کرتے ہوئے مسلسل موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں الگ الگ انداز کی سیاسی تحریکوں کو اٹھانے اور ان پر بے اندازہ رقم خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی خفیہ ایجنسی را کے زیر اہتمام دو خصوصی ٹیلی ویژن اسٹیشنز قائم کر دیئے ہیں جو دن رات پاکستان میں موجود علیحدگی پسند اور باغی عناصر کی نہ صرف بھرپور مدد کر رہے ہیں بلکہ پوری دنیا میں جا بجا ایسے سنٹرز قائم ہو چکے ہیں جو پاکستان کے بھگوڑے اور باغی سیاستدانوں کو اپنے اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں۔ ان کو مالی اور قانونی امداد فراہم کرتے ہیں تا کہ دو قومی نظریئے کے تحت قائم شدہ پاکستان کو زبان اور نسل کی بنیاد پر پہلے صوبائی خود مختاری اور بعد ازاں الگ ریاست کے مطالبے میں ڈھالا جا سکے۔ اس ضمن میں ان دونوں بھارتی ٹیلی ویژن چینلز کی مکمل مالی مدد ”را“ کا ادارہ کرتا کرتا ہے۔ ایک چینل کا نام نیوز ایکس (News X) اور دوسرے کا نام چارٹیکل (Charticle) ہے۔ ان دونوں چینلز سے دن رات اسلام آباد حکومت کی طرف سے چھوٹے صوبوں پر مبینہ زیادتیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ 1977ءمیں پاکستان سے فرار ہو کر کینیڈا میں مقیم طارق فتح پہلے چینل سے دھواں دھار سیاسی پروگرام پیش کرتا ہے اور وقتاً فوقتاً بھارت کا دورہ بھی کرتا رہتاہے۔ آج کل سندھو دیش کے حوالے سے مخالفانہ مہم شفیع محمد برفت چلا رہا ہے۔ یہ شخص کابل میں بھارتی ایجنسی کے پاس مدتوں مقیم رہا۔ وہ امریکہ اور کینیڈا کے دورے بھی کرتا رہتا ہے۔ کابل ہی میں بھارتی سفارت خانے نے انہیں انڈین پاسپورٹ جاری کیا۔ پاکستان اور بھارتی سندھیوں کے مابین اشتراک عمل کے فارمولے بنانا اور اندرون سندھ سے اپنے حامیوں کی تنظیم نو اس کا فل ٹائم جاب ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے ایک سرکردہ لیڈر لال کرشن ایڈوانی بھی سرفہرست ہیں۔ 16 جنوری کو ان کا ایک اخباری بیان ہمارے ہاں کراچی کی بعض اخبارات میں بھی چھپ چکا ہے۔ ایل کے ایڈوانی قیام پاکستان سے قبل سندھ کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے یہ اعلان کیا ہے کہ سندھ میں ہندوﺅں کی بڑی تعداد آج بھی آباد ہے اس لئے کراچی سمیت پورے سندھ کو بھارت کا حصہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی کے بغیر بھارت ادھورا لگتا ہے، اس خبر میں ایل کے ایڈوانی نے جس کا نام پہلی بار بابری مسجد کے حوالے سے مشہور ہوا اس تحریک میں متعصب ہندوﺅں کی سربراہی اس کے ذمے تھی۔ اور اس پر انہی خیالات کی بنیاد پر مقدمہ بھی چلا تھا مگر ہندو اکثریت کے مذہبی جذبات کے پیش نظر وہ رہا ہو گیا اور واجپائی کی حکومت میں مرکزی وزیر بھی رہا۔ ایڈوانی نے ہال ہی میں نئی دہلی میں خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت مہاتما گاندھی نے غلطی کی تھی انہیں سندھ کو بھی ہندوستان میں شامل کروانا چاہئے تھا۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کراچی بمبئی کا حصہ تھا اسے بھارت کا حصہ ہونا چاہئے تھا اور یہ شہر ہم بھارتی فوج کی طاقت کے زور پر دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں، ایڈوانی نے اپنی تقریر میں جھوٹ کی انتہا کر دی اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ سندھ میں ہندوﺅں کو زبردستی مسلمان بنایا جا رہا ہے لہٰذا مودی حکومت اس پر احتجاج کرے اپنے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں سندھی خاندان کے ہاں پیدا ہوا تھا اور وہاں گزارے ہوئے بچپن کے دن انہیں آج بھی یاد آتے ہیں۔ یاد رہے کہ آج کل بھی بھارت میں بی جے پی کی حکمرانی ہے اور نریندر مودی ایڈوانی کی پارٹی کے نامزد وزیراعظم ہیں، طاقت کے زور پر کراچی حاصل کرنے کے لئے ایڈوانی کی گیدڑ بھبھکیوں کو ہنسی میں ٹالا نہیں جا سکتا۔ ایڈوانی مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور بابری مسجد شہید کرانے میں وہ پیش پیش تھے۔ وہ بھارت میں واجپائی کے زمانے میں نائب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی اور سندھ کو برطانوی دور میں الگ صوبہ قرار دینے کی سازش غلط تھی اور کانگرسی لیڈروں بالخصوص گاندھی زندہ ہوتے تو ان سے جواب مانگتا کہ آپ لوگوں نے اس کی اجازت کیوں دی؟ انہوں نے کہا سندھ میں رہنے والے سارے ہندو بھارت کے وفادار ہیں۔ مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس پر احتجاج کرے کہ ان کو زبردستی مسلمان کیوں بنایا جا رہا ہے۔ سندھ اور کراچی کو دوبارہ بھارت کا حصہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ بھارتی وزیراعظم کھل کر اس مسئلے پر احتجاج کریں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ سندھ میں ایک عرصے سے سندھو دیش کے نام سے اپنے آپ کو قوم پرست کہلانے والے آزاد ریاست کا مطالبہ کرتے آئے ہیں اور ”خبریں“ اپنے صفحات پر معروف قوم پرست راہنما جی ایم سید جو اب وفات پا چکے ہیں کی کتاب ”زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم“ کا اُردو خلاصہ بھی پیش کر چکا ہے۔ سندھ کے بعد اگر آپ بلوچستان کی صورتحال پر غور کریں تو کلبھوشن یادیو نامی جو بھارتی نیوی کا ایک سابق افسر تھا کو اگرچہ حکومت پاکستان کے حساس اداروں کی تحویل میں بتایا جاتا ہے۔ وہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں تخریب کاری بھی کرتا رہا صرف کلبھوشن یادیو ہی نہیں بلکہ نوازشریف کی حکومت سے بھی پہلے جناب آصف علی زرداری کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک کھل کر یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کے باغیوںاور علیحدگی پسندوں کو بھارتی سرحد سے سندھ کے راستے اسلحہ اور بھاری مقدار میں ڈالر پہنچائے جا رہے ہیں۔ بلوچستان سے دو باغی نوجوان ہربیار مری اور براہمداغ بگٹی پاکستان سے باہر بیٹھ کر نہ صرف آزاد بلوچستان کی تحریک چلا رہے ہیں بلکہ ان کے ہمراہ قیام پاکستان کے وقت خان آف قلات میراحمد یار خان بلوچ کے بیٹے نواب سلمان داﺅد لندن میں بیٹھ کر بھارتی میڈیا کو یہ انٹرویو بھی دے چکے ہیں کہ ہم صوبائی آزادی نہیں بلکہ پاکستان سے الگ ریاست چاہتے ہیں اور بھارتی حکومت سے امداد کے طالب ہیں حالانکہ جب ان کے ایک قوم پرست راہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو جو مسلم لیگ (ن) سے سیاسی سمجھوتے کے تحت اڑھائی سال تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں نے اگرچہ کئی بار یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے باغی لیڈروں سلمان داﺅد، براہمداغ بگٹی اور ہربیار مری وغیرہ سے رابطے کر چکے ہیں اور بعض سے ملاقات بھی ہو چکی ہے اور یہ سب لوگ واپس پاکستان آ کر قومی سیاست کے دھارے میں شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن ڈاکٹر مالک کا دور اقتدار تو پورا ہو گیا اور معاہدے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سردار ثناءاللہ زہری وزیراعلیٰ بن چکے ہیں اور ڈاکٹر مالک سیاسی منظر پر کہیں دکھائی نہیں دیتے تاہم بلوچستان کو آزاد کروانے کے لئے وقتاً فوقتاً ان کے باغی لیڈروں کے بیانات لندن کے علاوہ جنیوا سے بھی آتے رہتے ہیں۔ بھارت کے دونوں ٹی وی چینلز جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے ان بیانات کو خوب اچھالتے ہیں اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سندھ بھی پاکستان سے الگ ہونا چاہتا ہے اور بلوچستان بھی، اب آیئے تیسرے صوبے خیبر پختونخوا کی طرف جو نام کی تبدیلی سے پہلے صوبہ سرحد کہلاتا تھا اور 1947ءمیں وہاں پختون قوم پرست لیڈر اور خدائی خدمت گار تحریک کے سربراہ خان عبدالغفار خاں کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی وزارت اعلیٰ تھی لیکن کانگرس کی پوری کوشش کے باوجود اس صوبے کے عوام نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا اور اپنی شکست کو یقینی دیکھ کر خان عبدالولی خان کے والد اور چچا اور دوسرے لیڈروں نے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔
آج کل بھارت اس صوبے میں عبدالصمد خان اچکزئی عرف بلوچی گاندھی کے صاحبزادے جناب محمود اچکزئی ایم این اے کے اس مطالبے کو خوب ہوا دے رہا ہے کہ بلوچستان کے افغان علاقوں کو پختونخوا سے ملا کر ”افغانیہ“ کے نام سے ایک نیا صوبہ بنایا جائے اگرچہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے نئے صوبوں کے قیام کے راستے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں بلکہ آئین میں اس کا طریق کار درج ہے۔ تاہم جب محمود اچکزئی افغان انٹیلی جنس کے سربراہوں سے میل ملاقات بڑھاتے ہیں اور جب عبدالغفار خان کے پوتے خان ولی خان کے بیٹے اسفند یار ولی خان یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ ہم افغانی تھے‘ ہیں اور رہیں گے اور جب اس حقیقت کو ان کے الفاظ سے ملا کر دیکھا جائے کہ ان کے دادا خان عبدالغفار خان کو جنہیں اندراگاندھی نے بھارت بلا کر سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا تھا اور نقد رقم کی تھیلی بھی پیش کی تھی تو واپسی پر پاکستان پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد ان کا انتقال ہوگیا تھا تو انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر دفن ہونے کے بجائے وصیت کی تھی کہ انہیں افغانستان میں دفن کیا جائے چنانچہ جلال آباد افغانستان میں ان کی تدفین ہوئی اور اندراگاندھی کے سپوت راجیو گاندھی ان کی تدفین میں حصہ لینے کے لئے پاکستان آئے۔ یہ سارے امور اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ ان بظاہر قوم پرستوں کے ذہنوں میں نئے صوبہ ”افغانیہ“ کا تعلق پاکستان سے کتنا ہوگا اور افغانستان سے کتنا اور نظر یہی آتا ہے کہ افغانیہ میں بلوچستان کے پختون ایریاز پختونخوا کے علاقے کو افغانستان کے مشرقی حصے کے ساتھ شامل کرکے کسی بھی وقت یہ مطالبہ ہوسکتا ہے کہ افغانوں پر مشتمل صوبہ صرف صوبائی حقوق نہیں چاہتا بلکہ پاکستان سے الگ ہوکر آزاد ریاست بنانے کا خواہشمند ہے۔
اس خیال کو آگے بڑھانے کے لئے بھی بھارت کے دونوں ٹی وی چینلز دن رات کام کررہے ہیں آزاد پختونستان کی تحریک بھی انہی بھارتی چینل نے شروع کی ہے وہ پختونستان کے بجائے پشتونستان کا لفظ استعمال کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے پہلے ٹی وی چینل نے عمرداد خٹک نامی ایک لیڈر کا انتخاب کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھٹو صاحب کے دور میں نیپ (NAP) پر پابندی کے ضمن میں اس پارٹی کے جنرل سیکرٹری اجمل خٹک نے کابل میں بیٹھ کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرحد جو پاکستان سے ملتی ہے اور جسے ہم ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارا مجوزہ صوبہ پشتونستان پنجاب اور سابقہ صوبہ سرحد کے مابین دریائے اٹک تک ہوگا۔ اسی خٹک قبیلے سے تعلق رکھنے والے عمرداد خٹک کی سربراہی میں بھارتی ٹیلی ویژن کے مطابق پشتون خواہ لبریشن آرمی کا سربراہ قرار دیا گیا ہے۔ کابل کی ایک معروف ٹریول ایجنسی شہیر ٹریول سے عمرداد خٹک کا بھارتی ویزا بھارتی قونصل خانے کے ذریعے بنوایا گیا اور وہ خیبر پختونخواہ کے شہر کرک کے رہائشی ہیں۔ آج کل بھارتی ٹی وی چینل نیوز ایکس سے ان کے مسلسل انٹرویوز دکھائے جارہے ہیں جن میں موجودہ پاکستان کے تین صوبوں بلوچستان کے پختون ایریاز کو خیبر پختونخوا سے ملانے کی تحریک پر عمل جاری ہے اور اس کے لئے شب و روز پروگرام ہورہے ہیں۔ آزاد سندھو دیش ہو‘ آزاد بلوچستان یا آزاد پشتونستان ان تینوں ناموں کو یہ دونوں ٹیلی ویژن سٹیشنز پوری قوت سے پھیلا رہے ہیں اور ان کے پیچھے ”را“ جیسی حساس ایجنسی مضبوطی سے کھڑی ہے۔ پاکستان مخالف بھگوڑوں کے لئے یہ رہائش‘ خوراک اور ماہوار وظیفے دیتی ہے اور ٹی وی سٹیشن ”چارٹیکل“ خاص طور پر ایک نیا نعرہ تخلیق کرچکا ہے جس میں پاکستان کو نیوکلیئر بلیک میلر کا شرانگیز خطاب دیا گیا ہے۔ ان دعوﺅں کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی نیوکلیئر بلیک مارکیٹ کسی بھی ملک سے بھاری رقم وصول کرکے ایٹمی پروگرام میں معاونت اور امداد فراہم کرسکتی ہے۔ بشرطیکہ اسے گرانقدر معاوضہ دیا جائے۔ پشتون آرمی کے علاوہ ”چارٹیکل“ ٹی وی پشتون لبریشن فرنٹ کی اصطلاح بھی استعمال کررہا ہے۔ جئے سندھ متحدہ موومنٹ کو شفیع محمد برفت کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہے تو آزاد پختونستان کے لیڈر کے طور پر عمرداد خٹک کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔ صرف بلوچستان ہی نہیں ”را“ کی ایجنسی بھارتی حکومت بالخصوص وزیراعظم مودی کی ہدایات کے مطابق تینوں صوبوں میں الگ الگ لیڈروں کو پروموٹ کرکے وفاق پاکستان کو کمزور بنانا اور اس کے صوبوں کی جگہ آزاد ریاستیں قائم کروانے کی سازش میں مصروف ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین اور اس کے ساتھی پہلے سے موجود ہیں۔ ان ساری تحریکوں کا مقصد اس دو قومی نظریے کو توڑنا ہے جو قائداعظم نے پیش کیا تھا اور جس میں ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا گیا تھا۔ اب نہ صرف آزاد پشتونستان لیبریشن آرمی‘ پشتونستان لبریشن فرنٹ‘ آزاد بلوچستان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بگھوڑے جن کے پاس بے پناہ رقوم ہیں جو شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے وہاں مقیم ہیں کے ساتھ کراچی کو الگ بین الاقوامی اہمیت کی بندر گاہ بنانے کیلئے الگ ریاست بنانے کے شرانگیز منصوبے پر بھی کام جاری ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت کے سابق مرکزی وزیر ایل کے ایڈوانی کی زبان سے نئی دہلی میں ایک بڑے جلسہ عام میں یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ سندھ اور کراچی ہمارے حصے تھے لہٰذا ہمیں ان کو زبردستی واپس چھین لینا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افواج پاکستان ہر قسم کی جارحیت جو بین الاقوامی سرحد پر کی جائے بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے اور اب تو پاکستان سمندر کے نیچے سے بھی ایٹمی ہتھیار چلا سکتا اور بقول ہمارے ایٹمی سائنسدان ثمر مبارک مند اگر خدا نخواستہ پاکستانی سرزمین پر موجود ایٹمی اثاثے تباہ بھی کر دیئے جائیں (جس کا امکان زیرو فیصد ہے) تو بھی آج بفضل خدا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ سمندر کی تہہ سے بھارت پر ایٹمی حملہ کر سکے‘ لیکن بھارت کے پالیسی ساز پاکستان کی ایٹمی قوت اور اس کی میزائل ٹیکنالوجی کے پیش نظر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتے اس لیے وہ مقامی آبادیوں کو بھڑکا کر اسلام آباد کی وفاقی حکومت سے لڑانا چاہتے ہیں۔ سندھ میں الگ‘ کراچی میں الگ‘ بلوچستان میں بالکل الگ اور پختونخوا جنہیں اب دوبارہ پشتونستان کا نام دیئے جانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے ان سارے علاقوں میں اسلام آباد کی وفاقی حکومت کے علاوہ فوج اور پنجاب کے عوام اور اداروں کو ولن قرار دیا گیا ہے۔ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے جو پاکستان کی 62 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ سیاسی اور آئینی اعتبار سے اس میں دو، تین صوبے بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ بات یہاں رکتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے والوں میں سے بعض کی وفاداریاں خرید کر انہیں بھارتی یونیورسٹیوں میں لیکچرز کیلئے بلایا جاتا ہے جہاں وہ سرائیکی زبان اور تہذیب کے حوالے سے الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ ہی نہیں کرتے بلکہ خطرہ اس امر کا ہے کہ اگر جنوبی پنجاب لینڈ لاڈ صوبہ ہے جس کی کوئی سرحد کسی دوسرے ملک سے نہیں ملتی لیکن بعض انتہا پسند عناصر جنوبی پنجاب کی بعض تحصیلوں میں یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ 1947ءکے بعد ہجرت کر کے جنوبی پنجاب میں بسنے والے اردو سپیکنگ مہاجروں بالخصوص روہتکیوں کے علاوہ پنجابیوں کو بھی الاٹ شدہ زمینیں واپس لے کر سابقہ سرائیکی شہریوں کے سپرد کریں گے۔ اس تحریک کو سختی سے کچلنے کی بجائے سیاسی مصلحت اور دوراندیشی سے انتظامی اعتبار سے نئے صوبے کے قیام کے مطالبے کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے جو آئین اور قانون سے ہر گز متصادم نہیں لیکن اگر اسے متعصب تنگ نظر سرائیکی اور نان سرائیکی تفریق میں تبدیل ہونے دیا گیا اور 1947ءکے بعد آنے والے مہاجروں اور پنجابیوں سے زمینیں چھین لینے کی مہم چلائی گئی تو پاکستان میں ایک نیا فتنہ کھڑا ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں بعض سرائیکی کاز کے حامیوں کی بھارت میں تقاریر ویڈیوز واقعی ناقابل فہم ہیں کیونکہ بھارت کے کسی علاقے یا صوبے میں سرائیکی آباد نہیں جن کی مدد لینا ضروری ہو۔ یہ خالصتاً پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے نئے انتظامی صوبوں کا قیام ہر گز وطن دشمنی نہیں لیکن بھارتی سکالرز کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں پہلے صوبے اور پھر الگ ریاست کی کوشش بہرحال برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ادھر پنجاب میں بھی پنجابی زبان اور تہذیب کی حفاظت اور ترقی ضروری ہے اس کے لیے پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک پنجابی زبان کی تدریس ایک مثبت قدم ہو گی مگر پاکستانی پنجابی اور انڈین پنجابی کو بھی زبردستی آپس میں ملانا گورمکھی اور ہندی الفاظ کو پاکستانی پنجابی میں بھی زبردستی جگہ دینا اور پنجاب کے دونوں اطراف میں رہنے والوں کو میلوں ٹھیلوں اور ثقافتی تبادلوں کے ذریعے نئی نسل کو 1947ءمیں قائد اعظم کے دو قومی نظریے کے خلاف کھڑا کرنا ایک ایسی غلطی ہو گی جس کا خمیازہ شاید ہم کبھی نہ بھگت سکیں۔
1971ءکے تجزیے کے بعد بھارت شاید اصولی طور پر یہ فیصلہ کر چکا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان پر فوجی یلغار کی بجائے اپنے برابر کے ایٹمی ملک سے جنگ مہنگی بھی پڑ سکتی ہے۔ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں کو زبان اور نسل کی بنیاد پر پہلے صوبائیت اور بعدازاں آزاد ریاستوں کی شکل میں تبدیل کرے خدانخواستہ ان کوششوں کو تھوڑی بہت کامیابی بھی مل گئی تو پاکستان ایسے اندرونی اختلافات سے ہی کمزور پڑ جائے گا اور ہمارے چاروں صوبے ساری زبانیں بولنے والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جو دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں لیکن ایک مو¿ثر منصفانہ نظام کے تحت ایک دوسرے سے مل کر چلتے ہیں وہ ایک ایسی قوم میں تبدیل ہو سکتے ہیں جو تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہی ہے لہٰذا پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں سے بھی زیادہ ذہنی اور نظریاتی سرحدوں کی مکمل اور بھرپور حفاظت ہم سب پر لازم ہے۔


اہم خبریں





دلچسپ و عجیب
   پاکستان       انٹر نیشنل          کھیل         شوبز          بزنس          سائنس و ٹیکنالوجی         دلچسپ و عجیب         صحت        کالم     
Copyright © 2021 All Rights Reserved Dailykhabrain